موسمیاتی ’’گاڈزیلا‘‘ کا حملہ

جدید انسانی تاریخ کی سب سے شدید ال نینو نے ہندوپاک سمیت کئی ممالک میں موسم تہہ و بالا کرڈالے۔۔۔۔۔ خصوصی رپورٹ


سید عاصم محمود January 31, 2016
جدید انسانی تاریخ کی سب سے شدید ال نینو نے ہندوپاک سمیت کئی ممالک میں موسم تہہ و بالا کرڈالے۔۔۔۔۔ خصوصی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

راقم کو یاد ہے،چالیس برس بیشتر جب لاہور میں میرا بچپن گذر رہا تھا ،تو نومبر دسمبر آتے ہی موسم سرما شروع ہو جاتا۔ہاتھ پاؤں ٹھٹھرنے لگتے اور بدن پہ موٹے کپڑے چڑھ جاتے۔مگر اس سال جنوری کے پہلے ہفتے تک سردی کا نام ونشان نہ تھا۔بلکہ دن میں سویٹر پہنا جاتا،تو گرمی محسوس ہوتی۔موسم کی اس انہونی نے سبھی کو حیران کر دیا۔تب وسط جنوری سے اچانک بارشیں ہونے لگیں۔یوں پنجاب کے میدانی علاقوں کی فضا میں خوب نمی رچ بس گئی۔یہ نمی یا آبی بخارات جب گاڑیوں کے بے پناہ دھوئیں سے ملے جلے تو کثیف دھند کی شکل اختیار کر گئے۔

اسی دھند نے پھر دھوپ روک کر لاہور سمیت پنجاب،خیبر پختون خوا اور سندھ کے بعض علاقوں میں سردی کی لہر دوڑا دی۔گویا بارشیں نہ ہوتیں تو اس سال شاید موسم سرما اپنی شدت نہیں دکھا پاتا۔ بعینہ یہی عجوبہ شمالی بھارت میں جنم لے چکا۔شمالی بھارت میں بارشیں بہت کم ہونے کے باعث موسم سرما اپنے جوبن پر نہیں آیا بلکہ وہاں تو ماہ دسمبر میں گرمی پڑنے کا نیا ریکارڈ بن گیا۔انڈیا میٹورولوجیکل ڈیپارٹمنٹ 1901ء سے مہینے وار درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھ رہا ہے۔اس ریکارڈ کی رو سے پچھلے ایک سوچودہ برسوں میں 2015ء کا ماہ دسمبر گرم ترین رہا۔اس مہینے درجہ حرارت عام ٹیمپریچر سے ''1.2 ''ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔اس اضافے کو معمولی مت سمجھیے،درجہ حرارت میں تھوڑی سے کمی بیشی بھی ہمیں کئی لحاظ سے متاثر کرتی ہے۔



مثال کے طور پہ شمالی بھارت میں سردی کم پڑنے سے کئی لوگ گھاٹے میں رہے۔انہی میں رویندر چوہان شامل ہے جو مشہور بھارتی پہاڑی مقام اور ریاست ہماچل پردیش کے صدر مقام، شملہ کا باسی ہے۔رویندر چوہان علاقے میں سیب اگانے والے بھارتیوں کی تنظیم کا صدر ہے۔ وہ بتاتا ہے ''اس موسم سرما میں شملہ میں نہ بارش ہوئی اور نہ برف پڑی۔ ماحول بھی سردی کی شدت سے محروم رہا۔ سیب اگانے والوںکے لیے یہ اچھی خبر نہیں تھی۔ موسم سرما کے دوران شملہ کا درجہ حرارت صفر درجے تا پندرہ درجے سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ اسی درجہ حرارت میں سیب کے درخت پھلتے پھولتے ہیں۔ مگر اس بار تو ہماچل پردیش کے پہاڑی علاقے اچھی خاصی گرمی کی لپیٹ میں رہے۔ چناںچہ ریاست میں اس بار سیب کی مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں ہو گی۔''

