ڈیم مکمل کیا جائے مگر
ایک حقیقی و محب وطن سیاست دان وہ ہوتا ہے جسے اپنے ہم وطن لوگوں کے مسائل کا پورا پورا ادراک ہوتا ہے
FAISALABAD:
ایک حقیقی و محب وطن سیاست دان وہ ہوتا ہے جسے اپنے ہم وطن لوگوں کے مسائل کا پورا پورا ادراک ہوتا ہے اور جب وہ سیاست دان قوم کی حمایت یا دوسرے الفاظ میں قوم کی عطا کردہ قوت جوکہ عوام اس سیاست دان کو VOTEکی شکل میں دیتے ہیں ،کوشش کرتا ہے کہ قوم کی عطا کردہ طاقت سے قوم کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرسکے بلکہ اس سیاست دان کی یہ کوشش بھی ہوتی اس کی قوم کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی کچھ ایسا کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو کم سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔ ظاہر ہے ایسے سیاستدان بلکہ قوم کے حقیقی لیڈر روز روز تو پیدا نہیں ہوتے کیونکہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مطلب یہ کہ قوموں کے تقدیر بدلنے والے لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ من حیث القوم ہم پاکستانیوں کی بد نصیبی ہے کہ پاکستانی قوم کو آج تک کوئی حقیقی لیڈر نہ مل سکا اگرچہ قیام پاکستان کو 69 برس ہونے کو ہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ ان 69 برسوں میں پاکستان پر 26 وزرائے اعظم، 12 صدور نے حکمرانی کی مگر ان حکمرانوں نے قوم کی عطا کردہ قوت جوکہ قوم نے VOTE کے ذریعے ان حکمرانوں کو دی۔
ان حکمرانوں نے اس قومی قوت کا یوں غلط استعمال کیا کہ اس قومی قوت کو قوم ہی کے خلاف استعمال کیا اور قوم کے لیے آئے روز نئے نئے مسائل پیدا کیے ان مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ ہے کالا باغ ڈیم کا۔ یہ منصوبہ یعنی کالا باغ ڈیم کا آمر حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں شروع ہوا ، وہ بھی آج سے کم و بیش 50 برس قبل کالا باغ ڈیم منصوبے پر ابتدائی دور میں ہی کروڑوں روپے خرچ کردیے گئے۔ وہ کروڑوں روپے عصر حاضر میں اربوں ڈالر کے مساوی ہیں، مگر ہوا یہ کہ کالا باغ ڈیم اپنے آغاز میں ہی التوا کا شکار ہوگیا اور آج 45 برس ہوئے ہیں کہ کالا باغ ڈیم پر سیاست ہو رہی ہے۔
کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں ان لوگوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا جو لوگ اس حقیقت سے بھی بے خبر ہیں کہ کالا باغ ہے کیا؟ ایسے لوگوں کی خدمت میں فقط اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ کالا باغ ایک شہر کا نام ہے اور یہ شہر ضلع میانوالی کی ایک تحصیل ہے ایک زمانے میں نواب امیر محمد خان جوکہ ایوبی دور حکومت میں مغربی پاکستان یعنی موجودہ پورے پاکستان کے گورنر تھے۔ واضح رہے کہ کالا باغ شہر میانوالی شہر کے کلمہ چوک سے 48 کلو میٹر کی مسافت پر ہے اور کالا باغ شہر میانوالی سے جنوب کی جانب دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے جب کہ نواب امیر محمد خان کی وفات کے بعد کالا باغ کی وجہ شہرت بنا۔ اس مقام پر زیر التوا منصوبہ کالا باغ ڈیم صوبہ پنجاب سو فیصد کالا باغ ڈیم مکمل کرنے کے حق میں ہے جب کہ صوبہ سندھ کو یہ اعتراض ہے کہ کالا باغ منصوبہ اگر مکمل کیا گیا تو دریائے سندھ کے پانی پر مکمل اجارہ داری ہوجائے گی۔
پنجاب کی اور سندھ کی زرعی اراضی بنجر ہوجائے گی جب کہ صوبہ خیبر پختونخوا کا موقف یہ ہے کہ اگر کالا باغ منصوبہ پایا تکمیل کو پہنچا تو خیبر پختونخوا کا ایک بڑا حصہ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے سے سیم و تھور کا شکار ہوجائے گا اور مزید یہ کہ نوشہرہ شہر و گرد و نواح کا وسیع علاقہ غرقاب بھی ہوسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ سندھ و خیبر پختونخوا کے ان ہی تحفظات کے باعث کالا باغ ڈیم گزشتہ 45 برس سے التوا کا شکار ہے کالا باغ ڈیم منصوبہ مکمل نہ ہونے کے کیا نقصانات ہیں؟
ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان نقصانات پر بھی ایک سرسری نظر ڈالی جائے۔
اول صوبہ سندھ کی زرعی اراضی کا ایک بہت بڑا حصہ فقط پانی کی عدم دستیابی کے باعث غیر آباد پڑا ہے اس زرعی اراضی کا غیر آباد ہونا صوبہ سندھ کی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
دوئم ہر برس یا دو تین برس بعد آنے والا سیلابی پانی جو غریب کسانوں کی ان فصلوں کو بھی نیست و نابود کردیتا ہے جوکہ یہ کسان تمام تر مشکلات کے باوجود پروان چڑھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان کسانوں میں پنجاب کے چھوٹے کسان بھی متاثر ۔
سوئم ۔جو نقصان ہوتا ہے وہ ہے قدرتی آفت کی شکل میں آنے والا سیلاب رہائشی بستیوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جس سے کروڑوں لوگ بے گھر ہوتے ہیں اور دریا کنارے بند پر عارضی بستیاں آباد کرلیتے ہیں اس عمل سے ان غریب لوگوں کی تو سال بھر کی یا عمر بھر کی محنت تو غارت ہوتی ہی ہے البتہ سیاستدانوں و حکمرانوں کو اپنی اپنی سیاست چمکانے کا موقعہ مل جاتا ہے جوکہ اپنے ساتھ دو چار چاول کی دیگیں لے جاتے ہیں اور ان سیلاب متاثرین سے خوب ہمدردیاں جتلاتے ہیں اور خوب فوٹو بنوائے جاتے ہیں بلکہ آج کل تو جب کہ میڈیا جدید دور میں داخل ہوچکا ہے یہ سیاستدان و حکمران پوری کوشش کرتے ہیں کہ سیلاب متاثرین کی بے بسی و ان سیاست دانوں حکمرانوں کی دریا دلی کو براہ راست پوری دنیا کو دکھایا جائے اور اگر کالا باغ ڈیم اپنے مقررہ وقت پر مکمل کرلیا جاتا تو سو فیصد جو فوائد حاصل ہوتے۔
وہ فوائد یہ تھے اول ملک کی کثیر زرعی زمین آباد ہوتی جس سے قوی امکان تھا کہ ہمارے زرعی شعبے میں انقلابی کیفیت پیدا ہوجاتی جس سے نا صرف خوراک کی ہماری ضروریات پوری ہوتیں بلکہ ہمارا ملک زرعی اجناس برآمد کرکے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کرتا مگر باوجود اس کے کہ ان 45 برسوں میں وطن عزیز میں چار مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت قائم کی جب کہ پاکستان مسلم لیگ نے 1985 سے اب تک پانچ مرتبہ وفاق میں حکومت سازی کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی و پاکستان مسلم لیگ کے علاوہ اس عرصے میں دو فوجی آمروں جنرل محمد ضیا الحق و جنرل پرویز مشرف نے بھی 20 برس تک پورے اختیارات کے ساتھ حکومتیں کیں مگر ان 45 برسوں میں کوئی بھی حکمران کالا باغ ڈیم کے معاملے میں چاروں صوبوں میں اتفاق رائے پیدا نہ کرسکا اور نا ہی عصر حاضر میں کالا باغ ڈیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کالا باغ ڈیم کے معاملے میں چاروں صوبوں کو اعتماد میں لے کر اتفاق رائے پیدا کیا جائے تاکہ کالا باغ ڈیم مکمل کرکے ملکی خوراک کی ضروریات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی کے بحران پر بھی قابو پایا جاسکے جس نے گزشتہ 10 برسوں سے وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
اس منصوبے پر چاروں صوبوں میں سو نہیں دو سو فیصد اتفاق رائے پیدا کرکے و چاروں صوبوں کو اعتماد میں لے کر ضرور مکمل کیا جائے اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں موجودہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ بھی چند ماہ قبل یہ بیان میڈیا کو دے چکے ہیں کہ کالا باغ ڈیم پر اعتراض نہیں بلکہ سائز پر اعتراض ہے۔ مطلب یہ کہ اگر کالا باغ کا سائز قدرے چھوٹا کردیا جائے تو صوبہ سندھ کو اعتماد میں لیا جاسکتا ہے اور اگر کالا باغ ڈیم منصوبے کا Water Level کم کردیا جائے تو صوبہ خیبر پختونخوا کی کالا باغ ڈیم کے معاملے پر رضامندی حاصل کی جاسکتی ہے ۔