سبھاش چندر بوس سے بھارتی حکم راں خوف زدہ

آزاد بھارت میں تحریک آزادی کے عظیم راہ نما کے خاندان کی بیس سال تک جاسوسی

بوس خاندان کے خطوط پڑھے جاتے، نقل و حرکت کی نگرانی کی جاتی رہی ۔ فوٹو : فائل

جنوبی ایشیا کے خطے میں دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح سیاسی عمل کے دوران دھونس دھاندلی اور بدعنوانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ تاہم اس خطے کے اہم ترین ملک انڈیاکا دعویٰ ہے کہ وہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوری قوت ہے، لہٰذا وہاں پر انجام دیے گئے تمام سیاسی فیصلے عوامی رائے اور قوت کا مظہر ہوتے ہیں، لیکن جب ہم انڈیا کی سیاسی صورت حال پر ذرا توجہ سے نظر دوڑاتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔

بالخصوص انڈیا میں رائج جمہوریت میں انجام دی جانے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے کھیل میں صرف اور صرف دھوکا، دغابازی، بے جا قوت کا استعمال، غنڈاگردی اور زور زبردستی کا سکہ چلتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب پاکستان اور انڈیا دو الگ الگ ریاستوں کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ظاہر نہیں ہوئے تھے۔

بل کہ برطانوی استعمار کی سرپرستی میں کانگریس پارٹی کا ایک مخصوص ٹولا ہندوستان میں اپنے مفادات کے تحفظ اور پھیلاؤ میں مصروف تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کیا سیاسی داؤ پیچ استعمال کرتا تھا، اس کے جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ماضی کو کھنگالیں، تو آئیے! اس حوالے سے ماضی کے ایک اہم واقعے پر نظر ڈالتے ہیں:

تقسیم ہند سے تقریباً دو سال قبل برطانوی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ایک اہم انقلابی راہ نما ''سبھاش چندر بوس'' اٹھارہ اگست انیس سو پینتالیس کو ہوائی جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔



یہ حادثہ کیسے پیش آیا؟ سبھاش چندر بوس کی لاش کہاں گئی؟ آج بھی سربستہ راز ہے، لیکن مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک اہم ترین راہ نما کی ہلاکت یا لاپتا ہونے کی وجوہات جاننے کے بجائے انڈیا کی حکومت نے اس کیس کو داخل دفتر کردیا یا جان بوجھ کر اس کیس سے متعلق اہم شواہد پر مبنی فائلوں کو ''انتہائی خفیہ'' کے زمرے میں شامل کرکے عام افراد کی دسترس سے دور کردیا۔ مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں کی جانب سے برتے جانے والے اس رویے سے علم ہوتا ہے کہ بھارتی حکم رانوں نے جدوجہد آزادی کے ایک عظیم راہ نما سے کیا سلوک کیا۔

سبھاش چندربوس، جنہیں بنگال کے عوام ''نیتا جی'' کی عرفیت سے بھی پکارتی ہے، کے ہوائی حادثے میں جاں بحق یا لاپتا ہونے سے متعلق تحقیقاتی کاغذات، دستاویزات اور اہم فائلیں گذشتہ سات دہائیوں سے زمانے کی گرد تلے دبی ہوئی تھیں۔ فائلوں کی شکل میں رکھے ہوئے یہ کاغذات کولکتہ کے محکمۂ جاسوسی کی اسپیشل برانچ کے آفس میں موجود تھے، جنہیں اب بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی حکومت نے صیغہ راز سے نکال کر ڈی کلاسیفائیڈ کیا ہے۔

یہ کارنامہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے اٹھارہ ستمبر دوہزار پندرہ کو انجام دیا۔ انہوں نے ایک تقریب میں لگ بھگ پونے تیرہ ہزار صفحات پر مشتمل چونسٹھ خفیہ فائلوں کو عوام کے ملاحظے کے لیے عام کیا ہے۔

