کنفیوژن میں مبتلا معاشرہ
ملک کو شدت پسندی اور دہشت گردی کے جن بھیانک چیلنجز کا سامنا ہے،
لاہور سے میرے ایک عزیز کا فون آیا کہ حکومت نے شدید سردی کی وجہ سے پنجاب بھر کے اسکول ایک بار پھر بند کر دیے ہیں۔ دوران گفتگو وہ کچھ الجھے الجھے اور پریشان سے لگ رہے تھے۔ استفسار پر کہنے لگے پنجاب میں ہر سال ایسا ہی سرد موسم آتا ہے، مگر اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے، سردی کو محض بہانہ بنایا گیا ہے۔
پنجاب کے صوبائی وزراء مصر ہیں کہ چھٹیاں سردی میں اضافے کی وجہ سے دی گئی ہیں۔ لیکن وفاقی وزیر داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں صوبائی حکومت کے موقف کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اس کے دو روز بعد ہی سندھ بالخصوص کراچی کے بعض مخصوص اسکول بغیر کسی وجہ بند کر دیے گئے۔ اس سلسلے میں صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں اعتراف کیا کہ ان تک یہ اطلاعات پہنچی ہیں کہ کیمبرج سسٹم سے منسلک اسکولوں کو دھمکیاں ملی ہیں، جس کی وجہ سے ان اسکولوں کو بند کیا گیا ہے۔ اس نئی صورتحال نے پورے ملک میں ایک عجیب و غریب نوعیت کا خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔
نااہلی اور غیر سنجیدگی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ صوبائی حکومتیں عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمے داریاں پوری کرنے کے بجائے نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ حفاظتی اقدامات کریں۔ جنھیں سیکیورٹی کے نام پر والدین کو لوٹنے کا ایک نیا موقع ہاتھ آ گیا ہے۔ گویا پہلے سے اپنے بچوں کی بھاری تعلیمی فیسوں اور ٹرانسپورٹ کرایوں کے بوجھ تلے دبے والدین کو سیکیورٹی کے نام پر مزید زیر بار کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی بڑی شدومد سے اٹھ رہا ہے کہ کیا دہشت گردی سے بچنے کا واحد علاج یہ ہے کہ موبائل فون سروس بند کر دو، موٹر سائیکل پر ڈبل سواری بند کر دو؟ اور جب اسکولوں پر دہشت گردی کا خطرہ پیدا ہو تو اسکول بند کر دو۔
یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ حکومت اس وقت کیا کر رہی تھی، جب شدت پسند عناصر نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جانے کی راہ میں مسلح رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کیں؟ اور آج بھی پولیس اور رینجرز کی حفاظت میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ اس وقت ٹھوس کارروائی سے کیوں گریز کیا گیا، جب یہ عناصر سوات میں لڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑا رہے تھے؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ حکمران حلقے اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بچے ہر قوم کا روشن مستقبل ہوتے ہیں اور صحت مند اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ نسل ہی کسی معاشرے کو آگے لے کر جانے کا سبب بنتی ہے۔ اسی لیے انھیں قوم کے مستقبل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
دراصل دعوے بہت ہیں کہ اقتدار کے تمام ستون دہشت گردی کے خلاف ایک ہی صفحہ پر ہیں، مگر عملاً ایسا نظر نہیں آ رہا۔ مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے مقتدر منتظمہ میں وسیع فکری اختلافات پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے بیانیے (Narratives) ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ فکر اور بیانیوں کے اس فرق کی وجہ سے کوئی ٹھوس، دیرپا اور قابل عمل حکمت عملی تیار نہیں ہو پا رہی۔ بلکہ پہلے سے موجود مختلف منصوبوں اور نیشنل ایکشن پلان پر بھی نیم دلی سے عمل ہو رہا ہے۔
اگر بنظر غائر پاکستان کے معاملات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسائل کی اصل جڑ ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے پایا جانے والا کنفیوژن ہے۔ جس نے حکمران حلقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ان میں اتنی جرأت نہیں کہ ماضی میں کیے گئے غلط فیصلوں کو ختم یا ان کی اصلاح کر سکیں۔ یا کم از کم بابائے قوم کی 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کو آئین کے ابتدائیہ کا حصہ بنا دیں۔
پاکستان میں 68 برس سے سیاسی رہنماؤں اور منصوبہ سازوں نے عوام کے ذہنوں میں یہ کنفیوژن راسخ کر دیا ہے کہ اس ملک کے قیام کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کے حصول کے بجائے پوری دنیا کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے جنگ لڑنا ہے۔ حکمران اشرافیہ کی جانب سے مسلسل پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا جانا اسی ذہنی کیفیت (Mindset) کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد کا مقصد پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کی وکالت کرنا تھا، تو 1920-30 کے دوران چلنے والی خلافت تحریک کی بانی پاکستان نے کبھی حمایت کیوں نہیں کی؟ اس کے برعکس ان کی سیاست کا محور اقلیتوں کے حقوق اور صوبائی خودمختاری کا زیادہ سے زیادہ حصول تھا۔ اگر آل انڈیا مسلم لیگ میں موجود کچھ حلقے اپنی جماعت کی جدوجہد کو مختلف انداز میں پیش کر رہے تھے، تو یہ ان کا اپنا معاملہ تھا۔ ہمارے اس بیانیے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ برٹش انڈیا میں موجود مختلف مسالک و عقائد کی بنیاد پر قائم مذہبی جماعتیں تقسیم ہند کی مخالف تھیں۔
