جنہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے
کسی نے بے روزگاری سے تنگ آ کر اپنی زندگی ختم کی تو کسی سے محبت کا...
ہر روز اخبار میں کسی نہ کسی جگہ دو چار نوجوانوں کی خود کشی کی خبر موجود ہوتی ہے۔ کسی نے بے روزگاری سے تنگ آ کر اپنی زندگی ختم کی تو کسی سے محبت کا زخم نہ سہا گیا، کوئی شادی شدہ گھریلو زندگی کا دبائو برداشت نہ کر پایا تو کسی بدنصیب نے سوچے سمجھے بغیر اتنے زیادہ قرضے لے لیے کہ یہ بوجھ اتارنا ممکن نظر نہ آیا۔
فطری طور پر ان اموات کی تفصیل پڑھتے ہوئے مجھے افسوس تو ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ایک عجیب سی جھنجھلاہٹ بھی پیدا ہوتی ہے۔ مجھے غصہ آتا ہے ان پست ہمت اور بزدل لوگوں پر جو زندگی سے لڑنے، اس سے ٹکرانے اور اسے شکست دینے کے بجائے ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ ہمارے چینلز پر جب خود کشی کی ایسی خبریں چلتی ہیں تو اینکر شدید غصے میں حکومت پر برس پڑتے ہیں۔ ہر خود کشی کی ذمے داری صرف اور صرف حکومت پر ڈال دی جاتی ہے، چیخ چیخ کر کہا جاتا ہے کہ ایک اور نوجوان نے اپنی زندگی ختم کر لی مگر حکومت کب جاگے گی... وغیرہ وغیرہ۔
مجھے ہمیشہ یوں لگا کہ ہم اس طریقے سے خود کشی کو گلیمرائز کر رہے ہیں، اسے رومانٹسائز کر رہے ہیں۔ سیدھی سادی، بے رحم حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے لڑنے کے بجائے ہتھیار ڈال دیے، جنگی اصطلاح میں یہ بھگوڑے ثابت ہوئے۔ اللہ ان کی روحوں پر رحم کرے مگر وہ اپنے بعد والوں کے لیے کوئی اچھی مثال چھوڑ کر نہیں گئے۔
یہ درست ہے کہ اس قسم کی اموات کی کسی حد تک ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ ریاست کا کردار ماں کا سا ہوتا ہے اور ان کیسز میں ماں نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی ہوتی۔ معاشرہ بھی کہیں نہ کہیں اس کا ذمے دار ہے، ان لوگوں کے اہل خانہ، دوست، اعزا، محلے دار سبھی ایک حد تک ذمے دار ہیں۔ سچ مگر یہ ہے کہ اپنے اس انجام کے یہ لوگ خود ہی ذمے دار ہیں۔ مصائب ہر کسی پر وارد ہوتے ہیں، ان کی نوعیت اور صورت مختلف ہوتی ہے، کسی پر پہلے اور کسی پر دیر سے۔ بظاہر خوش اور مطمئن نظر آنے والے لوگ بھی اندر سے زخم خوردہ ہوتے ہیں۔
اپنے زخموں سے رستے لہو کو وہ دوسروں سے چھپائے مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی پھولوں کا بستر نہیں، اس میں قدم قدم پر کٹھنائیاں اور پریشانیاں آتی ہیں۔ زندگی کے منہ زور سرکش سانڈ کو سینگوں سے پکڑ کر لڑنا پڑتا ہے۔ یہ لڑائی تاحیات جاری رہتی ہے، اکھاڑے بدلتے رہتے ہیں۔
اس دلیل سے بھی میں کبھی زیادہ مطمئن نہیں ہو سکا کہ ان خود کشی کرنے والوں کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ راستے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ مجھے کراچی کا وہ مقبول لکھاری کاشف زبیر یاد آتا ہے جو حادثاتی معذوری کے باوجود زندگی سے نبرد آزما ہوا۔ شیروں سی جرات اور دلیری سے لڑا اور اپنے حصے کی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ کاشف ڈائجسٹوں کا پاپولر رائٹر ہے۔ سسپنس، جاسوسی اور سرگزشت ڈائجسٹ میں ہر ماہ اس کی کئی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں، ایک مقبول سلسلہ وار کہانی لکھ رہا ہے، اس کی ایک مشہور کہانی کفارہ کتابی شکل میں شایع ہو چکی ہے، ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھنے کا موقع مل چکا ہے۔
مگر یہ سب تو آج کا منظر ہے، اصل کہانی تو بیس پچیس سال پہلے شروع ہوئی جب پانچویں جماعت کے طالب علم گیارہ سالہ کاشف زبیر پر کھیلتے ہوئے پتھر کی سلیب ایسے زاویے سے گری کہ ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو گئی۔ اس کا پورا جسم مفلوج ہو گیا، اگلے ایک سال تک وہ بستر پر رہا۔ پھر ایک دن اس کی باہمت والدہ اسے اٹھا کر محلے میں مقیم ایک ہومیوپیتھ ڈاکٹر کے پاس لے گئی جس کا اپنا تمام جسم مفلوج تھا مگر اس ڈاکٹر نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے ہومیوپیتھی کے ذریعے اپنے اہل خانہ کے لیے رزق کمانے کو ترجیح دی۔
نوعمر کاشف اس ڈاکٹر سے متاثر ہوا۔ آہستہ آہستہ اس نے اٹھ بیٹھنے کی جدوجہد شروع کی۔ اپنی ہمت، کمٹمنٹ اور کوشش کے ذریعے وہ وہیل چیئر پر آ گیا۔ اس نے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کیا۔ وہ یونیورسٹی تک پہنچا۔ اس نے بی کام کیا، پرائیویٹ ایم اے کیا۔ سفر جاری رہا۔
اس دوران اسے لٹریچر کے مطالعے کا شوق پیدا ہو چکا تھا۔ پھر ڈائجسٹ کی کہانیوں سے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے نامور لکھاری علیم الحق حقی کی ایک کہانی نے کاشف زبیر کے اندر کے رائٹر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے اپنی پہلی کہانی لکھی اور اسے جاسوسی ڈائجسٹ پبلی کیشنز بھجوا دیا۔ وہ کہانی شایع ہو گئی تو اس نے تواتر سے لکھنا شروع کر دیا۔ پھر اس ادارے نے اسے باقاعدہ معاوضے پر لکھنے کی پیشکش کی۔ یوں وہیل چیئر پر زندگی گزارنے والے کاشف زبیر کے لیے ایک آبرومندانہ کیریئر کا آغاز ہو گیا۔
پچھلے دس پندرہ برسوں سے وہ متواتر لکھ رہا ہے، اپنے نام کے علاوہ اپنی والدہ پروین زبیر اور اہلیہ مریم کے خان کے قلمی ناموں سے اس کی تحریریں ہر ماہ چھپتی ہیں۔ اپنے گھر میں کمپیوٹر پر کہانی لکھی، تراجم کیے اور ای میل کر دیے، معاوضہ چیک کے ذریعے موصول ہو گیا۔
کاشف زبیر کی عزم و ہمت سے معمور کہانی مجھے زندگی کے کٹھن مرحلوں میں ہمیشہ نیا حوصلہ دیتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک اور شاندار کتاب پڑھنے کو ملی۔ اس کے مصنف معروف صحافی اور سماجی کارکن خالد ارشاد صوفی ہیں۔ خالد کاروان علم فائونڈیشن کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ضرورت مند طلبہ کی مدد کے لیے یہ سماجی تنظیم اردو ڈائجسٹ کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے بنائی ہے، پچھلے چند برسوں میں یہ تنظیم ہزاروں طلبہ کی مالی معاونت کر چکی ہے۔
خالد ارشاد صوفی نے ان میں سے چند طلبہ کی پُرعزم کہانیاں تحریر کی ہیں۔ ''جوہر قابل'' کے نام سے شایع ہونے والی اس کتاب میں 14 سچی کہانیاں شامل ہیں۔ جھنجھوڑ دینے والی اس کتاب کو میں نے ایک ہی نشست میں پڑھا۔ ہر کہانی دل کو چھو لینے والی ہے۔ مجھے کراچی کے عبدالرشید نے بڑا انسپائر کیا۔ چلتا پھرتا یہ صحت مند نوجوان ایک حادثے میں مفلوج ہو گیا، ڈاکٹروں نے کہا کہ باقی زندگی چلنا شاید ممکن نہ ہو پائے۔
اس کی معمولی تعلیم یافتہ مگر پُرعزم بیوی نے اسے حوصلہ دیا اور ہمت دلائی۔ عبدالرشید نے ایسا کرنے کی ٹھان لی۔ اس کے جنون نے اسے پیروں پر لا کھڑا کیا۔ اس نے بیساکھیوں کے ذریعے زندگی کا سفر شروع کیا اور یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ قدرت کو اس پر ترس آیا اور کارواں علم کے تعاون سے اسے تین پہیوں والی موٹر سائیکل مل گئی۔ آج عبدالرشید ایم ایس سی (فوڈ اینڈ سائنسز) کی ڈگری حاصل کر چکا ہے۔
علامہ اقبال میڈیکل کالج کے ایک طالب علم کی کہانی پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا اہل خیر سے خالی نہیں۔ وہ نوجوان اس وقت سال چہارم کا طالب علم ہے۔ شجاع آباد جیسے چھوٹے قصبے کا رہائشی، پولیو کا شکار یہ نوجوان بچپن ہی سے معذور تھا، اپنی زندگی کے کئی برس اس نے رینگ کر گزارے، پھر چند نیک لوگوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی، اسے سپورٹ کیا۔ نشتر میڈیکل کالج کے نیک دل پروفیسر ڈاکٹر کامران سالک نے اس کے چھ مفت آپریشن کیے اور اسے بیساکھیوں پر کھڑا کر دیا۔
آج یہ نوجوان سال چہارم کا طالب علم ہے۔ دونوں ہاتھوں سے معذور اسد علی سلطان کی روداد پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چھ سال کی عمر میں اس نے غلطی سے چھت سے گزرنے والی بجلی کی تاریں پکڑ لیں، اس کے دونوں بازو کہنیوں تک کاٹنے پڑ گئے۔ اس دلیر لڑکے نے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں سے قلم پکڑ کر لکھنا سیکھا، تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور گورنمنٹ کالج لاہور تک جا پہنچا۔
اسد علی سلطان بی کام کرنے کے بعد آج کل حافظ آباد کے ایک نجی کالج سے ایم کام کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ راولا کوٹ میں سات ہزار فٹ کی بلندی پر ایک گائوں کے رہائشی معذور اعجاز احمد نے اپنی معذوری کے باوجود بورڈ میں پوزیشن حاصل کی اور آج اس کی محنت اسے زندگی میں باعزت مقام دلا چکی ہے۔
یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر زندگی مہربان نہیں رہی، مصائب ان پر قطار اندر قطار حملہ آور ہوئے۔ ان کے سامنے آسان آپشن تھا کہ ہمت ہار کر زندگی کا خاتمہ کر لیں مگر انھوں نے اس کے بجائے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور ثابت کر دیا کہ اگر ہمت اور جذبے سے کام لیا جائے تو سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔
آج یہ سب لوگ کسی بھی دوسرے کامیاب فرد سے کم زندگی نہیں گزار رہے۔ ان کے پاس وسائل نہیں تھے، بعض کیسز میں معذوری بھی تھی، ان تمام کمزوریوں کے باوجود یہ لڑتے رہے۔ پھر اسی لڑائی کے فیصلہ کن مراحل میں اللہ کی مدد بھی انھیں حاصل ہوئی... جو کہ ہمیشہ حاصل ہوتی ہے، شرط صرف ہمت نہ ہارنے اور اپنے رب کو پکارتے رہنے کی ہے۔ جنہوں نے یہ شرط پوری کی وہ فتح یاب ہوئے، آج ہم سب کو ان پر فخر ہے۔ رہی بات بزدلی دکھانے والے، ہمت ہارنے والوں کی ... تو ان بدنصیبوں کے حصے میں صرف اخبار کی دو کالمی خبر یا چند سکینڈ کی بریکنگ نیوز ہی آ پاتی ہے۔