وزیراعلیٰ ممتا بینر جی کے اس احسن قدم پر سبھاش چندر بوس کے بھائی کے پوتے اور بوس خاندان کے ترجمان چندر کمار بوس نے اظہارِاطمینان کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ مغربی بنگال کی حکومت کا یہ عمل سبھاش چندر بوس کی ہلاکت یا لاپتا ہونے کے معمہ کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ بعدازاں کولکتہ کے پولیس میوزیم میں ایک تقریب کے بعد ڈیجیٹل ورژن میں سات ڈی وی ڈی کی شکل میں بنائی گئی یہ فائلیں کولکتہ کے پولیس کمشنرسرجیت کار پرکاسیتھ نے سبھاش چندر بوس کے بھائی کی بہو سابق رکن پارلیمنٹ کرشنا بوس کے حوالے کیں۔ واضح رہے کہ اصل کاغذی فائلیں کولکتہ پولیس میوزیم میں محفوظ کردی گئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دستاویزات سے فی الحال سبھاش چندر بوس کے پراسرار قتل یا لاپتہ ہونے پر پڑا ہوا پردہ تو نہیں اٹھ سکتا، لیکن ان فائلوں کے مطالعے سے اس حقیقت کا ضرور علم ہوگیا ہے کہ حیرت انگیز طور پر آزادی ہند کے اس صف اول کے راہ نما کے اہل خانہ کے گرد عرصہ دراز تک انڈین گورنمنٹ کی خفیہ نگرانی کا جال بچھا رہا ہے اور ان کے خاندان کی ہمہ وقت جاسوسی کی جاتی رہی ہے۔

واضح رہے کہ سبھاش چندر بوس کے خاندان کی تیسری اور چوتھی نسل سے تعلق رکھنے والے ا ہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد انہیں یقین ہوچلا ہے کہ سبھاش چندر بوس کے پراسرار حادثے میں جاں بحق ہونے کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی سازش ضرور بُنی گئی تھی اور اس حوالے سے جیسے جیسے مزید ثبوت اور دستاویزات منظر عام پر آئیں گی صورت حال واضح ہوجائے گئی۔

سبھاش چندر بوس کے بڑے بھائی اور انیس سو چھیالیس میں ممبر پارلیمنٹ رہنے والے سرت چندر بوس کے بیٹے امیناتھ بوس اور سیسر بوس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کا گھرانا محب وطن ہے، اس کے باوجود انیس سو اڑتالیس سے انیس سو اڑسٹھ تک انڈیا کے محکمۂ جاسوسی کی نظروں میں کھٹکتا رہا اور ان بیس سال ان کے خاندان کی جاسوسی کی جاتی رہی۔ اس دوران بوس خاندان کے خطوط ان تک پہنچنے سے پہلے ہی پڑھ لیے جاتے یا پھر ان خطوط کو نئی دہلی میں محکمۂ جاسوسی کے مرکز میں بھیج دیا جاتا تھا۔



یہی نہیں بل کہ بوس خاندان کے افراد کی نقل وحرکت پر بھی بھرپور نظر رکھی جاتی تھی۔ ریاست مغربی بنگال کی حکومت کی کاوشوں سے منظر عام پر آنے والی ان دستاویزات سے قبل سبھاش چندر بوس کے خاندان کی جانب سے لگائے جانے والے جاسوسی کے الزامات کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی، لیکن وزیراعلیٰ ممتا بینر جی کی اجازت سے منظرعام پر آنے کے بعد ان دستاویزات سے ثابت ہوگیا ہے کہ بوس خاندان کے الزامات اور خدشات بالکل درست تھے۔

فائلوں میں موجود ایک حکم نامہ، جس کا نمبر ایک ہزار سات سو پینتیس ہے اور تاریخ بیس ستمبر انیس سو اڑتالیس کی درج ہے، میں واضح طور پر درج ہے کہ نہ صرف بوس خاندان سے متعلق تمام خطوط پڑھے جائیں، بل کہ بوس خاندان کی جاسوسی میں ایک سال کی توسیع بھی کی جائے۔ منظر عام پر آنے والی فائلوں میں موجود دستاویزات سے یہ بھی علم ہوا ہے کہ سبھاش چندر بوس کے خاندان کی جاسوسی کے دوران محکمۂ جاسوسی کے کارندے ڈرائیور، خانساماں، مالی اور دیگر ملازمین کے روپ میں جاسوسی کا کام انجام دیتے تھے۔


سبھاش چندر بوس ایک انقلابی راہ نما تھے، انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کو اپنا راستہ بنایا تھا اور اس مقصد کے لیے آزادہند فوج تشکیل دی تھی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو سے ان کے نہایت عمدہ تعلقات تھے۔ اس کے باوجود جواہر لعل نہرو کے دور حکومت میں سبھاش چندر بوس کے خاندان کی نگرانی اور جاسوسی کے احکامات جاری کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ و ہ سبھاش چندر بوس کی پراسرار طریقے سے ہوائی حادثے میں موت یا لاپتا ہونے کے معاملے سے کافی حد تک واقف تھے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے چندر بوس خاندان کے ہر عمل پر نظر رکھنی ضروری سمجھی۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ جواہر لعل نہرو کے دور حکومت کے بعد جب ان کی بیٹی آنجہانی اندراگاندھی نے بھارت میں عنان حکومت سنبھالی تو انہوں نے بھی نہ صرف اس روش کو جاری رکھا، بل کہ انہوں نے بھی ان خفیہ فائلوں کو منظر عام پر لانے سے گریز کیا جن میں ممکنہ طور پر نیتا جی سبھاش چندر بوس کی موت یا لاپتا ہونے کی وجوہات پر روشنی ڈالی جاسکتی تھی۔ البتہ ستمبر میں منظر عام پر آنے والی فائلوں سے پتا چلتا ہے کہ اندرا گاندھی سرکار نے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اپنے دفتر سے ہندوستان کے قومی آرکائیو کے محکمے کو خط لکھا تھا کہ وہ جاپان سے سبھاش چندر بوس کی باقیات کو لاکر ہندوستان کے کسی اہم مقام پر رکھ کر یادگار بنائی۔

تاہم ایسا نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی موت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ انیس سو پینتالیس میں بینکاک سے تائیوان جاتے ہوئے جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ تاہم مورخین تذبذب کا شکار ہیں کہ ایسا کوئی سانحہ ہوا ہوگا،کیوں کہ سبھاش چندر بوس کی باقیات (ہڈیوں) کو بغیر کسی کو دکھائے جاپان کے رینکو جی مندر میں رکھ دیا گیا، جس سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ سبھاش چندر بوس کو عالمی منظر نامے سے ہٹانے کے لیے یہ کہانی گھڑی گئی، تاکہ وہ ہندوستان کا رخ نہ کرسکیں اور برطانوی راج اور نہرو حکومت کے لیے درد سر نہ بن سکیں

دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ اندراگاندھی کے دور حکومت میں ان کے دفتر میں موجود نیتا جی سبھاش چندر بوس کی موت کے حوالے سے موجود دو انتہائی اہم فائلوں کو قومی آرکائیو کے محکمے نے اپنی تحویل میں لینے کے لیے خط لکھا تو وزیراعظم ہاؤس نے جوابی خط میں لکھا کہ ان دونوں فائلوں کو تو تلف کیا جاچکا ہے۔ یہ فائلیں سن انیس سو انہتر اور سن انیس بہتر میں تلف کی گئی تھیں اور ان کا فائل نمبر ایک سو چھپن اور باون تھا۔