بھارتی ریاست مہاراشٹر کے پہاڑی علاقے' ضلع ستارا میں بھی اس سال موسم سرما کا نام و نشان نہیں ملا۔ یہ ضلع بھارت میں سٹرابیری کی کاشت کے حوالے سے مشہور ہے۔ ہزاروںکسان اسٹرابیری اگاتے ہیں' مگر اس سال موسم سرما میں وہ شدید گھاٹے میں رہے۔ایک کسان' نتین بھلاری بتاتا ہے:''پچھلے سال میرے فارم نے 700کلو گرام اسٹرابیری کی پیداوار دی تھی' اس سال 100کلو گرام ملنا بھی مشکل ہو گیا۔'' آمدن گھٹنے پر نتین اور دیگر ہزار ہا کسان بہت پریشان ہیں۔ اُدھر بھارتی محکمہ زراعت نے یہ بدخبر سنائی ہے کہ ہریانہ اور پنجاب میں خشک موسم اور سردی نہ پڑنے سے ربیع کی فصلوں(گندم' چنا' جو وغیرہ) کو نقصان پہنچے گا۔ غرض خصوصاً شمالی بھارت میں موسم سرما کی عدم موجودگی زراعت کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوئی۔

آب وہوا کا سب سے بڑا عجوبہ
سوال یہ ہے کہ بھارت میںاس سال موسم سرما اتنا سخت کیوں نہ رہا؟اور پاکستان گرمی سردی کے اچانک ادوار سے کیوں گذرا؟ ان سوالات کا جواب کرہ ارض پر آب و ہوا سے وابستہ سب سے بڑے عجوبے ''ال نینو''(El Niño) میں پوشیدہ ہے۔ دنیا کی آب و ہوا (Climate)اور موسم (Weather)بدلنے میں سمندر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاً جن علاقوںکے سمندروں میںگرمی زیادہ پڑتی ہے' وہاں بادل بھی زیادہ جنم لیتے ہیں۔ چناںچہ ان علاقوں میں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔دنیاکے سب سے بڑے سمندر، بحرالکاہل میں خصوصاً خط استوا(equator) کے نزدیک سورج کی کرنیں پانی پر براہ راست پڑتی ہیں۔ اسی لیے وہاں سطح آب مسلسل گرم رہتی ہے۔

خط استوا پر تیز ہوائیں بھی چلتی ہیں۔ یہ ہوائیں بحرالکاہل کے گرم پانی کو انڈونیشیا کی جانب دھکیل دیتی ہیں۔ لیکن ہر چھ سات سال بعدایک انوکھا مظہر جنم لیتا ہے، وہ یہ کہ ہوائیں ہلکی چلنے لگتی ہیں۔ چناںچہ بحرالکاہل کا بیشتر گرم پانی خط استوا پر تھما رہتا ہے ۔ بعض اوقات ہوائیں الٹی سمت چلتی ہیں' وہ گرم پانی کو انڈونیشیا کے بجائے جنوبی امریکا لے جاتی ہیں۔آب وہوا سے وابستہ یہ انوکھا پن پھر دنیا کے ''50 فیصد'' ممالک کا موسم تہہ و بالا کر دیتا ہے ۔ یہ مظہر عرف عام میں ''ال نینو'' اور سائنسی اصطلاح میں'' ال نینو ساؤتھرن اوسکلایشن '' کہلاتا ہے۔



کرہ ارض پر ال نینو ہی آب و ہوا کا وہ عظیم ترین عجوبہ ہے جو کروڑوں انسانوںکی زندگیوںپر اثر انداز ہوتا ہے۔ وجہ یہی کہ اس کی وجہ سے کہیں برفانی طوفان آتے ہیں' کہیں زیادہ بارشوں سے سیلاب آ جاتے ہیں اور کہیں کم ہونے سے قحط پڑ جاتا ہے۔جنگلات میں یہ عجوبہ آگ لگا دیتا ہے۔ ال نینو عموماً آٹھ نو ماہ جاری رہتا ہے۔ مگر جب یہ طویل ہو جائے تو زیادہ تباہی کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان اور بھارت بھی اسی طویل ال نینو کا شکار ہیں۔جاری ال نینو نے جولائی 2014ء میںجنم لیا اور اب تک اپنی شدت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ماہرین موسمیات کے مطابق یہ پچھلے پچاس برس میں جنم لینے والا شدید ترین اور طویل ترین ال نینو ہے۔ یہ واضح رہے کہ سائنس داں اب تک نہیں جان سکے کہ یہ قدرتی مظہر کیوں جنم لیتا ہے۔ مزید براں اس کا جدید عجوبے،گلوبل وارمنگ سے کوئی تعلق نہیں، ال نینو سولہویں صدی سے زیر مطالعہ ہے۔

