اہل خانہ آپ کے اپنے ہیں اُنہیں اہمیت دیجیے
ہم جن خوبصورت رشتوں سے جڑےہیں جب تک انہیں مناسب وقت نہیں دیتےاس وقت تک کسی نہ کسی دہشتگردی یا حادثات کا شکاربنتےرہیںگے
ایک تو ہم خود کو بہت باخبر تصور کرتے ہیں، دوسرا یہ کہ ہم خوشی کو اپنے ہی وجود میں تلاش کرتے رہتے ہیں جبکہ حقیقی خوشی تو بذات خود ایک ردِعمل کا حاصل ہے۔ ہماری خوشی ہمارے سامنے والے انسان میں پوشیدہ ہوتی ہے، بس ضرورت اس عمل کی ہے جس کے ردعمل میں خوشی ملتی ہے۔ جیسے ہمارے ایک چھوٹے سے عمل سے کسی کی چھوٹی سی ادھوری خواہش پوری ہوجائے اور اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل جائے اور ردِعمل میں ہمارے اندر خانے جو کیفیت جنم لے اس کا نام ہی تو خوشی ہے۔
جب وہ یہ سب کہہ رہا تھا تو مجھے اس وقت عامر ندیم ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کم اور ایک سائنسدان زیادہ محسوس ہو رہا تھا، جو تمام سائنسی آلات سے مزین ایک جدید ترین لیبارٹری میں ایک مدت سے تجربات کرکے آج ہی اس فارمولے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، جس کی کھوج میں انسان برسوں سے کبھی جنگل میں سنیاس لینے پر مجبور ہوا۔ کبھی مذہب کی چادر لپیٹ کر پنجوں کے بل کھڑا ہوکر چاروں سمت تو کبھی آسمان کی طرف ٹٹولنا شروع کردے۔ اس نے انسان کی حیقیقت کا راز پا لیا تھا اور ان سائنسی نظریات کی بھی نفی کردی تھی جو انسان کا مطالعہ بطور ایک مشین کرتے ہیں۔ جبکہ یہ صرف کیلشیم، پوٹاشیم یا بہت سے عناصر اور دھاتوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ ڈی این اے اس کی وضاحت تو کردیتا ہے کہ اس کا قد، آنکھوں کی رنگت اور خدوخال کیسے ہوسکتے ہیں، مگر اس کی آنکھوں میں بننے والےعکس نے اس کے دماغ میں کیا ایسا عمل شروع کر ڈالا کہ وہ بے ضرر انسان سے ایک دہشت گرد بن بیٹھا۔
اس کی وضاحت کرنے سے سائنس قاصر ہے۔ سائنس قیافے تو لگا سکتی ہے وہ بھی کسی حادثہ کے بعد مگر قبل از وقت وہ انسان کے کسی بھی قسم کے ردعمل کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ اس بات کو ایک محقق کے نظریہ کے مطابق یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ سائنس ان انفرادی اجزاء کو تو بیان کرسکتی ہے مگر مجموعی شکل میں جو انسان ہوتا ہے اسکی وضاحت نہیں کرتی۔ جس طرح دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جب وہ ریاست میں ایک ایسا نظام بنا کر اپنے شہریوں کو دے چکے ہیں جو ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات کو نہ صرف پورا کرتا ہے بلکہ معاشی ترقی میں انہیں مدغم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود بھی انسان ایک دم سے اسلحہ تھام کر معصوم لوگوں پر گولیاں کیوں برسانے لگتا ہے؟ ترقی پذیر ممالک میں غربت، معاشرتی ناہمواریاں، بیماریاں، کرپشن، ناانصافیاں، ناقص پالیسیاں اور بہت سے مسائل جبڑا کھولے لوگوں کو نگل رہے ہیں، وہاں ردِعمل کے طور پر دہشت گردی تو سمجھ میں آتی ہے مگر ان کے ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں کو کیا ہوگیا ہے؟
وہ سائنسی بنیادوں پر نت نئے تجربات کرکے خلاؤں کو مسخر کرچکے ہیں مگر جس زمین پر وہ اپنا وجود اور اپنی شناخت رکھتے ہیں وہاں ایک ہی گھر میں رہنے والے خاندان کو اپنے ہی اہل خانہ کے بارے میں علم نہیں، اس کے ساتھ والے گھر میں کون کون رہ رہا ہے اور وہ فائدہ مند، مستحکم یا مثبت انداز سے زندگی گزار رہا ہے یہ کسی قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے، یہ جاننے سے قاصر ہے۔ ایک دم سے کوئی سانحہ ہوتا ہے، جانی و مالی نقصان ہوتا ہے، مختلف ادارے بھاگے آتے ہیں تب پتہ چلتا ہے یہ کیسی جدید زندگی ہے جو ساری دنیا کے حالات و واقعات کو تو آپ کے اینڈرائڈ فون پر آنکھ جھپکتے پیش کردیتی ہے مگر، ایک بھائی، باپ اور شوہر کو اس وقت کسی تحقیقاتی ادارے سے یا میڈیا کی بریکنگ نیوز سے علم ہوتا ہے کہ اس کے اہل خانہ تو شام، عراق پہنچ چکے ہیں اور کسی دہشت گرد تنظیم کا آلہِ کار بن کر اسی ملک کی سلامتی پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔
جس نے انہیں ایک اچھی زندگی دی، ایک باعزت مقام دیا، انہیں بھوک سے نکال کر نہ صرف رزق حلال دیا بلکہ اپنے بدیسی معاشرے میں مدغم کرکے اپنا ہی ایک حصہ بنالیا۔ آج کا انسان سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک محرومی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ آخر کیوں؟ تو اس کا آسان سا فارمولا ہے جس پر عمل کرکے ہم اپنے معاشرے سے نا اُمیدی اور مایوسی کے رنگوں کو ختم کرسکتے ہیں اور وہ اس طرح کی خوشیوں کو اپنے وجود میں نہیں بلکہ دوسرے افراد میں تلاش کریں۔ جب تک ہم خوش رہنا نہیں سیکھ لیتے اور جن خوبصورت رشتوں سے ہم جڑے ہوئے ہیں انہیں مناسب وقت نہیں دیتے اس وقت تک کسی نہ کسی دہشت گردی یا حادثات کا شکار بنتے رہیں گے۔
[poll id="929"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
جب وہ یہ سب کہہ رہا تھا تو مجھے اس وقت عامر ندیم ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کم اور ایک سائنسدان زیادہ محسوس ہو رہا تھا، جو تمام سائنسی آلات سے مزین ایک جدید ترین لیبارٹری میں ایک مدت سے تجربات کرکے آج ہی اس فارمولے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، جس کی کھوج میں انسان برسوں سے کبھی جنگل میں سنیاس لینے پر مجبور ہوا۔ کبھی مذہب کی چادر لپیٹ کر پنجوں کے بل کھڑا ہوکر چاروں سمت تو کبھی آسمان کی طرف ٹٹولنا شروع کردے۔ اس نے انسان کی حیقیقت کا راز پا لیا تھا اور ان سائنسی نظریات کی بھی نفی کردی تھی جو انسان کا مطالعہ بطور ایک مشین کرتے ہیں۔ جبکہ یہ صرف کیلشیم، پوٹاشیم یا بہت سے عناصر اور دھاتوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ ڈی این اے اس کی وضاحت تو کردیتا ہے کہ اس کا قد، آنکھوں کی رنگت اور خدوخال کیسے ہوسکتے ہیں، مگر اس کی آنکھوں میں بننے والےعکس نے اس کے دماغ میں کیا ایسا عمل شروع کر ڈالا کہ وہ بے ضرر انسان سے ایک دہشت گرد بن بیٹھا۔
