منٹر کا ہنٹر

الیکشن سے قبل اپوزیشن کے چہرے سے بھی نقاب سرکنے لگا ہے ، جب یہ...

محمد راحیل وارثی

پاکستان میں سبکدوش ہونے والے امریکی سفیر کیمرون منٹر کے ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو نے پاکستان کی سیاست میں منافقت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ کیمرون منٹر نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ان سے ملاقاتوں میں اس بات کا یقین دلایا ہے کہ وہ دونوں مکمل طور پر امریکا کے حامی ہیں۔

عمران خان اور میاں نواز شریف کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ امریکی سفیر سے ملاقات میں اس کا یقین دلائیں کہ وہ امریکا کے حامی ہیں؟ نیٹو سپلائی سمیت دیگر معاملات پر ہمارے ان دونوں سیاسی قائدین کی زبان امریکا کو برا بھلا کہنے سے نہیں تھکتی دونوں کوئی موقع نہیں جانے دیتے جب وہ امریکا کو برا نہ کہیں مگر اندرون خانہ اسی امریکا ''سرکار'' کے قدموں میں لوٹنے کو تیار ہیں۔

عمران خان کہتے ہیں کہ وہ اقدار میں آئے تو امریکی ڈرون طیاروں کو مار گرائیں گے، ایک لاکھ سے زیادہ افرادکے ہمراہ ستمبر میں پاک افغان بارڈر پر نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف دھرنا دیں گے، ملک میں انقلاب لے آئیں گے وغیرہ وغیرہ۔ میاں نواز شریف صاحب جب بھی بات کرتے ہیں وہ بڑے فخر سے فرماتے ہیں کہ انھوں نے تمام تر امریکی دھمکیوں اور امداد کی پیش کشوں کو ٹھوکر مار کر ایٹمی دھماکے کیے اور ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا مگر وہی میاں نواز شریف کارگل کی جنگ میں مدد مانگنے اور اپنی ہی فوج کے خلاف مدد کے لیے امریکا جاپہنچنے تھے۔

پاکستان کوئی فضا میں معلق ملک نہیں ہے اسے دنیا میں تمام ممالک کے ساتھ تعلقات رکھنے ہیں اور یہ تعلقات رکھنا اس حکومت کی ہی نہیں ہر آنے والی حکومت کی لازمی ضرورت ہے۔ البتہ یہ بات طے ضرور کرنا ہوتی ہے کہ ملک کی سلامتی، خودمختاری پر کوئی آنچ نہ آئے۔ امریکا کے اس خطے میں یقیناً اپنے مقاصد ہیں مگر ہمیں اپنی سلامتی اور خودمختاری کو یقینی بناتے ہوئے امریکا سے بھی تعلقات رکھنا ہیں۔ ہماری فوج اور عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں اس وقت بھی پاکستان دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کر رہا ہے۔


ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی تمام جماعتیں اس جنگ کو جیتنے کے لیے کوئی حکمت عملی بناتیں مگر سب نے اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے اپنے چہروں پر خول چڑھائے اور معصوم عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے میدان میں نکل آئے۔ منافقت اور دھوکے میں لپٹی یہ سیاست پاکستانی عوام کے ساتھ نہ صرف بھیانک مذاق ہے بلکہ ان لاکھوں لوگوں کے ساتھ صریح دھوکا بھی ہے جو ان نوسرباز دھوکے بازوں کے دل خوش کن نعروں سے متاثر ہو کر اپنا قیمتی ووٹ انھیں دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اور ن لیگ کا خاص طور پر کوئی جلسہ، جلوس یا ریلی دیکھ لیں اس میں امریکا کو جس قدر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے بلکہ گالیاں دی جاتی ہیں اس کے مقابلے میں پاکستان کے عام آدمی کے مسائل پر ایک فیصد بھی بات نہیں کی جاتی نہ ہی ان جماعتوں کے پاس عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ موجود ہے۔

مگر ان ہی جماعتوں کے قائدین کا دوسری طرف یہ حال ہے کہ وہ امریکی سفیر کے سامنے بھی گھٹنے ٹیک دیتے ہیں کہ آپ تو ہمارے مائی باپ ہو ہم سے خفا نہ ہونا، ہم سے زیادہ تو آپ کا کوئی حامی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس پر یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ پاکستانی عوام ان کا یہ شرم ناک چہرہ نہ دیکھ پائیں۔

امریکی سفیر نے جو انٹرویو دیا اسے میاں نواز شریف اور عمران خان ہی جھوٹا قرار دے سکتے ہیں مگر دونوں نے ایسا کچھ نہیں کہا البتہ گھما پھرا کر بات ضرور کی ہے کہ ہم نے تو یہ نہیں کہا تھا پتہ نہیں امریکی سفیر نے یہ کیوں سمجھ لیا؟ محترم عمران خان تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہم امریکی عوام کے خلاف نہیں ہیں بلکہ امریکا کی پالیسیوں کے خلاف ہیں مگر کیا انھوں نے کبھی اپنے جلسوں میں بھی اسی طرح عوام کے سامنے کچھ کہا؟ رہ گئے میاں صاحب تو وہ ایک آمر سے معاہدہ کرکے جدہ کے محل میں قیام پذیر ہوئے اور ان کی جماعت مسلسل یہ شور مچاتی رہی کہ مشرف سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا پھر سب نے سنا کہ میاں صاحب نے خود اعتراف کرلیا کہ معاہدہ دس نہیں سات سال کا تھا۔

دنیا بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور میڈیا کا انقلاب بھی آچکا ہے ایسے میں اب کوئی بات نہیں چھپائی جاسکتی۔ یہ فارمولہ کامیاب نہیں ہوسکتا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ وہ سچ نظر آئے۔ اقدار حاصل کرنے کے لالچ میں بندکمروں میں امریکی سفیر کو کیا کیا یقین دہانی کرائی گئی ہیں یہ آہستہ آہستہ سامنے آہی جائے گا مگر فی الحال تو میاں صاحب اور عمران خان کو منٹر نے جو ہنٹر مارا ہے اس کی تکلیف ضرور محسوس ہو رہی ہوگی۔

ن لیگ تو بات بات پر پٹیشن دائر کردیتی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ وہ امریکی سفیر کے انٹرویو پر بھی ایک پٹیشن دائر کردے اور عمران خان اس پٹیشن میں فریق بن جائیں اس طرح وہ خود کو کلیئر کرانے کا ڈراما بھی رچا سکیں گے۔ آئندہ الیکشن سے قبل اب اپوزیشن کے چہرے سے بھی نقاب سرکنے لگا ہے اور جب یہ نقاب پوری طرح اترے گا تو بڑے بھیانک چہرے سامنے آئیں گے ۔
Load Next Story