سردی کی شدت میںکمی کے علاوہ اس موسم سرما پاکستان اور بھارت کے بیشتر علاقوں میں بارشیں بھی معمول سے کم ہوئیں۔ اس امر نے برصغیر پاک و ہند کے وسیع علاقے پر خشک موسم پھیلا دیا۔ پاکستانی و بھارتی پنجاب اور ہریانہ برصغیر میں سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے علاقے ہیں۔ ان علاقوںمیںموسم سرما کے دوران دن میں درجہ حرارت2 سے 18 درجے سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ رات کو مزید کم ہو جاتا ہے۔ لیکن اس بار دن میں درجہ حرارت10 سے22 سینٹی گریڈ جبکہ رات کے وقت بھی سات آٹھ کے مابین رہا۔درجہ حرارت بڑھنے سے ربیع کی فصلوں خصوصاً گندم کو پانی زیادہ دینا پڑا۔نیز کسانوںکے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ فصلوں کو گلنے سڑنے سے بچائے رکھیں۔ یاد رہے' گندم کی بوائی کے سمّے سرد موسم اچھی فصل ہونے کا ضامن ہے۔

ہوا کے نظام
دھوپ سمندر کا پانی گرم کر دیتی ہے، تو ہوائیں اُسے ٹھنڈا کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ دراصل جب تیز ہوائیں چلیں، تو بہت سا پانی آبی بخارات کی صورت ہواؤں میں شامل ہوجاتا ہے۔ انہی آبی بخارات کے باعث سطح سمندر کی حدت بھی جاتی رہتی ہے اور پانی ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ مگر جب تیز ہوائیں نہ چلیں، تو سمندر کا پانی مزید گرم ہوجاتا ہے۔

کرہ ارض پر ہواؤں کے چھوٹے بڑے نظام موجود ہیں۔ ان میں دو بڑے نظام یہ ہیں: تجارتی ہوائیں(Trade winds) اور مغربی ہوائیں(Westerlies)۔ اول الذکر ہوائیں خط استوا کے نزدیک جبکہ مغربی متوسط عرض البلد (Middle latitudes) میں چلتی ہیں۔ تجارتی ہواؤں کا رخ مشرق سے مغرب کی سمت جبکہ مغربی ہواؤں کا مغرب سے مشرق کی سمت ہوتا ہے۔



بھارت، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں موسم گرما میں مون سون ہوائیں بارش لاتی ہیں۔ مگر ال نینو جنم لے، تو یہ عجوبہ مون سونی بارشوں کے نظام پر اثر انداز ہوتا ہے، وہ یوں کہ مون سونی ہواؤں کی شدت بھی کمزور ہوجاتی ہے۔ چناں چہ وہ خلیج بنگال اور بحرہند سے زیادہ نمی لے کر بھارت اور پاکستان کے دوردراز علاقوں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ یہی وجہ ہے، 2015ء کے مون سون میں کم بارشیں ہوئیں۔موسم سرما میں مغربی ہوائیں پاکستان اور بھارت کے پہاڑی و میدانی علاقوں میں بارشیں برساتی ہیں۔ ان ہواؤں میں بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم کے آبی بخارات موجود ہوتے ہیں۔ مگر ال نینو عجوبے نے حالیہ موسم سرما میں مغربی ہواؤں کا نظام بھی بگاڑڈالا۔ اسی لیے برصغیر پاک و ہند کے بیشتر علاقوں میں اس موسم سرما میں بہت کم بارشیں ہوئیں۔

