چلتا بنوں
جب دنیا جاگ رہی ہوتی ہے تو اس ملک کے حکمران سورہے ہوتے ہیں۔
KARACHI:
جب دنیا جاگ رہی ہوتی ہے تو اس ملک کے حکمران سورہے ہوتے ہیں۔ جب وہ خطرے کی گھنٹیاں بجارہی ہوتی ہیں تو ہم سکون کی بانسری سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہم دنیا سے کٹ کر ایک دوسرے سیارے کے باشندے ہیں۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ ہم اپنے خوابوں کے چاند پر رہتے ہیں، جہاں ہمارے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔
دنیا میں کچھ بھی ہورہا ہو ہم بے خبر اپنی مستی میں مست ہوتے ہیں۔ وہ لوگ چلا چلا کر تھک گئے کہ دنیا کا موسم بدل رہا ہے لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ کیوں کہ ہمیں ایسی قیادت ملی ہے جو صرف اس وقت جاگتی ہے جب ان کے کان کے پاس بم آکر پھٹ جائے۔ دنیا اس وقت ذکا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ اب تک چالیس لاکھ افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ لیکن ہماریحکومت کو معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ وائرس کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کے سر چھوٹے ہوتے ہیں اور یہ صرف ایک مچھر کا کارنامہ ہے۔
ہم آج تک پولیو ختم نہیں کرسکے جس میں اربوں نہیں کھربوں کا فنڈ ملا۔ ہم تمام تر دعوؤں کے باوجود ڈینگی سے نہیں نمٹ سکے ہیں۔ تمام تر خبروں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ہم نزلہ زکام جیسی بیماریوں سے نمٹ نہیں سکے ہیں۔ ہر سال ہزاروں بچے نمونیا کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ مگر انھیں کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کا نام سوائن فلو نہیں ہے لیکن یہ مشہور اسی نام سے ہے۔ اور اب تک ایک مہینے کے اندر سیکڑوں لوگوں کو نہیں بلکہ لاکھوں کو متاثر کرچکا ہے۔ لیکن آپ سوتے رہیں۔
آپ کا کیا جاتا ہے کہ اس ملک کے ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں، اور نہ ہی یہ کوئی غیر ملکی تنظیم کہہ رہی ہے۔ نا یہ رپورٹ ''را'' نے تیار کی ہے۔ یہ بات ہمارے ایوان بالا کے سامنے پیش کی گئی ہے۔ ایک دن پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں یہ کہا گیا کہ گزشتہ سال صرف ہیپاٹائٹس کے ایک کروڑ دس لاکھ افراد کی رجسٹریشن کی گئی ہے۔
آپ اندازہ کیجیے کہ جب صرف ایک مرض کے متاثرہ افراد کی تعداد کروڑوں میں ہو تو دیگر کا کیا ہوگا۔ یہ میں تو نہیں کہہ رہا ہوں کہ حیرت انگیز طور پر پاکستان کے اندر گزشتہ دس سال میں کینسر کے مریضوں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ لیکن کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ جنھیں ان بیماریوں کا حل ڈھونڈھنا ہے وہ لوگ تو باہر جا کر اپنا علاج کراسکتے ہیں، لیکن ہم اپنا سر کہاں پر مارنے جائیں۔پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ بنیادی تعلیم ریاست کی ذمے داری ہے۔
پر اس حکومت نے یہ ذمے داری بھی ہمیں اٹھانے کے لیے دے دی ہے۔ یہاں سرکاری اسکولوں کی تعداد تو وہی لیکن ہر روز ایک نئے پرائیوٹ اسکول کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جو تعلیم کے نام پر جہالت فروخت کرنے کا بینر لگا دیتے ہیں اور ہم ٖفخر کے ساتھ اپنے بچوں کی انگلی پکڑ کر انھیں ایک بھنور میں پھنسا دیتے ہیں۔ سیکیورٹی دینا ریاست کی ذمے داری ہے، لیکن انھوں نے اس سے بھی ہاتھ اٹھا لیا۔ پہلے یہاں پر نجی سیکیورٹی اداروں کے نام پر چوروں کو ایک لائسنس دے دیا گیا اور اب اس سے بھی بات نہیں بنی تو اساتذہ سے کہہ دیا گیا کہ آپ قلم چھوڑ دیں اور اسلحہ چلانا سیکھ لیں۔ بچوں کو ڈر اور خوف کا ماحول دیا جاتا ہے۔ جہاں انھیں یہ بتایا اور سکھایا جاتا تھا کہ قلم کی طاقت بندوق کی طاقت سے زیادہ ہے، وہاں انھیں اب قلم کے بجائے بندوق کی مشق کرائی جارہی ہے۔
یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ ہمارے آئین میں درج ہے کہ صحت کی بنیادی سہولیات بھی مساوی طور پر فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ برابری کی بنیاد تو چھوڑ دیجیے یہاں پر سہولت کا ٹیکہ لگانا بھی گوارا نہیں کیا جارہا ہے۔ جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے، صحت اب بس ان ہی کا حق ہے۔ حال یہ ہوچکا ہے کہ پیٹ بھر کر وہ کھانا کھاسکتا ہے جس کے پاس پیسہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا خواب وہ دیکھ سکتا ہے جس کے پاس دولت کے انبار ہوں۔ صحت مند رہنا صرف اس کا حق ہے جس کے پاس جائیداد کے انبار لگے ہوں۔ ریاست اور حکومت نے آہستہ آہستہ اپنی تمام تر ذمے داریوں سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔
آپ کو کسی کی بات پر اعتبار نہیں ہے لیکن اپنے افسروں پر تو بھروسا کرلیجیے۔ میری بات پر کان مت دھریے، لیکن اپنے لکھے ہوئے کاغذ کو تو مان لیجیے کہ جس میں لکھا ہے کہ ایک سال میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ صرف اس لیے متاثر ہوئے کہ انھوں نے استعمال شدہ سرنجوں کو استعمال کیا۔ افسوس کیجیے کہ یہاں کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی سرکاری طور پر ایک بھی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو لوگوں کو صاف خون فراہم کر سکے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں صرف ایک لیباریٹری موجود ہے۔ یہ بھی سارا کام پرائیوٹ اداروں کے کاندھوں پر رکھ دیا، جو ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔
مگر چھوڑیں ہمارا مسئلہ صحت نہیں ہے، کیوں کہ صحت تو انھیں چاہیے ہوتی ہے جو زندہ ہوں۔ یہاں تو لوگوں کو مردہ سمجھ کر دفنادیا گیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے لوگ بیماریوں سے مرجاتے ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف حکومت کی لاپرواہی ہے۔ جس طرح یہاں کے وزراء کو نہیں معلوم کہ ذکا وائرس کیا ہوتا ہے، اسی طرح انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ پاکستان کے بہت بڑے سرکاری اسپتال میں حکومت مریضوں کو لے جانے والا ایک اسٹریچر بھی فراہم نہیں کرتی ہے۔ بلکہ اب یہ کام بھی پرائیوٹ اداروں نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔
تھوڑا سا غور کیجیے، اگر کسی کی طبیعت خراب ہوجائے تو اس کو ایمبولینس سرکار نہیں فراہم کرتی۔ اگر سرکار کے پاس ایمبولینس ہے بھی تو اتنی محدود کہ وہ کروڑوں کی آبادی کے لیے ناکافی ہے۔ دوا کے لیے سرکاری اسپتال کے گیٹ کے ساتھ ہی پرائیوٹ فارمیسی ہوگی۔ غریب کو ایک دوا بھی نہیں ملتی۔ سرکاری اسپتال کے ساتھ ہی ایک پرائیوٹ ٹیسٹ کی لیباریٹری ہوگی۔ سرکاری اسپتال میں ٹیسٹ ہوتے ہی نہیں ہیں، اور اگر ہوتے ہیں تو محدود وقت کے لیے ہوتے ہیں۔
اسپتال میں موجود عملہ خود ہی کہہ دیتا ہے کہ آپ فلاں لیبارٹری سے ٹیسٹ کروالیں تو ڈاکٹر اسے مان لیں گے۔ نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن کا سلسلہ ہے۔ اس ڈاکٹر یا پھر عملے کا پرائیوٹ فارمیسی اور لیبارٹری کے ساتھ کمیشن فکس ہوتا ہے۔ غریب آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے، ڈاکٹر عاصم نے کیا کیا ہے۔ ہم جیسے لوگ تو براہ راست متاثر ہوتے ہیں، جب ایمولینس بھی پیسے دے کر منگوانی پڑے۔ جب سرکاری سطح پر دوا نہ ملے اور پرائیوٹ لینا پڑے۔ ٹیسٹ بھی پرائیوٹ۔ اب تو حال یہ ہے کہ کفن بھی خریدنا پڑتا ہے اور اگر مرجائیں تو یہ حکومت انھیں دفن ہونے کے لیے جگہ بھی نہیں دیتی ہے۔ وہ بھی انھیں خریدنی پڑتی ہے۔ یہاں جینا بھی پیسہ مانگتا ہے اور مرنا بھی پیسہ وصول کرتا ہے۔
میں یہ ہی رونا رو سکتا ہوں میں جب اس نوحہ کو آخری شکل دے رہا ہوں تو ٹی وی کی اسکرین پر ایک ولن کو پھر ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ عزیر بلوچ کو گرفتار کرلیا گیا۔ یا بہتر یہ ہوگا کہ میں یہ کہوں کہ عزیر کی گرفتاری ظاہر کردی گئی۔ میرے چند سوال ہیں، شاید اسی میں سارے جواب ہوں۔ پہلا یہ کہ یہ صاحب تو ملک سے باہر تھے، یہ ملک میں کیسے آئے۔ اور کراچی کی سرحد تک کیسے پہنچے۔ کیا اس ملک میں آنا اور یہاں سے جانا اتنا ہی آسان ہے؟ تو پھر دہشتگردوں پر کیسے نگاہ رکھی جائے۔
معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ بس اشارے میں یہ بتا دوں کہ ایک اور جانب سے بھی کچھ لوگوں کو پکڑا گیا ہے، جن کی گرفتاریاں اگلے ہفتے میں ظاہر ہوں گی۔ لیکن میری گلی کے نکڑ پر موجود پان والا مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ جب مرض کا علاج ایک ہی فارمولے کی دوا سے ہوسکتا ہے تو مارکیٹ میں الگ الگ نام سے اتنی ساری دوائیاں کیوں ہیں؟ یہ مچھر کی شرارت ہے جو کبھی ملیریا، کبھی ڈینگی تو کبھی ذکا پھیلا رہا ہے یا اسے بھی وقت آنے پر سیاسی کارڈ کی طرح کھیلا جاتا ہے۔ آپ بتائیں، اتنے سادے سوال کا جواب دوں یا پھر پان کھا کر چلتا بنوں؟