اس کی وضاحت کرنے سے سائنس قاصر ہے۔ سائنس قیافے تو لگا سکتی ہے وہ بھی کسی حادثہ کے بعد مگر قبل از وقت وہ انسان کے کسی بھی قسم کے ردعمل کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ اس بات کو ایک محقق کے نظریہ کے مطابق یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ سائنس ان انفرادی اجزاء کو تو بیان کرسکتی ہے مگر مجموعی شکل میں جو انسان ہوتا ہے اسکی وضاحت نہیں کرتی۔ جس طرح دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جب وہ ریاست میں ایک ایسا نظام بنا کر اپنے شہریوں کو دے چکے ہیں جو ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات کو نہ صرف پورا کرتا ہے بلکہ معاشی ترقی میں انہیں مدغم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود بھی انسان ایک دم سے اسلحہ تھام کر معصوم لوگوں پر گولیاں کیوں برسانے لگتا ہے؟ ترقی پذیر ممالک میں غربت، معاشرتی ناہمواریاں، بیماریاں، کرپشن، ناانصافیاں، ناقص پالیسیاں اور بہت سے مسائل جبڑا کھولے لوگوں کو نگل رہے ہیں، وہاں ردِعمل کے طور پر دہشت گردی تو سمجھ میں آتی ہے مگر ان کے ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں کو کیا ہوگیا ہے؟
وہ سائنسی بنیادوں پر نت نئے تجربات کرکے خلاؤں کو مسخر کرچکے ہیں مگر جس زمین پر وہ اپنا وجود اور اپنی شناخت رکھتے ہیں وہاں ایک ہی گھر میں رہنے والے خاندان کو اپنے ہی اہل خانہ کے بارے میں علم نہیں، اس کے ساتھ والے گھر میں کون کون رہ رہا ہے اور وہ فائدہ مند، مستحکم یا مثبت انداز سے زندگی گزار رہا ہے یہ کسی قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے، یہ جاننے سے قاصر ہے۔ ایک دم سے کوئی سانحہ ہوتا ہے، جانی و مالی نقصان ہوتا ہے، مختلف ادارے بھاگے آتے ہیں تب پتہ چلتا ہے یہ کیسی جدید زندگی ہے جو ساری دنیا کے حالات و واقعات کو تو آپ کے اینڈرائڈ فون پر آنکھ جھپکتے پیش کردیتی ہے مگر، ایک بھائی، باپ اور شوہر کو اس وقت کسی تحقیقاتی ادارے سے یا میڈیا کی بریکنگ نیوز سے علم ہوتا ہے کہ اس کے اہل خانہ تو شام، عراق پہنچ چکے ہیں اور کسی دہشت گرد تنظیم کا آلہِ کار بن کر اسی ملک کی سلامتی پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔
جس نے انہیں ایک اچھی زندگی دی، ایک باعزت مقام دیا، انہیں بھوک سے نکال کر نہ صرف رزق حلال دیا بلکہ اپنے بدیسی معاشرے میں مدغم کرکے اپنا ہی ایک حصہ بنالیا۔ آج کا انسان سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک محرومی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ آخر کیوں؟ تو اس کا آسان سا فارمولا ہے جس پر عمل کرکے ہم اپنے معاشرے سے نا اُمیدی اور مایوسی کے رنگوں کو ختم کرسکتے ہیں اور وہ اس طرح کی خوشیوں کو اپنے وجود میں نہیں بلکہ دوسرے افراد میں تلاش کریں۔ جب تک ہم خوش رہنا نہیں سیکھ لیتے اور جن خوبصورت رشتوں سے ہم جڑے ہوئے ہیں انہیں مناسب وقت نہیں دیتے اس وقت تک کسی نہ کسی دہشت گردی یا حادثات کا شکار بنتے رہیں گے۔
[poll id="929"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