ہوا یہ کہ برصغیر میں مغربی ہواؤں کی جگہ ہوا کے دو چھوٹے نظام اینٹی سائیکلونک سسٹم (Anticyclone) اور جیٹ سٹریم (Jet stream) علاقوں میں کارفرما رہے اور انہوں نے مغربی ہواؤں کو وہاں نہیں آنے دیا۔ یہی وجہ ہے، پاکستان کے شمالی علاقوں اور جموں و کشمیر میں تو پھر بارشیں و برف باری ہوئی لیکن بھارتی ریاستوں پنجاب، ، ہریانہ، ہماچل پردیش وغیرہ کے بیشتر علاقے بارشوں سے محروم رہے۔آبی بخارات سے بھری مغربی ہواؤں کی عدم موجودگی میں دھند یا کہر بھی بھارت کے اکثر میدانی علاقوں سے غیر حاضر رہی۔ چونکہ فضا میں نمی اور سردی کا چولی دامن جیسا ساتھ ہے، اس لیے نمی نہ ہونے سے اس بار سردی بھی کم پڑی۔

دراصل مون سون اور موسم سرما کی بارشیں زمین کو پانی سے تربتر کردیتی ہیں۔ موسم سرما میں دن کے وقت جب یہ پانی بخارات بن کر اڑے، تو ماحول یخ بستہ کردیتا ہے۔ لیکن اس بار کم مون سونی بارشوں کی وجہ سے زمین پہلے ہی خشک تھی اور جب موسم سرما میں بھی بارشیں کم ہوئیں، تو زمین سے نمی بالکل ہی غائب ہوگئی۔ اسی لیے پہاڑوں کے قریبی علاقے تو (وہاں برف باری ہونے کی وجہ سے) سردی کی لپیٹ میں رہے، پنجاب و سندھ کے میدانی علاقوں میں اس کی شدت کم تھی۔

کرہ ارض کی ''گاڈزیلا''
ماہرین کے مطابق حالیہ ال نینو نے امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک اپنے بد اثرات مرتب کیے۔ اسی لیے ماہرین نے اسے دیومالائی چھپکلی کے نام پر ''گاڈزیلا'' کا خطاب دیا یعنی ایسی خوفناک بلا جس نے ہر طرف تباہی مچادی۔ال نینو کے باعث ہی حالیہ نومبر دسمبر میں پہلے تو امریکا اور آسٹریلیا میں بھی درجہ حرارت بلند رہا۔ خصوصاً امریکا میں سردی کی عدم موجودگی نے کئی موسمیاتی ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اُدھر آسٹریلیا میں زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے جنگلوں میں آگ لگ گئی جس نے کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹادئیے۔برطانیہ میں ال نینو کی وجہ سے کئی علاقوں میں شدید بارشیں ہوئیں اور وہاں بدترین سیلاب آگیا۔

بعد ازاں ال نینو کا مظہر امریکا میں زبردست برفانی طوفان کی صورت ظاہر ہوا جسے ''سنوزیلا''(Snowzilla)کا نام دیا گیا۔اس نے مشرقی امریکا کے علاقے،مڈ اٹلانٹک میں ساڑھے آٹھ کروڑ لوگوں کی روزمرہ زندگی ایک ہفتے تک مفلوج کیے رکھی۔اس طوفان کی زد میں آ کر32 امریکی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ماہرین کے مطابق اس زبردست برفانی طوفان نے بھی ال نینو کی وجہ سے بحرالکاہل میں جزیرہ ہوائی کے نزدیک جنم لیا اور پھر وہ تباہی مچانے مشرقی امریکا کی سمت بڑھ گیا۔

غرض ال نینو نے شمالی نصف کرے میں واقع کئی ممالک کا موسم تباہ کر ڈالا اور قدرتی آفات لاکر لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ایک تخمینے کے مطابق دو برس سے جاری ال نینو سے وابستہ قدرتی آفات دو ارب ڈالر (دو کھرب روپے سے زائد) کا نقصان کرچکی۔ماہرین آب و ہوا کا کہنا ہے کہ ال نینو کا جاری اثر اپریل مئی 2016ء تک برقرار رہے گا۔ گویا یہ اثر ہمارے ہاں 2016ء کی مون سون بارشوںکو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ ماہرین کی یہ بھی پیش گوئی ہے کہ جدید انسانی تاریخ میں یہی گرم ترین سال ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