حیدرآباد30 لاکھ شہریوں کو مضر صحت پانی کی فراہمی امراض پھوٹ پڑے
دریا اورنہروں میں سیوریج و فیکٹریوں کاکیمیکل ملا پانی ڈالنےسےصورتحال ابتر ہو گئی،ایسوسی ایشن فار ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ.
لاہور:
ایسوسی ایشن فار ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آف رورل ایریاز کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر الٰہی بخش نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دریا اور نہروں کو آلودگی سے بچانے کیلیے سندھ اسمبلی میں موثر قانون سازی کی جائے جبکہ موجود قوانین پر عملدرآمد کرایا جائے۔
ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایک طرف حیدرآباد کے 30 لاکھ شہریوں کو مضر صحت پانی فراہم کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے شہر بھر کا سیوریج کا پانی ڈال کر پھلیلی ، پنیاری نہروں اور دریائے سندھ کو گٹروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ شہری لاکھوں روپے ماہانہ کا پانی بازار سے خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پھلیلی نہر میں200سے زائد مقامات پر بغیر ٹریٹمنٹ کیے سیوریج کا پانی ڈالا جاتا ہے، سلاٹر ہائوس، باتھ رومز، صابن کے کارخانے اور فیکٹریوں کا کیمیکل ملا پانی بھی اسی نہر میں ڈالا جاتا ہے جبکہ روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں بھینسیں مذکورہ نہر میں نہاتی ہیں اسی طرح دریائے سندھ میں بھی سحرش نگرکے مقام پر قاسم آباد کا سیوریج کا پانی، فیکٹریوں اور ملوں کا زہریلا کیمیکل زدہ پانی بھی ڈالا جا رہا ہے۔
اس پانی کو پینے سے لوگوں میں پیٹ، جلد، آنکھوں، جگر، آنتوں کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جس کے سبب سرکاری و نجی اسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن حکومت اس جانب توجہ دینے کو تیار نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ بھینسیوں کو نہر میں نہلانے پر دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد ہونے کے باوجود مالکان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا تی۔ اس موقع پر ڈاکٹر فصیح طارق، امجد علی، رئیس احمد، عبدالعزیز شیخ اور ڈاکٹر کوثر لودھی بھی موجود تھیں۔
ایسوسی ایشن فار ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آف رورل ایریاز کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر الٰہی بخش نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دریا اور نہروں کو آلودگی سے بچانے کیلیے سندھ اسمبلی میں موثر قانون سازی کی جائے جبکہ موجود قوانین پر عملدرآمد کرایا جائے۔
ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایک طرف حیدرآباد کے 30 لاکھ شہریوں کو مضر صحت پانی فراہم کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے شہر بھر کا سیوریج کا پانی ڈال کر پھلیلی ، پنیاری نہروں اور دریائے سندھ کو گٹروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ شہری لاکھوں روپے ماہانہ کا پانی بازار سے خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پھلیلی نہر میں200سے زائد مقامات پر بغیر ٹریٹمنٹ کیے سیوریج کا پانی ڈالا جاتا ہے، سلاٹر ہائوس، باتھ رومز، صابن کے کارخانے اور فیکٹریوں کا کیمیکل ملا پانی بھی اسی نہر میں ڈالا جاتا ہے جبکہ روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں بھینسیں مذکورہ نہر میں نہاتی ہیں اسی طرح دریائے سندھ میں بھی سحرش نگرکے مقام پر قاسم آباد کا سیوریج کا پانی، فیکٹریوں اور ملوں کا زہریلا کیمیکل زدہ پانی بھی ڈالا جا رہا ہے۔
اس پانی کو پینے سے لوگوں میں پیٹ، جلد، آنکھوں، جگر، آنتوں کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جس کے سبب سرکاری و نجی اسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن حکومت اس جانب توجہ دینے کو تیار نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ بھینسیوں کو نہر میں نہلانے پر دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد ہونے کے باوجود مالکان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا تی۔ اس موقع پر ڈاکٹر فصیح طارق، امجد علی، رئیس احمد، عبدالعزیز شیخ اور ڈاکٹر کوثر لودھی بھی موجود تھیں۔