جعلی عامل مافیا اور خواتین

جب کوئی خاتون ان کے پاس آ کر اپنی کوئی بھی پریشانی بتاتی ہے تو وہ ان سے انڈے منگواتے ہیں۔


Raees Fatima January 31, 2016
[email protected]

ایک نجی ٹیلی ویژن نے جس طرح جعلی عاملوں کے کالے کرتوتوں سے پردہ اٹھایا، وہ قابل تعریف ہے بالخصوص انڈوں میں سے سوئیاں نکالنا۔ طریقہ کار یہ دکھایا گیا کہ جعلی عامل جو تین مختلف ناموں سے یہ مذموم کاروبار پولیس کی مدد سے کر رہا ہے، وہ کچھ انڈے تیزاب میں ڈال دیتا ہے، جس سے کچھ دیر بعد انڈے کا چھلکا بالکل نرم ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد عامل نہایت باریک باریک سوئیاں انڈے میں باآسانی داخل کر دیتا ہے۔ چند گھنٹوں بعد چھلکا دوبارہ سخت ہو جاتا ہے۔

جب کوئی خاتون ان کے پاس آ کر اپنی کوئی بھی پریشانی بتاتی ہے تو وہ ان سے انڈے منگواتے ہیں۔ انڈے لے کر انھیں باتوں میں لگایا جاتا ہے اور حال سن کر کہا جاتا ہے کہ ''اگر انڈوں میں سے سوئیاں نکلیں تو آپ پر کسی نے سفلی عمل کیا ہے۔ پھر عامل کا کارندہ آنکھ بچا کر سوئیوں والے انڈے عامل کے قریب رکھ دیتا، وہ سائل کے سامنے انڈے توڑتا جاتا ہے اور ان میں سے سوئیاں الگ کرتا جاتا ہے۔ اب سائل کے لیے یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہتی، وہ یقین کر لیتا ہے کہ اس کا روزگار کسی حاسد نے باندھ دیا ہے، سفلی عمل کر کے میاں بیوی میں جھگڑا کروایا ہے، ہر طرح کی بندش ہے۔ جب آنے والا ٹھیک ٹھاک خوفزدہ ہو جاتا ہے تو وہ مطلب پہ آتے ہیں اور دس ہزار، پندرہ ہزار معاوضہ بتاتے ہیں۔ لوگوں کو مزید بے وقوف بنانے کے لیے، جلانے اور پیٹنے کے لیے تعویذ اور فلیتے بھی دیتے ہیں، کچھ وظیفے بھی پڑھنے کو بتا دیتے ہیں۔

بدقسمتی سے ان جعلی عاملوں کے چنگل میں خواتین زیادہ پھنستی ہیں۔ یہ مذموم کاروبار نہایت کامیابی سے جاری ہے اگر بہو اپنی ماں کے ساتھ عامل کے پاس جاتی ہے تو وہ فوراً کہے گا کہ ساس نے جادو کیا ہے، وہی خاتون اگر اپنا مسئلہ بتائیں تو کہے گا کہ ان پر ان کی بہو، نند یا کسی سسرالی عزیز نے سفلی عمل سے بندش کی ہے۔ کوئی ماں اپنی بیٹیوں کے رشتوں کے لیے جاتی ہے تو یہ بدبخت عامل کہتا ہے کہ کسی رشتے دار نے بندش کروائی ہے۔ اس طرح بہو کو ساس نندوں کے خلاف، ساس کو بہو کے خلاف، دوست کو دوست کے خلاف، ہمسایوں کو ہمسائے کے خلاف بہکا کر بے وقوف بنایا جاتا ہے۔

ان جعلی عاملوں کے چنگل میں پھنسنے والی چند خواتین کا حال میں آپ کو بتاتی ہوں۔ ان کے علاوہ ہزاروں عورتیں ہیں جو ان جعلی پاکھنڈی عاملوں کے چنگل میں پھنس کر اپنی عزت تک لٹا چکی ہیں۔ کچھ واقعات سامنے آ جاتے ہیں لیکن زیادہ تر متاثرہ خواتین اور لڑکیاں بات چھپا جاتی ہیں تا کہ بدنامی نہ ہو، اور اسی کمزوری سے یہ بدبخت فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک پڑھی لکھی خاتون جو لیکچرر ہیں، ان کے اور ان کے شوہر کے درمیان تعلقات کچھ کشیدہ ہو گئے تھے، دو بیٹے تھے سات اور پانچ سال کے۔ وجہ وہی کہ موصوفہ میکے بہت جاتی تھیں، والدہ کے نسخوں پہ عمل کر کے شوہر کو ترکی بہ ترکی جواب دیتی تھیں۔

ایک دن انھوں نے کسی دیوار پر کسی عامل کا اشتہار دیکھا جس میں گھریلو پریشانیوں سے نجات سے لے کر شوہر کو غلام بنانے تک کے دعوے کیے گئے تھے۔ شوہر کے روکھے سلوک سے گھبرا کر وہ ایک دن انھی عامل کے دروازے تک جا پہنچیں۔ عامل نے انھیں تعویذ دیے اور باور کرا دیا کہ وہ اس کا مسئلہ حل کر دیں۔ پہلی دفعہ انھوں نے ساڑھے چار ہزار کا ہدیہ لیا، دوسری بار تین دن بعد بلایا۔ کچھ پانی دم کر کے دیا۔

