نئے سفر کا آغاز
پاکستان میں بھی نادیدہ قوتوں نے انھیں قتل و غارت کے ذریعے پاکستان پر قبضے کی کھلی چھٹی دی۔
www.facebook.com/shah Naqvi
آرمی چیف راحیل شریف نے کہا ہے کہ ''پاک فوج ایک عظیم ادارہ ہے۔ مدت ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا۔ مقررہ وقت پر ریٹائر ہو جاؤں گا۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوششیں پورے عزم کے ساتھ جاری رہیں گی۔'' آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ ''پاکستان کا مفاد ہر چیز پر مقدم ہے اور اس کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا''۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جنرل راحیل شریف پاکستانی عوام میں مقبولیت کی جن بلندیوں پر ہیں' اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اس کی واحد وجہ دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب کا شروع ہونا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے دہشت گرد' ان کے سہولت کار اور ہمدرد اس ملک میں دندنا رہے تھے۔ پورے ملک پر قبرستان کی سی خاموشی طاری تھی۔ 60 ہزار بے گناہ پاکستانی شہید ہو چکے تھے۔ کوئی ان کے خلاف بول نہیں سکتا تھا۔ صرف مذمتی بیانات جاری تھے۔ بازاروں محلوں شہری آبادیوں میں نہتے عوام کا قتل عام جاری تھا جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا لیکن انھیں اس سے کیا سروکار۔ انھوں نے تاریخ سے ایک ہی سبق سیکھا تھا جتنی زیادہ قتل و غارت کرو گے اتنی ہی فتوحات تمہارے قدم چومیں گی۔
پاکستان میں بھی نادیدہ قوتوں نے انھیں قتل و غارت کے ذریعے پاکستان پر قبضے کی کھلی چھٹی دی۔ وہ نادیدہ قوتیں ہیں جن کا جال مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک پھیلا ہوا ہے۔ جس کے تاریک سائے پاکستان تک دراز ہیں۔ ارادہ یہ تھا کہ بے پناہ قتل و غارت کے ذریعے پاکستانی عوام کو خوفزدہ کر کے پاکستان پر قبضہ کیا جائے۔ حکومت اس قتل و غارت کے سامنے عضو معطل بنی رہی سوائے مذمتی بیانات جاری کرنے کے۔
پاکستان میں انتہا پسندوں کے سیاسی حملے کا عمل جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوا۔ ان قوتوں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی گئی۔ بنیاد پرستانہ سوچ ہر شعبے میں چھا گئی۔ یہاں تک کہ سرد جنگ گرم جنگ میں بدل گئی۔ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک خطے میں موجود عوام دشمن قوتوں کے لیے یہ سنہرا موقعہ تھا جو تاریخ نے افغانستان میں جنگ کے نتیجے میں ان کی جھولی میں ڈال دیا۔ پوری تاریخ پڑھ جائیں' ہزاروں سال میں عوام دوست اور عوام دشمن قوتوں میں جب بھی فیصلہ کن مقابلہ ہوا مقدر کے ان دیکھے ہاتھ نے ہمیشہ ہی عوام دشمن قوتوں کا ساتھ دیا۔ یہ ایک ایسا عظیم المیہ ہے جو نا سمجھ میں آنے والا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو سے سبق سیکھتے ہوئے مذہبی قوتوں کو اپنا دست و بازو بناتے ہوئے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ عوام دوست ترقی پسند قوتوں کو بے رحمی سے کچل دیا گیا۔ ضیاء الحق دور میں جنگی پیمانے پر تمام ریاستی اداروں اور میڈیا کی تطہیر کرتے ہوئے انھیں رجعت پسندوں سے بھر دیا گیا۔ عوام دوست سیاسی قوتوں کو شکست دینے کے لیے نئی قیادت تخلیق کی گئی۔ یہ قیادت شدت پسندوں کا سیاسی چہرہ تھی جس نے ایک طرف ضیاء الحق کا مشن پورا کرنے کا اعلان کیا تو یہ بھی کہا گیا کہ ہم پاکستان میں ملا عمر کا اسلام نافذ کریں گے۔ پھر اسی پر بس نہیں ہوئی۔ آگے چل کر کہا گیا کہ ہماری اور طالبان کی سوچ اور منزل ایک ہے۔ پھر اسی سوچ کا تسلسل ہی تھا کہ ایک دہشت گرد کی موت پر غم و اندوہ کا اظہار کیا گیا تو پاک فوج کے جوان نہیں بلکہ دہشت گرد شہید قرار پائے۔
پاکستان میں خاندانی بادشاہت کو دوام دینے کے لیے انتہائی سمجھداری سے مذہب کا ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ ان کی آئیڈیل مشرق وسطیٰ کی بادشاہتیں ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے استعفی کے اعلان پر دہشت گرد، ان کے سہولت کار اور ہمدرد خاص طور پر بہت خوش ہیں۔ جب کہ ایک ٹی وی پروگرام میں پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے مرکزی لیڈر تاج حیدر نے راحیل شریف کے استعفی کے بعد ضرب عضب کے مستقبل پر انتہائی محتاط الفاظ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت کے اندر ایک طاقتور گروہ دہشت گردوں کو گلے لگانے کے لیے بے تاب ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آج سے چند ماہ پیشتر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام آباد میں کچھ لوگ داعش کا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔ تو پیارے قارئین اب تو آپ کو جان لینا چاہیے کہ وہ کون لوگ ہیں۔
یہ راحیل شریف ہی تھے جنہوں نے یمن جنگ کا ایندھن پاک فوج کو بنانے سے انکار کیا اور سعودی ایران بحران میں فریق بننے سے انکار کر دیا۔ تو قارئین اس پس منظر کو ہر گز نظر انداز نہ کریں۔ یہ جنرل راحیل کی شخصیت ہی تھی جو 'ناں' کر سکتی تھی۔ آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بہر حال یہ طے ہے کہ اب پاکستان جس راہ پر چل پڑا ہے' اسے اس سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن رکے گا نہیں اور جو قوت اسے روکنے کی کوشش کرے گی' اس کا سیاسی مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا کیونکہ پاکستان کی اشرافیہ بھی اب عالمی تنہائی سے نکلنا چاہتی ہے اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان کو ایک جدید جمہوری ریاست میں تبدیل کیا جائے۔ اب پاکستان نے نئے سفر کا آغاز کر دیا ہے جو جاری رہے گا۔
٭پاکستان میں بعض اہم فیصلوں اور اقدامات کا آغاز مارچ اپریل سے ہو جائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997