قیام پاکستان بلکہ بانی پاکستان کی رحلت کے بعد قوم کو یہ بتایا گیا کہ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک تھیوکریٹک ریاست کا قیام تھا، جب کہ 23 برس بعد فوجی آمر جنرل یحییٰ کے وزیر اطلاعات جنرل نوابزادہ شیر علی خان نے پاکستان کا نظریہ پیش کر دیا۔ یوں پاکستان کو اس راہ پر لگا دیا گیا، جو بانی پاکستان کا ویژن نہیں تھا۔ پاکستان کی ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے دوسری پیش رفت وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکا کے بعد شروع ہوئی، جب بائیں بازو کی سیاست کا راستہ روکنے اور مذہبی جماعتوں کو فری ہینڈ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس میں شک نہیں کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں سے کئی تزویراتی غلطیاں سرزد ہوئیں، مگر تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے سیاست میں کبھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس کے برعکس مذہبی جماعتوں نے 1953سے مسلسل ریاستی منصوبہ سازی میں مداخلت اور اپنی بات منوانے کے لیے طاقت اور تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ جب کہ ریاست نے امریکا کو خوش کرنے کی خاطر ہمیشہ بائیں بازو کی سیاست کا ناطقہ بند کیا۔ آج بھی جب کہ مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت نے عفریت کی شکل اختیار کر لی ہے، ریاستی منتظمہ ان عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے بجائے لبرل سیاسی جماعتوں کی سیاست کو ختم کرنے کے درپے ہے۔
ملک کو شدت پسندی اور دہشت گردی کے جن بھیانک چیلنجز کا سامنا ہے، ان کا تقاضا ہے کہ تمام تر سیاسی اختلافات رکھنے کے باجود وفاقی اور صوبائی حکومتیں فعال ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے پر بھی ریاستی منتظمہ کے اہم ترین ستونوں کے درمیان کسی قسم کی ذہنی ہم آہنگی نظر نہیں آ رہی۔ جب کہ صوبائی حکومتیں استعداد میں کمی، پیشہ ورانہ نااہلی اور کرپشن کے باعث اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے میں ناکام ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے باہمی اختلافات سماج دشمن عناصر کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے رہنما مختلف نت نئے ناموں کے ساتھ اپنی منافرت بھری سیاسی دکانیں چلا رہے ہیں۔ مگر اس جانب توجہ نہیں دی جا رہی۔
ایک اور پہلو جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ آج کل کثرت سے استعمال ہونے والی اصطلاح ''سہولت کار'' (Facilitator) ہے۔ سہولت کار کے لفظی معنی مدد یا معاونت کے ہیں۔ مدد یا معاونت کئی طریقوں سے کی جاتی ہے۔ اول، تربیت (معلومات) فراہم کر کے۔ دوئم، اپنے گھر میں پناہ دے کر یا محفوظ ٹھکانے فراہم کر کے۔ سوئم، سواری یا زاد راہ مہیا کر کے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ کون لوگ ہیں، جو دارالحکومت کے ایک ایسے مولوی کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جس کے آئین کو تسلیم نہ کرنے کے فوٹیج ہر ٹیلی ویژن چینل کے پاس محفوظ ہیں۔ اسی طرح اس وفاقی وزیر کی پریس کانفرنس اور قومی اسمبلی میں ڈیڑھ گھنٹے حکیم اللہ محسود کی موت پر نوحہ گری کے فوٹیج بھی ہر چینل میں محفوظ ہیں۔ مگر ان وزراء اور سیاسی رہنماؤں پر سہولت کاری کا الزام عائد نہیں کیا جاتا۔
کیا ہماری حکمران اشرافیہ نہیں جانتی کہ آئین کسی بھی ریاست کی کلیدی دستاویز ہوتی ہے؟ کوئی فرد واحد یا افراد کا گروہ اسے تسلیم کرنے سے انکار کرے تو اس کا مطلب ریاست کے وجود سے انکار ہوتا ہے۔ کیا ایسا شخص اور تنظیم آئین کے آرٹیکل 6 کی گرفت میں نہیں آتا؟ کیا ایسے کسی شخص یا گروہ کو بچانے کی کوشش ''سہولت کاری'' کے زمرے میں نہیں آتی؟ ریاستی منصوبہ سازوں کو تشریح کرنا چاہیے کہ ان کی نظر میں آئین سے انحراف کرنے والے کسی فرد کو بچانے کی کوششیں سہولت کاری کے زمرے میں آتی ہیں، یا محض کسی رہنما کی تقریر سننا؟ کیونکہ وفاقی حکومت کے ہر صوبوں اور مختلف جماعتوں کے ساتھ مختلف رویوں نے معاملات و مسائل کو مزید گنجلک بنا دیا ہے۔
لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاستی منتظمہ دہرے معیار سے باہر نکلے۔ ریاست کے منطقی جواز اور دہشت گردی اور اس سے متعلق بعض اصطلاحات کے بارے میں واضح موقف اختیار کرے۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے سامنے قلیل المدتی اور طویل المدتی منصوبے اور ان پر عملدرآمد کے میکنزم کا خاکہ پیش کیا جائے۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کرے کہ اس کا اولین ترجیحی محور صرف اور صرف مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ ہے، تا کہ عوام کے ذہنوں میں مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے حوالے سے موجود ابہام دور ہو سکے۔