پاکستان اور ایران کی سوچ کا فرق
دونوں ہی کیفیات ابنارمل ہیں، جو انسان کو دوستوں سے محروم کردیتی ہیں
میں نے حجاب کیے صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایرانی ایئرہوسٹس سے چائے کے لیے دودھ طلب کیا، اس نے سپاٹ چہرے سے میری طرف دیکھا، کچھ دیر بعد خشک دودھ کا چھوٹا سا پیکٹ مجھے تھما کر چلی گئی، اس کا رویہ روکھا اور مہمان نوازی سے عاری تھا۔ میں اپنی والدہ اور بیوی کے ساتھ پہلی بار ایران زیارات پر جانے کے لیے ایران ایئر لائن میں سوار تھا۔ ایرانی چائے میں دودھ کا استعمال نہیں کرتے، فقط قہوے کو ہی چائے کہا جاتا ہے۔
ہماری فضائی میزبان کے اس روکھے رویے نے میرے ذہن میں ایرانیوں کے لیے موجود اچھے جذبات کو دھچکا سا پہنچایا، میں جو اب تک ان کے بارے میں مثبت تاثر رکھتا تھا اس میں ایک دراڑ سی پڑگئی۔ میرا کسی ایرانی سے یہ دوسری بار براہ راست واسطہ پڑ رہا تھا۔ پہلی بار ویزے کے حصول کے سلسلے میں ایرانی قونصلیٹ میں موجود عملے سے مل کر بھی مجھے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ 2009 کی ایک دوپہر ساڑھے تین بجے کی بات ہے، جب ہمارا طیارہ تہران کے امام خمینی ایئرپورٹ پر اترا اور پہلی بار میرا ایران کے مقامی لوگوں سے واسطہ پڑا، وہاں موجود عملے کا رویہ بھی ہمارے ساتھ اس ایئرہوسٹس سے کچھ مختلف نہ تھا۔ ہمارے برادر ملک اور ان کے ہم مسلک ہونے کے باوجود ان ایرانی امیگریشن افسروں کا ہمارے ساتھ رویہ غیر دوستانہ تھا، ان کے چہروں پر کوئی استقبالیہ مسکراہٹ تھی نہ ہی آنکھوں میں کوئی اپنائیت۔ ان کی بے رخی کا یہ رویہ میرے لیے ایک تلخ انکشاف تھا۔ کیونکہ میرے ذہن میں بچپن سے ہی ایرانیوں کی ایک مہربان سی تصویر تھی۔ ہم تین راتیں قم، چار مشہد اور چند گھنٹے تہران میں رہے لیکن ہر جگہ ایرانیوں کا ہمارے ساتھ عموماً یہی رویہ رہا۔
اگرچہ قم میں بی بی معصومہؑ اور مشہد میں امام علی رضاؑ کے حرم میں موجود عملے کا زائرین کے ساتھ برتاؤ بہتر تھا، مگر سڑکوں، بازاروں میں موجود شہری ان سے مختلف اور سرد رویوں کے مالک تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایران میں ایک ہفتے کے قیام کے دوران میری ان کے بارے میں رائے تبدیل ہوگئی۔ مجھے وہ خودپسندی میں مبتلا دکھائی دیے، ایک طرف ان کی نوجوان نسل امریکا سے متاثر، وہاں جانے کی آرزومند اور انگریزی نہ جاننے کے باعث احساس کمتری میں مبتلا تھی تو دوسری جانب پاکستان و دیگر پڑوسی ممالک کے معاملے میں احساس برتری کا شکار۔
دونوں ہی کیفیات ابنارمل ہیں، جو انسان کو دوستوں سے محروم کردیتی ہیں۔ یہی خودپسند کیفیت عرب قوم کی بھی ہے ان کو اپنے عرب اور ان کو ایرانی ہونے پر ناز ہے۔ دشمن اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ایک کو دوسرے کے ہاتھوں تباہ کرنے کی بساط بچھا رہا ہے مگر ہم ہوش کے ناخن لینے کے بجائے آستینیں چڑھانے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں اگر پاکستان جیسا کوئی مخلص دوست آگے بڑھ کر ان میں صلح کرانے کے لیے قدم اٹھاتا ہے تو دونوں ملک گرمجوشی سے اس کا استقبال کرنے کے بجائے ان میں سے ایک نامناسب رویے کا مظاہرہ کرکے پاکستانی عوام کو مایوس کردیتا ہے۔
بہرحال، خوش قسمتی سے ایران میں ہمارے میزبان پاکستانی تھے جو تین دہائیوں سے وہاں آباد تھے، جن کے بچوں میں سے ایک کے سوا کسی کو اردو نہ آتی تھی۔ انھوں نے دل و جان سے ہماری میزبانی کی، ہمیں کوئی شکایت نہ ہونے دی، اپنا گھر اور دل ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ وہاں مجھے ہم پاکستانیوں کی قدر و قیمت و منزلت سمجھ آئی، جن میں برائیاں نکالتے ہم زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں، جن کے بارے میں ہمارے میڈیا، اخبارات، صحافی خامیوں کے انبار لگاتے نہیں تھکتے، ایران میں مجھے ہم پاکستانیوں کی 'مہمان نوازی' اور 'مہمان کو عزت دینے' والی خوبی پر اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس ہوا۔ وہاں مجھے احساس ہوا کہ اللہ نے ہم پاکستانیوں کو 'مہمان نوازی' کی کتنی بڑی نعمت و اعزاز سے نوازا ہے۔ ہم واقعی دنیا کی مہمان نواز ترین قوم ہیں۔
ہم جیسی مہمان نوازی کرنے کا دل گردہ ہرکسی کے پاس نہیں، یہی وجہ ہے جو غیر ملکی بھی ایک بار پاکستان سے ہوجائے پھر ساری عمر ہماری مہمان نوازی فراموش نہیں کرپاتا۔ ہم گھر آئے دشمن کو بھی سر آنکھوں پر بٹھانے والی قوم ہیں۔ جس کی تازہ مثال حال ہی میں اس وقت دیکھنے میں آئی جب بھارتی وزیراعظم کسی پیشگی پروگرام کے بغیر اچانک پاکستان آپہنچے، مگر پاکستانی وزیراعظم نے سرد رویہ اختیار کرنے کے بجائے خندہ پیشانی سے طیارے تک جا کر گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا، انھیں اپنے ساتھ گھر لے گئے، بیٹوں اور دیگر معززین سے ملوایا، بہترین مہمان نوازی کے بعد تحفے تحائف کے ساتھ خود جہاز تک آکر رخصت کیا، اس تلخ حقیقت کے باوجود کہ بھارت پاکستان کا برادر اسلامی یا دوست نہیں بلکہ دشمن ملک ہے۔
جب کہ اس کے مقابلے میں ایران کا پاکستان کے ساتھ سرد رویہ ایسے نازک وقت ہمارے سامنے آیا جب پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نیک مقصد کے تحت سعودی عرب، ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی ختم کرانے کی غرض سے ان دونوں اسلامی ممالک کے دوروں پر پہنچے۔ سعودی عرب نے تو پاکستانی وزیراعظم اور وفد کا گرمجوشی سے استقبال اور مہمان نوازی کی، شاہی محل میں ان کے لیے کھانے کا اہتمام کیا گیا، پاکستانی وفد کو شاہی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا، ان کی خدمت میں کوئی کمی نہ کی گئی، مگر جب پاکستانی وزیراعظم اپنے وفد کے ہمراہ ایران پہنچے تو سرد رویے اور محدود پروٹوکول کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق تہران پہنچنے پر ملاقات سے پہلے وزیراعظم کو اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے بجائے ایک چھوٹے سے پورچ والے ہوٹل لے جایا گیا جہاں وزیراعظم کے سوا وفد کے تمام ارکان کو سڑک پر گاڑیوں سے اتر کر پیدل چل کر لابی تک جانا پڑا ، وفد کے صرف چھ ارکان کو ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری اور صدر حسن روحانی سے ملاقات کی اجازت دی گئی، باقی وفد صدارتی محل کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑا رہا، ایرانی اہلکار بھی ان سے مہمان نوازی سے پیش نہ آئے۔ یاد رہے پاکستانی قیادت وہاں ایران سے مدد مانگنے نہیں ان کی مدد کرنے گئی تھی، دو برادر اسلامی ممالک کو تباہی و کشت و خون سے بچانے کے مقدس جذبے سے۔ لیکن ایرانی قیادت نے انھیں وہ عزت و احترام نہ دیا جس کے وہ مستحق تھے۔
پاکستانی قوم ایک عزت دار، مہمان نواز قوم ہے جو مہمانوں کی عزت کرنا اپنا دینی اور اخلاقی فرض سمجھتی ہے اور اسی قسم کے برتاؤ کی توقع دوسروں سے بھی اپنے لیے کرتی ہے، خصوصاً ایران جیسے برادر اسلامی ملک سے، جہاں ہر سال ہزاروں پاکستانی زیارتوں کی غرض سے پہنچتے ہیں، ان کے جذبات اور عزت نفس کا خیال رکھنا ایرانی حکومت اور شہریوں کا فرض ہے۔
پاکستان میں بسنے والے اٹھارہ کروڑ مسلمانوں میں سے پونے تین کروڑ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، یہ سب اپنے وطن سے ایمان کی حد تک محبت رکھتے ہیں، اس کی عزت کے لیے کسی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے، ان کے منتخب وزیراعظم کو عزت و احترام دینا میزبان ملک کی اہم ذمے داری ہے کیونکہ انھیں عزت دینا پاکستانی قوم کو عزت دینا ہے اور ان کی بے توقیری اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی بے توقیری کے مترادف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک دوسرے کے عوام کے دلوں میں گھر کرنے والے اقدامات کیے جائیں، نہ کہ فاصلے اور دوریاں بڑھانے والے۔ ایران کا پاکستانی وزیراعظم و وفد کے ساتھ حالیہ سرد رویہ نامناسب تھا جو تمام پاکستانیوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا۔