بھٹو اور مولانا مودودی کا جہادِ کشمیر
مولانا مودودی کا یہ انٹرویو اردو ڈائجسٹ کے شمارہ نومبر 1962 میں شایع ہوا تھا۔
February 01, 2016
جناب الطاف حسن قریشی وطنِ عزیز کے معروف اور ممتاز صحافی ہیں۔ وہ اگرچہ ایک اخبار کے بھی بانی اور مالک ایڈیٹر رہے ہیں لیکن ان کی پہچان اور تشخص ماہنامہ ''اردو ڈائجسٹ'' کے بانی مدیر ہونے سے وابستہ ہے۔ وہ ایک تھنک ٹینک، ادارۂ امورِ پاکستان، کے مؤسس بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں بے شمار معروف سیاسی، سماجی، ادبی اور فوجی شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اب فرخ سہیل گویندی، جو خود بھی ایک معروف دانشور اور کالم نویس و اینکر ہیں، کے اشاعتی ادارے (جمہوری پبلی کیشنز) نے الطاف حسن قریشی صاحب کے 23 مشہور انٹرویوز کو کتابی شکل میں شایع کر دیا ہے۔
اس کتاب کا نام ہے: ''ملاقاتیں کیا کیا''۔ بائیس مرد حضرات اور ایک معزز خاتون پر مشتمل یہ انٹرویوز بلاشبہ تاریخی نوعیت کی اہمیت رکھتے ہیں۔ قانون دان حضرات میں جسٹس ایس اے رحمن، چیف جسٹس ایس اے کارنیلیئس، اے کے بروہی، مولوی تمیزالدین، جسٹس حمود الرحمن اور ایس ایم ظفر شامل ہیں۔ علمائے دین میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا ظفر احمد انصاری ہیں۔ ماہرینِ امورِ تعلیم و محققین میں ڈاکٹر سید عبداللہ، مولانا غلام رسول مہر اور پروفیسر حمید احمد خان شامل ہیں۔ حکمرانوں و سیاستدانوں میں ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن، جنرل محمد ضیاء الحق، شاہ فیصل، سلیمان ڈیمرل، خانِ قلات احمد یار خان بلوچ، چوہدری محمد علی اور ائیرمارشل اصغر خان کے اسمائے گرامی ہیں۔ ادیبوں میں قدرت اللہ شہاب صاحب موجود ہیں۔ حکیم محمد سعید دہلوی کا انٹرویو بھی شامل ہے جنھیں ظالموں نے نہایت بے دردی سے کراچی میں شہید کر دیا تھا۔
الطاف حسن قریشی صاحب کے کیے گئے ان انٹرویوز کا مطالعہ کرتے ہوئے نظریں ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا مودودی سے مکالمے پر ان مقامات پر آ کر رُک گئیں جہاں ان دونوں دینی و سیاسی شخصیات نے مسئلہ کشمیر، بھارت اور جہادِ کشمیر پر بحث کی ہے۔ پاکستان بنتے ہی جہادِ کشمیر کا آغاز ہُوا تو مولانا مودودی کے ایک بیان نے خاصا ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ گزشتہ روز اخبارات میں یہ خبر اس عنوان سے شایع ہوئی کہ مولانا جہادِ کشمیر کو حرام سمجھتے ہیں۔ مولانا نے اپنا موقف اخبارات کو بھیجا، لیکن کسی نے شایع نہیں کیا۔
آنے والے حالات نے ثابت کیا کہ مولانا کا موقف قرآنی تعلیمات کے عین مطابق اور اجتماعی سلامتی کا ضامن تھا۔ آج مذہبی انتہا پسندی اور غیر ریاستی عناصر کی دہشت گردی قرآن کے بنیادی تصورات سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ مولانا کی دینی بصیرت نے سلامتی کا راستہ دکھایا۔ جب پاکستان کے وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ خاں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ اعلان کیا کہ ہماری فوجیں کشمیر میں لڑ رہی ہیں، تو مولانا نے اپنی جماعت کو جہادِ کشمیر میں حصہ لینے کی تلقین فرمائی اور تمام مسلمانوں کو بھی اپنا فریضہ ادا کرنے کا احساس دلایا۔''
مولانا مودودی کا یہ انٹرویو اردو ڈائجسٹ کے شمارہ نومبر 1962 میں شایع ہوا تھا۔ 53 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ آج بھی تروتازہ لگتا ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے کوئی چار سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کا بھی طویل انٹرویو کیا، جب وہ پاکستان کے وزیر ِخارجہ تھے۔ یہ انٹرویو اردو ڈائجسٹ میں جون 1966میں شایع ہوا، جب کہ 65کی جنگِ ستمبر کی بازگشت ابھی فضا میں باقی تھی۔
بھٹو صاحب نے بھارت اور مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے یوں کہا تھا۔ ''ہندو برہمن نے پاکستان کا وجود کبھی تسلیم نہیں کیا، تاہم اب اس کی مسلم کش پالیسی نے ایک نیا روپ دھار لیا ہے۔ ہندو سیاستدان تعاون اور دوستی کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ ان کا مقصد پاکستان کی صورت میں ہندو تہذیب کے خلاف تعمیر ہونے والے قلعے میں شگاف ڈالنا ہے۔ ہم نے ان پر یہ حقیقت بار بار واضح کی ہے کہ تعاون صرف دو برابر ملکوں کے درمیان ہو سکتا ہے۔ تم (ہندو) جب تعاون کی بات کرتے ہو، تو تمہارے پیشِ نظر پاکستان کی تسخیر ہے۔ ہم آج ایک فیصلہ کُن موڑ پر کھڑے ہیں اور بہت جلد ہمیں ایک انتہائی نازک اور اہم فیصلہ کرنا ہو گا۔ ہم بھارت کے دامِ فریب سے اچھی طرح واقف ہیں اور تعاون کے نام پر پاکستان کا وجود ہر گز خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔
ہم انشاء اللہ حق اور صداقت کی فیصلہ کن جنگ لڑیں گے، اگر بھارت نے ہمیں للکارنے کا ایک بار پھر ارتکاب کیا۔ ہمیں اپنی آزادی اور کشمیر کے پچاس لاکھ انسان عزیز ہیں۔ ہمیں اپنی عزت اور اپنی تہذیب عزیز ہے۔ حالات بتا رہے ہیں ان کی حفاظت کے لیے ہمیں ایک بار پھر میدان میں اترنا پڑے گا۔'' (ملاقاتیں کیا کیا، صفحہ 86) حیرانی کی بات یہ ہے کہ بھارت اور کشمیر کے بارے میں بھٹو صاحب کے تو یہ خیالات تھے لیکن ان کے داماد جب صدرِ پاکستان بنے تو وہ بھارت کو اپنے دل میں بسانے کے شدید آرزو مند نظر آئے۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے اندر ہی سے بعض لوگ بھٹو کے نواسے، بلاول بھٹو زرداری، کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ اپنی تقریروں میں کشمیر کا ذکر نہ کیا کیجیے۔
جناب الطاف حسن قریشی نے اس کتاب میں اب دعویٰ اور انکشاف کیا ہے کہ اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ان سے بہت ناراض ہوئے تھے اور دونوں کے درمیان فون پر سخت تلخی بھی ہوئی تھی کہ مبینہ طور پر صدر ایوب خان اس انٹرویو کی وجہ سے بھٹو سے ناراض ہو گئے تھے۔ الطاف صاحب لکھتے ہیں: ''بھٹو نے (فون پر) آہستگی سے کہا اردو ڈائجسٹ میں شایع شدہ انٹرویو کے باعث مَیں (ایوبی) کابینہ سے نکال دیا گیا ہوں۔'' (صفحہ 89) مسئلہ کشمیر، بھارت اور جہادِ کشمیر کے بارے میں مولانا مودودی علیہ رحمہ اور بھٹو شہید کے ان خیالات کو سامنے لانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ فروری کے پہلے ہفتے پاکستان بھر میں ''یومِ یک جہتی کشمیر'' بھی تو منایا جاتا ہے؛ چنانچہ ضروری خیال کیا گیا ہے کہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہمارے سابقہ سیاسی و دینی قائدین کے خیالات و نظریات کیا رہے ہیں۔
ان دونوں انٹرویوز کے تقریباً گیارہ سال بعد الطاف حسن قریشی صاحب نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کا انٹرویو کیا۔ بقول الطاف صاحب، یہ انٹرویو بھی جنرل ضیاء کی شدید ناراضی کا باعث بنا، اس قدر کہ جنرل صاحب نے انھیں جیل میں ڈال دیا۔ مگر کیوں؟ اس کا بڑا دلچسپ اور انکشاف خیز احوال زیرِ نظر کتاب ''ملاقاتیں کیا کیا'' میں قلمبند کیا گیا ہے۔ اس کی قیمت 1490 روپے ہے۔ سیاست و صحافت سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اس پتہ پر خط لکھ کر یہ معرکہ آرا کتاب منگوا سکتے ہیں: جمہوری پبلی کیشنز، -2 ایوانِ تجارت روڈ، لاہور۔ فون نمبر 042-36314140