بیچاری پی آئی اے

اسی انداز سے سارے ادارے پہلے تباہی کے دھانے تک لاکر اُنہیں بیچنے کی اسکیمیں آخر کب تک چلائی جاتی رہینگی؟


محمد عاصم February 02, 2016
آئی ایم ایف کے اربوں روپوں کے قرضوں سے آپ کونسا پاکستان تعمیر کر رہے ہیں؟ آخر حکومت سازی اور بادشاہت کی اس ملی جلی کہانی میں قومی ادارے کیوں برباد ہوئے جارہے ہیں؟

دنیا آج جس مقام پر کھڑی ہے، اس کے بعد ڈیجیٹل دور کی خوابیدہ گزر گاہیں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک ایسا جہاں آباد ہوتا دکھائی دیتا ہے، جس میں احساس کا ہر رنگ اور جذبے کی ہر امنگ تو موجود ہوگی، لیکن سچائی کہیں بھی دکھائی نہیں دے گی۔ ایسے ہی جیسے گلاب کے پھول بنا خوشبو کے۔

اسی ہنگام میں ایک ادھوری کہانی کا ٹریلر، پوری سچائی کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ ایسے ہی جیسے کہیں لٹکی تصویر میں، سارے رنگ ویسے ہی سجائے جاتے ہیں جیسا مصور دکھانا چاہتا ہے۔ کلا کار کے کینوس پر بکھرے رنگ وہی دکھاتے ہیں، جو اُس کی اپنی آنکھ دیکھتی اور دماغ سوچتا ہے۔

دبئی کی ہوائی سروس کی اٹھان کا سفر پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) کے سر ہے۔ لاجواب سروس کا تاج رکھنے والی پاکستانی ائیر لائن آج اس حال کو پہنچ گئی ہے کہ قابلِ فروخت ٹھہری ہے۔ یہ کتنا متضاد سفر ہے ایک ہی سمت میں بڑھنے والوں کی کہانی کا۔ جی ہاں نجی سطح پر آصف زرداری سے نواز شریف تک سبھی کے کاروبار صفر سے ہزار تک پہنچ گئے ہیں۔ لیکن پاکستانی عوام کا سرمایہ ہے کہ روز ہی گھٹتا چلا جا رہا ہے۔ آخر اس تضاد کا ذمہ دار کون ہے؟

منافع بخش پی آئی اے آج خسارے کی دکان سے پوری منڈی بن چکی ہے۔ مرکزی حکومت اشتہارات چھپوا رہی ہے۔ اشتہار کا عنوان ''پی آئی اے اربوں روپے کے خسارے کا شکار کیوں ہوا؟'' بنایا گیا ہے، اور خوب لکھا گیا۔ اگر یہی اشتہار ان حکمرانوں کی نا اہلی کے جواز میں پیش کیا جائے تو یقیناََ غلط نہیں ہوگا۔ اشتہار کے مندرجات کو بہت صفائی سے لکھنے کی کوشش میں صیاد خود ہی اپنے جال میں پھنستا ہوا دکھائی دیتا ہے۔



اول لکھا گیا ''مسلسل بد انتظامی'' دوم لکھا گیا ''لا تعداد غیر ضروری بھرتیاں'' اور آخر میں ارشاد فرمایا ''مالی بد انتظامی اور غیر ذمہ دار اسٹاف'' واہ کیا کہنے۔ حضور آپ کا لکھا سر آنکھوں پر۔ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط کے لئے اتنے باؤلے ہوئے جا رہے ہیں کہ آپ نے جو لکھا وہی آپ کے گلے کا پھندا ثابت ہوسکتا ہے۔ اے کاش کوئی عادل جج ہوتا۔ عوام کا ہوتا خون دیکھ کر کچھ انصاف کا دروازہ کھولتا۔

حضور گستاخی معاف کیجئے، پی آئی اے کو بھرتیوں کی اجازت کس نے عنایت فرمائی تھی؟ ان بھرتیوں میں ہونے والی کرپشن پر پردہ کس نے ڈالا تھا؟ غیر ضروری بھرتیوں کا علم آپ کو تھا، پھر آپ نے خاموشی کیوں اختیار کئے رکھی؟ نااہل افراد کو بھرتی کروا کر مالی بد انتظامی کا الزام لگانا کیا انصاف ہے؟ منافع بخش ادارہ آپ کی آنکھوں کے سامنے برباد ہوا، شریکِ جرم افراد کے خلاف کارروائیاں کیوں نہیں کی گئیں؟ مجاز افسران کو غیر ذمہ دار اسٹاف کی بھرتی پر کیوں بر طرف نہیں کیا گیا؟

بیمار ہوتی پی آئی اے آج اگر 320 ارب روپوں کا خسارہ اپنے دامن میں پالے بیٹھی ہے تو کیا یہ خسارہ کرپشن کی نظر ہونے والے اربوں روپوں سے کم نہیں؟ کیا اس خسارے میں آپ برابر کے شریک نہیں ہیں؟ اگر اساتذہ کی ملازمتوں کو مستقل کرنے میں آپ لیت و لعل سے کام چلا رہے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ پی آئی اے کی بگڑتی حالت کو دیکھتے ہوئے آپ نے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار ناں کیا ہوگا؟ معذور افراد کے ساتھ جو آپ نے کیا اور اب یہی کچھ پی آئی اے کے ساتھ بھی، واہ! کیا خوب اصول بنایا ہے۔ میرٹ کے تحت بھرتیوں کی اجازت آپ دیتے نہیں، اور غیر ذمہ دار سفارشی اسٹاف کو بھرتی کرکے آپ بگاڑ کی ذمہ داری سے بھی خود کو صاف بچالیتے ہیں۔ چور مچائے شور کا معاملہ کیا اس سے مختلف ہوتا ہے؟



آئی ایم ایف کے اربوں روپوں کے قرضوں سے آپ کونسا پاکستان تعمیر کر رہے ہیں؟ آخر حکومت سازی اور بادشاہت کی اس ملی جلی کہانی میں قومی ادارے کیوں برباد ہوئے جارہے ہیں؟ آپ لوگوں کے ذاتی کاروبار کیوں تباہ نہیں ہوتے؟ کیا پاکستانی نوجوان میں اتنی بھی صلاحیت باقی نہیں رہی کہ وہ اس قومی ادارے کو واپس اُس مقام پر لے آئیں جہاں یہ کبھی تھا؟ کیا اسی انداز سے آپ سارے ادارے پہلے تباہی کے دھانے تک لائیں گے اور پھر اُنہیں بیچنے کی اسکیمیں بنائیں گے؟

کیا کوئی ادارہ جیسا کہ سپریم کورٹ یا فوج کا کوئی ہائی کمانڈو مگر شفاف یونٹ، سارے قومی اداروں کی جانچ پڑتال نہیں کرسکتا؟ تاکہ ان اداروں کی حالتِ زار کی اصل اور سچی وجوہات قوم کے سامنے آئیں، پھر اس حالت تک لانے والے افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔



تصویریں بولتی تو آج بہت سے چہرے بے نقاب ہوجاتے۔ بیچاری تصویر وہی کچھ دکھا سکتی ہے جو دکھانے والا دکھانا چاہتا ہے اور دیکھنے والا دیکھنا چاہتا ہے، پی آئی اے کی مظلوم صورت تصویر، حکومتی بدمعاش تصویر کے سامنے سوائے خاموش احتجاج کے اور بھلا کر بھی کیا سکتی ہے؟ کیا عوام بھی اب تصویر کا روپ دھار چکے ہیں؟

[poll id="930"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں