کہہ دیجیے اپنے دل کی بات
اندر ہی اندر گھٹتے رہنا بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے
BAHAWALPUR:
اداسی، مایوسی، نفسیاتی توڑ پھوڑ اور ذہنی خلفشار ان کیفیات سے تقریباً ہر شخص ضرور گزرتا ہے، مگر یہ کیفیت اگر مستقلاً طبیعت پر حاوی رہے، تو انسان ذہنی بیماری اور نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، یہ چیزیں آگے چل کر بہت سنگین صورت حال سے دو چار کرتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کی خواتین، خصوصاً وہ جو گھر پر رہتی ہیں، وہ اس طرح کی کیفیت سے دو چار ہیں۔ اپنی زندگی کے مسائل ازدواجی معاملات، سسرال والوں کے ترش و تند رویے، معاشی تنگی اور اسی طرح کے دیگر مسائل ایک خاتون خانہ کو بری طرح سے متاثر کر رہی ہیں۔ اس پر مستزاد کچھ خواتین کو اپنے دل کی بات کہنے اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے اور اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع بھی نہیں ملتا وہ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر کسی موذی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہیں یا پھر یہ گھٹن کسی سخت اور برے فیصلے کی صورت میں سامنے آتی ہے اور پھر دوسروں کی زندگی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔
انسانی نفسیات ہے کہ وہ اپنی بات کے اظہار کے بعد خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ مشکلات اور پریشانیوں کے شکار لوگوں کے لیے یہ عمل بہت اہمیت رکھتا ہے، جو خواتین نوکری پیشہ ہوتی ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح اپنے اندر کی گھٹن اور الجھن کو باہر نکال دیتی ہیں، مگر ایک گھریلو خاتون کو اس حوالے سے کافی دقت پیش آتی ہے۔ سسرال میں سے اگر کسی سے بھی تعلقات دوستانہ نہ ہوں اور شوہر کا مزاج بھی مصالحت آمیز نہ ہو تو پھر ان کہی باتیں اور احساسات اندر ہی اندر گھٹ کر انہیں دیمک کی طرح چاٹنے لگتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے دل کی باتوںاور واحساسات کا اظہار ضرور کیجیے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھلا کس کے ساتھ اپنی باتوں کو کہا جائے اور پھر اس بات کا بھی خاص دھیان رکھنا ضروری ہے کہ وہ شخص قابل بھروسا اور پُر اعتماد ہو تاکہ آپ کسی دوسری مصیبت میں نہ پھنس جائیں، لہٰذا درج ذیل طریقوں سے آپ اپنے دل کی باتیں اپنے دماغ کے انتشار کو باہر نکال سکتی ہیں۔
٭کسی سہیلی سے رابطہ کیجیے: آپ کی کوئی ایسی سہیلی یا رشتے کی بہن جس سے آپ نہ صرف بے تکلف ہوں بلکہ اس سے متعلق آپ یہ بات بخوبی جانتی ہوں کہ آپ کی بات وہ صرف اپنی ذات تک رکھے گی یا پھر آپ کو نقصان پہنچانے کا سبب نہیں بنے گی، آپ اس سے اپنے دل کی کتھا بیان کر سکتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اپنے خیالات اور باتوں کی پردہ پوشی ایک اچھا عمل ہے، مگر آپ وہ چیزیں اس حد تک بھی مت چھپائیں، جو آپ کو ذہنی و دماغی خلفشار میں مبتلا کر کے آپ کو بیمار کرنے کا سبب بن جائے۔
٭لکھنا شروع کردیں: اکثر لوگوں کو ڈائری لکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگیوں کے اہم واقعات اور قیمتی راز بھی اس میں رقم کر دیتے ہیں۔ ڈائری لکھنا اور خصوصاً اپنے راز اس کے سپرد کر دینا یقیناً ایک خطرناک عمل ہے، کیوں کہ ڈائری کبھی کسی اور کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے اور یہ عمل ہماری زندگی میں مزید مشکلات کا باعث بھی بن سکتا ہے، لہٰذا اس عمل سے بہتر اور محفوظ طریقہ کار یہ ہے کہ آپ اپنے دل کا غبار اور ذہنی الجھنیں کسی تحریر کی صورت میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیں۔ اسی طرح فرضی کہانیاں لکھ کر بھی آپ اپنی اندرونی کیفیت کو باہر لاسکتی ہیں، جب کہ دوسری طرف یہ ایک اچھی اور تعمیری مصروفیت بھی ہوگی۔
