دہشت گردی کے خلاف جنگ سیاسی قیادت کا امتحان

حکومت کو شاید احساس نہیں ہے کہ عوام میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ نہیں ہے


Editorial January 31, 2016
دہشت گردی کے خلاف جنگ اب شہروں میں آ چکی ہے۔ دہشت گرد شہروں میں روپوش ہیں۔ یہیں ان کے سہولت کار بھی موجود ہیں۔ فوٹو فائل

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی سربراہی میں گزشتہ روز وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی سلامتی اور اقتصادی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اجلاس کے شرکاء کو سعودی عرب، ایران اور ڈیووس (سوئٹزرلینڈ) کے اپنے حالیہ دوروں پر اعتماد میں لیا۔ اجلاس میں انھیں سانحہ چارسدہ اور اس کی تحقیقات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

کراچی آپریشن پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور اتفاق کیا گیا کہ کراچی آپریشن اپنے منطقی انجام تک جاری رہے گا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ سرزمین پاک سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی، دہشت گردی کا خاتمہ اور پرامن پاکستان کو یقینی بنانا موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے جس کی وجہ سے آسان اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ نیشنل ایکشن پلان کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں سیاسی تلخیوں کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی کٹہرے میں لائیں گے۔

پاکستان کے گرد و پیش کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت اسے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان کی ہر قسم کی ترقی دہشت گردی کے خاتمے سے ہی مشروط ہے۔ حکومت خواہ کتنا ہی دلکش اقتصادی نمونہ عوام کے سامنے لائے، اس میں رنگ بھرے لیکن یہ رنگ اس وقت تک پھیکا ہی رہے گا جب تک پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا کیونکہ سرمایہ اسی وقت پاکستان میں آئے گا جب یہ پرامن ہو گا۔ پاکستان کے جغرافیے پر غور کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک جانب پاکستان کا معاشی ہب کراچی بدامنی و دہشت گردی کا شکار ہے تو دوسری جانب خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ بلوچستان میں بھی شر پسندی جاری ہے۔ یوں یہ دہشت گردی معاشی ترقی کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی جب کہ کراچی اب کسی حد تک بحال ہوا ہے۔ یہ دہشت گردی کثیرالجہتی ہے، کہیں مذہب کے نام پر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، کہیں نسلی و لسانی بنیادوں پر قتل و غارت کی جا رہی ہے۔ ان عوامل نے یکجا ہو کر پاکستان کی تصویر ایسی بنا دی ہے کہ عالمی سطح پر اسے تنہائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ حکومت دہشت گردی کے خلاف بھی جنگ لڑ رہی ہے اور معاشی و اقتصادی میدان میں بھی انتھک جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کے اثرات کسی حد تک نظر بھی آ رہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کا یہ عزم بروقت ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ پاکستان کو اس وقت ضرورت ہی یہی ہے۔

وقت کی ضرورت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ حکومت کو شاید احساس نہیں ہے کہ عوام میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اس تاثر کو تقویت سیاسی بیان بازیوں سے بھی مل رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان ہونے والی حالیہ تلخی اس کا ثبوت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے واضح کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں سیاسی تلخیوں کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔ اس جذبے کو عملی شکل میں سامنے لانا چاہیے۔

بلاشبہ ملک کے سول انٹیلی جنس اداروں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پنجاب میں پولیس نے کئی ایک کامیاب کارروائیاں کی ہیں جن میں دہشت گردوں کو واردات سے پہلے گرفتار کیا گیا ہے۔ کراچی میں بھی رینجرز اور پولیس اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں لیکن انھیں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب شہروں میں آ چکی ہے۔ دہشت گرد شہروں میں روپوش ہیں۔ یہیں ان کے سہولت کار بھی موجود ہیں۔

انھیں ان کی کمین گاہوں سے نکالنا سول انٹیلی جنس اداروں کا فرض ہے۔ یہ کام ایک تھانے کے پولیس افسر سے لے کر ایک سپاہی تک کو بھی انجام دینا ہو گا۔ پولیس کے اسپیشل برانچ والوں کو بھی متحرک ہونا ہو گا اور آئی بی کو بھی مزید فعال ہونا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت پر یقین رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی دہشت گردی کے خلاف ابہام سے پاک مؤقف اختیار کرنا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں کی تربیت کرنی ہو گی۔ یہ سیاسی کارکن گلی محلے میں کام کرتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں یہ کارنامہ سرانجام دینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو دہشت گردی پر قابو پانا ممکن ہو جائے گا ورنہ سب کچھ بیان بازی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں