لسانی جلیبیوں کا شیرہ
ہماری طبیعت دو انتہاؤں کے درمیان بسیرے کی عادی ہوچکی ہے۔ قصیدہ ہے یا پھر ہجو ، فرشتہ ہے یا شیطان
شائد یہ مشرقی مزاج ہے یا پھر ہماری لسانیاتی تشکیل کا فیض کہ بات میں وزن اور زور پیدا کرنے کے لیے مبالغے کا بگھار لگائے بغیر بات نہیں بنتی۔ شائد ہمارا خمیر ہی غلو کے رس میں گندھا ہے۔ سہل و سادہ سی بات نہ دماغ قبول کرتا ہے نہ مزاج۔ تب تک تسلی ہی نہیں ہوتی جب تک آسمان سے ستارے توڑنے کا وعدہ نہ ہو۔سنِ شعور میں آتے ہی مبالغت کا درس ملنے لگتا ہے۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے ( میر )
آہ تھی میری کہ افعی اڑ کے کاٹا چرخ کو
زہر اس کا وہ چڑھا اس کو کہ نیلا ہوگیا (بہادر شاہ ظفر)
دیکھو تو چشمِ یار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام ( حسرت )
کیا حسن ہے چہرے سے نکلتی ہیں شعاعیں
بینائی چلی جائے اگر آنکھ ہٹائیں ( نوید )
چلیے شاعری و نثر کے بارے میں تو تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ تھوڑے بہت غلو کے کھوٹ کے بغیر تخلیقی زیور نہیں بنتا۔مگر یہاں تو زندگی کے ہر شعبے میں بلاغت بلوغت پر سواری گانٹھے ہوئے ہے۔ہماری طبیعت دو انتہاؤں کے درمیان بسیرے کی عادی ہوچکی ہے۔ قصیدہ ہے یا پھر ہجو ، فرشتہ ہے یا شیطان ، دوست ہے یا پھر دشمن ، آر ہے یا پار ، سیاہ ہے یا سفید۔ابلاغ میں غلو تشفی ہی نہیں دیتا جب تک غلو میں بھی ہمالیہ برابر مبالغہ نہ ہو۔اپنا روزمرہ ہی دیکھ لیں۔
ہر تیسرا ریستوران دعوے دار ہے '' عمدہ اور لذیز کھانوں کا واحد مرکز ''۔گھسیٹے خان حلیم والے سے تاج محل پکوان تک ہرسفید بالوں والے باورچی کے پاس سلطنتِ مغلیہ کے مطبخ سے نسل در نسل چرائے مجرب خاندانی نسخے پائے جاتے ہیں۔ہر چوتھے قوال کا شجرہ امیر خسرو سے اور ہر چھٹے گویے کا شجرہ تان سین سے مل رہا ہے۔ بخارا و نیشاپور سے اتنا سید آیا ہے کہ خود بخارا و نیشاپور میں سیدوں کا کال پڑ چکا ہے۔
ہر چوتھا مطب یقین دلا رہا ہے کہ یہاں جملہ پوشیدہ و نا پوشیدہ جنسی و غیر جنسی امراض جڑ سے اکھاڑ دیے جاتے ہیں ( ایڈز اور کینسر سمیت )۔ایک دواخانہ تو اس پے اتر آیا کہ '' یہاں بواسیر اور دیگر امراضِ چشم کا تسلی بخش علاج ہوتا ہے''۔
ہماری تو دھمکی بھی بنا غلو کارگر نہیں رہی۔
کسی دیوار پر بس یہ لکھا ہو کہ '' یہاں پیشاب کرنا منع ہے '' تو عمل کرنا درکنار کوئی پڑھتا تک نہیں۔ تاوقتیکہ یہ نہ لکھا جائے کہ ''یہاں پیشاب کرنا سخت منع ہے۔خلاف ورزی کرنے والے کو حوالہِ پولیس کیا جائے گا ، بحکم انتظامیہ''۔
کسی مجرم کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق سزا دینے کے مطالبے کا چلن ہی نہیں۔اب عدالت میں درخواست دائر نہیں ہوتی بلکہ حکمیہ رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ نشانِ عبرت بنا دیا جائے ، سرِ عام پھانسی پر لٹکایا جائے، گدی سے زبان کھینچ لی جائے، کھال اتار لی جائے ، صفحہِ ہستی سے مٹا دیا جائے ، نام و نشان نہ رہنے دیا جائے ، گردن اتار دی جائے۔ یہ لفظیات عام آدمی کی نہیں بلکہ رہنماؤں اور خطیبوں کے منہ سے جھڑتی ہیں۔
ایک عام سا دعوت نامہ بھی قلابوں سے خالی نہیں رہا۔
آپ کسی اجتماع یا عرس کا اشتہار دیکھ لیں۔اگر بس یہ اطلاع ہو کہ آج شب ممتاز عالمِ دین شاہ محمد صاحب نظامِ مصطفی کانفرنس سے خطاب کریں گے تو نہ میزبان کی تسلی ہوتی ہے اور نہ ہی مدعوئین سنجیدگی سے لیتے ہیں۔جب تک پورا اشتہار موٹے موٹے حروف سے اس قدر لبالب نہ بھرا ہو کہ الفاظ اشتہار کے سائز سے بھی دو ہاتھ آگے نکل رہے ہوں۔
'' آج شب بین الاقوامی شہرت یافتہ پیرِ طریقت ، عالمِ بے بدل ، مفکرِ دوراں ، ولیِ عصر ، سفیرِ اتحادِ بین المسلمین ، دانائے راز ، شمس العلما ، محسن ِ اہلِ سنت حضرت مولانا قاری مفتی شاہ محمد صاحب مدظلہ بعد نماز عشا چورنگی والی مسجد میں فیوض و برکات سے بھرپور فکری خطاب سے سرفراز فرمائیں گے۔جملہ عاشقانِ اسلام سے جوق در جوق شرکت کی درخواست ہے''۔
کسی منصوبے کے افتتاح یا سنگ بنیاد کے موقع پر کسی وی وی آئی پی کا شکریہ یوں بھی تو ادا ہو سکتا ہے کہ ہم شکر گذار ہیں وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کے جنہوں نے کاہنہ کاچھا پل کا افتتاح کیا۔مگر نہ میزبان میں ہمت ہے کہ سادہ شکریہ ادا کرے اور مہمان کو بھی ایسی سادگی توہین محسوس ہوتی ہے۔جب تک سپاسنامہ کچھ یوں نہ ہو جاوے۔
'' آج اہلیان ِ کاہنہ کاچھا کے لیے یہ ایک تاریخی دن ہے کہ جنابِ وزیرِ اعظم اپنی اہم ترین قومی و بین الاقوامی ذمے داریوں میں سے کچھ وقت نکال کر تشریف لائے اور ایک بار پھر ثابت کردیا کہ انھیں کاہنہ کاچھا کے لاکھوں مکینوں کی فلاح و بہبود کا کس قدر خیال ہے۔عزت مآب وزیرِ اعظم یہاں کے عوام تادیر آپ جیسے درد مند ، خاندانی شرافت کے پیکر ، غیر معمولی حساس ، بے مثل محبِ وطن پاکستانی مدبر کی تشریف آوری کے سبب اپنی خوش بختی پر نازاں رہیں گے اور آپ کی ایک ہی پکار پرآپ پر دل و جان نچھاور کردیں گے ''۔اور سپاسنامے کے آخر میں بے موقع شعر کا لازمی ٹانکہ بھی لگانا ضروری ہے۔
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر وغیرہ
ذرا روزمرہ انتظامی فیصلوں سے عام آگہی کے لیے پانی کی طرح بہائے جانے والے خالی از مطلب و منطق لفظیاتی خزانے پے غور کیجیے۔
مثلاً یہ کہنا ہرگز کافی نہیں کہ ریلی کے لیے ہر ممکن حفاظتی اقدامات کرلیے گئے ہیں۔جب تک یہ دعویٰ نہ کیا جائے کہ ''ریلی کے شرکا کو بے مثال فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی ''( خدا معلوم فول پروف سیکیورٹی کس جناور کو کہتے ہیں)۔
ہر جلسہ کامیاب نہیں انتہائی کامیاب ہوتا ہے ، ہر جلسے میں لوگوں کی سادی شرکت نہیں جوق در جوق شرکت کرتے ہیں۔ہر '' عظیم'' رہنما کا استقبال نہیں ہوتا فقید المثال والہانہ استقبال ہوتا ہے۔ہر نعرہ نعرہ نہیں جب تک فلک شگاف نہ ہو۔کوئی جلوس جلوس نہیں ہوتا جب تک اسے ملین مارچ نہ بتایا جائے۔ ہر '' عظیم '' رہنما ہزار ڈیڑھ ہزار عوام کے ٹھاٹیں مارتے سمندر سے ہی خطاب کرتا ہے۔( بھلے اس نے ٹھاٹھیںمارتا اصلی سمندر ایک بار بھی نہ دیکھا ہو )۔
یہاں ہر بندہ اپنے کاز یا دھرتی کے لیے خون کا آخری قطرہ بہانے کو ہمہ وقت آمادہ ہے مگر پہلا قطرہ بہانے کو ایک بھی تیار نہیں۔یہاں ہر با اختیار فرد برائی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے بے تاب ہے۔یہ جانے بغیر کہ پہلی کیل ٹھیک سے لگی بھی کہ نہیں۔
تین روز پہلے ہی وزیرِ اعظم نواز شریف نے آٹھ سو بارہویں دفعہ یقین دلایا کہ '' آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی''۔
مجھے اب یہ جاننے سے دلچسپی ہے کہ پہلا دہشت گرد کون تھا اور کب مارا گیا ؟ اور آخری دہشت گرد آج کل کہاں چھپابیٹھا ہے ؟ تو کیوں نہ ذرا ہمت کر کے آخری دہشت گرد ہی پکڑ لیا جائے تاکہ ٹنٹا ختم ہو۔
حیرت ہے جو قومیں مبالغہ آرا لفظیات کی عادی نہیں وہ کیسے اپنے مسائل حل کرتی ہیں۔شائد وہ '' کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرنے '' کے چکر میں پڑے بغیر مکمل توجہ حل کی جانب ہی مرکوز رکھتی ہوں گی۔
جس دن ہمیں بھی غلو کے شیرے میں لسانی جلیبیاںتلنے سے فرصت ہو گئی مسائل سیدھے ہونا شروع ہو جائیں گے۔