نیشنل ایکشن پلان کی ترجیحات

کراچی سمیت پورے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے


Zaheer Akhter Bedari February 02, 2016
[email protected]

آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں پورے ملک میں امن وامان کی جو صورت بہتر ہوئی تھی، کراچی کے حالات میں بھی مثبت تبدیلی آئی تھی، کراچی ملک کا سب سے بڑا اور ترقی یافتہ شہر ہے جہاں دو کروڑ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔

کراچی ایک عرصے تک دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری سمیت کئی سنگین جرائم کا اڈہ بنا رہا، صورتحال اس قدر بگڑگئی تھی کہ روشنیوں کا یہ شہر ہر شام سناٹوں کے شہر میں بدل جاتا تھا۔ ضرب عضب کے اثرات کراچی تک پہنچے اور کراچی کے باسیوں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔

ضرب عضب کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد شروع ہوا اور کراچی میں رینجرز کو بلا کر خصوصی اختیارات کے ساتھ حالات بہتر بنانے کی ذمے داری سونپی گئی، بلا شبہ یہ ایک اچھا اقدام تھا لیکن ہوا یہ کہ کراچی کے مخصوص اور حساس ترین حالات میں ہمارے حکمرانوں نے حالات کو بہتر بنانے کے لیے نہ کوئی واضح منصوبہ بندی کی، نہ غالباً ترجیحات کا تعین کیا، جو اس شہر کے بدترین حالات میں ضروری تھا۔ اس کمزوری کی وجہ یہ آپریشن نہ صرف بے سمت ہوگیا بلکہ اس کی ترجیحات بھی گنجلک ہوگئیں۔

کراچی سمیت پورے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے، جب تک اس مسئلے کو پوری طرح حل نہیں کیا جاتا نہ ملک کے حالات کلی طور پر بہتر ہوسکتے ہیں نہ کراچی میں امن قائم ہوسکتا ہے۔

اس حوالے سے پہلی بات یا حقیقت یہ ہے کہ پولیس رینجرز یا فوج عوام کے تعاون کے بغیر یہاں کی بدتر صورتحال کو کنٹرول نہیں کرسکتی، کیوں کہ سیکیورٹی فورسز خواہ وہ کتنی بڑی تعداد میں ہوں 2 کروڑ آبادی اور سیکڑوں میل پر پھیلے ہوئے شہر کو کنٹرول نہیں کرسکتیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ یوسی لیول پر ایک ایسا منظم اور مربوط نظام قائم کیا جائے جو اپنے اپنے علاقے میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اگر اس قسم کا کوئی نظام قائم ہوتا ہے تو اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر گلی، محلے میں نئے آنے والوں پر نظر رکھی جاسکے گی۔

مشکل یہ ہے کہ ہماری سیاسی اور معاشرتی زندگی میں عدم اعتماد کا کلچر اس قدر مستحکم ہوگیا ہے کہ سنگین سے سنگین صورت حال میں بھی ہمارے سیاست دان ہمارے حکمران ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ اس عدم اعتماد نے ہماری سیاسی زندگی کو قبائلی نفرتوں، قبائلی دشمنیوں میں بدل کر رکھ دیا ہے اور یہی عدم اعتماد نے بلدیاتی نظام کو جمود کا شکار بنادیا ہے اور اسی عدم اعتماد کی وجہ سے دہشت گردوں سمیت مختلف جرائم میں سنگین اضافہ کردیا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے اختلافات سماج دشمن عناصر کے لیے سہولت کاری کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ کراچی میں کراچی سے باہر کے جرائم پیشہ گروہ ایک بار پھر سرگرم ہوگئے ہیں اور ان کی سرگرمیوں کا ہدف مضافاتی بستیاں بن گئی ہیں، جہاں ٹولیوں میں جرائم پیشہ افراد گھروں میں گھس رہے ہیں، مردوں پر تشدد کررہے ہیں، خواتین کی بے حرمتی کررہے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ آپریشن کے اہداف متنازعہ بن گئے ہیں اور اسٹریٹ کرائم کے مجرم بے خوف ہوگئے ہیں۔

