انتظار حسین ایک فسوں گر ادیب
اردو ادب و صحافت کا ایک روشن باب بند ہوا اور فکشن کے ایک فسوں گر قلم کار سے وابستہ ایک زرین عہد اپنے اختتام کو پہنچا
HYDERABAD:
بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار، افسانہ نگار، کالم نویس اور نقاد انتظار حسین مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وَ انا الیہ راجعون۔ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ ہی اردو ادب و صحافت کا ایک روشن باب بند ہوا اور فکشن کے ایک فسوں گر قلم کار سے وابستہ ایک زرین عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ مرحوم ادبی حلقوں میں غیر ملکی توجہ حاصل کرنے والے منفرد ادیب تھے۔
انتظار حسین 21 دسمبر1925 کو بھارت کے شہر میرٹھ کے ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے، اور میرٹھ کالج سے بی اے کرنے کے بعد ابتدا میں شاعری پر طبع آزمائی کی اور کئی نظمیں لکھیں۔ لیکن رفتہ رفتہ افسانوں، کہانیوں اور ناول نگاری کے میدان میں ان کا نام ان کا تشخص بنتا چلا گیا۔ میرٹھ سے لاہور ہجرت کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں کیا، اور دشت صحافت میں قدم رکھتے ہوئے کالم نویسی میں بھی اپنی انفرادیت تسلیم کرالی۔ وہ کئی موقر اخبارات سے وابستہ رہے، ان کے کئی انگریزی کالم بھی روزناموں کی زینت بنے۔
ایکسپریس کے لیے خصوصی طور پر کالم لکھ رہے تھے، ان کے حلقہ احباب میں ملکی و غیر ملکی ادیبوں کی ایک شاندار کہکشاں شامل تھی، ادب و فن کی کئی نامور شخصیات سے ان کا قلبی و ذہنی رابطہ تھا، فکری و نظریاتی طور پر محمد حسن عسکری، ناصر کاظمی، پروفیسر کرار حسین سے قریب تھے۔ ''چاند گہن''، ''بستی'' اور ''آگے سمندر ہے'' ان کی عہد آفریں تخلیقات ہیں۔ انھوں نے سفر نامے اور ڈرامے لکھے، ''علامتوں کا زوال'' اور ''نظریے سے آگے'' ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں۔ بے شمار عالمی ادیبوں کے فکشن کا انھوں نے خوبصورت ترجمہ کیا۔
ان کی کاوشوں کو بُکر پرائز کے لیے شارٹ کٹ کیا گیا جب کہ ایک عالمی شہرت یافتہ رائٹر نے انھیں عالمی سطح پر ادبی ایوارڈ سے سے محروم رکھنے پر عالمی ادبی اداروں پر کڑی تنقید کی تھی۔ تاہم ان کی ادبی خدمات پر 2014 میں انھیں فرانس سے آفیسر آف دی آرٹس ایند لیٹررز کا حکومتی ایوارڈ دیا گیا۔ ایک فکشن نگار کا یہ کہنا بجا ہے کہ انتظار صاحب کی ادبی و صحافتی مسافتیں نئی نسل کے ادیبوں اور صحافیوں کے لیے ایک ادارے کا درجہ رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار، افسانہ نگار، کالم نویس اور نقاد انتظار حسین مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وَ انا الیہ راجعون۔ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ ہی اردو ادب و صحافت کا ایک روشن باب بند ہوا اور فکشن کے ایک فسوں گر قلم کار سے وابستہ ایک زرین عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ مرحوم ادبی حلقوں میں غیر ملکی توجہ حاصل کرنے والے منفرد ادیب تھے۔
انتظار حسین 21 دسمبر1925 کو بھارت کے شہر میرٹھ کے ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے، اور میرٹھ کالج سے بی اے کرنے کے بعد ابتدا میں شاعری پر طبع آزمائی کی اور کئی نظمیں لکھیں۔ لیکن رفتہ رفتہ افسانوں، کہانیوں اور ناول نگاری کے میدان میں ان کا نام ان کا تشخص بنتا چلا گیا۔ میرٹھ سے لاہور ہجرت کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں کیا، اور دشت صحافت میں قدم رکھتے ہوئے کالم نویسی میں بھی اپنی انفرادیت تسلیم کرالی۔ وہ کئی موقر اخبارات سے وابستہ رہے، ان کے کئی انگریزی کالم بھی روزناموں کی زینت بنے۔
ایکسپریس کے لیے خصوصی طور پر کالم لکھ رہے تھے، ان کے حلقہ احباب میں ملکی و غیر ملکی ادیبوں کی ایک شاندار کہکشاں شامل تھی، ادب و فن کی کئی نامور شخصیات سے ان کا قلبی و ذہنی رابطہ تھا، فکری و نظریاتی طور پر محمد حسن عسکری، ناصر کاظمی، پروفیسر کرار حسین سے قریب تھے۔ ''چاند گہن''، ''بستی'' اور ''آگے سمندر ہے'' ان کی عہد آفریں تخلیقات ہیں۔ انھوں نے سفر نامے اور ڈرامے لکھے، ''علامتوں کا زوال'' اور ''نظریے سے آگے'' ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں۔ بے شمار عالمی ادیبوں کے فکشن کا انھوں نے خوبصورت ترجمہ کیا۔
ان کی کاوشوں کو بُکر پرائز کے لیے شارٹ کٹ کیا گیا جب کہ ایک عالمی شہرت یافتہ رائٹر نے انھیں عالمی سطح پر ادبی ایوارڈ سے سے محروم رکھنے پر عالمی ادبی اداروں پر کڑی تنقید کی تھی۔ تاہم ان کی ادبی خدمات پر 2014 میں انھیں فرانس سے آفیسر آف دی آرٹس ایند لیٹررز کا حکومتی ایوارڈ دیا گیا۔ ایک فکشن نگار کا یہ کہنا بجا ہے کہ انتظار صاحب کی ادبی و صحافتی مسافتیں نئی نسل کے ادیبوں اور صحافیوں کے لیے ایک ادارے کا درجہ رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