بے حس کون

عوام کے ٹیکسوں سے ہی چلنے والی حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو بیچیں یا گھر سے نکال دیں۔


مزمل فیروزی February 02, 2016
کیا عوام وزراء کے اہل خانہ کے تحفظ کیلئے ٹیکس دے یا اپنے بچوں کے تحفظ اور مستقبل کیلئے؟ فوٹو:فائل

پھولوں کی طرح خوبصورت اور معصوم بچوں کے خواب بھی اُن ہی کی طرح معصوم ہوتے ہیں۔ ہنسنا، کھیلنا، رنگ بھرنا، سوالات کرنا، تتلیوں کے پیچھے بھاگنا، یہ سب ہی ان کی اصل زندگی ہوتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے بدنصیب بچے بھی ہیں جن کے اپنے ہی والدین اُن کے سارے خوابوں کو توڑنے کا سبب بنتے ہیں، جن خوبصورت ہاتھوں میں کتابیں قلم اور کھلونے ہونے چاہیئے تھے، اُن معصوم ہاتھوں میں حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے کچرے کا تھیلا اور اوزار وغیرہ ہوتے ہیں یا پھر وہ ہاتھ کسی کے آگے پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔

ایسے بچے اپنی زندگی بہت ہی مشکل حالات میں گزار رہے ہوتے ہیں، اُن کے چہرے کی معصومیت کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کی نرمی بھی ختم ہوجاتی ہے اور قلم پکڑنے کے بجائے محنت مزدوری کرنے کے سبب اُن کے ہاتھ سخت ہوجاتے ہیں۔ اُن معصوموں سے اُن کے خواب چھین کر انہیں پیسے کمانے کیلئے محنت مزدوری میں لگا دیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک خبر نظر سے گزری کہ اورنگی ٹاؤن میں نشے کےعادی والد نے اپنے بچوں کی کفالت سے انکار کردیا۔ ہم نے اپنے صحافی دوست زوہیب خان کے ساتھ واقعہ کی حقیقت جاننے کیلئے اورنگی ٹاؤن جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم دونوں پیر آباد تھانے کی محمد پور پولیس چوکی پہنچے اور معلوم کرنے پر چوکی انچارج نے بتایا کہ یہ واقعہ اورنگی ٹاؤن کےعلاقے فرید کالونی میں پیش آیا۔ جہاں ایک کچرا کنڈی میں 7 سے 9 سال کی عمر کے 3 بچے زبیر، فاہر اور صدیقی سوتے ہوئے ملے تھے، فرید کالونی کے رہائشی شمال نے بچوں کو نیند سے جگایا اور گھر لے جا کر کھانا کھلایا۔

شمال نے سارا دن بچوں سے والدین کا پتہ پوچھا مگر بچے گھر جانے پر رضا مند نہیں تھے تو اس کے پڑوسی نے بچوں کو پولیس کے حوالے کردیا، چوکی انچارج کا کہنا تھا کہ بچوں نے بتایا کہ ان کے والدین ان سے روزانہ بھیک منگواتے ہیں اور روز کے 300 روپے لانے کا کہتے ہیں۔ اگر وہ 300 روپے جمع نہ کر پائیں تو ان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایک دن کم پیسے لانے پر بچوں کو گھر سے باہر نکال دیا تھا۔ جس کے باعث انہیں رات کچرا کنڈی میں گذارنی پڑی۔ اس دفعہ بچے 3 دن سے 300 روپے جمع نہیں کرسکے تھے اور والدین کی مار پیٹ سے خوفزدہ ہو کر رات کو کچراکنڈی میں ہی سو گئے تھے۔ زبیر اور فاہر دونوں سگے بھائی ہیں، جن کا والد نشے کا عادی ہے، جبکہ صدیق ان کا دوست ہے جس کا والد رکشہ چلاتا ہے۔