نوٹ: ملتان کی ایک ضرورت مند سفید پوش فیملی کومالی اعانت کی ضرورت ہے، اہل خیر افراد 0333-6352153 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
فطری طور پر ان اموات کی تفصیل پڑھتے ہوئے مجھے افسوس تو ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ایک عجیب سی جھنجھلاہٹ بھی پیدا ہوتی ہے۔ مجھے غصہ آتا ہے ان پست ہمت اور بزدل لوگوں پر جو زندگی سے لڑنے، اس سے ٹکرانے اور اسے شکست دینے کے بجائے ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ ہمارے چینلز پر جب خود کشی کی ایسی خبریں چلتی ہیں تو اینکر شدید غصے میں حکومت پر برس پڑتے ہیں۔ ہر خود کشی کی ذمے داری صرف اور صرف حکومت پر ڈال دی جاتی ہے، چیخ چیخ کر کہا جاتا ہے کہ ایک اور نوجوان نے اپنی زندگی ختم کر لی مگر حکومت کب جاگے گی... وغیرہ وغیرہ۔
مجھے ہمیشہ یوں لگا کہ ہم اس طریقے سے خود کشی کو گلیمرائز کر رہے ہیں، اسے رومانٹسائز کر رہے ہیں۔ سیدھی سادی، بے رحم حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے لڑنے کے بجائے ہتھیار ڈال دیے، جنگی اصطلاح میں یہ بھگوڑے ثابت ہوئے۔ اللہ ان کی روحوں پر رحم کرے مگر وہ اپنے بعد والوں کے لیے کوئی اچھی مثال چھوڑ کر نہیں گئے۔
یہ درست ہے کہ اس قسم کی اموات کی کسی حد تک ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ ریاست کا کردار ماں کا سا ہوتا ہے اور ان کیسز میں ماں نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی ہوتی۔ معاشرہ بھی کہیں نہ کہیں اس کا ذمے دار ہے، ان لوگوں کے اہل خانہ، دوست، اعزا، محلے دار سبھی ایک حد تک ذمے دار ہیں۔ سچ مگر یہ ہے کہ اپنے اس انجام کے یہ لوگ خود ہی ذمے دار ہیں۔ مصائب ہر کسی پر وارد ہوتے ہیں، ان کی نوعیت اور صورت مختلف ہوتی ہے، کسی پر پہلے اور کسی پر دیر سے۔ بظاہر خوش اور مطمئن نظر آنے والے لوگ بھی اندر سے زخم خوردہ ہوتے ہیں۔
اپنے زخموں سے رستے لہو کو وہ دوسروں سے چھپائے مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی پھولوں کا بستر نہیں، اس میں قدم قدم پر کٹھنائیاں اور پریشانیاں آتی ہیں۔ زندگی کے منہ زور سرکش سانڈ کو سینگوں سے پکڑ کر لڑنا پڑتا ہے۔ یہ لڑائی تاحیات جاری رہتی ہے، اکھاڑے بدلتے رہتے ہیں۔
اس دلیل سے بھی میں کبھی زیادہ مطمئن نہیں ہو سکا کہ ان خود کشی کرنے والوں کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ راستے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ مجھے کراچی کا وہ مقبول لکھاری کاشف زبیر یاد آتا ہے جو حادثاتی معذوری کے باوجود زندگی سے نبرد آزما ہوا۔ شیروں سی جرات اور دلیری سے لڑا اور اپنے حصے کی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ کاشف ڈائجسٹوں کا پاپولر رائٹر ہے۔ سسپنس، جاسوسی اور سرگزشت ڈائجسٹ میں ہر ماہ اس کی کئی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں، ایک مقبول سلسلہ وار کہانی لکھ رہا ہے، اس کی ایک مشہور کہانی کفارہ کتابی شکل میں شایع ہو چکی ہے، ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھنے کا موقع مل چکا ہے۔
