نہ قفس نہ آشیانہ
تو قارئین! حالات اس سے مختلف نہیں ہیں، ہمیں خبر ہے کہ صفحات سیاہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں
منیر نیازی نے شاید ماضی کے اس عروس البلاد کراچی کے مستقبل کے لیے یہ شعر کہا تھا کہ:
اس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
تو قارئین! حالات اس سے مختلف نہیں ہیں، ہمیں خبر ہے کہ صفحات سیاہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں مگر کیا کریں کہ ہمارے پاس صرف قلم ہے جو کبھی کبھی چلنے کی ضد کرتا ہے، سو لفظ امڈ پڑتے ہیں کہ شاید اسی طرح آپ تک ہماری آواز پہنچ جائے۔ رہی بات اونچے ایوانوں کی تو نہ صرف ان کی دیواریں بلکہ اس میں بیٹھنے والوں کے کان بھی ساؤنڈ پروف ہیں۔
بہت دنوں سے تمام چینلز اور اخبارات میں سندھ اسمبلی کے احاطے میں ملازمین کے مکانوں کے مسمار ہونے کی خبریں آرہی ہیں، جہاں بے شمار خواتین، بچے، بوڑھے کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑے ہیں، اب وہاں کے مناظر کچھ یوں ہیں کہ ٹوٹی ہوئی اینٹوں پر بچے اونچ نیچ کھیل رہے ہیں، خواتین بجری کے ڈھیر پر لکڑیاں جلاکر کھانا پکارہی ہیں اور بزرگ حسرت سے اپنے گھروں کو مٹی کا ڈھیر بنتا دیکھ رہے ہیں۔
ان بے خانماں برباد لوگوں کو چند مخیر حضرات نے اتنی توجہ دی کہ ان کے لیے راشن پانی کا انتظام کردیا، متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان نے ان کے لیے آواز بلند کی، رہ گئی حکومت سندھ تو وہ حسب روایت اپنی من مانی میں مست ہے، بلکہ ایم پی اے ہاسٹل کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کیسے اور کہاں قہر خداوندی نازل ہوگا اور یہ سارے ٹھاٹ باٹ خس و خاشاک کی طرح بہالے جائے گا۔
بعض امراء نے تھر کے حوالے سے جو شاندار خدمات انجام دیں اس سے ان جاگیرداروں، وڈیروں، سیاست دانوں، حکمرانوں کو سبق لینا چاہیے۔ اس ملک کے غریب عوام سستے مکانوں کے لیے ترس رہے ہیں، رہی بات حکومت کی خواہ وہ وفاق کی ہو یا سندھ کی تو اس کا بس چلے تمام بستیوں پر بلڈوزر چلواکر اپنے وزیروں، سفیروں، ارکان، رشتے داروں کے لیے لگژری مکانات تعمیر کروادے۔
روٹی کپڑا اور مکان، یہ وہ پرکشش نعرہ تھا جس نے بھٹو صاحب کو ''عظیم قائد'' بنادیا، کیوں کہ یہی وہ بنیادی ضروریات ہیں جو ہر انسان کے لیے اہم ہیں۔ روٹی ملک میں دستیاب تو ہے مگر اتنی قیمت پر کہ غریب کھانے سے پہلے اپنی جیب دیکھتے، پہلے وہ لنڈا بازار سے کپڑا لے کر تن ڈھانپ لیتا تھا اب وہاں بھی مہنگائی نے رستہ دیکھ لیا، مکان کی بات تو چھوڑ دیجیے کہ جہاں قبر کا ملنا بھی دشوار ہو اور اس کے لیے بھی ہزاروں روپے درکار ہوں وہاں گھر ایک خواب ہے، یہ خواب شاید مرزا غالب نے بہت پہلے دیکھ لیا تھا ورنہ وہ یہ کیوں کہتے کہ:
بے در و دیوار سا ایک گھر بنانا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور نوحہ گر کوئی نہ ہو
ایسے مسمار ہوتے ہوئے مکانوں پر وحشت رقص کرتی ہے اور پھر وہ صحن بن جاتے ہیں، اس شہر کے فٹ پاتھوں جیسے صحن اور ہر آنے جانے والا ان پر چل کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے
ہزاروں گز کے عالیشان بنگلے جہاں اکثر چوکیدار یا گارڈز، خادمین ہوتے ہیں اور جن کے مالک عام طور پر اسلام آباد کے سرکاری مکانوں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں، کیا وہ ان لوگوں کے لیے اپنے احاطے کے پیچھے کوارٹر نہیں بنواسکتے۔ اربوں اور کھربوں کمانے والے میرے وطن کے یہ قزاق آخر اپنی کتنی نسلوں کے لیے دولت کے انبار چھوڑدیںگے۔ شاید یہ اتنے مسرور اور مطمئن ہیں کہ ان کو دعاؤں کی ضرورت ہی نہیں، ویسے بھی ان کو دعا کون دے گا کہ ان کو تو عوام کی بددعا بھی نہیں لگتی اور اس کی بھی ایک وجہ ہے کہ جزا اور سزا کا مالک صرف اﷲ تعالیٰ ہے، اس کا غیظ و غضب جب نازل ہوگا تو سارے کرپٹ لوگ اپنی چوکڑی بھول جائیںگے۔
ہماری زمین سونا ہی نہیں اگلتی کرنسی نوٹ بھی اگلتی ہے، شکر ہے کہ بعض لوگوں کے گھر کی زمینوں سے صرف اربوں پیسے نکلے ہیں، اگر زمین دوز اسلحہ نکلتا تو خطرے کی بات تھی، ویسے یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ ناجائز کمانے والے یہاں مال بنانے کے بعد ہوائی جہاز کی سیر کرتے ہوئے کبھی لندن، کبھی امریکا، کبھی دبئی، کبھی کینیڈا چلے جاتے ہیں جن کو پکڑنا اتنا آسان نہیں، آسان تو اس ملک میں رہنے والے لٹیروں کا بھی نہیں جو پولیس سے ساز باز کرکے آزاد ہوجاتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ ہماری پولیس بڑی رحم دل ہے، وہ صرف ان کو چھترول کرتی ہے جو ان کا پیٹ نہیں بھرتے، ایسے عالم میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ صرف چند ایماندار اور با ضمیر پولیس والوں کی کیا حیثیت۔ ہم نے تو اسمبلی کے ان ملازمین کو یہ کہتے سنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جیسا ہمارے آرمی چیف نے شہر میں امن قائم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے وہ ہم غریبوں کے لیے بھی حکومت سندھ پر دباؤ ڈالے، ایک خاتون نے کہاکہ اﷲ میاں راحیل شریف کو زندگی دے، ہمت دے تو وہ اس شہر کی سڑکیں، گٹر اور ٹریفک و ٹرانسپورٹ کا نظام بھی ان سات ماہ میں درست کروا دیں، وہ چلے گئے تو کیا ہوگا۔ سادہ لوح خاتون ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے آرمی چیف کی شخصیت بڑی رعب دار ہے، ہماری حسرت ہے کہ ہم ان کو کبھی مسکراتا ہوا دیکھیں، اس مختصر عرصے میں راحیل شریف نے جو عزت اور محبت عوام سے سمیٹی ہے وہ پاکستان کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی، لوگ ان مسمار شدہ مکانوں کے متاثرین سے بہت متاثر ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ہر تخریب میں ایک تعمیر چھپی ہے، اگر ایک بوسیدہ آشیانہ گرے گا تب ہی تو اس کی جگہ نیا بنے گا، ظاہر ہے ان لوگوں کو یونہی تو نہیں اٹھایا جارہا، یہ جائیںگے تو اس خالی زمین پر حکومت سندھ کچھ اور بنائے گی۔
کریںگے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
