پولیس کا رویہ اور بے چارہ شہریار
موجودہ دور میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں
موجودہ دور میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان ہی خاص تبدیلیوں میں عدم تحفظ کا احساس ذرا کم ہوا ہے، لوگ باہر نکلتے اور اپنے امور انجام دیتے ہوئے بالکل خوفزدہ نہیں ہوتے ہیں، اطمینان سے کام کرکے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں گھر جانا نصیب نہیں ہوتا ہے اور وہ ظلم کا شکار ہوجاتے ہیں، ظلم کرنیوالے بھی وہ لوگ ہیں جنھیں قانون کا محافظ کہا جاتا ہے۔
چند روز قبل ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا اس واقعے میں ایک بے قصور نوجوان شہریار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ماضی و حال کے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ شاید پولیس اہلکاروں کی ٹریننگ بہتر طریقے سے نہیں کی جاتی ہے، یا پھر سرے سے ہوتی ہی نہیں، چونکہ ٹریننگ کا واضح مقصد سامنے نہیں آتا ہے۔ ورنہ تو تربیت کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی بھی کام کے بہتر اور فائدہ مند اصولوں کو اس طرح اپنانا کہ نہ کسی کی عزت نفس مجروح ہو اور نہ جسمانی اذیت پہنچائی جائے، گویا شائستگی اور تہذیب کا دامن کسی بھی قیمت میں نہ چھوڑنے کا درس اصول و ضوابط کے تحت ہی عمل میں آتا ہے۔
لیکن یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ سب سے زیادہ مغلظات پولیس اہلکار ہی بکتے ہیں، شرافت کا دور دور پتہ نہیں، پبلک ڈیلنگ کے فن سے ناآشنا کہ لوگوں سے بات کس طرح کی جاتی ہے اور انھیں کس طرح امن و امان کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر بات جوتے اور ڈنڈے کے زور پر کہی جائے اور سمجھائی جائے، اسلحے کے استعمال سے بھی یہ ناواقف ہوتے ہیں، جہاں فائر کرنا چاہیے وہاں کرتے نہیں اور نہتے شہریوں پر گولی چلا کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ جان لینا ان کے نزدیک بڑی بات ہرگز نہیں ہے۔ اسی وجہ سے آئے دن دردناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اندھیرے اجالے کا کھیل سالہا سال سے جاری ہے۔
اگر ہمارے ملک میں قانون کی اجارہ داری ہو اور قانون کی نظر میں سب برابر ہوں تو ظلم کی آگ کسی کے آشیانے کو جلاکر خاکستر نہ کرسکے، لیکن قوانین نہ ہونے کے برابر ہیں اور پھر صاحب اقتدار اپنی ضرورت کے تحت قوانین میں تبدیلیاں کرنے کے مجاز ہیں، کہیں ان کا مفاد خطرے میں پڑ جائے تو ملزمان و مجرمان کو بچانے کے لیے قانون میں تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ پچھلے دنوں رینجرز کے قوانین گھٹانے اور محدود دائرے میں رہ کر کام کرنے کی بات دور دور تک گئی، پوری دنیا کو پتہ چل گیا کہ قانون کو توڑنے میں سیاستدانوں اور پاکستانی قیادت کا کوئی جواب نہیں۔ یہ منافقانہ پالیسی ملکی استحکام کے منافی ہے۔
قتل و غارت کا کھیل اس وقت تک جاری و ساری رہے گا جب تک قاتلوں کو تختہ دار پر نہ چڑھایا جائے، عبرت اسی وقت ہوسکتی ہے۔ ورنہ تو ناقص نظام یونہی چلتا رہے اور ظلم کے کانٹے لوگوں کے دلوں کو چھلنی کرتے رہیں گے۔
کراچی کا شہری شہریار، ڈاکو نہیں تھا، اس نے بینک ڈکیتی نہیں کی تھی، نہ وہ اغوا برائے تاوان جیسے گھناؤنے جرم کا مرتکب تھا، نہ ہی اس نے کسی کو قتل کیا تھا، نہ جائیداد ضبط کی تھی، وہ تو ایک شریف النفس انسان تھا، جو دوستوں کے ساتھ خوشی خوشی تفریح کرنے نکلا تھا، اپنے ذہنی کرب کو ختم کرنے کہ یہ دور، دورِ ابتلا ہے، ہر شخص کسی نہ کسی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار ہے، بجلی نہ ہو تو کوفت، پانی نہ ہو گھر میں، تو مزید دکھ اور تکلیف، معاشی مسئلہ ہو تو سونے پر سہاگہ کہ افلاس بہت سے غموں اور مصائب کو جنم دیتا ہے، گویا غربت کے مسائل پریشانیوں کی جڑ ہیں۔
جڑ کو اکھاڑنے کے لیے وسائل کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سہولتوں اور وسائل کا دور دور تک پتہ نہیں کہ آرام دہ چیزوں پر صرف اور صرف حکمرانوں کا حق ہے۔ تو بات ہو رہی تھی شہریار کی، جو لانڈھی کا مکین تھا دوستوں کی جلو میں پکنک منانے سی ویو کی طرف چلا لیکن قضا نے بھی اس کے ساتھ سفر کیا، اسے معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، اس سے زندگی روٹھنے والی ہے، اس کا ساتھ چھوڑنیوالی ہے کہ زندگی تو ہوتی ہی بے وفا ہے، اس پر اعتبار کرنا اور اترانا بے سود اور نادانی کے سوا کچھ نہیں، یہ تو آزمائشوں اور کھٹنائیوں کے جنگل میں لاکر چھوڑ دیتی ہے اور انسان کا حوصلہ اور ہمت بھی فولاد سے زیادہ سخت ہے، ہر دکھ جھیل جاتا ہے، بڑے سے بڑا وار سہہ لیتا ہے، بڑی بڑی آفات کا مقابلہ کرلیتا ہے۔
اداسیوں کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے لیکن صبر اور امید کا دامن نہیں چھوڑتا کہ اس کے رب نے اسے روشن لفظوں سے لکھی کتاب کے ذریعے سمجھایا ہے، سمجھتا وہی ہے جس پر اللہ کا کرم اور رحمت کی بارش ہوتی ہے، ہدایت کا اجالا ہوتا ہے اور وہ اجالا جو نیک کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور حیات و ممات کی حقیقت پر یقین رکھنے کا درس دیتا ہے۔ موت تو سب کے لیے ہے، ہر شخص کو اس دنیا سے کوچ کرنا ہے، سو شہریار بھی مسافر تھا، منزل آگئی، مقررہ جگہ پر روح قبض ہوگئی اور وہ دنیا چھوڑ گیا۔وہ پولیس اہلکار جو شہریار کے قاتل تھے ان سے بدلہ واجب ہے، کون لے گا بدلہ؟ یا معاف کردیے جائیں گے، قصاص میں زندگی ہے، لیکن ہمیشہ سے ایسا ہی ہورہا ہے، قاتل آزاد مقتول قبر میں اور لواحقین انصاف کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات جنم لے چکے ہیں، پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں، رینجرز کے جرائم آٹے میں نمک کے برابر ہیں، لیکن پولیس کو تو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں، جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ ان کا کوئی بال بیکا نہ کرسکے گا۔
شہریار اس وقت پولیس اہلکاروں کی بربریت کا نشانہ بنا جب پولیس اہلکار گزری کے علاقے اتحاد ٹاؤن میں اسنیپ چیکنگ کر رہے تھے، انھوں نے موٹرسائیکل سواروں کو روکا، تین موٹر سائیکلوں پر سوار شہریار کے دوست فوراً رک گئے لیکن شہریار کی موٹرسائیکل کی رفتار تیز تھی، اس لیے رکنے میں چند لمحات لگے لیکن پولیس اہلکاروں کو کہاں صبر تھا، انھوں نے واپس پلٹ کر آنیوالے شہریار پر گولی چلادی اور گولی سر میں لگی، مزید ظلم یہ ہوا کہ شہریار کو فوری طبی امداد سے محروم رکھا گیا اور وہ ڈیڑھ گھنٹے تک زمین پر تڑپتا رہا، جب اسپتال پہنچا تو دوران علاج ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
تو یہ ہے قانون اور قانون کے تقاضے، قانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔ لمحہ بھر میں جان لے لیتے ہیں، شاید انھیں یہ نہیں معلوم کہ قاتل کی معافی ہرگز نہیں ہے، جب پیغمبر کے لخت جگر قابیل کو معاف نہیں کیا گیا اور آدم علیہ السلام کا بیٹا قابیل آج تک سزا میں مبتلا ہے۔ آدمؑ کی آہ و بکا اور گریہ و زاری بھی کام نہ آسکی، تو عام انسان کیوں کر توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ معاف کردیا جائے گا۔
آئے دن نوجوانوں کی ہلاکت کی خبریں اخبار کی سرخی بن جاتی ہیں، محض شک و شبے کی بنا پر کسی بے قصور کو مار مار کر ادھ موا کردینا کہاں کی دور اندیشی اور دانائی ہے، یہ ظلم وہ بے قصور لوگوں پر توڑتے ہیں اللہ ان پر توڑے گا اور ان کے آگے اس دنیا میں ہی عذاب کی شکل میں آجائے گا کہ جو بویا جاتا ہے وہی کاٹنا پڑتا ہے کسی کی جان لینا ان کے والدین اور گھر والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دینا اور جیتے جی مار دینے کے مترادف ہے۔پولیس افسران کو چاہیے کہ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں کو اپنے محکمے میں بھرتی کریں تاکہ وہ ملزم اور شریف انسان میں تمیز کرسکیں۔ ایسے گمراہ، کم عقل اور تشدد پسند لوگوں کو اسلحہ ہرگز نہ فراہم کیا جائے کہ جو صرف اور صرف اس کے بل پر جان لینا جانتے ہیں۔