آئین کی پاسداری پر یقین رکھنے والا ہی اب ملک کی باگ ڈور سنبھالے گا چیف جسٹس

حکمرانوں نے کبھی نظام آئین کے مطابق نہیں چلایا، عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کیلیے دفن کردیا.

حکمرانوں نے کبھی نظام آئین کے مطابق نہیں چلایا، عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کیلیے دفن کردیا ،مزاحمت نہ ہونے پر بار بار آمروں کو مارشل لا لگانے کی جرأت ہوئی۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ حکمرانوں نے کبھی ملکی نظام کو آئین کے مطابق نہیں چلایا۔

اب جو بھی آئین کی پاسداری پر یقین رکھے گا وہی ملک کی باگ ڈور سنبھالے گا۔ اب غیرآئینی کاموں کی اجازت نہیں۔ عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کیلیے دفن کردیا ہے۔ شیخوپورہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں انھوں نے کہا یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں لگنے والے کسی بھی مارشل لا کی مزاحمت نہیں کی گئی۔1999 میں لگائے گئے مارشل لا کی بھی مزاحمت نہیں کی گئی۔ اس وجہ سے بار بار آمروں کو مارشل لا لگانے کی جرأت ہوئی۔

پہلی بار موجودہ عدلیہ نے آمر کے اقدام کو غیرآئینی قرار دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کو جو عزت آج حاصل ہے وہ دراصل وکلا ، سول سوسائٹی کے ارکان ، سیاسی کارکنوں ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی باہمی جدوجہد کی وجہ سے ہے اور یقینی طور پر یہ ہماری ذمے داری ہے کہ اس عزت اور رتبے کا تحفظ کریں۔ مجھے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے چیف جسٹس جناب جسٹس جان جی رابرٹس کے الفاظ یاد آ رہے ہیں کہ ''ثالث قواعد بناتے نہیں ہیں، قواعد کا اطلاق کرتے ہیں'' ۔


ہمارے ملک کی تاریخ سے یہ عیاں ہے کہ ماضی میں حکمرانوں نے سپریم کورٹ کو حاصل آئینی اختیارات کو محدود کرنے کی بارہا کوششیں کیں لیکن اللہ کے فضل سے عدالتِ عظمی نے اپنی تمام آئینی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے ان تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ عدلیہ ریاست کا مرکزی ستون ہے اور اسے نہ صرف ریاست کے ڈھانچے کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھانے کے قابل ہونا چاہیے بلکہ اسے ریاست کے باقی ستونوں کو بھی استحکام بخشنا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ یہ مضبوطی آئے گی کہاں سے، باہر سے یا اندرونی طور پر؟ میرے نزدیک عدلیہ کی اندرونی استقامت ہی اُسے امورِ مملکت میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنائے گی۔

انھوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہ صرف سائلین کی آزاری کا باعث بنتی ہے بلکہ سماجی و معاشی سرگرمیوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے عوام اپنے مسائل عدالتوں میں لانے سے گھبراتے ہیں۔ ضلعی سطح پر اعلیٰ عدالتی افسروں کی جانب سے بداعمالی اور بے ایمانی ہمارے ادارے کی اہم اقدار کو گھُن کی طرح کھائے جارہی ہے۔ یہ نہ صرف شفاف طریقے سے انصاف کی فراہمی کی ہماری صلاحیتوں کو کمزور کر رہی ہے بلکہ یہ ہم سب کی بدنامی کا باعث بھی بن رہی ہے۔

قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے تمام ہائی کورٹس کو ہدایت دی ہے کہ بددیانتی اور بداعمالی کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی اپنائی جائے اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کے تمام ہائی کورٹس نے ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جہاں ہرکرپشن اور بداعمالی کی شکایت شفاف طریقے سے درج کرائی جاسکے گی۔ میں عدالتی نظام میں کسی بھی قسم کی چھوٹی سے چھوٹی بداعمالی برداشت نہیں کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب کبھی آپ کے علم میں ضلعی یا پھر اس سے اعلیٰ سطح پر کسی بھی قسم کی بے ایمانی یا کرپشن آئے تو آپ مجھے میرے رجسٹرار یا رجسٹرار ہائیکورٹ کے توسط سے مطلع کریں۔ میں یقین دہانی کراتا ہوں کہ ہم نافرمانوں کیخلاف سخت کارروائی کرینگے۔

اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اللہ کی مہربانی سے اب عدلیہ آزاد ہے مگر آج بھی عدلیہ اور وکلا کو عام آدمی کیلیے فوری انصاف پہنچانے کیلیے محنت درکار ہے۔ وکلا اس ملک کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی ہیں۔ ہمارے لیے آئین جمہوریت اور انصاف لازم ہے۔ انھوں نے شیخوپورہ میں لیبر کورٹ ، کنزیومر کورٹ اور الیکٹرانک لائبریری کی منظوری کے علاوہ وکلا کیلئے نئے چیمبرز کیلیے 3 کنال اراضی دینے کا اعلان کیا ۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا شیخوپورہ میں وکلا نے والہانہ استقبال کیا اور کئی من پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ پولیس کی طرف سے گارڈ آف آنرز پیش کیا گیا ۔
Load Next Story