پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی کمی

حکومت نے یکم فروری سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5 روپے فی لیٹر کمی کر دی ہے

۔اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے مطابق ردوبدل کیا جاتا توعوام کو اچھا خاصا ریلیف مہیا کیا جا سکتا تھا۔ فوٹو: فائل

حکومت نے یکم فروری سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5 روپے فی لیٹر کمی کر دی ہے۔ جس کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 76.25 کے بجائے 71.25 روپے فی لیٹر ہو گی۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل ہائی اوکٹین، مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کا نرخ بھی کم ہو گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے بتایا کہ پٹرولیم کی مصنوعات میں پانچ روپے فی لیٹر کی کمی کی منظوری وزیر اعظم نواز شریف نے دے دی ہے تا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ ملک میں صارفین کو پہنچایا جائے۔

عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کے بعد اوگرا نے چند روز قبل مختلف پیٹرولیم مصنوعات قیمتوں میں ساڑھے سات روپے سے لے کر سوا گیارہ روپے تک کی کمی کا عندیہ دیا تھا تاہم وزیر خزانہ پانچ روپے فی لیٹر سے زیادہ کمی کا اعلان نہ کر سکے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ڈیزل اور پٹرول پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

حکومت کی مجبوری ہوتی ہے کہ اسے اپنے بھاری بھرکم اخراجات کے لیے ٹیکس اور لیویز وغیرہ عاید کرنا پڑتی ہیں لیکن عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل اور نمایاں کمی کے پیش نظر عوام کی توقع تھی کہ اب انھیں بھی اندرون ملک اس کا ریلیف ملے گا جس کا ایک سرکاری ادارے کی طرف سے اشارہ بھی دیا گیا تھا جس سے عوام کو ایک خوشگوار امید پیدا ہوگئی جو صرف پانچ روپے کی کمی سے پوری نہیں ہوئی کیونکہ اس کمی سے عوام کو نہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کوئی ریلیف ملے گا اور نہ ہی دیگر اشیائے ضرورت پر اس کمی کا کوئی اثر ہوگا۔


اگرچہ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی سے اضافے کا اثر فی الفور تمام چیزوں پر مرتب ہوتا ہے حتی کہ رکشے والے بھی اپنے کرائے بڑھا دیتے ہیں۔ جب کہ تاجروں کے گوداموں میں پڑی ہوئی تمام اشیاء کی قیمتیں بھی خود بخود ہی بڑھ جاتی ہیں حالانکہ ان کے ٹرانسپورٹ کرائے پہلے ہی ادا کیے جا چکے تھے۔ بعض معیشت دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قیمتوں میں ماہ بماہ رد و بدل سے پورا معاشی نظام دگرگوں ہو جاتا ہے جس سے کم آمدنی والا طبقہ بہت بری طرح متاثر ہوتا ہے کیونکہ اس کا گھریلو بجٹ درہم برہم ہو جاتا ہے۔

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی سالانہ بجٹ کے موقعے پر مقرر کی جائیں جن میں معاشی سال کے دوران کوئی رد و بدل نہ ہو، گویا اگر عالمی منڈی میں قیمت گرے تو یہ فائدہ سرکاری خزانے کو پہنچے بعینہ اضافے کی صورت میں حکومت خود یہ خسارہ برداشت کرے۔ اس حوالے سے حکومت کے اپنے اقتصادی ماہرین موجود ہیں جن کی حکومت کو مشاورت میسر ہوتی ہے گو کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ مشاورت عوامی توقعات کے ہم آہنگ بھی ہو۔

البتہ اصل بات یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں موجودہ کمی کا تھوڑا بہت فائدہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی کی شکل میں بھی عوام کو پہنچنا چاہیے۔بہر حال کم ہی سہی کسی حد تک عوام کو پٹرولیم مصنوعات میں کمی سے فائدہ ہو گا۔اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے مطابق ردوبدل کیا جاتا توعوام کو اچھا خاصا ریلیف مہیا کیا جا سکتا تھا۔
Load Next Story