مگر یہ سب تو آج کا منظر ہے، اصل کہانی تو بیس پچیس سال پہلے شروع ہوئی جب پانچویں جماعت کے طالب علم گیارہ سالہ کاشف زبیر پر کھیلتے ہوئے پتھر کی سلیب ایسے زاویے سے گری کہ ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو گئی۔ اس کا پورا جسم مفلوج ہو گیا، اگلے ایک سال تک وہ بستر پر رہا۔ پھر ایک دن اس کی باہمت والدہ اسے اٹھا کر محلے میں مقیم ایک ہومیوپیتھ ڈاکٹر کے پاس لے گئی جس کا اپنا تمام جسم مفلوج تھا مگر اس ڈاکٹر نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے ہومیوپیتھی کے ذریعے اپنے اہل خانہ کے لیے رزق کمانے کو ترجیح دی۔
نوعمر کاشف اس ڈاکٹر سے متاثر ہوا۔ آہستہ آہستہ اس نے اٹھ بیٹھنے کی جدوجہد شروع کی۔ اپنی ہمت، کمٹمنٹ اور کوشش کے ذریعے وہ وہیل چیئر پر آ گیا۔ اس نے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کیا۔ وہ یونیورسٹی تک پہنچا۔ اس نے بی کام کیا، پرائیویٹ ایم اے کیا۔ سفر جاری رہا۔
اس دوران اسے لٹریچر کے مطالعے کا شوق پیدا ہو چکا تھا۔ پھر ڈائجسٹ کی کہانیوں سے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے نامور لکھاری علیم الحق حقی کی ایک کہانی نے کاشف زبیر کے اندر کے رائٹر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے اپنی پہلی کہانی لکھی اور اسے جاسوسی ڈائجسٹ پبلی کیشنز بھجوا دیا۔ وہ کہانی شایع ہو گئی تو اس نے تواتر سے لکھنا شروع کر دیا۔ پھر اس ادارے نے اسے باقاعدہ معاوضے پر لکھنے کی پیشکش کی۔ یوں وہیل چیئر پر زندگی گزارنے والے کاشف زبیر کے لیے ایک آبرومندانہ کیریئر کا آغاز ہو گیا۔
پچھلے دس پندرہ برسوں سے وہ متواتر لکھ رہا ہے، اپنے نام کے علاوہ اپنی والدہ پروین زبیر اور اہلیہ مریم کے خان کے قلمی ناموں سے اس کی تحریریں ہر ماہ چھپتی ہیں۔ اپنے گھر میں کمپیوٹر پر کہانی لکھی، تراجم کیے اور ای میل کر دیے، معاوضہ چیک کے ذریعے موصول ہو گیا۔
کاشف زبیر کی عزم و ہمت سے معمور کہانی مجھے زندگی کے کٹھن مرحلوں میں ہمیشہ نیا حوصلہ دیتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک اور شاندار کتاب پڑھنے کو ملی۔ اس کے مصنف معروف صحافی اور سماجی کارکن خالد ارشاد صوفی ہیں۔ خالد کاروان علم فائونڈیشن کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ضرورت مند طلبہ کی مدد کے لیے یہ سماجی تنظیم اردو ڈائجسٹ کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے بنائی ہے، پچھلے چند برسوں میں یہ تنظیم ہزاروں طلبہ کی مالی معاونت کر چکی ہے۔
خالد ارشاد صوفی نے ان میں سے چند طلبہ کی پُرعزم کہانیاں تحریر کی ہیں۔ ''جوہر قابل'' کے نام سے شایع ہونے والی اس کتاب میں 14 سچی کہانیاں شامل ہیں۔ جھنجھوڑ دینے والی اس کتاب کو میں نے ایک ہی نشست میں پڑھا۔ ہر کہانی دل کو چھو لینے والی ہے۔ مجھے کراچی کے عبدالرشید نے بڑا انسپائر کیا۔ چلتا پھرتا یہ صحت مند نوجوان ایک حادثے میں مفلوج ہو گیا، ڈاکٹروں نے کہا کہ باقی زندگی چلنا شاید ممکن نہ ہو پائے۔
اس کی معمولی تعلیم یافتہ مگر پُرعزم بیوی نے اسے حوصلہ دیا اور ہمت دلائی۔ عبدالرشید نے ایسا کرنے کی ٹھان لی۔ اس کے جنون نے اسے پیروں پر لا کھڑا کیا۔ اس نے بیساکھیوں کے ذریعے زندگی کا سفر شروع کیا اور یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ قدرت کو اس پر ترس آیا اور کارواں علم کے تعاون سے اسے تین پہیوں والی موٹر سائیکل مل گئی۔ آج عبدالرشید ایم ایس سی (فوڈ اینڈ سائنسز) کی ڈگری حاصل کر چکا ہے۔
علامہ اقبال میڈیکل کالج کے ایک طالب علم کی کہانی پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا اہل خیر سے خالی نہیں۔ وہ نوجوان اس وقت سال چہارم کا طالب علم ہے۔ شجاع آباد جیسے چھوٹے قصبے کا رہائشی، پولیو کا شکار یہ نوجوان بچپن ہی سے معذور تھا، اپنی زندگی کے کئی برس اس نے رینگ کر گزارے، پھر چند نیک لوگوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی، اسے سپورٹ کیا۔ نشتر میڈیکل کالج کے نیک دل پروفیسر ڈاکٹر کامران سالک نے اس کے چھ مفت آپریشن کیے اور اسے بیساکھیوں پر کھڑا کر دیا۔
آج یہ نوجوان سال چہارم کا طالب علم ہے۔ دونوں ہاتھوں سے معذور اسد علی سلطان کی روداد پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چھ سال کی عمر میں اس نے غلطی سے چھت سے گزرنے والی بجلی کی تاریں پکڑ لیں، اس کے دونوں بازو کہنیوں تک کاٹنے پڑ گئے۔ اس دلیر لڑکے نے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں سے قلم پکڑ کر لکھنا سیکھا، تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور گورنمنٹ کالج لاہور تک جا پہنچا۔
اسد علی سلطان بی کام کرنے کے بعد آج کل حافظ آباد کے ایک نجی کالج سے ایم کام کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ راولا کوٹ میں سات ہزار فٹ کی بلندی پر ایک گائوں کے رہائشی معذور اعجاز احمد نے اپنی معذوری کے باوجود بورڈ میں پوزیشن حاصل کی اور آج اس کی محنت اسے زندگی میں باعزت مقام دلا چکی ہے۔
یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر زندگی مہربان نہیں رہی، مصائب ان پر قطار اندر قطار حملہ آور ہوئے۔ ان کے سامنے آسان آپشن تھا کہ ہمت ہار کر زندگی کا خاتمہ کر لیں مگر انھوں نے اس کے بجائے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور ثابت کر دیا کہ اگر ہمت اور جذبے سے کام لیا جائے تو سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔
آج یہ سب لوگ کسی بھی دوسرے کامیاب فرد سے کم زندگی نہیں گزار رہے۔ ان کے پاس وسائل نہیں تھے، بعض کیسز میں معذوری بھی تھی، ان تمام کمزوریوں کے باوجود یہ لڑتے رہے۔ پھر اسی لڑائی کے فیصلہ کن مراحل میں اللہ کی مدد بھی انھیں حاصل ہوئی... جو کہ ہمیشہ حاصل ہوتی ہے، شرط صرف ہمت نہ ہارنے اور اپنے رب کو پکارتے رہنے کی ہے۔ جنہوں نے یہ شرط پوری کی وہ فتح یاب ہوئے، آج ہم سب کو ان پر فخر ہے۔ رہی بات بزدلی دکھانے والے، ہمت ہارنے والوں کی ... تو ان بدنصیبوں کے حصے میں صرف اخبار کی دو کالمی خبر یا چند سکینڈ کی بریکنگ نیوز ہی آ پاتی ہے۔
نوٹ: ملتان کی ایک ضرورت مند سفید پوش فیملی کومالی اعانت کی ضرورت ہے، اہل خیر افراد 0333-6352153 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