بلند حوصلہ لوری برنسن

کمیونزم کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرتی امریکی خاتون20 سال کی قید بھی اس کی ہمت پسپا نہ کرسکی

کمیونزم کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرتی امریکی خاتون20 سال کی قید بھی اس کی ہمت پسپا نہ کرسکی ۔ فوٹو : فائل

''اب بھی میرا مقصد سماجی انصاف کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔''

یہ الفاظ 2 دسمبر 2015ء کی رات نیویارک ایئرپورٹ پر اپنے چھے سالہ بیٹے سلویڈور (Salvador) کو گود میں لیے باہر آنے والی 46 سالہ سیاسی کارکن لوری برنسن (Lori Berenson)کے تھے۔ لوری برنسن اگرچہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی شہری ہیں، لیکن وہ لاطینی امریکا کے ایک ملک پیرو (Peru) میں20 سال کی قید کے بعد وطن لوٹی ہیں۔ طویل عرصے کے بعد اپنے گھر جاتے ہوئے، وہ بے حد خوش تھیں، انہوں نے اپنی رہائی کے لیے کوششیں کرنے والوں کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

لوری برنسن کا شمار دنیا میں سرخ سویرے کے سپنے سجائے ان متحرک لوگوں میں نمایاں ہے، جنہوں نے اپنے نظریے پر پختہ اعتقاد ہی نہ رکھا، بل کہ اس کے لیے عملی جدوجہد بھی کی۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں، جب سفاک سرمایہ داری کی حریف سب سے بڑی کمیونسٹ ریاست 'سوویت یونین' کے حصے بخرے ہو چکے تھے۔ اس واقعے سے دنیا بھر میں بائیں بازو کے کارکنوں میں خاصی مایوسی پائی جاتی تھی، لیکن لوری برنسن کا حوصلہ اس قدر پختہ تھا کہ انہوں نے اس کے لیے اپنے ملک سے نکل کر جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں زندگی کے قیمتی 20 برس تلف ہوئے۔

لوری ہیلین برنسن (Lori Helene Berenson) 13 نومبر 1969ء کو نیویارک میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدہ رہوڈا (Rhoda) اور والد مارک برنسن (Mark Berenson) ایک کالج پروفیسر تھے۔ LaGuardia ہائی اسکول آف میوزک اینڈ آرٹ سے گریجویشن کرنے کے بعد لوری برنسن نے کیمبرج میں ایم آئی ٹی (Massachusetts Institute of Technology) میں شعبہ بشریات میں داخلہ لیا۔ دوران تعلیم ہی انہوں نے C.I.S.P.E.Sیعنی Committee in Solidarity with the People of El Salvador کے لیے رضاکارانہ خدمات دینا شروع کیں۔ یہ سلسلہ بڑھا تو 1988ء میں انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا۔

وہ لاطینی امریکا کے خانہ جنگی کے شکار ملک El Salvador پہنچ گئیں اور وہاں کی سیاسی جماعت F.M.L.N (Farabundo Martí National Liberation Front) کے ایک راہ نما Leonel González کی سیکریٹری بن گئیں۔ وہاں خانہ جنگی کے بعد 1992ء کے امن مذاکرات کے بعد F.M.L.N بائیں بازو کے لوگوں کے لیے ایک مشترکہ تنظیم کے طور پر سامنے آئی، جو El Salvador کی فوجی آمریت کے خلاف متحرک تھے۔

'ایف ایم ایل این' نے اب ایک باقاعدہ سیاسی جماعت کارو پ دھار لیا تھا، لہٰذا لوری برنسن نے 1994ء میں El Salvador کے ایک ہم سائے ملک پیرو کا رخ کیا، جہاں انہوں نے بائیں بازو کی متحرک تنظیم 'ایم آر ٹی اے' کے ارکان سے ملاقات کی۔ 'ایم آر ٹی اے' مسلح جدوجہد کے ذریعے پیرو کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی تھی، اسی بنا پر اسے ریاست نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا تھا۔

اس کے ساتھ ایم آر ٹی اے پر پیرو میں بہت سے قتل، بینک ڈکیتیوں، بھتے، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کے الزامات تھے۔ لوری برنسن کا دعویٰ تھا کہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ جن افراد سے مل رہی ہیں۔ وہ دراصل 'ایم آر ٹی اے' کے ارکان ہیں۔

30نومبر 1995ء کو پیرو کے شہر لیماLima میں ایک مسافر بس سے حراست میں لیا گیا۔ اُس وقت وہ ایک خاتون فوٹوگرافر گیلونیو (Gilvonio) کے ساتھ پیرو کی کانگریس (پیرو کا منتخب ایوان) کے اجلاس میں شرکت کے بعد کچھ اراکین کے انٹرویو کے لیے جارہی تھیں۔ پیرو کی حکومت کی جانب سے ان پر الزام عاید کیا گیا کہ وہ 'ایم آر ٹی اے' کے مبینہ طور پر اراکین کانگریس کو مغوی بنانے کے اس منصوبے کا حصہ ہیں، جس کا مقصد 'ایم آر ٹی اے' کے اسیر ارکان کو رہا کرانا ہے۔ ان کی ساتھی فوٹوگرافر گیلونیو (Gilvonio) بھی 'ایم آر ٹی اے' کے ایک اہم راہ نما کی بیوی نکلیں، جس کے بارے میں بقول برنسن وہ آگاہ نہ تھیں اور انہیں بولیویا سے تعلق رکھنے والی ایک عام فوٹوگرافر سمجھتی تھیں۔

لوری برنسن کے کرائے پر لیے ہوئے گھر کو 'ایم آر ٹی اے' کے ارکان اپنی کمیں گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ پولیس کی کارروائی کے نتیجے میں وہاں سے اسلحہ و بارود، پولیس کی وردیاں اور مختلف نقشہ جات برآمد ہوئے اور 14 جنگ جو بھی گرفتار ہوئے، جن کی مسلح مزاحمت کے نتیجے میں ایک پولیس افسر بھی مارا گیا، جب کہ لوری برنسن اسلحہ ہی نہیں مسلح جنگجوؤں کی موجودگی سے بھی لاعلمی کا اظہار کرتی رہیں۔ انہوں نے اپنی تیار کردہ دستاویزات کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے کی تردید کی۔ لوری برنسن کی گرفتاری اور مقدمات نے امریکا اور پیرو میں بہت زیادہ توجہ حاصل کی۔

8جنوری 1996ء کو گرفتاری کے بعد انہوں نے سخت اشتعال میں آکر بیان دیا تھا کہ ''ایم آر ٹی اے کوئی دہشت گرد گروہ نہیں، بلکہ یہ ایک انقلابی تحریک ہے۔'' دہشت گردی کے الزام کے تحت ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور 1996ء میں انہیں غدا قرار دے کر عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ جس پر وہ دنیا بھر میں بائیں بازو اور انسانی حقوق کے متوالوں کے لیے ایک نمایاں شخصیت بن گئیں، حالاں کہ مقدمے کی سماعت کرنے والے کئی جج 'ایم آر ٹی اے' کے ہاتھوں قتل بھی کیے گئے۔

2000ء میں پیرو میں حکومت کی تبدیلی کے بعد لوری برنسن کے مقدمے پر بھی نظر ثانی کی گئی، شہری عدالت میں دوبارہ مقدمہ چلا، جس کے بعد انہیں اعانت جرم کا ارتکاب کرنے پر عمرقید کے بہ جائے 20 برس قید کی سزا سنائی گئی۔

لوری برنسن نے دوران اسیری ہی 2003ء میں اپنے وکیل سے شادی کر لی، جنہوں نے باغیوں کی معاونت کے الزام میں ساڑھے 12 سال جیل میں گزارے تھے۔ اس شادی کے نتیجے میں ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، مگر جلد ہی دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی۔


مئی 2010ء میں انہیں مشروط رہائی دی گئی۔ اگست 2010ء میں انہیں باقی ماندہ سزا کاٹنے کے لیے دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ اس کے بعد 5 نومبر 2010ء کو انہیں ضمانت پر رہائی ملی، تاہم وہ اپنی مدت سزا پوری ہونے تک پیرو میں ہی ٹھیری رہیں۔

2011ء میں انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ جانتی تھیں کہ وہ 'ایم آر ٹی اے' سے منسلک ہیں، لیکن اپنے گھر کی بالائی منزل پر اسلحہ و بارود اور مسلح افراد کی موجودگی سے بے خبر تھیں۔ پیرو کی کانگریس پر حملے کی سازش کے الزام کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیرو میں فیوجیموری (Fujimori) کی آمریت میں کانگریس ہی تو وہ واحد ایوان تھا، جہاں جیسی تیسی جمہوریت رواں تھی۔

دسمبر 2011ء میں عدالت نے لوری برنسن کو تین ماہ کے لیے سفر کی اجازت دی، تاکہ وہ نیویارک میں اپنے اہل خانہ سے مل کر آسکیں، لیکن ان کی روانگی کے موقع پر حکومت نے انہیں ہوائی اڈے پر روک لیا، جس کے بعد ان کے وکیل نے حکومت کو عدلیہ کا فیصلہ ماننے پر مجبور کیا، چناں چہ وہ کرسمس اور سال نو کے بعد 6 جنوری 2012ء کو نیو یارک سے لیما (پیرو) واپس لوٹیں۔ اس دوران انہوں نے سٹی یونیورسٹی (نیویارک) سے عمرانیات میں ایک سال کا آن لائن سرٹیفکیٹ کورس بھی مکمل کیا۔ 29 نومبر 2015ء کو جب ان کی سزا کی میعاد مکمل ہوئی، تو انہیں پیرو چھوڑنے کی اجازت ملی اور وہ اپنے وطن لوٹ گئیں۔

٭ 'ایم آر ٹی اے' قیام اور جدوجہد
ٹوپیک امارو رولوشنری موومنٹ (Túpac Amaru Revolutionary Movement) پیرو کی ایک انقلابی تحریک ہے، جو 1980ء کی دہائی کے اوائل میں وکٹر پولے کمپوس (Víctor Polay Campos) کی سرکردگی میں قائم کی گئی۔ تنظیم کا نام اٹھارہویں صدی کے ایک باغی راہ نما(Túpac Amaru II) کے نام سے متاثر ہو کر رکھا گیا ہے۔

'ایم اے آر ٹی اے' دراصل 'مارکسسٹ لیننسٹ ریولوشنری سوشلسٹ پارٹی (ایم ایل آر اسی پی) اور بائیں بازو کی عملی جدوجہد کرنے والے کارکنوں کا انضمام تھا۔ اس کے علاوہ اس میں بائیں بازو سے ہم دردی رکھنے والے پیرو کی فوج کے وہ سابق ارکان بھی شامل ہوئے، جو 1968ء تا 1975ء Juan Velasco Alvarado کی زیر صدارت قائم ہونے والی پیرو کی انقلابی حکومت کا حصہ تھے۔ اس تنظیم کے مقاصد بادشاہت کا خاتمہ کر کے ایک سوشلسٹ ریاست کا قیام تھا۔

1982ء میں انہوں نے اپنی تحریک کے لیے مسلح جدوجہد اور پر تشدد کارروائیوں کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ 1992ء میں اس کے بانی وکٹر پولے کمپوس (Víctor Polay Campos) کو گرفتار کر لیا گیا، جس کے بعد قیادت کامریڈ ایورسٹو (Comrade Evaristo) 1997ء میں اپنی موت تک اس کے قائد رہے۔ باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر 'ایم آر ٹی اے' کو پیرو کی حکومت کے علاوہ یورپی پارلیمان اور امریکی حکومت نے بھی دہشت گرد قرار دیا۔

حیرت انگیز طور پر 5 اکتوبر2001ء کو جب دنیا گیارہ ستمبر کے واقعات سے دہل رہی تھی، تب امریکا نے MRTA کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا۔ 22 مارچ 2006ء کو تنظیم کے بانی وکٹر پولے (Víctor Polay) کو 1980ء سے 1990ء کی دہائی کے دوران پیش آنے والے 30 مجرمانہ واقعات میں فرد جرم عاید کر دی گئی، جس کے بعد انہیں 32 برس قید کی سزا سنائی گئی۔

٭ 'ایم آرٹی اے' کی موجودہ قوت
'ایم آرٹی اے' کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیں تو، حکومت کی جانب سے سخت کارروائیوں کے نتیجے میں اس تنظیم کے ڈھانچے اور قوت پر خاصا اثر پڑا ہے۔ اس کے بہت سے اہم ارکان پابند سلاسل ہیں، پرتشدد تصادم کے نتیجے میں تنظیم کے بے شمار ارکان کو جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ 2001ء میں اس کے بہت سے اراکین کو بولیویا میں قید ہوئی۔

اس تنظیم کی آخری بڑی کارروائی 1997ء میں جاپانی سفارت کاروں کو یرغمال بنانا تھا۔ دسمبر 1996ء میں ایم ار ٹی اے کے 14 اراکین نے جاپانی سفارت کار کی رہائش گاہ پر قبضہ کر لیا اور 72 افراد کو چار ماہ تک یرغمال بنائے رکھا۔ اپریل 1997ء میں پیرو کی حکومت نے یرغمالیوں کو چھڑانے کے لیے کارروائی کی، جس کے نتیجے میں 14اغواکنندگان اور ایک یرغمالی کی ہلاکت ہوئی۔ باقی افراد کو بہ حفاظت نکال لیا گیا۔ اس واقعے سے دنیا بھر کی توجہ پیرو کی طرف مرکوز ہوگئی۔

٭لوری برنسن کی رہائی کی کوششیں
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 1998ء کو جاری کردہ ایک بیان میں لوری برنسن کو ایک سیاسی قیدی قرار دیا اور مقدمے کی کارروائی پر سخت تنقید کرتے ہوئے غیر جانب دار اور شفاف سماعت کا مطالبہ کیا۔ 21 جولائی 1999ء کو امریکی ایوان نمائندگان میں ان کی رہائی اور پیرو میں جمہوریت کے حق میں لائی جانے والی قرار داد 189 کے مقابلے میں 234 ووٹوں سے ناکام ہوگئی۔

واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز میں لوری برنسن کے حق میں کئی کالم لکھے گئے، اور امریکی حکومت پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ پیرو پر ریاستی موقف سے قطع نظر برنسن کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالے، برنسن کے والدین نے فوجی عدالت میں مقدمے کے دوران بطور احتجاج ایک مختصر فلم بھی بنائی۔ اس دوران لوری برنسن کئی چینلوں کے خبری پروگراموں کا اہم موضوع رہیں۔ اس کے ساتھ ان کے والدین ہمہ وقت اپنی بیٹی کی رہائی کے لیے متحرک رہے اور اپنی ویب سائٹ پر برنسن حوالے سے تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کرتے رہے۔
Load Next Story