٭اپنے شریک حیات کو اعتماد میں لیجیے: میاں بیوی کا رشتہ ذہنی ہم آہنگی، اپس میں ایک دوسرے کے جذبات و احساس کا خیال اور باہمی تعاون سے ہی پروان چڑھتا ہے۔ اگر آپ کسی وجہ کی بنا پر ذہنی و نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں، تو اپنے شوہر کا اعتماد و بھروسا اپنے کردار و عمل سے جیتنے کی کوشش کیجیے، پھر انہیں اپنے مسائل بتا کر انہیں اس بات پر آمادہ کیجیے کہ وہ آپ کے ساتھ دوستانہ روابط رکھیں اور آپ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
٭عبادات پر توجہ کیجیے: عبادات ہمیں اندرونی طور پر سکون پہنچاتی ہیں۔ نماز باقاعدگی سے پڑھنے سے آپ ذہنی و روحانی سکون حاصل کر سکتی ہیں۔
٭نفسیاتی معالج سے رابطہ: بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے ارد گرد اور اطراف میں کوئی ایسا قابل بھروسا انسان دکھائی نہیں دیتا۔ جس پر اعتماد کر کے ہم اپنے دل کی بات کا اظہار کر سکیں، اپنا غم بانٹ سکیں، جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض شوہر حضرات کا رویہ بھی اپنی بیویوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کی صورت حال میں کہ آپ کی بات سننے اور آپ کے احساسات کو سمجھنے والا کوئی نہ ہو اور آپ کسی طرح اپنی کیفیت پر قابو نہ پاسکیں، تو اس کیفیت میں آپ کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کر سکتی ہیں۔ اپنے کیفیت سے اسے آگاہ کر کے آپ اپنے اندر کا غبار نکال سکتی ہیں، نفسیاتی معالج صرف گفتگو اور مشوروں کے ذریعے آپ کے مسائل کا حل پیش کر سکتا ہے۔
جب اور جہاں جیسے آپ کو موقع میسر آئے، اپنا 'کھتارسس' کر کے اپنے اندر جمے ہوئے غبار کو نکال باہر کیجیے، وگرنہ یہ اندرونی گھٹن اور الجھنیں آپ کو مزید سنگین مسائل سے دو چار کر سکتی ہے۔
اداسی، مایوسی، نفسیاتی توڑ پھوڑ اور ذہنی خلفشار ان کیفیات سے تقریباً ہر شخص ضرور گزرتا ہے، مگر یہ کیفیت اگر مستقلاً طبیعت پر حاوی رہے، تو انسان ذہنی بیماری اور نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، یہ چیزیں آگے چل کر بہت سنگین صورت حال سے دو چار کرتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کی خواتین، خصوصاً وہ جو گھر پر رہتی ہیں، وہ اس طرح کی کیفیت سے دو چار ہیں۔ اپنی زندگی کے مسائل ازدواجی معاملات، سسرال والوں کے ترش و تند رویے، معاشی تنگی اور اسی طرح کے دیگر مسائل ایک خاتون خانہ کو بری طرح سے متاثر کر رہی ہیں۔ اس پر مستزاد کچھ خواتین کو اپنے دل کی بات کہنے اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے اور اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع بھی نہیں ملتا وہ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر کسی موذی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہیں یا پھر یہ گھٹن کسی سخت اور برے فیصلے کی صورت میں سامنے آتی ہے اور پھر دوسروں کی زندگی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔
انسانی نفسیات ہے کہ وہ اپنی بات کے اظہار کے بعد خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ مشکلات اور پریشانیوں کے شکار لوگوں کے لیے یہ عمل بہت اہمیت رکھتا ہے، جو خواتین نوکری پیشہ ہوتی ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح اپنے اندر کی گھٹن اور الجھن کو باہر نکال دیتی ہیں، مگر ایک گھریلو خاتون کو اس حوالے سے کافی دقت پیش آتی ہے۔ سسرال میں سے اگر کسی سے بھی تعلقات دوستانہ نہ ہوں اور شوہر کا مزاج بھی مصالحت آمیز نہ ہو تو پھر ان کہی باتیں اور احساسات اندر ہی اندر گھٹ کر انہیں دیمک کی طرح چاٹنے لگتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے دل کی باتوںاور واحساسات کا اظہار ضرور کیجیے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھلا کس کے ساتھ اپنی باتوں کو کہا جائے اور پھر اس بات کا بھی خاص دھیان رکھنا ضروری ہے کہ وہ شخص قابل بھروسا اور پُر اعتماد ہو تاکہ آپ کسی دوسری مصیبت میں نہ پھنس جائیں، لہٰذا درج ذیل طریقوں سے آپ اپنے دل کی باتیں اپنے دماغ کے انتشار کو باہر نکال سکتی ہیں۔