مذکورہ فائلوں کے علاوہ منظر عام پر لائے جانے والی ایک اور خفیہ دستاویز، جس کا نمبر ایک سوسڑسٹھYبائیس ہے اور جس پر انتیس اپریل سن انیس سو انچاس کی تاریخ درج ہے، اس فائل میں موجود ایک دستاویز کے مندرجات ظاہر کرتے ہیں کہ اس میں ایک ایسا خط ہے جس کے ذریعے سبھاش چندر بوس کے بارے میں جاسوسی کی ہدایت دی گئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سبھاش چندر بوس کے ہوائی حادثے میں ہلاکت کے دوسال بعد یہ مراسلہ کیوں لکھا گیا؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کے انڈین حکومت بھی یہ جانتی تھی کہ سبھاش چندر بوس ہوائی حادثے میں ہلاک نہیں ہوئے بل کہ انہیں منظر عام سے ہٹایا گیا۔

عوام الناس کے لیے منظر عام پر لائی جانے والی ان دستاویزات ہی کی طرح منظر عام پر لائی جانے والی ایک اور خفیہ دستاویز کا حوالہ مشہور آئرش تاریخ داں اور استاد ''یونان اوہالین'' بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے کولکتہ میں ایک لیکچر دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ سبھاش چندر بوس کو قتل کرنے کا ایک حکم برطانوی حکام نے بھی دیا تھا اور اس منصوبے میں انہیں چند ہندوستانی راہ نماؤں کی تائید بھی حاصل تھی۔ تاہم برطانوی ایجنٹ اس سازش میں کام یاب نہیں ہو سکے۔

برطانوی تسلط سے بہ زور آزادی حاصل کرنے کے متمنی سبھاش چندر بوس کے قتل، حادثے یا لاپتا ہونے کی تحقیقات کے حوالے سے اب تک تین تحقیقاتی کمیشن بنائے جاچکے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کمیشنوں میں پیش کیا جانے والا تحقیقی مواد اب تک عوام کے سامنے نہیں لایاگیا۔ پہلا کمیشن سن انیس سو چھپن میں بنا، جسے شاہنواز کمیٹی کہا جاتاہے اور دوسرا کمیشن سن انیس سو ستتر میں تشکیل پایا، جسے کھوسلہ کمیشن کہا جاتا ہے۔

ان دونوں کمیشنوں کی رپورٹوں میں بغیر کسی مناسب تحقیق کے، حکومتی دباؤ پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ سبھاش چندر بوس کی موت فضائی حادثے ہی میں ہوئی تھی، جب کہ تیسرے مکھر جی کمیشن سے تائیوان حکومت نے ملنے سے انکار کردیا تھا۔ سن انیس سو نناوے میں بننے والے مکھرجی کمیشن نے البتہ سبھاش چندر بوس کی موت کی وجہ فضائی حادثہ قرار نہیں دی تھی، مگر اس وجہ کو اس وقت کی واجپائی حکومت نے مسترد کردیا تھا۔ تاہم انڈیا کی موجود ہ مودی سرکار کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے ان کی حکومت تیئس جنوری دوہزار سولہ کو نیتا جی سبھاش چندر بوس کی موت سے متعلق خفیہ فائلوں کو بہ تدریج عام کرے گی، تاکہ درست حقائق منظرعام پر لائے جاسکیں اور نیتا جی کی موت کا معما حل ہوسکے۔

تاہم ہندوستانی سیاست کی سیاہ کاریوں سے واقف سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ایسا ہونے کا امکان بہت کم ہے کہ نیتا جی کی موت کن حالات میں ہوئی اس کا پردہ فاش ہوسکے، کیوں کہ نریندر مودی ساتھ ساتھ جب یہ کہتے ہیں کہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی موت کے حوالے سے خفیہ رکھنے جانے والی فائلوں کو عام کرنے سے ہندوستان کے کئی ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہے، تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان کے دل میں کھوٹ ہے اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ تئیس جنوری کو طشت از بام ہونے والی لگ بھگ ایک سو تئیس خفیہ فائلوں کے دامن سے بھی انقلابی راہ نما نیتا جی سبھاش چندر بوس کی موت کے بارے میں کوئی واضح جواب نہیں مل سکے گا، بل کہ لگتا ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا کی روایت کے مطابق دیگر کئی معروف سیاست دانوں کے قتل کی مانند مقتدرہ قوتیں اس قتل کو بھی سربستہ راز ہی رکھیں گی ۔



