عظیم الشان جیل

نیا کو وہی دکھایا جارہا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ بڑے نشریاتی ادارے جو نشر کرتے ہیں ان کا نشر کردہ مواد رد نہیں کیا جاسکتا۔


اے بی رؤف February 01, 2016
وہ عظیم الشان جیل کی مانند ہی ہوگا، بظاہر انسان آزاد مگر، حقیقت میں بے پناہ مجبور ہوگا۔ تم اسے ایک خوفناک فلم کی مانند دیکھو جس میں کردار ہر وقت ایک انجان طاقت کے ہاتھوں ڈرے رہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

دنیا ایک عظیم الشان جیل میں تبدیل ہونے جارہی ہے۔ یہ الفاظ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کے تھے، اور وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے، اُنہوں نے پھر دہرایا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اِس دلیل پر مختلف حقائق پیش کئے۔ تمام سامعین دم سادھے ان کی بات کو غور سے سن رہے تھے۔ یہ خوفناک سچائی بھی ہے اور افسوسناک حقیقت بھی۔ دنیا کی موجودہ ترقی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے۔ یہ محض الفاظ نہیں تھے بلکہ تلخ ترین حقیقت تھی۔

اِس وقت جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ترقی کی منازل طے کرچکے اور خلاؤں کو پار کر رہے ہیں، غرض ہر شعبہِ زندگی میں سائنس نے انقلاب برپا کردئیے ہیں۔ مسلم ممالک صرف تیل بیچ رہے ہیں۔ آپس کی لڑائیاں، دہشت گردی، مذہبی اختلافات اور انرجی کے بدترین مسائل سے جان نہیں چھوٹ رہی۔ ایک دنیا ایک حکومت کے قیام کی کوشش ہو رہی ہیں۔ ایک اور لمحہ فکر یا مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔ ایک یہودی ڈاکٹر GIDEON POLYA نے امریکہ میں مسلمانوں کی نسل کشی پر مقدمہ دائر کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب BODY COUNT AVOIDABLE MORTALITY SINCE 1950 میں تحقیق سے ثابت کیا کہ پچھلی صدی میں غیر طبی طور پر مرنے والے انسانوں کی تعداد 1 ارب 30 کروٖڑ ہے، جس میں سے 60 کروڑ مسلمان ہیں۔

ڈاکٹر مجاہد کامران صاحب نے خصوصی طور پر طالبعلموں کو تلقین کی کہ وہ علم و تحقیق کے میدان پر توجہ دیں اور دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں۔ علم کے بغیر قوموں کا وجود مٹ جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب کی باتیں ذہن میں گھوم رہی تھیں۔ چند دنوں بعد ایک بزرگ محقق دوست سے ملاقات ہوئی۔ اِس محفل میں ڈاکٹر مجاہد کامران صاحب کی تقریر کا ذکر بھی ہوا۔ وہ مسکرا کر بولے جیل کا پہلا مفہوم تو جرم کی سزا پانے کے بعد قیدی کی زندگی کو لوہے کے دروازے، پکی ہوئی مٹی اور پتھر کی دیواروں کے پیچھے قید کرنا ہے، یا پھر ملکوں کی سرحدوں پر لگنے والی باڑیں بھی تو ایک بڑی جیل کی طرح ہیں۔

یہ سرحدوں کی پابندیاں انسان نے پچھلی صدی میں سیکھی ہیں، یہ سلسلہ بھی یورپی اقوام کی طرف سے شروع کیا گیا۔ جس عظیم الشان جیل کی تم بات کر رہے ہو یہ فرد واحد کی آزادی کی بناء پر بنی ہے جو ترقی کے مراحل اب طے ہوئے ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ ڈاکٹر مجاہد صاحب نے آنے والے جس دور کی نشان دہی کی ہے وہ موجودہ صورت حال اور حقائق کے مطابق ہے، وہ عظیم الشان جیل کی مانند ہی ہوگا، بظاہر انسان آزاد مگر، حقیقت میں بے پناہ مجبور ہوگا۔ تم اسے ایک خوفناک فلم کی مانند دیکھو جس میں کردار ہر وقت ایک انجان طاقت کے ہاتھوں ڈرے رہتے ہیں۔ جس کو پتہ ہوتا ہے کہ آپ کہاں اور کیا کر رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی موبائل، انٹرنیٹ، باہمی رابطے کی تمام چیزوں پر کنٹرول تو موجود ہے، مگر اس کو آنے والے چند سالوں تک بہت بڑھا دیا جائے گا۔

باہمی رابطے اس قدر بڑھ جائیں گے کہ رابطہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ طاقتور جاسوسی آلات اور اُڑنے والے کیمرے ابھی ابتدائی شکلیں ہیں۔ کریڈٹ کارڈ، شناختی کارڈ، اے ٹی ایم کارڈ آپ کی لوکیشن کو ظاہر کریں گے۔ کمپیوٹر کی کوئی ہارڈ یا سافٹ فارم محفوظ نہیں ہوگی۔ ابھی بھی دنیا کے بہت سارے ممالک انٹرنیٹ ٹریفیکینگ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کے نصاب تعلیم پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ تمام معاشی لین دین تحقیقات کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ جس کو چاہتے ہیں پیسہ اسی کو پہنچتا ہے۔ GPRS سسٹم کے تحت فردِ واحد کی نگرانی ممکن ہے۔

روبوٹ اور انسان مدِ مقابل آجائیں گے، جنگیں زمین کےعلاوہ خلاؤں میں لڑی جائیں گیں، دنیا پر چند ممالک اور اس کے بعد چند خاندانوں کی حکومت رہ جائے گی۔ اس میں کیمرہ کا کردار بہت اہم ہے۔ دنیا کو وہی دکھایا جارہا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ بڑے بڑے نشریاتی ادارے جو نشر کرتے ہیں پوری دنیا میں ان کا نشر کردہ مواد رد نہیں کیا جاسکتا، وہ مسلسل بولے جا رہے تھے مگر میں حقیقت سے خیالی دنیا میں کھو گیا۔ انہوں نے باقاعدہ میری آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا یہ جو چند باتیں سن کر تمہارا بُرا حال ہو رہا ہے، بالکل اسی طرح دنیا کے تمام ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک کا یہی حال ہے۔

مسلم ممالک کی حکومتیں اور عوام آج بھی جمہوریت سیکھنے کے چکر میں اپنے پورے کے پورے ملک برباد کر بیٹھی ہیں۔ تم جانتے ہو سال 09-2008 میں مشرق وسطیٰ کے ممالک نے تیل کی تجارت میں 1.3 ٹریلین ڈالرکمائے، جس میں صرف سعودی عرب کا حصہ 7 سو ارب ڈالر ہے، مگر یمن میں ہونے والی بغاوت سے نمٹنے کے لئے کبھی بھی کرائے کے فوجیوں کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ پوری دنیا خلاؤں سے نگرانی کی زد میں ہے۔ 9/11 کے بعد CCTV کیمرہ انڈسٹری نے کروڑوں کی تعداد میں کیمرے فروخت کئے ہیں۔ اب ایک اندازہ اور قائم کرو اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ کونسے ممالک اور کون سی قوم متاثر ہوئی ہے۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا، پھر وہ فرمانے لگے۔ براعظم ایشیا، خطہ عرب اور مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پچھلے 20 سالوں میں جنگوں میں مرنے والے مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ یہ سارے لوگ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، پاکستان اور افریقہ میں مارے گئے۔

جنگ کے بعد بُرے حالات کی وجہ سے مرنے والوں کا تعلق بھی جنگ کی ہی کہانی سے ہے۔ عراق اور افغانستان میں کم وسائل کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ عراق میں 10 لاکھ بچے ادویات کی کمی اور بھوک کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے۔ شام میں 12 لاکھ مکانات تباہ ہوچکے، 40 لاکھ سے زائد افراد مہاجر بن چکے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ کم توجہ حاصل کرنے والا علاقہ افریقہ ہے۔ افریقہ والوں کو انسان ہی نہیں سمجھا گیا، جو بد تہذیبی جدید تہذیب نے افریقہ کے ساتھ برتی، وہ ناقابل یقین اور ناقابل بیان ہے۔ خوراک کی کمی اور جنگوں کی بہتاب نے افریقہ میں کروڑوں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں مرضی کی حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ جنہوں نے بھی چوں و چراں کی وہ پھانسی گھاٹ پر گئے یا اپنی ہی عوام کے ہاتھوں سڑکوں پر گھسیٹ کر مارا گیا۔

آخر یہ سب کس بناء پر کیا جا رہا ہے؟ مجھ سے کچھ نہ بن پایا تو میں نے بے اختیار سوال داغ دیا۔ برخوردار انسانیت اور حیوانیت دو چیزوں کے گرد گھومتی ہے۔ وہ پیٹ کی بھوک جس کو معیشت کہا جاتا ہے، اور دوسرا انسانی پیدائش کا سلسلہ یعنی جنس مخالف کی کشش۔ یورپ میں فرد واحد کی آزادی کا پرچار اسی حکمت عملی کے تحت کیا تھا۔ دنیا کوعظیم الشان جیل میں تبدیل کرنے کے لئے انہی دو مجبوریوں کا استعمال کیا جائے گا اور یاد رکھو طاقتور چاہے کسی گاؤں کا زمیندار ہو یا پھر طاقتور ملک، یہ اپنا وضع کردہ نظام ضرور لاگو کرواتے ہیں۔ بڑے مالیاتی ادارے قرض دے کر اپنی شرائط منواتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے مسلسل رائےعامہ کو ہموار کیا جا رہا ہے۔ امریکہ میں قانونِ آزادی کا بل 1878ء میں پاس ہوا۔ جس کو شہریوں کے حقوق کہا جاتا ہے۔ اسی قانون کے تحت 1970ء میں عورت کی مرضی سے اس کا حمل گرانے کی اجازت دی گئی اور پچھلے سال ہم جنسی پرستی کو آئینی شکل بھی اسی قانون آزادی کے تحت دی گئی ہے۔ مغرب اب پیچھے نہیں ہٹ سکتا، دوسری طرف علمی میدان میں ان کی تحقیق میں کوئی مقابل نہیں۔

ہماری بدقسمتی کہ موجودہ علمی تحقیق میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ جاپان نے بہت ترقی کی مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کی فوجی صلاحیت ختم کردی گئی۔ قدرتی وسائل پر قبضوں کی جنگ اب ذہنی قبضے کی جنگ میں بدلنے لگی ہے، آنے والی ٹیکنالوجی ہاتھوں کی لہروں، آنکھوں کے اشاروں سے کام کرے گی۔ انسان کو بد ترین بلیک میلنگ کا شکار کردیا جائے گا۔ کچھ محققین تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ دنیا کی آبادی سمٹ جائے گی۔ یہ عمل فطری نہیں بلکہ غیر فطری ہوگا۔ یہ صدی انسانی تاریخ کی اہم ترین صدی بنے گی۔ مغرب میں جس آزادی کا بے پناہ چرچا ہے، اب اِس آزادی کو خود ہی ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آنے والی یہ آزادی نہایت عجیب و غریب ہوگی، میری یہ باتیں بہت معمولی ہیں مگر تم اس کو محض کہانی مت سمجھو۔ آپ جو بول رہے ہیں یہ تو محض کوئی سائنس فکشن کہانی لگتی ہے میں نے جواب دیا۔ وہ بے اختیار ہنس پڑے تو گویا تم مجھے ابن صفی یا پھر ہیری پورٹر قسم کا کردار سمجھ رہے ہو۔ اچھا تم سوچنا شروع کرو یہ تو بہت ابتدائی باتیں ہیں زندگی کے ہر شعبے میں سائنس نے بے پناہ ایجادات کردی ہیں، پھر کسی دن بات ہوگی۔ اب میری دوا کا وقت ہے اور ہاں اِقبال کے اِس شعر کو بار بار پڑھا کرو،
ہے دل کے لئےموت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کوکچل دیتے ہیں آلات

[poll id="926"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں