پاکستان اور صوبے
پاکستان میں دس صوبے ہونے چاہئیں، تو کوئی کہتا ہے بیس صوبے ہونے چاہئیں،
لاہور:
پاکستان میں دس صوبے ہونے چاہئیں، تو کوئی کہتا ہے بیس صوبے ہونے چاہئیں، کوئی کتاب لکھتا ہے کہ دنیا میں کس ملک میں کتنے صوبے ہیں، کوئی بتاتا ہے کہ پاکستان کا ایک صوبہ کتنے ملکوں سے بڑا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ ہمارا ملک صوبوں کے حوالے سے بڑا بدقسمت رہا ہے۔ بدقسمتی کی ایک کہانی کے بعد ہم بنگال، سندھ، پنجاب، خیبر اور بلوچستان کی بات کریںگے۔ آج ہمارے کالم میں ابن انشا کی اس حوالے سے خوب صورت شاہکار اردو کی آخری کتاب سے ایک اقتباس بھی ہے، ہم کراچی کو صوبہ بنانے کے حوالے سے بات نہ کریں تو زیادتی ہوگی۔
پاکستان اور صوبے ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں، جب قیام پاکستان کی بات ہوئی تو دیکھا گیا کہ کس صوبے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، کون کون سے صوبے ہیں جن میں کلمہ گو اقلیت میں ہیں۔ پاکستان کی بات ممبئی سے ہوئی کہ یہ وہ شہر ہے جہاں سے قائداعظم منتخب ہوا کرتے تھے۔ لکھنو کو ہم دوسرا نمبر دے سکتے ہیں جہاں سے مسلم لیگ پر مسلمانوں نے سب سے پہلے اعتماد کیا۔
الٰہ آباد اور علامہ اقبال کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں جہاں سے تقسیم کا نعرہ لگایا گیا۔ سندھ اسمبلی قرارداد اور بنگال میں مسلم لیگ کی مقبولیت کو چوتھی اور پانچویں اینٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ لاہور کی قرارداد چھٹی اور خیبر پختونخوا کا ریفرنڈم ساتویں اینٹ تھا۔ جب بلوچوں نے کوئٹہ میں بیٹھ کر پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تو یہ فیصلہ کن تکمیل تھی۔ وقتی تکمیل یا ناممکن ایجنڈا کہ کشمیر صوبہ نہیں تھا بلکہ یہ ریاست تھی اور عوام کے بجائے نواب سے پوچھا جانا تھا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور اس کے صوبے ساتھ ساتھ چل کر یوم آزادی تک پہنچے ہیں۔
بدقسمتی کیا رہی؟ بنگال اتنا بڑا صوبہ تھا کہ باقی چار صوبے مل کر بھی آبادی میں اس سے کم تھے۔ 56 اور 44 کا اتنا شور مچا کہ خدا کی پناہ۔ پیریٹی یا مساوات یا ففٹی ففٹی کا فارمولا طے کیا گیا۔ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ختم کرکے ون یونٹ بنادیا گیا۔ بنگال کی شکایت تھی کہ ون مین ون ووٹ نہیں ہے، سندھ کا کہنا تھا کہ اس نے پہلے اپنا کراچی دے دیا، وہ واپس کیا گیا تو سندھ کو صوبہ نہ رہنے دیا گیا۔ معاملہ یہ ہوگیا کہ سر ڈھانپتے تو پاؤں کھلے رہ جاتے اور پیروں کو ڈھکتے تو سر ننگا رہ جاتا۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ ابن انشا اپنے پر لطف انداز میں کس طرح گہرے مسائل کو بیان کرگئے ہیں۔
پاکستان کے دو حصے ہیں۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان یہ ایک دوسرے سے بڑے فاصلے پر ہیں۔ کتنے بڑے فاصلے پر، اس کا اندازہ اب ہورہا ہے، دونوں کا اپنا اپنا حدود اربع بھی ہے۔ آگے چل کر ابن انشا جغرافیہ کا سبق، تاریخ، گرامر کا سبق سے ہوتے ہوئے کچھ کہانیاں بیان کرتے ہیں، ایک کہانی چڑا اور چڑیا کی بھی ہے، ہلکے پھلکے انداز میں ہم اس دور کے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں، جب مشرقی بنگال کا صوبہ ہمارے ساتھ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔
ابن انشا کہتے ہیں ''ایک تھی چڑیا، ایک تھا چڑا، چڑیا لائی دال کا دانہ، چڑا لایا چاول کا دانہ، اس سے کچھڑی پکائی، دونوں نے پیٹ بھر کر کھائی، آپس میں اتفاق ہو تو ایک ایک دانے کی کچھڑی بھی بہت ہوتی ہے، چڑا بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل میں وسوسہ آیا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے اور دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ دوسرے روز کچھڑی پکی تو چڑے نے کہاکہ اس میں چھپن حصے مجھے دے، چوالیس تو لے۔ دوسرے دن پھر چڑیا دال کا دانہ لائی اور چڑا چاول کا دانہ لایا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈیا چڑھائی اور کچھڑی پکائی، چڑے کو خالی چاول سے پیچش ہوگئی اور چڑیا کو خالی دال سے قبض ہوگئی۔
بنگال الگ ہوگیا تو ایک نئی بدقسمتی شروع ہوگئی۔ اب پنجاب اتنا بڑا ہے کہ تینوں صوبے مل کر بھی اس سے آبادی میں کم ہیں۔ بھٹو نے اس مسئلے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سینیٹ کا تصور دیا کہ اس میں تمام صوبوں کی برابر نمایندگی ہو، اب صوبوں کو کیسے چھوٹے یونٹ میں تشکیل دیا جائے، پنجاب اسمبلی نے اپنے صوبے کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کرلی ہے، اس بات پر اتفاق ہے کہ صوبے لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر بننے چاہئیں۔
سندھ کے پرانے باسی اپنے صوبے کی تقسیم کے حوالے سے جذباتی ہیں، ان کا ایک مسئلہ پنجاب سے ہے تو دوسرا کراچی سے، اگر صرف پنجاب کو تقسیم کرکے دو تین چھوٹے حصوں میں بانٹ دیا جائے تو اس طرح ان کی سینیٹ میں تعداد بڑھ جاتی ہے۔ کراچی وادی مہران کا واحد اور اکلوتا بڑا شہر ہے، پورٹ سٹی اور صنعتوں کا ہب۔ یہاں پرانے سندھی بڑی کم تعداد میں ہیں، کراچی کو الگ صوبے بنانے کا مطلب ہے کہ پرانے سندھی سو سال پیچھے رہ جائیں۔
پنجاب میں لاہور کے علاوہ پنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور ملتان بڑے شہر ہیں، سندھ میں ایسی صورتحال نہیں، یوں پرانے سندھیوں کی یہ عجیب کیفیت اپنے صوبے کی تقسیم کے حوالے سے بڑی حساس ہے، یہ نازک معاملہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نہیں۔ ہزارہ صوبے کے حوالے سے پشتو بولنے والے اس قدر جذباتی نہیں، جتنے کہ سندھی ہیں۔ بلوچستان کے بلوچ بھی پختون بیلٹ کے الگ انتظامی یونٹ کے قیام کے حوالے سے متفق ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقے، صوبوں سے پختون ہیں اور الگ ہوجاتے ہیں تو بلوچوں کو کوئی اعتراض نہیں۔ سب سے نازک معاملہ سندھ کا ہے۔ اب اہل کراچی کیا کریں؟
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، ہر صوبے، ہر شہر، ہر ڈویژن بلکہ ہر ضلع کے ہزاروں، لاکھوں لوگ یہاں دو تین نسلوں سے رہ رہے ہیں۔ دو دو عشرے مسلم لیگ اور مذہبی پارٹیوں کو دینے کے بعد کراچی پچھلے تیس برسوں سے ایم کیو ایم کو ووٹ دے رہا ہے، سپریم کورٹ کے مسلسل دباؤ کے بعد پیپلزپارٹی نے پہلی مرتبہ یہاں بلدیاتی انتخابات کروا دیے ہیں، سندھ اسمبلی نے ایسی قانون سازی کی ہے کہ شہر قائد کے منتخب نمایندے ہر معاملے میں ان کے محتاج رہیں۔ معاملہ بڑا نازک ہے، فیصلہ ان لوگوں نے کیا ہے جن کے پاس کراچی کا ڈومیسائل نہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو عید کراچی میں نہیں مناتے، شہر قائد کے حوالے سے فیصلہ کرنے والے اس شہر میں دفن بھی نہیں ہوںگے، بد قسمتی کی کیفیت یوں بھی ہے کہ شہری سندھ ایک پارٹی کو اور دیہی سندھ ایک پارٹی کو ووٹ دے رہا ہے، کبھی کوئی ایک پارٹی دونوں حصوں کی نمایندہ بھی نہیں رہی ہے۔
سندھ کے منتخب نمایندے دوراہے پر ہیں، پرانے سندھی کراچی کو فنڈز اور اداروں پر اختیارات دینے کو تیار نہیں، شہر قائد کی منتخب قیادت با اختیار کراچی یا صوبے کی انتظامی تقسیم میں سے ایک کو چننے والی ہے، اگر فیصلہ سمجھ داری سے نہیں کیا گیا تو ایک اور بدقسمتی ہماری منتظر ہے۔