نیتاجی سبھاش چندر بوس مختصر تعارف
تئیس جنوری اٹھارہ سو ستانوے کو کولکتہ میں جنم لینے والے سبھاش چندر بوس برصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے لیے مسلح جدوجہد کے داعی اور آزادہند کے حامی تھے۔ انہوں نے محض چوبیس برس کی عمر میں سن انیس سو اکیس میں انڈین سول سروس کا امتحان پاس کیا، مگر نوکر شاہی کا مستقل حصہ نہیں بنے، بل کہ سیاست کی پُرخار وادی میں قدم رکھ دیا اور کولکتہ کے پسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے سرگرم ہوگئے۔

بعدازاں وہ انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ ہوگئے اور سن انیس سو چالیس تک اس جماعت میں خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران وہ دو مرتبہ انیس سو اڑتیس اور انتالیس میں کانگریس پارٹی کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ تاہم دوسری مدت کی تکمیل سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا اور گاندھی جی کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے '' آل انڈین فارورڈ بلاک ''بنالیا۔ انہیں برطانوی راج مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں گرفتار کرلیا گیا۔ تاہم وہ کسی نہ کسی طرح فرار ہو کر کابل جا پہنچے۔

اس دوران سن انیس سو تینتالیں میں بی بی سی نے ان کی موت کی جعلی خبر چلادی، جس کی سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند ریڈیو سے تردید کردی۔ واضح رہے کہ غیرمنقسم ہندوستان میں برطانیہ کے تسلط سے آزادی کے لیے ہندوستانی قوم پرستوں نے ''عارضی حکومت آزاد ہند'' کے نام سے جلاوطن حکومت اکیس اکتوبر سن انیس سو تینتالیس میں سنگاپور میں قائم کی تھی، جس کی باگ ڈور اِنقلابی راہ نما سبھاش چندربوس کے ہاتھوں میں دی نیتا جی سبھاش چندر بوس نے اپنی اس جلا وطن حکومت کے جھنڈے تلے آزاد ہند فوج بھی تشکیل دی تھی۔

جلاوطن حکومت اور اس کی آزاد ہند فوج کو جاپان کی شاہی اَفواج کی حمایت بھی حاصل تھی، جس کے سپاہیوں نے اِن کے شانہ بشانہ برطانوی ہند کی اَفواج کے خلاف برما میں جنگ میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ اِس عارضی جلاوطن حکومت کی تیرہ رکنی کابینہ بھی تھی اور اپنی کرنسی، عدلیہ اور ترانہ بھی تھا۔ تاہم جلاوطن حکومت کا مرکز سبھاش چندربوس کی ذات تھی۔ چناں چہ جب اٹھارہ اگست انیس سو پینتالیس کو ان کی تائیوان سے روس جاتے ہوئے جہاز کے حادثے میں موت کی خبر آئی تو اس کے ساتھ ہی جلاوطن حکومت بھی عملاً ختم ہوگئی۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود سرکاری طور پر سبھاش چندر بوس کی موت کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

سبھاش چندر بوس کی سرکردگی میں قائم عارضی جلاوطن حکومت کی آزاد ہند فوج اور شاہی جاپانی افواج نے باہم مل کر قابض برطانوی حکام کو جزائر انڈیمان، نکوبار، ناگالینڈ اور منی پور کے علاقوں میں ناکوں چنے چبوادیے تھے۔ سبھاش چندر بوس کی سرکردگی میں بننے والی آزاد ہند فوج میں ہر مذہب اور نسل کا ہندوستانی فوجی شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین سبھاش چندر بوس اور ان کے ساتھیوں کے جذبۂ حریت کو ہندوستان سے برطانیہ کے انخلا کا اہم کردار گردانتے ہیں۔
Load Next Story