عدل و انصاف کی خواہش اور سیاسی وفاداریاں
سیاسی وابستگی اور ذاتی پسند اور ناپسند اُن کی حق شناسی، روشن خیالی اور وطن دوستی سب پر غالب آ چکی ہے
مجھ سمیت لا تعداد پاکستانی اِس خوش فہمی اور خوش گمانی میں مبتلا تھے کہ ہمارے عوام ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ کے بہت بڑے خواہش مند اورشائق و مشتاق ہیں۔ جیسا کہ تحریکِ بحالیِ عدلیہ کے دنوں میں دیکھا گیا تھا کہ ملک و قوم کے ہر طبقہِ فکر کے لوگ جوق در جوق اِس تحریک کا حصہ بنتے رہے اور چند افراد پر مشتمل یہ گروہ بہت ہی مختصر عرصے میں ایک جم غفیر کی شکل اختیار کر گیا۔
وہ پہلے ایک فوجی ڈکٹیٹر کے آمرانہ عزائم کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گیا اور پھر ایک جمہوری حکومت کی انصاف و عدل دشمنی پر مبنی تمام کوششوں اور کاوشوں کے خلاف سینہ سپر ہوگیا۔ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والی ایک بے کس اور مجبور قوم نے خالصتاً اپنے زورِ بازو سے ایک ایسی شاندار تحریک کا آغاز کیا جس نے بہت ہی مختصر عرصے میں جہد مسلسل اور عمل ِ پیہم کے تمام مشکل مراحل طے کرتے ہوئے کامیابی و کامرانی سے خود کو ہمکنار کیا۔ لیکن یہ دیکھ کر دل عجب کشمکش اور تشویش سے دوچار ہو جا تا ہے کہ جہاں عوام نے متحد ہو کر ایک آزاد عدلیہ کے لیے کوچہ کوچہ گلی گلی، رات دن اپنا آرام و سکون چھوڑ کر زبردست جدوجہد کی ہو اور بالآخر اُسے حاصل کر کے ہی دم لیا ہو لیکن آج جب وہی آزاد عدلیہ کوئی فیصلہ صادر کرتی ہے تو عوام اُس کے ساتھ کھڑے ہونے میں کیوں ہچکچاہٹ اور تذبذب کا شکار ہیں۔
اُنہیں کون سا خوف اور ڈرحق کا ساتھ دینے اور ہمت دکھانے سے روک رہا ہے۔ لگتا ہے سیاسی وابستگی اور ذاتی پسند اور ناپسند اُن کی حق شناسی، روشن خیالی اور وطن دوستی سب پر غالب آ چکی ہے۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبا کر صرف سیاسی مفادات، شخصی وابستگی اورذاتی تعلقات کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں۔قوم گزشتہ چار سال سے مختلف مصائب اور مشکلات سے دوچار ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے دو وقت کی روٹی کا حصول نا ممکن بنا دیا ہے۔ امن و امان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ ملک کے کسی کونے میں جان ومال کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ ہر طرف مایوسی اور نا اُمیدی ہے۔ بجلی کے خود ساختہ اور مصنوعی بحران نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ملک کے مالیاتی اداروں کے حالت بھی خوفناک تصویر پیش کر رہی ہے۔ ہر ادارہ تباہی اور بربادی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ اصلاحِ احوال کی اب کوئی آس و اُمید باقی نہیں رہی۔ حکمران اپنی مستیوں میں مشغول ومگن ہیں۔ اُنہیں عوام الناس کے مسائل و مصائب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اُنہیں اگر فکر ہے تو صرف اپنے اقتدار کی۔
اِن تمام ناکامیوں او ر نااہلیوں کے با وجود اُنہیں اِس بات کا قدرے اطمینان ہے کہ عوام کی اکثریت اب بھی اُن کے ساتھ ہے۔ عدلیہ خواہ اُن کے خلاف کتنے ہی سنگین الزامات لگاتی رہے۔ کتنے ہی کرپشن کے کیس سامنے آتے رہیں۔ کتنے ہی مقدمات میں سزاوار گردانی جائے وہ خوش و خرم ہیں کہ یوں ہم سیاسی شہادت کا اعزاز پاتے جا رہے ہیں۔ وہ اپنی اِس خواہش اور آرزو کی تکمیل کی جانب تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں اُن کی یہ خواہش مزید جواں تر ہوتی جا رہی ہے۔ اور وہ کسی حد تک اپنی اِس کوشش میں کامیاب بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ حال ہی میں ہماری عدلیہ نے ملک کے ایک وزیرِ اعظم کو عدلیہ کے فیصلوں کی حکم عدولی کے جرم میں سزا سنا کر اُنہیں نا اہل قرار دیا تو وہ فارغ ہونے کے بعد جب اپنی پہلی فرصت میں بذریعہ ٹرین لاہور سے ملتان پہنچے تو اُن کے چاہنے والوں نے ایسا والہانہ استقبال کیا جیسے وہ کوئی زبردست معرکا سر کر کے یا کوئی بڑا شاندار کارنامہ کر کے لوٹ رہے ہوں۔ ہمارے لوگوں کے ان ہی رویوں اور طریقوں کو دیکھ کر جمہوریت کی افادیت اور اہمیت پر شک کا گمان ہونے لگتا ہے۔
سب کچھ جانتے بوجھتے ہم اپنے طور طریقوں کو بدلنے پر تیار نہیں۔ ملکی دولت لوٹے جانے کے کتنے ہی قصے ہمارے سامنے بیان کیے جائیں۔ کتنے ہی واضح شواہد اور ثبوت پیش کر دیے جائیں لیکن وہ سب ہماری بند آنکھوں سے پٹی اور ہمارے کند ذہنوں سے پردہ ہٹانے کے لیے کافی نہیں۔ ہم سب کو یہ معلوم اور کامل یقین بھی ہے کہ سوئس بینکوں میں رکھا ہوا 60 ملین ڈالر کس کا ہے اور کون اُسے بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ لیکن کیا کریں اُس سیاسی وابستگی کا جو ہمارے اپنے ضمیر کی آواز کا بھی گلا گھونٹ دے۔ مصلحت کیشی اورذاتی مفادات کی سوچ نے ہم سے ہماری قوتِ بصیرت بھی چھین لی ہے۔ ہم ایک طرف تو آزاد اور رسول اﷲ نے کسبِ حلال کو ''فریضۃ بعد الفریضہ'' یعنی نماز کے بعد سب سے بڑا فرض قرار دیا ہے اور محنت کش کو اﷲ کا دوست قرار دیا ہے۔'
بلکہ جمہوریت ایک بہترین انتقام جیسے خوبصورت مفروضوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے عدلیہ سے سزا یافتہ لوگوں کو پہلے سے زیادہ ووٹوں سے نوازتے ہیں۔ عدلیہ اگر کسی کو جعلی سند پیش کرنے پر اسمبلی کی نشست سے محروم کرتی ہے تو ہم اُسی شخص کو ایک بار پھر زبردست کامیابی سے ہمکنار کر کے عدلیہ کی در پردہ سر زنش کر رہے ہوتے ہیں۔ ہماری اِسی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے ہم ابھی تک ذہنی انتشار اور فکری ہیجان کا شکار ہیں۔ ہمیں ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ ہماری منزل کیا ہے۔ ہم ایک سیاسی ریوڑ کی مانند بے سمت و بے ربط دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اچھے اور بُرے کی پہچان تک نہیں ہے۔ ہم دس کلو آٹے کے عوض اپنا حقِ رائے دہی کسی کو بھی بیچ سکتے ہیں۔ ہم ظاہری جاہ و جلال اور مال و دولت سے بہت جلد متاثر ہوکر اپنے فیصلے بدل لیا کرتے ہیں۔ ٹھوس شواہد، واضح دلائل اورمعروضی حقائق کے با وجود ہم اپنے فیصلے صرف ذاتی مفادات کے میزان میں رکھ کر کرتے ہیں۔
جب تک ہماری ذاتی سوچ ایک اجتماعی قومی سوچ کا روپ نہیں دھار لے گی ہم کامیابی و کامرانی کی اُس منزل کو نہیں پہنچ پائیں گے جو ہمارے بزرگوں نے اپنے خوابوں میں سجائی تھی۔ فردِ واحد یا چند شخصیات کی پشت پناہی کی بجائے ہمیں آئین و دستورسے حلفِ پاسداری نبھانا چاہیے۔ ہماری عدلیہ نے ابھی تک اپنے حقوق اور اپنے مفادات کے لیے کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے۔ وہ صرف عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ملک سے لوٹا جانے والا پیسہ اِس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کا ہے۔ اُس کے حالیہ تمام فیصلے اِس قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے متعلق ہی ہیں۔ ہمیں اِ س جدوجہد میں اُس کا ساتھ نبھانا چاہیے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں بلکہ اپنے کردار اپنے طرزِ عمل اور سیاسی فیصلوں سے۔ یاد رکھیے اِس ملک کی بقاء اور سالمیت صرف قانون کی تکریم، عدل و انصاف کی آبرو اور آئین و دستور کی توقیر میں ہے۔ لوگ آتے اورجاتے رہیں گے لیکن یہ ملک باقی رہے گا اور ہمیں اِسے باقی رکھنا ہے عزت واحترام کے ساتھ۔