کیا خبر کہ کل ان کی جگہ خوبصورت سرونٹ کوارٹر تعمیر ہوں جہاں ارکان اسمبلی کے نجی باورچی، ماسیاں رہائش پذیر ہوں یا پھر یہاں بھی اراکین کی دلبستگی کا سامان دستیاب ہو۔
اس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
تو قارئین! حالات اس سے مختلف نہیں ہیں، ہمیں خبر ہے کہ صفحات سیاہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں مگر کیا کریں کہ ہمارے پاس صرف قلم ہے جو کبھی کبھی چلنے کی ضد کرتا ہے، سو لفظ امڈ پڑتے ہیں کہ شاید اسی طرح آپ تک ہماری آواز پہنچ جائے۔ رہی بات اونچے ایوانوں کی تو نہ صرف ان کی دیواریں بلکہ اس میں بیٹھنے والوں کے کان بھی ساؤنڈ پروف ہیں۔
بہت دنوں سے تمام چینلز اور اخبارات میں سندھ اسمبلی کے احاطے میں ملازمین کے مکانوں کے مسمار ہونے کی خبریں آرہی ہیں، جہاں بے شمار خواتین، بچے، بوڑھے کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑے ہیں، اب وہاں کے مناظر کچھ یوں ہیں کہ ٹوٹی ہوئی اینٹوں پر بچے اونچ نیچ کھیل رہے ہیں، خواتین بجری کے ڈھیر پر لکڑیاں جلاکر کھانا پکارہی ہیں اور بزرگ حسرت سے اپنے گھروں کو مٹی کا ڈھیر بنتا دیکھ رہے ہیں۔
ان بے خانماں برباد لوگوں کو چند مخیر حضرات نے اتنی توجہ دی کہ ان کے لیے راشن پانی کا انتظام کردیا، متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان نے ان کے لیے آواز بلند کی، رہ گئی حکومت سندھ تو وہ حسب روایت اپنی من مانی میں مست ہے، بلکہ ایم پی اے ہاسٹل کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کیسے اور کہاں قہر خداوندی نازل ہوگا اور یہ سارے ٹھاٹ باٹ خس و خاشاک کی طرح بہالے جائے گا۔
بعض امراء نے تھر کے حوالے سے جو شاندار خدمات انجام دیں اس سے ان جاگیرداروں، وڈیروں، سیاست دانوں، حکمرانوں کو سبق لینا چاہیے۔ اس ملک کے غریب عوام سستے مکانوں کے لیے ترس رہے ہیں، رہی بات حکومت کی خواہ وہ وفاق کی ہو یا سندھ کی تو اس کا بس چلے تمام بستیوں پر بلڈوزر چلواکر اپنے وزیروں، سفیروں، ارکان، رشتے داروں کے لیے لگژری مکانات تعمیر کروادے۔
روٹی کپڑا اور مکان، یہ وہ پرکشش نعرہ تھا جس نے بھٹو صاحب کو ''عظیم قائد'' بنادیا، کیوں کہ یہی وہ بنیادی ضروریات ہیں جو ہر انسان کے لیے اہم ہیں۔ روٹی ملک میں دستیاب تو ہے مگر اتنی قیمت پر کہ غریب کھانے سے پہلے اپنی جیب دیکھتے، پہلے وہ لنڈا بازار سے کپڑا لے کر تن ڈھانپ لیتا تھا اب وہاں بھی مہنگائی نے رستہ دیکھ لیا، مکان کی بات تو چھوڑ دیجیے کہ جہاں قبر کا ملنا بھی دشوار ہو اور اس کے لیے بھی ہزاروں روپے درکار ہوں وہاں گھر ایک خواب ہے، یہ خواب شاید مرزا غالب نے بہت پہلے دیکھ لیا تھا ورنہ وہ یہ کیوں کہتے کہ:
بے در و دیوار سا ایک گھر بنانا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور نوحہ گر کوئی نہ ہو
ایسے مسمار ہوتے ہوئے مکانوں پر وحشت رقص کرتی ہے اور پھر وہ صحن بن جاتے ہیں، اس شہر کے فٹ پاتھوں جیسے صحن اور ہر آنے جانے والا ان پر چل کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے
ہزاروں گز کے عالیشان بنگلے جہاں اکثر چوکیدار یا گارڈز، خادمین ہوتے ہیں اور جن کے مالک عام طور پر اسلام آباد کے سرکاری مکانوں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں، کیا وہ ان لوگوں کے لیے اپنے احاطے کے پیچھے کوارٹر نہیں بنواسکتے۔ اربوں اور کھربوں کمانے والے میرے وطن کے یہ قزاق آخر اپنی کتنی نسلوں کے لیے دولت کے انبار چھوڑدیںگے۔ شاید یہ اتنے مسرور اور مطمئن ہیں کہ ان کو دعاؤں کی ضرورت ہی نہیں، ویسے بھی ان کو دعا کون دے گا کہ ان کو تو عوام کی بددعا بھی نہیں لگتی اور اس کی بھی ایک وجہ ہے کہ جزا اور سزا کا مالک صرف اﷲ تعالیٰ ہے، اس کا غیظ و غضب جب نازل ہوگا تو سارے کرپٹ لوگ اپنی چوکڑی بھول جائیںگے۔
ہماری زمین سونا ہی نہیں اگلتی کرنسی نوٹ بھی اگلتی ہے، شکر ہے کہ بعض لوگوں کے گھر کی زمینوں سے صرف اربوں پیسے نکلے ہیں، اگر زمین دوز اسلحہ نکلتا تو خطرے کی بات تھی، ویسے یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ ناجائز کمانے والے یہاں مال بنانے کے بعد ہوائی جہاز کی سیر کرتے ہوئے کبھی لندن، کبھی امریکا، کبھی دبئی، کبھی کینیڈا چلے جاتے ہیں جن کو پکڑنا اتنا آسان نہیں، آسان تو اس ملک میں رہنے والے لٹیروں کا بھی نہیں جو پولیس سے ساز باز کرکے آزاد ہوجاتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ ہماری پولیس بڑی رحم دل ہے، وہ صرف ان کو چھترول کرتی ہے جو ان کا پیٹ نہیں بھرتے، ایسے عالم میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ صرف چند ایماندار اور با ضمیر پولیس والوں کی کیا حیثیت۔ ہم نے تو اسمبلی کے ان ملازمین کو یہ کہتے سنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جیسا ہمارے آرمی چیف نے شہر میں امن قائم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے وہ ہم غریبوں کے لیے بھی حکومت سندھ پر دباؤ ڈالے، ایک خاتون نے کہاکہ اﷲ میاں راحیل شریف کو زندگی دے، ہمت دے تو وہ اس شہر کی سڑکیں، گٹر اور ٹریفک و ٹرانسپورٹ کا نظام بھی ان سات ماہ میں درست کروا دیں، وہ چلے گئے تو کیا ہوگا۔ سادہ لوح خاتون ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے آرمی چیف کی شخصیت بڑی رعب دار ہے، ہماری حسرت ہے کہ ہم ان کو کبھی مسکراتا ہوا دیکھیں، اس مختصر عرصے میں راحیل شریف نے جو عزت اور محبت عوام سے سمیٹی ہے وہ پاکستان کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی، لوگ ان مسمار شدہ مکانوں کے متاثرین سے بہت متاثر ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ہر تخریب میں ایک تعمیر چھپی ہے، اگر ایک بوسیدہ آشیانہ گرے گا تب ہی تو اس کی جگہ نیا بنے گا، ظاہر ہے ان لوگوں کو یونہی تو نہیں اٹھایا جارہا، یہ جائیںگے تو اس خالی زمین پر حکومت سندھ کچھ اور بنائے گی۔
کریںگے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
کیا خبر کہ کل ان کی جگہ خوبصورت سرونٹ کوارٹر تعمیر ہوں جہاں ارکان اسمبلی کے نجی باورچی، ماسیاں رہائش پذیر ہوں یا پھر یہاں بھی اراکین کی دلبستگی کا سامان دستیاب ہو۔