سپریم کورٹ کراچی میں طالبان اور مسلح گروپوں کیخلاف کارروائی کا حکم
حکومت طالبان کی موجودگی کاسنجیدگی سے نوٹس لے،غیرقانونی تارکین وطن اورنان کسٹم پیڈگاڑیوںکیخلاف کارروائی کی جائے.
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آبزرو کیاہے کہ امن وامان کی مخدوش صورتحال سے نمٹنے کیلیے حکومت سندھ کے رویہ اس کی بدنیتی کاعکاس ہے۔
حکومت ایک طرف دہشت گردی کے تناظر میں امن وامان کی صورتحال پرشورمچاتی ہے دوسری جانب دہشت گردی سمیت سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو پیرول پررہاکردیتی ہے۔جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس سرمدجلال عثمانی،جسٹس امیرہانی مسلم اور جسٹس گلزاراحمدپرمشتمل لارجر بینچ نے 2003میں پیرول پررہاکیے گئے 35خطرناک ملزمان کی گرفتاری کیلیے متعلقہ عدالتوںکومذکورہ ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کاحکم دیاہے۔
عدالت نے کراچی میں تمام مسلح گروپوں بشمول طالبان کیخلاف کارروائی کاحکم دیاہے،ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کراچی میں امن وامان کی صورتحال کو تباہ کن اورسنگین قراردیتے ہوئے اپنی آبزرویشن میں کہاہے کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ہفتے کوسپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعرات یکم نومبرکی کارروائی سے متعلق بینچ کے ارکان کادستخط شدہ تحریری آرڈرجاری کیا،جس میں لارجربینچ نے2003میں پیرول پر35ملزمان کی رہائی پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ تمام قوانین کونظراندازکرتے ہوئے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو رہاکردیاگیاجس سے حکومت سندھ کی بدنیتی ظاہرہوتی ہے۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہاتوسندھ باالخصوص کراچی میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا،عدالت نے آبزرو کیا کہ 2003 سے 2005 تک خطرناک ملزمان کو غیرقانونی طریقے سے رہاکیاجاتارہا۔عدالت نے اپنی آبزرویشن میںکہاکہ جیل حکام پیرول پررہاکیے گئے ملزمان کے رویے اوربرتائوکے حوالے سے بھی ریکارڈپیش کرنے میں ناکام رہے،قانون کے تحت ضروری ہے کہ پیرول پررہائی حاصل کرنے والاقیدی سزاکاایک تہائی حصہ مکمل کرچکاہوجبکہ پیرول پر رہا کرتے ہوئے اس بات کابھی خیال نہیں رکھا گیا اور عدالتوں میں ملزمان کاماضی کاریکارڈبھی پیش نہیں کیا گیا تاکہ عدالتوں کوفیصلہ کرنے میں مددمل سکے،2003میںسنگین جرائم میں ملوث35قیدیوںکوقوانین کونظراندازکرتے ہوئے چھوڑدیاگیاجبکہ ان میں کئی ملزمان کی درخواست ضمانت بھی عدالتوں نے مستردکردی تھیں۔
عدالت نے متعلقہ ماتحت عدالتوں کوحکم دیاکہ مذکورہ ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں،عدالت نے سیکریٹری داخلہ اورجیل حکام کو 35ملزمان کی رہائی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ اورجوازپیش کرنے کی ہدایت کی جوانھوں نے تمام قوانین کوبالائے طاق رکھتے ہوئے کیے،عدالت نے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹ پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے قراردیاکہ کراچی میں امن وامان کی صورتحال تباہ کن اورسنگین ہے۔عدالت نے آبزروکیاکہ پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق معصوم لوگوں ٹارگٹ کلنگ کی تعدادمیں اضافہ ہوا ہے،اس لیے اس مسئلے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے،عدالت کی نظرمیں یہ ضروری ہے کہ شہرمیں قانون نافذ کرنے والے ادارے خاص طورپررینجرزجسے کراچی میں تعینات کیاگیاہے۔
ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور نہ صرف مطلوب افرادکے خلاف کارروائی کریں بلکہ تمام جرائم پیشہ عناصرکوگرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لائیں، پولیس کی جانب سے کی جانے والی تفتیش اورچالان پیش کرنے کے مراحل میں رینجرزکو بھی شامل کیا جاسکتا ہے، عدالت عظمیٰ نے آبزروکیاکہ پولیس میں بھرتیاں شفاف نہیں ہیں، چوردروازوں سے پولیس میں تعیناتیوں کاسلسلہ جاری ہے، پولیس کا سروس ریکارڈ اورذاتی کوائف موجودنہیں ہیں، آئوٹ آف ٹرن ترقیوں،دوسرے محکموں سے آنے والوں اور چوردروازے سے محکمہ پولیس میں آنے والوں کی وجہ سے پولیس اہلکاروں میں بے چینی پھیل رہی ہے،پولیس اہلکاروں کے تبادلے اورتقرریاں میرٹ کی بنیادپرنہیں کی جاتیں جبکہ پولیس اہلکاروںکامکمل سروس ریکارڈنہیں ہے۔
کراچی پولیس میں آئوٹ آف ٹرن ترقیوں اوردوسرے محکموں سے ضم ہوکرآنیوالوںکی وجہ سے میرٹ کی بنیادپرترقی پانے والے افسران ترقی سے محروم رہ جاتے ہیں پولس میں سیاسی مداخلت بھی ہے جبکہ چوردروازے سے آنے والوں کی وجہ سے بھی کارکردگی خراب ہورہی ہے،پولیس کے اداروں معیارمیں بہتری کیلیے اعلیٰ افسران کی دلچسپی نظرنہیں آتی ہے، پولیس اہلکاروںکے کھانے میں زہرخورانی کے معاملے میں انکوائری اورتحقیقات کی گئی لیکن تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے جبکہ آئی جی سندھ سے جب پوچھاگیاتووہ بھی کوئی جواب نہ دے سکے،عدالت نے مزید کہاکہ سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی سے جب جوڑیابازارمیں جانوروں کو گولی مارنے کے واقعے کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہواہے اورکیاپولیس کے علم میں یہ بات ہے تو انھوں نے کہا کہ پولیس نے ملزمان کاپیچھا کیا، وہ 12 موٹر سائیکلوں پرسوار تھے جوفرار ہوگئے۔
عدالت نے پوچھا کہ اس حوالے سے وائرلیس پرپولیس کو کوئی اطلاع دی گئی تھی جب پولیس ملزمان کاپیچھا کررہی تھی توایڈیشنل آئی جی نے کوئی جواب نہیں دیا،ان معاملات کومدنظررکھتے ہوئے کراچی میں کیسے امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے ؟ٹریفک مسائل کے حوالے سے سیکریٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن منظور میمن، ڈی آئی جی ٹریفک خرم گلزار اور قائم مقام ڈی آئی جی ٹریفک مینجمنٹ احمدجمال عدالت میں پیش ہوئے، منظورمیمن نے عدالت کویقین دہانی کرائی کہ محکمے میں جوبھی خرابیاں ہیں انہیں جلددورکیاجائے گا۔
خرم گلزارنے عدالت کوبتایاکہ وہ مانتے ہیں کہ ٹریفک کے حالات کراچی میں مخدوش ہیں،ان کے پاس صرف 32سو ٹریفک پولیس اہلکارہیں جن میں ایک ہزار 600 صبح اوراتنے ہی شام کی شفٹ میں کام کرتے ہیں جبکہ شہر کی آبادی 2 کروڑ ہے جہاں 2 لاکھ 70 ہزار گاڑیاں،ایک لاکھ سے زائدپرائیویٹ گاڑیاں،ایک لاکھ سے زائدموٹرسائیکل ہیں،15ہزارپبلک ٹرانسپورٹ ہے اوراگرپبلک ٹرانسپورٹ کی فٹنس کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ انتہائی خراب ہے، انھوں نے مزید کہا کہ ٹریفک پولیس کومزید 5ہزار اہلکاروںکی ضرورت ہے تاکہ وہ مسائل سے نمٹ سکیں،قائم مقام ڈی آئی جی ٹریفک مینجمنٹ احمدجمال نے عدالت کوبتایاکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت انتہائی خراب ہے۔
عدالت نے انہیں ماہانہ گاڑیوں کی فٹنس چیک کرکے رپورٹ پیش کرنے کاحکم دیاہے،کلکٹر کسٹم خاور مانیکانے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کیخلاف کارروائی ہورہی ہے،عدالت نے ہدایت کی کہ اس حوالے سے گزشتہ 3ماہ کی کارکردگی رپورٹ پیش کی جائے،عدالت نے محکمہ ایکسائز کو ہدایت کی کہ پورٹس پرکیمپ آفس قائم کیاجائے تاکہ وہاں درآمدشدہ غیرملکی گاڑیوںکونمبرالاٹ کیاجاسکے،لارجر بینچ نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے سپریم کورٹ آفس کو ہدایت کی کہ اس لارجربینچ کاانتظارکیے بغیر آئندہ یہ کیس کراچی میں سب سے پہلے دستیاب کسی بھی بینچ کے روبروسماعت کیلیے پیش کردیا جائے۔
بی بی سی کے مطابق عدالت نے اپنے عبوری حکم میںکہاہے کہ سندھ حکومت اورسیکیورٹی ادارے کراچی شہرمیں طالبان کی موجودگی کوسنجیدگی سے لیں۔این این آئی کے مطابق عدالت نے کراچی میں موجودغیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کاحکم دیاہے۔
حکومت ایک طرف دہشت گردی کے تناظر میں امن وامان کی صورتحال پرشورمچاتی ہے دوسری جانب دہشت گردی سمیت سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو پیرول پررہاکردیتی ہے۔جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس سرمدجلال عثمانی،جسٹس امیرہانی مسلم اور جسٹس گلزاراحمدپرمشتمل لارجر بینچ نے 2003میں پیرول پررہاکیے گئے 35خطرناک ملزمان کی گرفتاری کیلیے متعلقہ عدالتوںکومذکورہ ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کاحکم دیاہے۔
عدالت نے کراچی میں تمام مسلح گروپوں بشمول طالبان کیخلاف کارروائی کاحکم دیاہے،ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کراچی میں امن وامان کی صورتحال کو تباہ کن اورسنگین قراردیتے ہوئے اپنی آبزرویشن میں کہاہے کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ہفتے کوسپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعرات یکم نومبرکی کارروائی سے متعلق بینچ کے ارکان کادستخط شدہ تحریری آرڈرجاری کیا،جس میں لارجربینچ نے2003میں پیرول پر35ملزمان کی رہائی پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ تمام قوانین کونظراندازکرتے ہوئے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو رہاکردیاگیاجس سے حکومت سندھ کی بدنیتی ظاہرہوتی ہے۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہاتوسندھ باالخصوص کراچی میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا،عدالت نے آبزرو کیا کہ 2003 سے 2005 تک خطرناک ملزمان کو غیرقانونی طریقے سے رہاکیاجاتارہا۔عدالت نے اپنی آبزرویشن میںکہاکہ جیل حکام پیرول پررہاکیے گئے ملزمان کے رویے اوربرتائوکے حوالے سے بھی ریکارڈپیش کرنے میں ناکام رہے،قانون کے تحت ضروری ہے کہ پیرول پررہائی حاصل کرنے والاقیدی سزاکاایک تہائی حصہ مکمل کرچکاہوجبکہ پیرول پر رہا کرتے ہوئے اس بات کابھی خیال نہیں رکھا گیا اور عدالتوں میں ملزمان کاماضی کاریکارڈبھی پیش نہیں کیا گیا تاکہ عدالتوں کوفیصلہ کرنے میں مددمل سکے،2003میںسنگین جرائم میں ملوث35قیدیوںکوقوانین کونظراندازکرتے ہوئے چھوڑدیاگیاجبکہ ان میں کئی ملزمان کی درخواست ضمانت بھی عدالتوں نے مستردکردی تھیں۔
عدالت نے متعلقہ ماتحت عدالتوں کوحکم دیاکہ مذکورہ ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں،عدالت نے سیکریٹری داخلہ اورجیل حکام کو 35ملزمان کی رہائی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ اورجوازپیش کرنے کی ہدایت کی جوانھوں نے تمام قوانین کوبالائے طاق رکھتے ہوئے کیے،عدالت نے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹ پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے قراردیاکہ کراچی میں امن وامان کی صورتحال تباہ کن اورسنگین ہے۔عدالت نے آبزروکیاکہ پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق معصوم لوگوں ٹارگٹ کلنگ کی تعدادمیں اضافہ ہوا ہے،اس لیے اس مسئلے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے،عدالت کی نظرمیں یہ ضروری ہے کہ شہرمیں قانون نافذ کرنے والے ادارے خاص طورپررینجرزجسے کراچی میں تعینات کیاگیاہے۔
ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور نہ صرف مطلوب افرادکے خلاف کارروائی کریں بلکہ تمام جرائم پیشہ عناصرکوگرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لائیں، پولیس کی جانب سے کی جانے والی تفتیش اورچالان پیش کرنے کے مراحل میں رینجرزکو بھی شامل کیا جاسکتا ہے، عدالت عظمیٰ نے آبزروکیاکہ پولیس میں بھرتیاں شفاف نہیں ہیں، چوردروازوں سے پولیس میں تعیناتیوں کاسلسلہ جاری ہے، پولیس کا سروس ریکارڈ اورذاتی کوائف موجودنہیں ہیں، آئوٹ آف ٹرن ترقیوں،دوسرے محکموں سے آنے والوں اور چوردروازے سے محکمہ پولیس میں آنے والوں کی وجہ سے پولیس اہلکاروں میں بے چینی پھیل رہی ہے،پولیس اہلکاروں کے تبادلے اورتقرریاں میرٹ کی بنیادپرنہیں کی جاتیں جبکہ پولیس اہلکاروںکامکمل سروس ریکارڈنہیں ہے۔
کراچی پولیس میں آئوٹ آف ٹرن ترقیوں اوردوسرے محکموں سے ضم ہوکرآنیوالوںکی وجہ سے میرٹ کی بنیادپرترقی پانے والے افسران ترقی سے محروم رہ جاتے ہیں پولس میں سیاسی مداخلت بھی ہے جبکہ چوردروازے سے آنے والوں کی وجہ سے بھی کارکردگی خراب ہورہی ہے،پولیس کے اداروں معیارمیں بہتری کیلیے اعلیٰ افسران کی دلچسپی نظرنہیں آتی ہے، پولیس اہلکاروںکے کھانے میں زہرخورانی کے معاملے میں انکوائری اورتحقیقات کی گئی لیکن تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے جبکہ آئی جی سندھ سے جب پوچھاگیاتووہ بھی کوئی جواب نہ دے سکے،عدالت نے مزید کہاکہ سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی سے جب جوڑیابازارمیں جانوروں کو گولی مارنے کے واقعے کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہواہے اورکیاپولیس کے علم میں یہ بات ہے تو انھوں نے کہا کہ پولیس نے ملزمان کاپیچھا کیا، وہ 12 موٹر سائیکلوں پرسوار تھے جوفرار ہوگئے۔
عدالت نے پوچھا کہ اس حوالے سے وائرلیس پرپولیس کو کوئی اطلاع دی گئی تھی جب پولیس ملزمان کاپیچھا کررہی تھی توایڈیشنل آئی جی نے کوئی جواب نہیں دیا،ان معاملات کومدنظررکھتے ہوئے کراچی میں کیسے امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے ؟ٹریفک مسائل کے حوالے سے سیکریٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن منظور میمن، ڈی آئی جی ٹریفک خرم گلزار اور قائم مقام ڈی آئی جی ٹریفک مینجمنٹ احمدجمال عدالت میں پیش ہوئے، منظورمیمن نے عدالت کویقین دہانی کرائی کہ محکمے میں جوبھی خرابیاں ہیں انہیں جلددورکیاجائے گا۔
خرم گلزارنے عدالت کوبتایاکہ وہ مانتے ہیں کہ ٹریفک کے حالات کراچی میں مخدوش ہیں،ان کے پاس صرف 32سو ٹریفک پولیس اہلکارہیں جن میں ایک ہزار 600 صبح اوراتنے ہی شام کی شفٹ میں کام کرتے ہیں جبکہ شہر کی آبادی 2 کروڑ ہے جہاں 2 لاکھ 70 ہزار گاڑیاں،ایک لاکھ سے زائدپرائیویٹ گاڑیاں،ایک لاکھ سے زائدموٹرسائیکل ہیں،15ہزارپبلک ٹرانسپورٹ ہے اوراگرپبلک ٹرانسپورٹ کی فٹنس کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ انتہائی خراب ہے، انھوں نے مزید کہا کہ ٹریفک پولیس کومزید 5ہزار اہلکاروںکی ضرورت ہے تاکہ وہ مسائل سے نمٹ سکیں،قائم مقام ڈی آئی جی ٹریفک مینجمنٹ احمدجمال نے عدالت کوبتایاکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت انتہائی خراب ہے۔
عدالت نے انہیں ماہانہ گاڑیوں کی فٹنس چیک کرکے رپورٹ پیش کرنے کاحکم دیاہے،کلکٹر کسٹم خاور مانیکانے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کیخلاف کارروائی ہورہی ہے،عدالت نے ہدایت کی کہ اس حوالے سے گزشتہ 3ماہ کی کارکردگی رپورٹ پیش کی جائے،عدالت نے محکمہ ایکسائز کو ہدایت کی کہ پورٹس پرکیمپ آفس قائم کیاجائے تاکہ وہاں درآمدشدہ غیرملکی گاڑیوںکونمبرالاٹ کیاجاسکے،لارجر بینچ نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے سپریم کورٹ آفس کو ہدایت کی کہ اس لارجربینچ کاانتظارکیے بغیر آئندہ یہ کیس کراچی میں سب سے پہلے دستیاب کسی بھی بینچ کے روبروسماعت کیلیے پیش کردیا جائے۔
بی بی سی کے مطابق عدالت نے اپنے عبوری حکم میںکہاہے کہ سندھ حکومت اورسیکیورٹی ادارے کراچی شہرمیں طالبان کی موجودگی کوسنجیدگی سے لیں۔این این آئی کے مطابق عدالت نے کراچی میں موجودغیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کاحکم دیاہے۔