ہر بار تین ہزار کی رقم وہ اینٹھ لیتا تھا۔ چوتھی بار جب وہ گئیں اور کہا کہ میاں کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اس دن انھوں نے خاتون سے دست درازی کی کوشش کی، دروازہ اس عامل نے باہر سے بند کروا دیا تھا۔ خاتون بری طرح گھبرا گئیں، لیکن ہوش و حواس قائم رکھے اور اس عامل سے کہا کہ وہ آج اسے جانے دیں اگر دیر ہو گئی تو ان کی والدہ بھائی کو لے کر آ جائیں گی جو کہ پولیس میں ہے۔

تب اس نے اگلے دن آنے کا وعدہ لے کر انھیں جانے دیا۔ خاتون نے گھر پہنچ کر سب سے پہلے تمام تعویذوں اور فلیتوں کو پھینکا اور دوبارہ جانے سے توبہ کر لی۔ لیکن جب وہ دوسرے دن نہ پہنچیں تو عامل نے ان کے موبائل پہ فون کر کے دھمکی دی کہ اگر وہ نہ پہنچیں تو وہ ساری بات شوہر کو بتا دے گا اور یہ بھی کہہ دے گا کہ خاتون کے اس کے ساتھ کس قسم کے مراسم ہیں۔ ساتھ ساتھ کچھ نازیبا گفتگو بھی کی۔ بہرحال خاتون نے یہ عقل مندی کی کہ اپنے بھائی کو تمام صورتحال بتا دی۔ بھائی نے جو کہ پولیس میں تھا، اپنے سینئر کو بات بتائی تب ایک ٹیم تشکیل دی گئی اور جعلی عامل کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا۔

دوسری خاتون کا قصہ سنیے۔ ان کے شوہر کم آمدنی کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے۔ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے۔ لگتا تھا پاگل ہو گئے ہیں۔ لیکن ان کے بہن بھائیوں کا خیال تھا کہ ان پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔ بجائے نفسیاتی معالج کے پاس لے جانے کے وہ انھیں حیدرآباد ایک پیر کے پاس لے گئے۔ پیر صاحب نے میاں بیوی کو کمرے میں بٹھا لیا اور باقی لوگوں کو باہر بیٹھنے کے لیے کہا۔ میاں کو نیچے لٹا دیا، وہ پہلے ہی اپنے ہوش میں نہیں تھے۔

ان پر کچھ پانی پڑھ کر پھونکا اور کوئی چیز سونگھا دی۔ وہ یکدم خاموش ہو گئے۔ اچانک انھوں نے خاتون کو دبوچا اور غیر اخلاقی حرکات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس لیے خاتون شوہر سے طلاق لے لے، کیونکہ وہ تو پاگل ہے۔ اب خاتون کرے تو کیا کرے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ پھر اچانک انھوں نے عامل سے پانی پینے کو مانگا۔ جیسے ہی وہ پانی لینے مڑا خاتون نے ہمت کر کے قریب رکھا ہوا اسٹیل کا جگ زور سے اس کے سر کے پچھلے حصے پہ مارا جب وہ مڑا تو ایک لات پیٹ پہ رسید کی۔ وہ پیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا، اتنے عرصے میں انھوں نے دروازہ کھولا اور بھائی کو آواز لگائی۔ بمشکل شوہر کو وہاں سے نکالا اور گھر آئیں۔ بعد میں ان کا ڈاکٹر سے علاج ہوا۔ آج ماشا اللہ وہ دو دو جاب کر رہے ہیں اور صحت مند ہیں۔

کاش حکومت نہایت سنجیدگی سے ان عاملوں کے خلاف مہم چلائے اور ان کے دھندے بند کروائے۔ جہاں جہاں یہ موجود ہیں۔ بڑے بڑے بورڈ لگا کر پولیس کی سرپرستی میں جو یہ کالے دھندے کر رہے ہیں انھیں بلاتفریق ختم کیا جائے۔ ساتھ ہی میڈیا کی ذمے داری بھی ہے کہ وہ لوگوں میں اپنے ٹاک شوز کے ذریعے یہ شعور پیدا کرے کہ سادہ لوح خواتین و حضرات ان کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ کیونکہ اگر لوگ ان کے پاس نہیں جائیں گے تو کچھ نہیں بگڑے گا۔

لیکن پھر بھی مولوی حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ جمعہ کے خطبوں میں ان عاملوں کے کالے کرتوتوں پر سے پردہ اٹھائیں یہ بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو آگہی دینے میں الیکٹرانک میڈیا کو سامنے آنا چاہیے۔ محض سیاسی ٹاک شوز دکھا کر اپنی ذمے داری پوری نہیں کی جا سکتی۔

عام طور پر جب سیاسی مرغوں کی لڑائیاں، چونچیں لڑانا، چٹکیاں بھرنا، ایک دوسرے پر لعن طعن اور ملامت کرنے والے کارندوں کو بلا کر پروگرام کا پیٹ تو بھرا جا سکتا ہے لیکن سماجی ذمے داری پوری نہیں کی جا سکتی۔ الیکٹرانک میڈیا کو اب ایسے سماجی شعور پیدا کرنے والے پروگرام پیش کرنے چاہئیں جن میں سماجی مسائل کو اجاگر کیا گیا ہو۔ خاص کر جعلی بدبخت عاملوں کے خلاف واقعی اگر کوئی سنجیدگی سے مہم چلا سکتا ہے تو وہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز ہیں۔ ایسے پروگرام بہت مقبول ہو جاتے ہیں اور جو پروگرام مقبول ہوتے ہیں انھیں اشتہار بھی بہت ملتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں