ایک قاتل کا کالم

طبیب کے مشورے اور ہدایت پر عمل نہ کرنا ایک گناہ ہے جس کی سزا انسان کے بدن کو ملتی رہتی ہے


Abdul Qadir Hassan February 03, 2016
[email protected]

میں ناشتہ کر کے اب یہ سوچ رہا ہوں کہ صبح صبح اس پر تکلف اور اپنی پسند کے عین مطابق اس ناشتے کو اب کس خوبصورتی سے ہضم کیا جا سکتا ہے۔ چلنے پھرنے والی ورزش سے یا کسی ہاضم گولی سے لیکن میں اس وقت کیا اس کیفیت میں ہوں کہ اس ناشتے کو ہضم کرنے کی فکر میں الجھ جاؤں جب کہ میرا یہ ناشتہ سندھ کے ایک ریگستان میں بھوک اور بیماری سے مرنے والے کئی بچوں کو موت کے منہ سے چھین سکتا ہے۔

میں دن میں کم از کم تین بار کھانا کھاتا ہوں اور اس دوران ادھر ادھر کی منہ ماری الگ ہے جو ان کھانوں کے درمیان کے وقفے کو پر کرتی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں میرے ایک مہربان ڈاکٹر نے مشورہ دیا تھا کہ ایک بار پیٹ بھر کر کھانے سے بہتر ہے کہ تھوڑا تھوڑا کھایا جائے اور چائے کی جگہ قہوہ یا سبز چائے کو زحمت دی جائے۔ نہیں معلوم ڈاکٹر صاحبان ہمارے قومی مشروب چائے کے کیوں خلاف ہیں جب کہ وہ خود مریض سے چھپ چھپا کر چائے پی لیتے ہیں۔ شاید یہ کفارہ ہے جو ڈاکٹر صاحبان اپنے مریضوں کا ادا کرتے ہیں جو ان کے مشورے کے برعکس چائے نوشی سے باز نہیں آتے۔

طبیب کے مشورے اور ہدایت پر عمل نہ کرنا ایک گناہ ہے جس کی سزا انسان کے بدن کو ملتی رہتی ہے چونکہ معالج کے ماہرانہ مشورے پر عمل نہ کرنے کا گناہ سر زد ہوتا رہتا ہے اس لیے ہمدرد اور اچھے ڈاکٹر مریض کو اس کی نافرمانی کی شرم دلانے کے لیے خود اپنے آپ کو سزا دے لیتے ہیں اور بھوکے رہتے ہیں۔ یہ فقر و فاقہ جسمانی صحت کے لیے بھی بے حد مفید ہے اور روحانی صحت کے لیے تو اس کی مثال وہ ہر درگاہ ہے جس میں کوئی صوفی محو خواب ہے اور اس دنیا سے گزر جانے کے باوجود اپنی فیض رسانی کا فرض ادا کرتا رہتا ہے۔

اس شہر لاہور میں ہی ایک سے زیاد اپنے وقت کے بادشاہوں کے مقبرے ہیں اور ایک بادشاہ تو پورے ہندوستان کا پہلا بادشاہ تھا قطب الدین ایبک جو انار کلی کی ایک گلی میں مدفون ہے اور اب اس کی قبر کو کچھ آراستہ کیا گیا ہے ورنہ یہ قبر نا معلوم تھی۔ سوائے اس کے کہ اس کے گرد تھوڑی سی کچھ جگہ خالی ہوئی تھی اور احتراماً نہ جانے کب سے خالی چلی آ رہی تھی۔

ہندوستان کے اس پہلے بادشاہ کے بعد مغل سلطنت کا ایک بادشاہ بھی اس شہر میں آرام کر رہا ہے بلکہ اس کے مقبرے کی شان دیکھیں تو وہ گویا دربار کر رہا ہے یہ ہے جہانگیر جس کا مقبرہ گستاخی کی انتہا ہے کہ ایک سیر گاہ ہے جب کہ اس کی دوسری طرف ایک ویران اجاڑ سا مقبرہ بھی ہے جو اس بادشاہ کی محبوبہ کا ہے وہ زندگی میں بھی بادشاہ کی بیگم ہونے کے باوجود ایک کنیز کی زندگی بسر کرتی رہی اور اب بھی جہانگیر کے شاہی شان و شوکت والے مقبرے کے پڑوس میں ایک کنیز کی طرح محو خواب ہے اور کہتی ہے کہ

ہم اجنبی لوگوں کے مزار پر نہ تو کوئی چراغ جلتا ہے نہ کوئی پھول کھلتے ہیں

نہ کسی پروانے کا پر جلتا ہے اور نہ کسی بلبل کی آواز گونجتی ہے

اسی طرح لاہور کی سرزمین گزرے ہوئے بادشاہوں کے مقبروں سے آباد ہے لیکن یہاں لوگ سیر و تفریح کے لیے آتے جاتے ہیں جب کہ اس شہر میں کچھ ایسے لوگ بھی مدفون ہیں جن کو بھی بادشاہ کہا جاتا ہے اور جن کے فیض سے ہر روز ہزاروں بھوکوں کو کھانا ملتا ہے یہ سلطنتِ تصوف و سلوک کے بادشاہ ہیں اور ان کا فیض عام جاری ہے۔ خدمت خلق جو وہ زندگی بھر کرتے رہے اور اب اس دوسری زندگی میں بھی کر رہے ہیں اور اس شہر کی آبرو کے محافظ ہیں۔

بات تو تھر کے بچوں کی کرنا چاہتا تھا جن میں سے میں نے ایک بچے کی ٹی وی پر تصویر دیکھی کہ میں اس کے سینے کی ہڈیاں بھی گن سکتا تھا اور اس کے چہرے پر صرف کسی انسانی چہرے کا گماں ہوتا تھا۔ یہ پاکستانی بچہ تھا۔ اگر وہ زندہ رہا اور بڑا ہو گیا تو اس کا ووٹ بھی ہو گا ورنہ وہ اس فاقہ زدہ زندگی میں جوانی تک بھی نہیں پہنچ سکے گا اور راستے میں ہی مر جائے گا اور اس کی ماں اڑوس پڑوس سے مانگ کر اس کا کفن دفن کر لے گی اور بس۔

اگر صحرائے تھر میں پٹواری ہوتا ہے تو ممکن ہے اس نے اس کا نام بھی درج کر لیا ہو ورنہ جس ملک میں پٹواری میرے جیسے سنگدل لوگوں کی نوازشات پر پلتا ہو اس کا نام پاکستان ہو یا کچھ اور کیا فرق پڑتا ہے اور اس صحرا میں کتنے ہی بچے ہڈیوں کا ڈھانچہ لیے ہوئے کسی قبر میں گم ہو گئے لیکن کسی خوشحال کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ میں جب اخبار میں کوئی تصویر دیکھ کر گھبرا جاتا ہوں اور یہ بچہ میرے ذہن سے اترتا ہی نہیں تو نہ ہی میں تو اس کے غم میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن سکتا ہوں کیونکہ میں ایک خوشحال پاکستانی ہوں اور اس ملک کے اس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں جس کے لیے یہ بچے اگر زندہ رہیں تو اچھا ہے کیونکہ یہ بڑے ہوں گے تو ہمارا کام کریں گے ورنہ ہم اپنی زندگی آرام کے ساتھ کیسے بسر کریں گے۔

ہڈیوں کے یہ ڈھانچے زندہ رکھنے کے لیے لازم ہے کہ ہماری حکومت شرم کرے اور ان کی یا ان کی ماؤں کی روٹی پانی کا اہتمام کرے۔ جو ان کا پاکستانی حق ہے اور ہمارا ان کے بچوں کی جوانی پر حق ہے جو کھائیں پئیں گے تو ہمارے کسی کام کے ہوں گے۔ ورنہ ہم تو ان کے قاتل ہیں جنھیں وہ نہ تو ناشتے پر یاد آتے ہیں نہ لنچ اور ڈنر پر اگر ٹی وی وغیرہ ان کی تصویر دکھا دیتے ہیں تو ہم حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یہ بچہ اب تک زندہ کیسے رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ماں شاید ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو وہ خود اتنی بھوکی رہتی ہے کہ اس بچے کا حصہ بھی کھا جاتی ہے مگر اس بچے کو اس کا حصہ ملتا ہی کہاں سے ہے۔

اس جاں بلب بچے کو اس حالت میں دیکھ کر آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں اور دل ہی دل میں اس کی حالت کا ماتم کیا جاتا ہے لیکن اس کی اس دگرگوں حالت کا کوئی علاج نہیں کیا جاتا شاید اس لیے کہ وہ زندہ رہے اور ہم ایسے نیم مردہ پاکستانیوں کو دیکھ کر پہلے تو کچھ رنج کریں پھر ان پر ایک کالم لکھیں اور اپنی قاتلانہ تحریروں کا پیٹ بھر سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں