قدرت اور جاپان

کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ خبریں بھی سبق آموز ہوسکتی ہیں۔

ISLAMABAD:
کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ خبریں بھی سبق آموز ہوسکتی ہیں۔ سوچا ہوگا، بلکہ آپ کا ذہن اسے تعین کی حد تک تسلیم بھی کرتا ہوگا اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ جب سے پاکستان میں میڈیا کی ترقی ہوئی ہے پاکستان کے عوام کو سوائے سبق آموزی کے کیا مل رہا ہے؟ کیوں کہ پاکستان کا میڈیا جو کام کرتا ہے وہ شاید دوسرے ملکوں کے میڈیاز نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہوںگے تو ہمارے میڈیا میں وہ ذرا کم ہی ہائی لائٹ ہوتے ہیں۔

کیوں کہ ایسا کرنے سے ہمارے میڈیا سے بھی عوام کو جائز توقعات وابستہ ہوجائیں گی کہ یہ بھی ایسا ہی کریںگے، مگر یہ ایسا نہیں کریں گے، یہ نہیں کرسکتے، کیوں کہ یہاں میڈیا صرف انڈسٹری ہے اور دوسرے ملکوں میں میڈیا انڈسٹری کے ساتھ ساتھ Social Activist کا کردار بھی ادا کرتا ہے اور نفع نقصان کا سوال بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ بھارت پاکستان میں نفع نقصان پہلے دو گے کیا؟ اگر میں یہ کام کردوں؟ یہ سوال ہر ادارے بشمول میڈیا میں موجود ہے۔

خیر خبروں سے ہی خبریں اور کہانیوں سے کہانیاں جنم لیتی ہیں، مگر ہم احساس سے جتنے عاری ہیں، ہوسکتا ہے کہ کوئی اور قوم ایسی ہو۔ ہم تو مفت میں کام نہ کرنے والوں کے ہاتھ ٹوکے سے قلم کردیتے ہیں اور کوئی ٹوکہ ان کے خلاف عمل میں نہیں آتا، جو اس کے ذمے دار ہیں۔ ایسے مواقع پر دین کو درمیان میں ڈال کر سادہ لوح لوگوں کو صلح پر آمادہ کردیا جاتا ہے۔

یہ صلح بھی دراصل غریب کی شکست ہے، کیوں کہ سزا ختم کرکے صلح کا رواج اب عام ہوگیا ہے۔ سزا سے امیر بچ جاتا ہے اور غریب کی ماں کو برسر عام کہنا پڑتا ہے کہ میں مجبور ہوں، قاتل بہت طاقتور ہیں اور میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ کوئی سیاست دان، غریبوں کے نام نہاد ہمدرد جو ووٹوں یا نوٹوں کی سیاست کرتے ہیں، وہ اس ماں کی اس دلدوز پکار کا جواب نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ جس جماعت کا نام انصاف کی تحریک کے طور پر لیا جاتا ہے وہ بھی کچھ نہیں کہتی۔

وہ جماعت کیا کچھ نہیں کرسکتی، جو اپنے لیڈر کو پورے پاکستان میں ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر پر جمہوریت کا راگ سنانے کے لیے سفر کروا سکتی ہے اور دوسروں پر گرجنے برسنے کا لائسنس دے سکتی ہے، وہ کم از کم اس ایک کیس میں فریق بن جاتی تو ایک مثال قائم ہوجاتی اور معلوم ہوجاتا کہ یہ جماعت عوام کی کتنی ہمدرد ہے۔

دراصل ہمارے یہاں سیاست دو طرح کے دانتوں کا رواج ہے، وہ یہ کیس ہو یا لیاری کے غریب عوام کا کیس، کوئی بھی کیس اپنے ہاتھ میں نہیں لے گی، کیوں کہ ان میں تو پہلے ہی سوٹ کیس میں کچھ لوگ ان سوٹ کیسوں سمیت ملک سے باہر سدھار گئے اور صورتحال میں سدھار کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ ان کے حق میں ہو تو واپس آجائیں، مزید سوٹ کیس حاصل کرنے کے لیے۔ شاید پاکستان سے ہمدردی اس ایک نوجوان کو ہو جو کراچی میں ڈھکن لگاتا پھر رہا ہے گٹروں پر عالمگیر۔ ورنہ تو کیا عرض کریں، ریل پاکستان میں سفر کا آج بھی ایک سستا ذریعہ قرار دی جاتی ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کیوں کہ اس پر بھی لوگوں کے تحفظات ہوں گے۔

پاکستان میں تیسری بار حکومت سنبھالنے والوں کے ادوار میں اگر آپ غور کریں تو زیادہ تر ان اداروں کو نقصان پہنچا جو ''لوہے کا کاروبار کرتے ہیں'' کررہے تھے یا جہاں لوہے کا استعمال ہورہا تھا، یا ہورہا ہے، اس میں ریلوے بھی شامل ہے، نہ جانے کیوں ان کے ادوار میں مختلف سمتوں میں جانے والی ریلوے کو ختم کیوں کیا گیا، ممبئی ریلوے آج بھی دنیا کی منافع بخش ریلوے ہے اور ریلوے ہر جگہ منافع بخش ہی ہوتی رہی ہے اور آج بھی ہے، صرف جاپان اور دوسرے ملکوں میں ریلوے ختم کردی گئی۔


جب کہ اس کے برعکس اس کی رفتار کو بڑھاکر ہوائی جہاز کا مقابل بنانے کی تیاری کی جارہی ہے، زمین پر سفر آسمان سے زیادہ محفوظ ہے، سستا ہے، یہ بات ان لوگوں نے سمجھ لی ہے، ہمیں تو بہت پہلے نظر جھکاکر قدم جماکر چلنے کا درس دیا گیا تھا مگر ہم نے کب مانا۔

دنیا کے لوگ سب کچھ انسان اور اس کی فطرت کے مطابق سوچ سمجھ کر کرتے ہیں مگر ہم اس کے برعکس فائدے اور صرف فائدے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ حکومت کے ٹیکس سے بھرپور اقدامات کا مقصد صرف ایک سیاسی جماعت اور اس کے ارکان کو سہولتیں فراہم کرنا ہے اور اس کے لیے سرکاری خزانے میں ہر طرح کے قرض کی مد میں حاصل کی ہوئی رقم ہونی چاہیے، چاہے وہ ورلڈ بینک، پاکستانی بینکوں یا پاکستان کے عوام کو نچوڑ کر نکالا جائے۔

ایک فلم ہے Miror Miror، اس میں عوام کی مفلوک الحالی کے ساتھ ساتھ حکومت کی مال حاصل کرنے کی خواہشوں کا ذکر ہے اور حال یہ ہے کہ شہزادی جب عوام کے درمیان سفر کرتی ہے تو لوگ اس سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے پاس کھانے کو کچھ ہے اور اسی وقت سرکاری ہرکارہ ایک نوٹس چوک میں لگاتا ہے کہ عوام کو کل تک یہ Tax ادا کرنے ہیں جو ایک غاصب ملکہ جادوگرنی نے لگائے ہیں۔ مجھے یہاں اس منظر میں یہ سب لوگ پاکستانی نظر آئے اور یہ حالات پاکستان کے حالات کہ کس طرح عوام کو ٹیکس کی چکی میں پیسا، نچوڑا جارہا ہے، بلاتفریق اداروں کے Tax کے انداز میں عوام سے Tax لیے جارہے ہیں۔

ریلوے کی بات کرتے کرتے ہم کہاں چلے گئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بدترین حالات سے پاکستان ریلوے بدتر حالات میں منتقل ہوچکی ہے اور ریل گاڑیوں پر رنگ روغن کرکے نام بدل کے ایسا ظاہر کیا جارہا ہے کہ بہت ترقی ہوچکی ہے۔ تو ایسا تو نہیں ہوا، کچھ نہ کچھ ہوا ہے، فوجی نظام سے پیدا ہونے والے سیاست دان بھی آمروں کو برا کہتے ہیں تو ناخلف ہونے کی علامت ہے، خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ دیکھتے ہیں ترقی کیسے ہوتی ہے، اخلاقی ترقی کسے کہتے ہیں، یہ ایک مثال ہے۔

ہوکائیدو جاپان کا ایک جزیرہ ہے، جہاں کامی شراتا ایک ریلوے اسٹیشن ہے، گزشتہ تین سال سے اس اسٹیشن پر صرف ایک مسافر کے لیے یہاں دو ٹرینیں رکتی ہیں، اطلاع کے مطابق تین سال پہلے ریلوے حکام نے اس راستے پر اس اسٹیشن سے مسافروں کے نہ ہونے سے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ اس اسٹیشن سے بذریعہ ٹرین کالج جانے والی ایک لڑکی کا یہ واحد ذریعہ ہے تو انتظامیہ نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا، یہ فیصلہ جاپان ریلوے کے لیے مہنگا ضرور ہے، مگر یہ دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ایک مثال ہے کہ اپنے شہریوں کا کس طرح خیال رکھا جاتا ہے۔ اس وقت یہ ریلوے اسٹیشن صرف ایک مسافر، ایک طالب علم لڑکی کے لیے پوری طرح کام کررہا ہے۔

یہاں دو ٹرینیں روزانہ رکتی ہیں جن کا شیڈول بھی لڑکی کے کالج جانے آنے کے اوقات کو دیکھ کر مقرر کیا گیا ہے۔ یہ لڑکی 26 مارچ کو اپنے کالج کی تعلیم مکمل کرلے گی اور جاپان ریلوے کے مطابق یہ ریلوے اسٹیشن اس وقت تک اسی طرح کام کرتا رہے گا ۔

کیا لکھوں اس سے آگے! یہاں مور اور انسان مرتے رہیںگے، غریب کی ماں طاقتور قاتل کے سامنے مجبور ہوکر آبدیدہ رہے گی، کسانوں کو پیداوار کا معاوضہ نہیں ملے گا، ادارے فروخت کردیے جائیںگے، زمینوں کے لیے انسان کو زمین برد کردیا جائے گا، لٹیرے دوسرے ملکوں میں عیش کرتے رہیںگے، اسکول اوطاق بنتے رہیںگے، ہم انسانوں کو جانور بناتے اور جانوروں کی طرح قتل کرتے رہیںگے اور دوسری دنیا انسانوں کے جذبات، احساسات اور ضرورتوں کا ایسا خیال رکھتی رہے گی جس کا حکم ہمیں ملا ہے اور جس کی حکم عدولی کی سزا بھی ہمیں ملے گی اور ضرور ملے گی کہ وہ قدرت کا نظام ہے، پاکستان کا نظام نہیں۔
Load Next Story