٭کسی سہیلی سے رابطہ کیجیے: آپ کی کوئی ایسی سہیلی یا رشتے کی بہن جس سے آپ نہ صرف بے تکلف ہوں بلکہ اس سے متعلق آپ یہ بات بخوبی جانتی ہوں کہ آپ کی بات وہ صرف اپنی ذات تک رکھے گی یا پھر آپ کو نقصان پہنچانے کا سبب نہیں بنے گی، آپ اس سے اپنے دل کی کتھا بیان کر سکتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اپنے خیالات اور باتوں کی پردہ پوشی ایک اچھا عمل ہے، مگر آپ وہ چیزیں اس حد تک بھی مت چھپائیں، جو آپ کو ذہنی و دماغی خلفشار میں مبتلا کر کے آپ کو بیمار کرنے کا سبب بن جائے۔
٭لکھنا شروع کردیں: اکثر لوگوں کو ڈائری لکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگیوں کے اہم واقعات اور قیمتی راز بھی اس میں رقم کر دیتے ہیں۔ ڈائری لکھنا اور خصوصاً اپنے راز اس کے سپرد کر دینا یقیناً ایک خطرناک عمل ہے، کیوں کہ ڈائری کبھی کسی اور کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے اور یہ عمل ہماری زندگی میں مزید مشکلات کا باعث بھی بن سکتا ہے، لہٰذا اس عمل سے بہتر اور محفوظ طریقہ کار یہ ہے کہ آپ اپنے دل کا غبار اور ذہنی الجھنیں کسی تحریر کی صورت میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیں۔ اسی طرح فرضی کہانیاں لکھ کر بھی آپ اپنی اندرونی کیفیت کو باہر لاسکتی ہیں، جب کہ دوسری طرف یہ ایک اچھی اور تعمیری مصروفیت بھی ہوگی۔
٭اپنے شریک حیات کو اعتماد میں لیجیے: میاں بیوی کا رشتہ ذہنی ہم آہنگی، اپس میں ایک دوسرے کے جذبات و احساس کا خیال اور باہمی تعاون سے ہی پروان چڑھتا ہے۔ اگر آپ کسی وجہ کی بنا پر ذہنی و نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں، تو اپنے شوہر کا اعتماد و بھروسا اپنے کردار و عمل سے جیتنے کی کوشش کیجیے، پھر انہیں اپنے مسائل بتا کر انہیں اس بات پر آمادہ کیجیے کہ وہ آپ کے ساتھ دوستانہ روابط رکھیں اور آپ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
٭عبادات پر توجہ کیجیے: عبادات ہمیں اندرونی طور پر سکون پہنچاتی ہیں۔ نماز باقاعدگی سے پڑھنے سے آپ ذہنی و روحانی سکون حاصل کر سکتی ہیں۔
٭نفسیاتی معالج سے رابطہ: بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے ارد گرد اور اطراف میں کوئی ایسا قابل بھروسا انسان دکھائی نہیں دیتا۔ جس پر اعتماد کر کے ہم اپنے دل کی بات کا اظہار کر سکیں، اپنا غم بانٹ سکیں، جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض شوہر حضرات کا رویہ بھی اپنی بیویوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کی صورت حال میں کہ آپ کی بات سننے اور آپ کے احساسات کو سمجھنے والا کوئی نہ ہو اور آپ کسی طرح اپنی کیفیت پر قابو نہ پاسکیں، تو اس کیفیت میں آپ کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کر سکتی ہیں۔ اپنے کیفیت سے اسے آگاہ کر کے آپ اپنے اندر کا غبار نکال سکتی ہیں، نفسیاتی معالج صرف گفتگو اور مشوروں کے ذریعے آپ کے مسائل کا حل پیش کر سکتا ہے۔
جب اور جہاں جیسے آپ کو موقع میسر آئے، اپنا 'کھتارسس' کر کے اپنے اندر جمے ہوئے غبار کو نکال باہر کیجیے، وگرنہ یہ اندرونی گھٹن اور الجھنیں آپ کو مزید سنگین مسائل سے دو چار کر سکتی ہے۔