جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلائو ہے
میں نے اپنے بچوں پر بھی نظمیں لکھی ہیں اور ان کے بچوں پر بھی لیکن...
آج میرے پوتے عبدالرافع کی دوسری سالگرہ ہے۔ بڑوں سے سنا کرتے تھے کہ اپنے بچوں کے بچے ان سے بھی زیادہ پیارے ہوتے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ مغربی زبانوں کا تو مجھے علم نہیں مگر بیشتر مشرقی زبانوں بلکہ بولیوں تک میں اس موضوع پر جگہ جگہ اسی طرح کے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا گیا ہے جن کا لب لباب یہ ہے کہ اصل سے بیاج پیارا ہوتا ہے۔
جب عقل کے ذریعے سے اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تو گھوم پھر کر یہی نتیجہ نکلا کہ جب اپنے بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو عام طور پر والدین خصوصاً باپ نوکری، ترقی، کیریئر کی جدوجہد اور زندگی کے گوناگوں ہنگاموں میں مصروف ہوتے ہیں' وہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تو ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ان کو دینے کے لیے ان کے پاس وہ وقت نہیں ہوتا جسے عرف عام میں معیاری یا کوالٹی ٹائم کہا جاتا ہے' وہ اپنے بچوں کی شرارتوں سے محظوظ تو ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت شاید اس لیے دیرپا نہیں ہو پاتی کہ بقول شاعر
اس کا پیغام بھی ضروری ہے
پر مجھے کام بھی ضروری ہے
اور یوں پتہ ہی نہیں چلتا کہ بچے کب اور کیسے بڑے ہو گئے ہیں لیکن پوتوں پوتیوں اور نواسے نواسیوں تک آتے آتے یہ صورت حال بہت حد تک بدل جاتی ہے میں اپنے سمیت بہت سے دوستوں کو جانتا ہوں کہ جو اپنے بچوں پر مختلف النوع قسم کی پابندیاں عائد کرتے تھے اور انھیں ایک مخصوص دائرے سے باہر نکلنے کی شاذ و نادر ہی اجازت دیتے تھے مگر ان کے بچوں کے سامنے ان کے سب اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
وہ آپ کی محبوب کتابیں پھاڑ دیں، کاغذات کو تہس نہس کر دیں، آپ کے پسندیدہ قلم توڑ دیں، دیواروں پر طرح طرح کی مصوری کریں یا دسترس میں آنے والی ہر چیز کو توڑ پھوڑ دیں آپ کے پسندیدہ پروگرام کو بند کر کے کارٹون لگا دیں یا بے وجہ چیخنا چلانا شروع کر دیں آپ خود تو کیا ان کے والدین کو بھی ڈانٹنے نہیں دیتے۔
میں نے اپنے بچوں پر بھی نظمیں لکھی ہیں اور ان کے بچوں پر بھی لیکن اسی حوالے سے دونوں میں بہت واضح فرق ہے۔ بہت سال پہلے چینی ادیب لِن یوتانگ کی کتاب Importance of Life کا اردو ترجمہ (جینے کی اہمیت) جو غالباً مختار صدیقی مرحوم کا کیا ہوا تھا پڑھنے کا موقع ملا تھا اس میں خوشگوار بڑھاپے کے بارے میں ایک باب تھا جو اس وقت بھی اچھا لگا تھا جب ابھی ہم پوری طرح جوان نہیں ہوئے تھے۔
اب جو غور کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ شاید ہم اپنے بچوں کے بچوں میں اس وقت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بوجوہ گزارے بغیر گزر گیا تھا اور یہ بھی کہ شاید عمر میں اضافے کے ساتھ انسان خود بھی ایک مختلف انداز میں اپنے بچپن کی طرف مراجعت شروع کر دیتا ہے اور یوں یہ ننھے فرشتے ایک طرح سے اس کے دوست اور ہم جولی بھی بن جاتے ہیں۔ سجاد باقر رضوی مرحوم کا کیا زندہ شعر ہے کہ
میں توڑ توڑ کے خود کو بناتا رہتا ہوں
اب ایک عمر ہوئی پھر بھی بچپنا نہ گیا
تو بات شروع ہوئی تھی عبدالرافع ذی شان کی سالگرہ کے ذکر سے، سو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اس نظم میں بھی شامل کیا جائے جو میں نے لکھی تو اس کے حوالے سے ہے مگر وہ نہ صرف میرے بچوں کے تمام بچوں بلکہ میری عمر کے اکثر قارئین سے بیک وقت مخاطب ہے اور چونکہ نسل در نسل جاری رہنے والی یہ خوشی اللہ کی خاص رحمت ہے اس لیے میں نے اس کا عنوان بھی ''کس منہ سے شکر کیجیے اس لطف خاص کا'' رکھا ہے۔
ایک ہی چھت کے تلے سانس لیا کرتے ہیں
میرے والد، میرا بیٹا، میرا پوتا اور میں
کتنا خوش بخت ہوں میں
کیسا خوش رنگ و سکوں پرور ہے
مرے گھر کا منظر!
ساری دنیا کی طرح
اپنے بچوں سے بہت پیار ہے مجھ کو بھی مگر
جانے یہ بھید ہے کیا
''اُن'' کے بچوں کی محبت کی ہے دنیا کچھ اور
ایک بے نام سمندر کی طرح
جس کی وسعت کا ٹھکانا ہے نہ گہرائی کا
ہر ادا ایک نئے دن کی بشارت جیسی
سلسلہ سا ہے کوئی جیسے مسیحائی کا
اُن کے لہجوں کی کھنک اور ضیا پاشی سے
بجھ چکے تھے جو دریچے، ہوئے روشن پھر سے
جی اٹھا ہے مرے اندر مرا ''بچپن'' پھر سے
اب جو مہکا ہے نیا پھول یہ ''رافع ذی شان''
رابعہ اور علی شان کا عکس رنگین
کسی ارژنگ سا لگتا ہے گلشن پھر سے
دستکیں دیتے ہیں یوں دل سے در و بام تلک
اُن کی آواز کے خوش رنگ ستارے اور وہ
اک عجب کیف کی بے نام سی سرشاری میں
جھومتے رہتے ہیں دن رات ہمارے، اور وہ
دوڑتا پھرتا ہے سارے میں وہ آہو کی طرح
اُس کی آنکھوں میں کوئی چیز ہے جادو کی طرح
بھاگتا جب ہے شرارت کر کے
ہاتھ پھر آتا نہیں پھیلتی خوشبو کی طرح
شکر اس رحمت ربی کا ہو جتنا کم ہے
مرے بچوں کے یہ بچے ہیں امیں خوشیوں کے
ان کے ہونے سے مرے گھر میں سدا
چاندنی رات ہے، پھولوں کا حسیں موسم ہے
کوئی پچھتاوا نہ حسرت ہے نہ کوئی غم ہے!
مستقل لطف و عنایات و کرم کی بارش
مرے ماں باپ پہ، مجھ پر، مری اولاد پہ ہے
کوئی نادیدہ سی برکت ہے مرے چار طرف
مشکلیں لاکھ ہوں، رکتا نہیں رستہ میرا
جیسے ایک ہاتھ مسلسل مری امداد پہ ہے
جب عقل کے ذریعے سے اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تو گھوم پھر کر یہی نتیجہ نکلا کہ جب اپنے بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو عام طور پر والدین خصوصاً باپ نوکری، ترقی، کیریئر کی جدوجہد اور زندگی کے گوناگوں ہنگاموں میں مصروف ہوتے ہیں' وہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تو ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ان کو دینے کے لیے ان کے پاس وہ وقت نہیں ہوتا جسے عرف عام میں معیاری یا کوالٹی ٹائم کہا جاتا ہے' وہ اپنے بچوں کی شرارتوں سے محظوظ تو ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت شاید اس لیے دیرپا نہیں ہو پاتی کہ بقول شاعر
اس کا پیغام بھی ضروری ہے
پر مجھے کام بھی ضروری ہے
اور یوں پتہ ہی نہیں چلتا کہ بچے کب اور کیسے بڑے ہو گئے ہیں لیکن پوتوں پوتیوں اور نواسے نواسیوں تک آتے آتے یہ صورت حال بہت حد تک بدل جاتی ہے میں اپنے سمیت بہت سے دوستوں کو جانتا ہوں کہ جو اپنے بچوں پر مختلف النوع قسم کی پابندیاں عائد کرتے تھے اور انھیں ایک مخصوص دائرے سے باہر نکلنے کی شاذ و نادر ہی اجازت دیتے تھے مگر ان کے بچوں کے سامنے ان کے سب اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
وہ آپ کی محبوب کتابیں پھاڑ دیں، کاغذات کو تہس نہس کر دیں، آپ کے پسندیدہ قلم توڑ دیں، دیواروں پر طرح طرح کی مصوری کریں یا دسترس میں آنے والی ہر چیز کو توڑ پھوڑ دیں آپ کے پسندیدہ پروگرام کو بند کر کے کارٹون لگا دیں یا بے وجہ چیخنا چلانا شروع کر دیں آپ خود تو کیا ان کے والدین کو بھی ڈانٹنے نہیں دیتے۔
میں نے اپنے بچوں پر بھی نظمیں لکھی ہیں اور ان کے بچوں پر بھی لیکن اسی حوالے سے دونوں میں بہت واضح فرق ہے۔ بہت سال پہلے چینی ادیب لِن یوتانگ کی کتاب Importance of Life کا اردو ترجمہ (جینے کی اہمیت) جو غالباً مختار صدیقی مرحوم کا کیا ہوا تھا پڑھنے کا موقع ملا تھا اس میں خوشگوار بڑھاپے کے بارے میں ایک باب تھا جو اس وقت بھی اچھا لگا تھا جب ابھی ہم پوری طرح جوان نہیں ہوئے تھے۔
اب جو غور کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ شاید ہم اپنے بچوں کے بچوں میں اس وقت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بوجوہ گزارے بغیر گزر گیا تھا اور یہ بھی کہ شاید عمر میں اضافے کے ساتھ انسان خود بھی ایک مختلف انداز میں اپنے بچپن کی طرف مراجعت شروع کر دیتا ہے اور یوں یہ ننھے فرشتے ایک طرح سے اس کے دوست اور ہم جولی بھی بن جاتے ہیں۔ سجاد باقر رضوی مرحوم کا کیا زندہ شعر ہے کہ
میں توڑ توڑ کے خود کو بناتا رہتا ہوں
اب ایک عمر ہوئی پھر بھی بچپنا نہ گیا
تو بات شروع ہوئی تھی عبدالرافع ذی شان کی سالگرہ کے ذکر سے، سو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اس نظم میں بھی شامل کیا جائے جو میں نے لکھی تو اس کے حوالے سے ہے مگر وہ نہ صرف میرے بچوں کے تمام بچوں بلکہ میری عمر کے اکثر قارئین سے بیک وقت مخاطب ہے اور چونکہ نسل در نسل جاری رہنے والی یہ خوشی اللہ کی خاص رحمت ہے اس لیے میں نے اس کا عنوان بھی ''کس منہ سے شکر کیجیے اس لطف خاص کا'' رکھا ہے۔
ایک ہی چھت کے تلے سانس لیا کرتے ہیں
میرے والد، میرا بیٹا، میرا پوتا اور میں
کتنا خوش بخت ہوں میں
کیسا خوش رنگ و سکوں پرور ہے
مرے گھر کا منظر!
ساری دنیا کی طرح
اپنے بچوں سے بہت پیار ہے مجھ کو بھی مگر
جانے یہ بھید ہے کیا
''اُن'' کے بچوں کی محبت کی ہے دنیا کچھ اور
ایک بے نام سمندر کی طرح
جس کی وسعت کا ٹھکانا ہے نہ گہرائی کا
ہر ادا ایک نئے دن کی بشارت جیسی
سلسلہ سا ہے کوئی جیسے مسیحائی کا
اُن کے لہجوں کی کھنک اور ضیا پاشی سے
بجھ چکے تھے جو دریچے، ہوئے روشن پھر سے
جی اٹھا ہے مرے اندر مرا ''بچپن'' پھر سے
اب جو مہکا ہے نیا پھول یہ ''رافع ذی شان''
رابعہ اور علی شان کا عکس رنگین
کسی ارژنگ سا لگتا ہے گلشن پھر سے
دستکیں دیتے ہیں یوں دل سے در و بام تلک
اُن کی آواز کے خوش رنگ ستارے اور وہ
اک عجب کیف کی بے نام سی سرشاری میں
جھومتے رہتے ہیں دن رات ہمارے، اور وہ
دوڑتا پھرتا ہے سارے میں وہ آہو کی طرح
اُس کی آنکھوں میں کوئی چیز ہے جادو کی طرح
بھاگتا جب ہے شرارت کر کے
ہاتھ پھر آتا نہیں پھیلتی خوشبو کی طرح
شکر اس رحمت ربی کا ہو جتنا کم ہے
مرے بچوں کے یہ بچے ہیں امیں خوشیوں کے
ان کے ہونے سے مرے گھر میں سدا
چاندنی رات ہے، پھولوں کا حسیں موسم ہے
کوئی پچھتاوا نہ حسرت ہے نہ کوئی غم ہے!
مستقل لطف و عنایات و کرم کی بارش
مرے ماں باپ پہ، مجھ پر، مری اولاد پہ ہے
کوئی نادیدہ سی برکت ہے مرے چار طرف
مشکلیں لاکھ ہوں، رکتا نہیں رستہ میرا
جیسے ایک ہاتھ مسلسل مری امداد پہ ہے