امریکی جرنیل کی طرف سے ضرب عضب کی تعریف
پاکستان میں افغانستان سےدراندازی جاری ہےسانحہ پشاوراورسانحہ چارسدہ میں ملوث دہشت گردوں کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں
افغانستان میں متعین امریکی اور نیٹو افواج کے نامزد سربراہ سینئر امریکی جنرل جان ولیم نکلسن نے پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کیے جانے والے آپریشن ضرب عضب کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پاکستانی زمینی حدود میں دہشت گردیوں کی سرگرمیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستانی عسکری قیادت افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کے لیے افغانستان کی بھی مدد کرے۔
لیفٹیننٹ جنرل نکلسن نے ان خیالات کا اظہار واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے روبرو بیان دیتے ہوئے کیا اور کہا کہ فاٹا میں پاک فوج کی کارروائی نے سرکشی کو کچلنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ واضح رہے اگر امریکی سینیٹ جنرل نکلسن کی نامزدگی کی توثیق کر دے تو ان کو ترقی دے کر چار ستاروں والا جرنیل بنا دیا جائے گا۔ سینیٹ کمیٹی کو اپنے تحریری بیان میں جنرل نکلسن نے کہا کہ پاکستان کے فوجی آپریشن نے عسکریت پسندوں کی قوت کو بڑی حد تک توڑ دیا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے کے لیے بھی پاکستان کو تعاون کرنا چاہیے۔
حقانی نیٹ ورک کے بارے میں امریکی افواج کی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف مسلسل کارروائی جاری رکھنی چاہیے تا کہ افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں کمی ہو سکے۔ اس سوال کے جواب میں کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مفاہمتی مذاکرات کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے، جنرل نکلسن نے کہا کہ یہ کام بنیادی طور پر افغان حکومت کا ہے تاہم اس حوالے سے پاکستان سے بھی تعاون کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
دریں اثناء امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے محکمہ دفاع پینٹا گان کے دورے کے موقع پر کہا کہ امریکی اور نیٹو افواج کو طویل عرصہ تک افغانستان میں رہنا ہو گا جب کہ وہاں امریکی فوج کا کام اور زیادہ سخت اور کٹھن ہو گیا ہے۔ متذکرہ بیانات سے افغانستان میں امریکی افواج کی بے بسی کا اظہار ہوتا ہے اور امریکا کی طرف سے فوجیں نکالنے کے اعلانات کی اصل حقیقت ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ بہرحال امریکی جنرل نے یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستانی فوج نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ہے لیکن اگر افغانستان میں تعینات امریکی و نیٹو فوج کی کارکردگی دیکھیں تو وہ اتنی موثر نہیں ہے۔
پاکستان میں افغانستان سے دراندازی جاری ہے۔ سانحہ پشاور اور سانحہ چارسدہ میں ملوث دہشت گردوں کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں۔ امریکی فوج کو افغانستان میں ایسے دہشت گردوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے جو ڈیورنڈ لائن کراس کر کے پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں کیونکہ جب تک افغانستان کے اندر دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
لیفٹیننٹ جنرل نکلسن نے ان خیالات کا اظہار واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے روبرو بیان دیتے ہوئے کیا اور کہا کہ فاٹا میں پاک فوج کی کارروائی نے سرکشی کو کچلنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ واضح رہے اگر امریکی سینیٹ جنرل نکلسن کی نامزدگی کی توثیق کر دے تو ان کو ترقی دے کر چار ستاروں والا جرنیل بنا دیا جائے گا۔ سینیٹ کمیٹی کو اپنے تحریری بیان میں جنرل نکلسن نے کہا کہ پاکستان کے فوجی آپریشن نے عسکریت پسندوں کی قوت کو بڑی حد تک توڑ دیا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے کے لیے بھی پاکستان کو تعاون کرنا چاہیے۔
حقانی نیٹ ورک کے بارے میں امریکی افواج کی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف مسلسل کارروائی جاری رکھنی چاہیے تا کہ افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں کمی ہو سکے۔ اس سوال کے جواب میں کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مفاہمتی مذاکرات کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے، جنرل نکلسن نے کہا کہ یہ کام بنیادی طور پر افغان حکومت کا ہے تاہم اس حوالے سے پاکستان سے بھی تعاون کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
دریں اثناء امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے محکمہ دفاع پینٹا گان کے دورے کے موقع پر کہا کہ امریکی اور نیٹو افواج کو طویل عرصہ تک افغانستان میں رہنا ہو گا جب کہ وہاں امریکی فوج کا کام اور زیادہ سخت اور کٹھن ہو گیا ہے۔ متذکرہ بیانات سے افغانستان میں امریکی افواج کی بے بسی کا اظہار ہوتا ہے اور امریکا کی طرف سے فوجیں نکالنے کے اعلانات کی اصل حقیقت ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ بہرحال امریکی جنرل نے یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستانی فوج نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ہے لیکن اگر افغانستان میں تعینات امریکی و نیٹو فوج کی کارکردگی دیکھیں تو وہ اتنی موثر نہیں ہے۔
پاکستان میں افغانستان سے دراندازی جاری ہے۔ سانحہ پشاور اور سانحہ چارسدہ میں ملوث دہشت گردوں کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں۔ امریکی فوج کو افغانستان میں ایسے دہشت گردوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے جو ڈیورنڈ لائن کراس کر کے پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں کیونکہ جب تک افغانستان کے اندر دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