بچوں کے چوکی آنے کے بعد ہی محمد پور چوکی کے انٹیلی جنس اہلکاروں نے فوری طور پر بچوں کے والدین اور ان کے گھر کا سراغ لگایا جو اورنگی ٹاؤن اسلامیہ کالونی کے رہائشی تھے، جب پولیس اہلکار ان بچوں کے گھر پہنچے تو زبیر اور فاہر کی والدہ کا کہنا تھا کہ اگر بچوں کو آنا ہوگا تو خود آجائیں گے۔ یہ المیہ ہے ہمارے معاشرے کا، ماں باپ ہی اپنے بچوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اپنی ہی اولاد کو پالنے سے انکاری ہے آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں، اگر ہم بچوں کو پال ہی نہیں سکتے تو پیدا ہی کیوں کرتے ہیں؟ ایسے ہی والدین معاشرے میں بگاڑ کی وجہ بنتے ہیں جو بچوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرتے اور اسطرح یہ بچےغلط ہاتھوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جسم فروشی، گداگری اور منشیات بیچنے والے گروہ ان بچوں کا استعمال کرتے ہیں، اس وقت پاکستان انسانی اسمگلنگ میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس میں بڑی تعداد چھوٹے بچوں اور لڑکیوں کی ہے۔

زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو خود ہی بیچتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی وجہ پاکستان میں جاری حالیہ آپریشن بھی ہے، جہاں دورانِ آپریشن مارے جانے والے لوگوں کے بچے در بدر ہوجاتے ہیں اور گذر بسر کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں یا پھر انسانی اسمگلنگ کا شکار بن جاتے ہیں۔ ان سب کے سدِباب کیلئے ہمارے معاشرے میں بہت سے مخیرحضرات اور این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ یہ سب ملک سے غربت ختم کرنے کیلئے کوشاں ضرور ہیں، لیکن غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں آرہی، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہم ٹیکس کیوں دے رہے ہیں؟ جب کہ پچھلے دنوں ایک خبر کا بڑا چرچا تھا کہ نواز فیملی کی سیکیورٹی کیلئے ایک فورس بنائی جارہی ہے۔

کیا عوام وزراء کے اہل خانہ کے تحفظ کیلئے ٹیکس دے یا اپنے بچوں کے تحفظ اور مستقبل کیلئے؟ عوام کا فرض ہے کہ وہ ٹیکس دے لیکن کیا حکومت کا فرض نہیں ہے کہ وہ اس ٹیکس کا صحیح استعمال کرے؟ جس سے عوام کو براہِ راست ریلیف ملے، دوسری طرف جدید ملائشیا کے بانی مہاتیر محمد کی حکمت عملی کو دیکھئے، 1990 میں ملائشیا کے 30 فیصد نوجوان بے روزگار تھے لیکن ان کے حکمرانوں نے اپنی توجہ 3 بنیادی کاموں میں لگادی۔ جس میں تعلیم، صحت اور روزگار شامل تھے اور اپنی جی ڈی پی کا 25 فیصد حصہ ان تینوں مقاصد پر صرف کرنا شروع کردیا، پھر دنیا نے وہ دن بھی دیکھا، جب ان کی یہ حکمتِ عملی کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور آج ملائشیا غیر ملکیوں کو اپنے ملک میں روزگار فراہم کر رہا ہے۔

دوسری طرف ہماری حکومت ہے جو یہ بتانا بھی گوارا نہیں کرتی کہ عوام کا دیا ہوا ٹیکس کہاں استعمال ہورہا ہے۔ اُن کی مرضی ہے کہ میٹرو بنائیں، فلائی اوورز بنائیں یا پھر وزیروں کے اترنے کیلئے ہیلی پیڈ۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن سے یہ مت پوچھا جائے کہ عوام کو اچھی تعلیم، سیکیورٹی اور اسپتالوں میں مریضوں کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں یا نہیں، کیا سیلاب کو روکنے کیلئے انتظامات کیے جارہے ہیں؟ ڈیم کیوں نہیں بنائے جارہے؟ بس حکومت کا کام صرف و صرف ٹیکس لینا ہے۔ اس ملک میں تو ایک فقیر بھی ٹیکس دیتا ہے اور دنیا میں آنے والا بچہ اسپتال کے بلز، پمپرز اور دودھ کے ڈبوں پر ٹیکس دے رہا ہوتا ہے۔ اِس کے باوجود حکومت کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو بیچیں یا گھر سے نکال دیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم سے غریبوں کیلئے ایسے منصوبے بنائے جن سے وہ برسرِ روزگار ہوسکے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔ بس اتنی سی گذارش ہے کہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم غریبوں پر ہی لگائی جائے، اور اسطرح کے منصوبے بنائے جائیں جن سے براہِ راست فائدہ غریبوں کو ہو تاکہ اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہرغریب اپنے بچوں کو گھر سے نکال دے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کو بھی تیار نہ ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں