کراچی میں شہریوں کو پولیس اور گینگ وار کے کارندے ملکر اغوا کرتے تھےعذیر بلوچ
اغوا کیے جانے والوں کو پولیس موبائل اور بکتر بندگاڑیوں میں لے جایا جاتا تھا،عزیر بلوچ
لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ لیاری میں میری مرضی سے پولیس افسران کو تعینات کیا جاتا تھا ، پولیس افسران بھی شہریوں کے اغوا میں ملوث ہیں ، گینگ وارکے کارندے اور پولیس افسران پولیس موبائل اور بکتر بند میں شہریوں کو اغوا کرتے تھے ۔
تفصیلات کے مطابق لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ کی جانب سے تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات کا سلسلہ جاری ہے ، تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ نے دوران تفتیش مزید انکشافات کیے ہیں کہ لیاری میں میری مرضی اور پسند سے پولیس افسران کو تعینات کیا جاتا تھا ۔
عذیر بلوچ لا کہنا ہے کہ ارشد پپو قتل اور میرے کراچی سے فرار ہونے سے قبل لیاری سمیت شہر بھر میں لیاری گینگ وارکی دہشت تھی اور اس وقت کے اعلیٰ پولیس افسران مجھے فون کرکے ایس پی ، ڈی ایس پی ، ایس ایچ او اور ہیڈ محرر تعینات کرنے کا پوچھتے تھے جبکہ مقتول ظفر بلوچ کو پولیس افسران کے بارے میں زیادہ معلومات تھی اس لیے کہ وہ عبدالرحمن عرف ڈکیت کے ساتھ شرو ع سے تھا اور اسے معلوم تھا کہ کون سا افسر ہمارا وفادار ہے، ایک ایس پی لیاری میں میرے خاص کارندوں کو فون کر کے مختلف علاقے میں گشت کرتا تھا اور میری ہدایت کے مطابق کام کرتا تھا ۔
ذرائع نے بتایا کہ عبدالرحمن عرف ڈکیت کا نیازی نامی پولیس افسر انتہائی قریبی تھا جو عبدالرحمن کے دور میں بھی تمام قانونی معاملات کو دیکھتا تھا اور اس کے مرنے کے بعد بھی گینگ وار کے قانونی معاملات کی نگرانی کرتا تھا ذرائع نے بتایا کہ عذیر بلوچ نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ مبینہ طور پر کلاکوٹ میں جب ارشد پپو کو اس کے بھائی کے ساتھ قتل کیا تو اس وقت ایس ایچ او تصور امیر تھا جبکہ پولیس کے کئی افسران و اہلکار گینگ وار کی سرپرستی میں کام کرتے تھے جبکہ متعدد پولیس افسران اس الزام میں گرفتار ہوکرکے جیل جا چکے ہیں جبکہ کچھ تاحال فرار ہیں ۔
ذرائع نے بتایا کہ عذیر بلوچ نے دوران تفتیش یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ مبینہ طور پر ارشد پپو، یاسر عرفات اور شیرا کو پولیس موبائل میں اغوا کر کے لایا گیا تھا جبکہ میرے کارندوں نے پولس کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں ، ذرائع نے بتایا کہ ارشد پپو کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں سے اپنے مخالفین کو پولیس موبائلوں کے ذریعے اغوا کرایا جاتا تھا اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ پولیس کسی کو گرفتار کر کے لیجا رہی ہے جبکہ مبینہ طور پر پولیس کی موبائلیں لاشیں پھینکنے میں بھی استعمال کی جاتی رہی ہیں ، ذرائع نے بتایا عذیر بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ ملیر سٹی تھانے میں بھی میری مرضی کا ایس ایچ او لگایا جاتا تھا اس لیے وہاں بھی لیاری گینگ وار کا نیٹ ورک موجود تھا ۔
تفصیلات کے مطابق لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ کی جانب سے تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات کا سلسلہ جاری ہے ، تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ نے دوران تفتیش مزید انکشافات کیے ہیں کہ لیاری میں میری مرضی اور پسند سے پولیس افسران کو تعینات کیا جاتا تھا ۔
عذیر بلوچ لا کہنا ہے کہ ارشد پپو قتل اور میرے کراچی سے فرار ہونے سے قبل لیاری سمیت شہر بھر میں لیاری گینگ وارکی دہشت تھی اور اس وقت کے اعلیٰ پولیس افسران مجھے فون کرکے ایس پی ، ڈی ایس پی ، ایس ایچ او اور ہیڈ محرر تعینات کرنے کا پوچھتے تھے جبکہ مقتول ظفر بلوچ کو پولیس افسران کے بارے میں زیادہ معلومات تھی اس لیے کہ وہ عبدالرحمن عرف ڈکیت کے ساتھ شرو ع سے تھا اور اسے معلوم تھا کہ کون سا افسر ہمارا وفادار ہے، ایک ایس پی لیاری میں میرے خاص کارندوں کو فون کر کے مختلف علاقے میں گشت کرتا تھا اور میری ہدایت کے مطابق کام کرتا تھا ۔
ذرائع نے بتایا کہ عبدالرحمن عرف ڈکیت کا نیازی نامی پولیس افسر انتہائی قریبی تھا جو عبدالرحمن کے دور میں بھی تمام قانونی معاملات کو دیکھتا تھا اور اس کے مرنے کے بعد بھی گینگ وار کے قانونی معاملات کی نگرانی کرتا تھا ذرائع نے بتایا کہ عذیر بلوچ نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ مبینہ طور پر کلاکوٹ میں جب ارشد پپو کو اس کے بھائی کے ساتھ قتل کیا تو اس وقت ایس ایچ او تصور امیر تھا جبکہ پولیس کے کئی افسران و اہلکار گینگ وار کی سرپرستی میں کام کرتے تھے جبکہ متعدد پولیس افسران اس الزام میں گرفتار ہوکرکے جیل جا چکے ہیں جبکہ کچھ تاحال فرار ہیں ۔
ذرائع نے بتایا کہ عذیر بلوچ نے دوران تفتیش یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ مبینہ طور پر ارشد پپو، یاسر عرفات اور شیرا کو پولیس موبائل میں اغوا کر کے لایا گیا تھا جبکہ میرے کارندوں نے پولس کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں ، ذرائع نے بتایا کہ ارشد پپو کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں سے اپنے مخالفین کو پولیس موبائلوں کے ذریعے اغوا کرایا جاتا تھا اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ پولیس کسی کو گرفتار کر کے لیجا رہی ہے جبکہ مبینہ طور پر پولیس کی موبائلیں لاشیں پھینکنے میں بھی استعمال کی جاتی رہی ہیں ، ذرائع نے بتایا عذیر بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ ملیر سٹی تھانے میں بھی میری مرضی کا ایس ایچ او لگایا جاتا تھا اس لیے وہاں بھی لیاری گینگ وار کا نیٹ ورک موجود تھا ۔