آپریشن کو اس قدر متنازعہ بنادیا گیا ہے کہ 2008 سے 2013 تک بھائی بھائی بنے رہنے والی سیاسی جماعتیں اب حریف بن گئی ہیں، قانون اور آئین کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ان حماقتوں کا سب سے بڑا نقصان کراچی کے غریب عوام کو ہورہا ہے اور غالباً ان ہی سیاسی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خیبر پختونخوا میں دہشت گرد ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی دوسری وجوہات کے علاوہ ہمارے سیاست دانوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد اور لڑائیاں بھی ہیں۔

دہشت گرد ضرب عضب کی وجہ سے شمالی وزیرستان سے فرار پر مجبور ہوئے ہیں، لیکن یہ قوتیں اپنے آپ کو منظم کرکے دوبارہ حملے کرنے کی پوزیشن میں آرہے ہیں، جن کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج اور سیاست دانوں کے علاوہ عوام کو بھی ایک پیج پر آنا ہوگا، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب نیشنل ایکشن پلان کی اولین ترجیح دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔

ہماری حکومت کی اولین ترجیح ''اقتصادی ترقی'' ہے اور وہ اس حوالے سے اس قدر فعال ہے کہ ہمارے وزیراعظم اپنا زیادہ وقت بیرونی ملکوں میں سرمایہ کاری کے حصول میں گزار رہے ہیں، بلاشبہ اقتصادی ترقی کے لیے ملکی اور بیرونی سرمایہ کاری بہت ضروری ہے، لیکن سرمایہ کاری کے لیے امن وامان کی فضا ضروری ہے۔ کیا ملک میں امن وامان کی ایسی فضا موجود ہے جس میں سرمایہ کاری بے خوفی سے سرمایہ کاری کرسکیں؟

اس قسم کی مخصوص صورت حال میں بلدیاتی ادارے موثر ترین کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن بلدیاتی الیکشن ہونے کے باوجود اب تک بلدیاتی ادارے فعال نہیں ہوسکے۔ کراچی ہی نہیں پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والوں کو یہ شکایت ہے کہ انھیں مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم کرکے ایک ایسا ڈمی نظام دیا جارہا ہے جس میں بلدیاتی ادارے قدم قدم پر صوبائی حکومت کے محتاج ہوںگے۔ اگر حالات نارمل ہوں تو اس قسم کی لڑائیوں کی عیاشی کی جاسکتی ہے، لیکن حالات سنگین ہوں تو ایسے بے جواز اختلافات کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

یہ بات تکرار کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردوں کو شمالی وزیرستان چھوڑنا پڑگیا ہے اور یہاں سے نکلے ہوئے دہشت گرد ملک کے مختلف شہروں میں آرہے ہیں۔ کراچی چونکہ 2 کروڑ سے زیادہ آبادی کا ایک بہت بڑا شہر ہے، لہٰذا دہشت گرد یہاں آسانی سے پناہ بھی لے سکتے ہیں اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد بھی کرسکتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق باہر سے آنے والے دہشت گرد یا تو مضافاتی بستیوں میں رہ رہے ہیں یا پھر اپنی زبان بولنے والوں کی بستیوں میں محفوظ پناہ گاہیں بنارہے ہیں۔

اگر یہ درست ہے تو پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ شہر کی ہزاروں مضافاتی بستیوں اور افغان بستیوں میں تنہا رینجرز حالات کو کنٹرول کرسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی ہی میں آتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس ضرورت کا شدید احساس ہوتا ہے کہ منتخب بلدیاتی نمایندوں کو بلاتاخیر فعال ہونا چاہیے اور یوسی لیول سے ٹاؤن لیول تک چیک کا ایک ایسا نظام قائم کرنا چاہیے جو علاقائی سطح پر دہشت گردی کی روک تھام کا ایک منظم اور مربوط پروگرام پر عمل پیرا ہوسکے۔

ہم نے اس بات کی طرف ذمے داروں کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ اس وقت سب سے اہم ضرورت ترجیحات کے تعین کی ہے، اگر ہماری قومی ترجیح دہشت گردی ہے تو پھر اس ترجیح میں ردوبدل نہیں ہونا چاہیے۔ جب یہ ترجیح طے ہوجائے تو پھر یہ طے کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ دہشت گرد کون ہیں جو پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ طے نہ ہو تو آپریشن چوں چوں کا مربہ ہوجائے گا اور اس کی افادیت ختم ہوجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