افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے

نیشنل ایکشن پلان کا بنیادی مقصد اندرون ملک دہشت گردوںاور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کرنا ہے

وقت آ گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی روح پر مکمل عملدرآمد شروع کیا جائے۔ یہ عملدرآمد محض باتوں سے نہیں ہوتا بھی نظر آنا چاہیے۔ فوٹو فائل

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت گزشتہ روز اسلام آباد میں اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی میجر جنرل رضوان اختر اور وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی امور ناصر جنجوعہ نے بھی شرکت کی۔اجلاس میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان سمیت ملک میں امن و امان کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کو قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کے مختلف مراحل کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ اجلاس نے آپریشن ضرب عضب میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سراہا۔ نیشنل ایکشن پلان(قومی لائحہ عمل) پر کامیابی سے عمل درآمد ہر ایک کے لیے ضروری ہے، ملک میں دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا اور بچوں کو اسکول جانے سے خوفزدہ کرنے والوں کو شکست دیں گے۔ آن لائن کے مطابق سیاسی و عسکری قیادت نے بچوں کو پڑھانے اوردہشت گردوں کو بھگانے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اس قسم کے اجلاس تواتر سے ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ہر اجلاس کے بعد تقریباً اسی قسم کے پریس ریلیز یا خبریں جاری کی جاتی ہیں۔ ہر بار یہی کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو شکست دیں گے اور نیشنل ایکشن پلان پر ہر صورت عملدرآمد کریں گے۔یہ اچھے جذبے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہر اجلاس کے بعد اسی قسم کے جذبے کا اظہار کیوں کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی رکاوٹ موجود ہے۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کا بنیادی مقصد اندرون ملک دہشت گردوںاور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔اس حوالے سے بظاہر کارروائیوں ہو بھی رہی ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ادھر سیاسی ماحول میں بھی گرما گرمی پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پی آئی اے کے ملازمین احتجاج کر رہے ہیںاور بحران سنگین شکل اختیار کر گیا ہے۔گزشتہ روز کراچی میں پی آئی اے ملازمین نے احتجاج کیا۔جس میںتین افراد فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔


ادھر وزیراعظم نے سول ایوی ایشن ڈویژن کی سمری کی منظوری دیدی جس کے بعد پی آئی اے میں لازمی سروس ایکٹ 1952 لاگو کردیا گیا ہے، ایکٹ کے تحت ملازمین ہڑتال نہیں کرسکیں گے جب کہ ملازمین احتجاج پر بضد ہیںاور ہلاکتوں کے بعد معاملہ مزید بگڑ گیا ہے۔ اگرچہ حکومت نے ملازمین کے احتجاج کے پیش نظر اس ادارے کی نج کاری 6 ماہ کے لیے ملتوی کرنے کا بروقت اور احسن اقدام کیا لیکن اس کے ساتھ ہی ضرورت احتجاجی ملازمین اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی سمیت پالپا کو اعتماد میں لینے کی ہے، تشدد آمیز احتجاجی حکمت عملی سے زیادہ مکالمے کی سمت جانے کی ضرورت ہے۔

ادھر معاملات مذاکرات کے ذریعے سلجھائے جاتی تونوبت یہاں تک نہ پہنچتی، اب بھی مخدوش صورتحال کی فوری اصلاح اور دانشمندانہ اقدامات کی زبردست گنجائش ہے تاکہ نج کاری کے حوالے سے ادارے کو درپیش خدشات اور تحفظات کا کافی و شافی جواب دے کر ملازمین کے جوش کو ٹھنڈا کیا جائے ۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ معاملات کے کثیر جہتی مذاکرات کو یقینی بنایا جائے ، اور انتہائی تدبر و حکمت، افہام و تفہیم اور سنجیدگی کے مکالمہ کا آغاز کیا جائے ۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے بھی احتجاجی سیاست کا راستہ اختیار کرنے کے اشارے دیے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی ہلکے پھلکے احتجاج کر رہی ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو سیاسی محاذ پر صورت حال خاصی توجہ طلب نظر آتی ہے۔ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر توجہ اسی صورت مرکوز کر سکتی ہے جب سیاسی محاذ پر امن ہو۔ ایسے حالات میں حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی صورت حال کا بڑے تدبر سے جائزہ لینا چاہیے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کوئی معمولی جنگ نہیں ہے۔ اس کے لیے پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گا۔ عوام میں یہ تاثر بھی پیدا ہو رہا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں سنجیدہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر بھی پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی روح پر مکمل عملدرآمد شروع کیا جائے۔ یہ عملدرآمد محض باتوں سے نہیں ہوتا بھی نظر آنا چاہیے۔ پاکستان مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ سیاسی محاذ آرائی بھی اس کے لیے نقصان دہ ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمزوری بھی بہت سے مسائل پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔حکومت کو اس حوالے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سخت رویہ اختیار کرنا چاہیے جب کہ سیاسی محاذ پر اسے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے افہام و تفہیم سے کام لیتے ہوئے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ادھر سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ احتجاج ضرور کریں لیکن گھیراؤ جلاؤ سے پرہیز کریں۔
Load Next Story