پاکستان کی وزارت خارجہ اور خارجہ پالیسی

بہرحال گزشتہ چند ہفتے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بڑے نازک اور کٹھن گزرے ہیں


Shakeel Farooqi February 02, 2016
[email protected]

BAHAWALPUR: اگرچہ وزارت خارجہ کی اہمیت اپنی جگہ قطعی مسلمہ ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے وزیر اعظم صاحب نے اس کا اضافی بوجھ ابھی تک اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے جب کہ حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کا قلمدان باقاعدہ ایک کل وقتی وزیر باتدبیر کو سونپ دیا جائے۔

بہرحال گزشتہ چند ہفتے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بڑے نازک اور کٹھن گزرے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہماری سول اور عسکری قیادت نے اس خطے اور مشرق وسطیٰ میں جنم لینے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیش آنے والے چیلنجوں کا بڑی ثابت قدمی اور کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ پھر بھی برقرار ہے کہ کیا وطن عزیز کی خارجہ پالیسی کے رخ میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے یا محض حسب ضرورت رد و بدل سے ہی کام چلا لیا جائے گا؟

آئیے ذرا گزشتہ چند ہفتوں کے دوران آنے والی حالات کی چند بڑی بڑی تبدیلیوں پر ایک سرسری سی نظر ڈالیں۔ پہلی بات یہ کہ سعودی وزرائے خارجہ اور دفاع کے حالیہ اسلام آباد کے دوروں نے سعودی عرب کے زیر قیادت بننے والے 34 ملکی اتحاد میں شمولیت کے لیے پاکستان پر بڑا زبردست دباؤ ڈالا جس کے جواب میں ہماری قیادت نے انتہائی ضبط و تحمل اور دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سعودی عرب کو مکرر یقین دہانی کرائی کہ اس کی علاقائی سالمیت کا تحفظ کرنے میں اس کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا۔ مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ 34 رکنی اتحاد میں شمولیت کے حوالے سے محتاط رویہ ہی اختیار کیا گیا جس طرح کا رویہ یمن کے بحران کے موقع پر اختیار کیا گیا تھا۔

دوسری بات یہ کہ حال ہی میں اسلام آباد میں منعقدہ افغانستان سے متعلق چار ارکان، افغانستان، پاکستان، چین اور امریکا پر مشتمل مصالحتی کمیٹی کا پہلا اجلاس پرامیدی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس میں طے پایا کہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مصالحت کے امکانات کی تلاش کی کوششوں کو بہرطور جاری رکھا جائے۔

دریں اثنا پٹھان کوٹ کے واقعے کے پس منظر میں بھارت اور پاکستان کے خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات اگرچہ وقتی طور پر غیر معینہ وقت تک ملتوی کردیا گیا ہے تاہم پرامیدی کی فضا بدستور برقرار ہے۔ یہ صورتحال ماضی کے تجربے سے خاصی مختلف ہے جس سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ دہشت گرد اس مرتبہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ منقطع کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

چوتھی اہم بات کا تعلق بلوچستان سے ہے جہاں کے صدر مقام کوئٹہ میں یہ اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور ایران کے صوبے سیستان، بلوچستان کے گورنر نے گوادر اور ایران کی بندرگاہ چابہار کو ریلوے ٹریک کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے پر آمادگی کا اظہار کردیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پس منظر میں یہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے کیونکہ چابہار بندرگاہ سے بھارت کی وابستگی پاکستان کے لیے تشویش کا باعث تھی۔

ادھر ملک کے حساس سیاسی حلقوں میں چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے جاری بحث و مباحثہ بھی کچھ کم باعث تشویش نہ تھا جس کے بارے میں اسلام آباد میں چین کے سفارت خانے کو ایک پریس نوٹ جاری کرنا پڑا جس میں حکومت پاکستان سے اپیل کی گئی کہ وہ اس بارے میں پائے جانے والے سیاسی اختلافات کو ختم کرائے۔

پاکستان کے قائدین کو اس بات کے لیے خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ انھوں نے ان تمام چیلنجوں کا بڑی دانشمندی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ان معاملات میں جو بھی حکمت عملی اختیار کی گئی وہ زیادہ تر دفاعی نوعیت کی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ اسلام آباد مختلف سمتوں سے آنے والے ہر دباؤ کی شدت کو کسی نہ کسی طور کم کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ رویہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کمزوری کی غمازی کرتا ہے جس میں مطلوبہ جرأتمندی کا فقدان پایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب پاکستان کے پڑوسی Proactive خارجہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں اور اپنے جغرافیائی اور معاشی اور اسٹرٹیجک مفادات کا نہایت دلیری کے ساتھ تحفظ کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اور قابل ذکر مثال ہمارے دوست ملک چین کی ہے جس نے اپنی خارجہ پالیسی کو اپنے مفادات کے سانچے میں ڈھال کر ایک نیا رخ دیا ہے اور جو اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ ''وَن روڈ، وَن بیلٹ'' کے اصول پر مبنی چین کی یہ خارجہ پالیسی نہایت بامقصد اور Pragmatic ثابت ہو رہی ہے۔

دوسری جانب بھارت نے بھی اپنی خارجہ پالیسی کو ''سب سے پہلے پڑوس'' کے اصول پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے جو ثمر آور ثابت ہو رہی ہے۔ ادھر ہمارا پڑوسی ملک ایران بھی اپنے ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کرکے اپنی خارجہ پالیسی میں انقلابی تبدیلیاں کر رہا ہے جن کی اصل بنیاد Multilateralism۔ اس کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ اس نے امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی کے معاملے میں کڑوا گھونٹ پینا بھی گوارا کرلیا ہے۔ البتہ سعودی عرب کے ساتھ اس کی تازہ ترین تلخی نے اسے ایک نئے چیلنج سے نبرد آزما کردیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس آزمائش سے کس حد تک نمٹنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

وطن عزیز کی خارجہ پالیسی کا محور ایک مدت دراز سے تنازعہ کشمیر ہی تھا۔ ہماری ہر چیز بس اسی کے اردگرد گھومتی تھی۔ مگر رفتہ رفتہ اب اس کی جگہ مسئلہ افغانستان نے لے لی ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس مسئلے میں بری طرح الجھ کر رہ گئے ہیں اور کیفیت کچھ یوں ہے کہ میں تو کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا۔

قدرت نے پاکستان کو ایک بہترین جغرافیائی محل وقوع سے نوازا ہے مگر ہماری قیادتوں کی نااہلی نے موقع فراہم کرنے والی کھڑکی کو ایک عذاب مسلسل کی صورت میں تبدیل کردیا ہے اور کیفیت یہ ہے کہ ''اے روشنی ٔ طبع تو برمن بلا شدی'' اس میں قصور ہمارے محل وقوع کا نہیں بلکہ ہماری اپنی نااہلی کا ہے۔ قدرت نے ہمیں بے پناہ مادی وسائل اور افرادی قوت سے بھی نوازا ہے مگر ہم ایک قوم کے بجائے مختلف قومیتوں کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اور اپنے وسائل اور اپنی افرادی قوت کو بروئے کار لاکر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے ترقی معکوس کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں حالانکہ مصور پاکستان نے ہمیں بہت پہلے یہ کہہ کر خبردار کردیا تھا کہ:

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب سے پہلے قومی اتحاد کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم کرنے پر توجہ دیں اور خود کو اول و آخر پاکستانی کہلانے پر فخر کریں۔ ترقی اور خوش حالی کا راز قومی اتحاد میں مضمر ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کی شرط اول بھی یہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے قومی مفادات کا سودا کیے بغیر اپنی خارجہ پالیسی کو Pragmatism کی بنیاد پر وضع کریں اور اسی سلسلے میں اپنے بہترین پڑوسی چین سے سبق حاصل کریں کہ وہ کس طرح دنیا کے مختلف ممالک سے اپنے تعلقات استوار کر رہا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم بلاتاخیر ایک کل وقتی وزیر خارجہ مقرر کریں اور دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی پر معقولیت کے ساتھ نظر ثانی کریں۔

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دیکھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