اے ایس پی کے طور پر پہلی تعیناتی
ایف سی کی تعیناتی کا ایک سال مکمّل ہوا تو میری تعیناتی پاکپتن میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر کے طور پر کردی گئی۔
ایف سی کی تعیناتی کا ایک سال مکمّل ہوا تو میری تعیناتی پاکپتن میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر کے طور پر کردی گئی۔ پاکپتن اسوقت ضلع ساہیوال کی سب ڈویژن تھی، ساہیوال ایس ایس پی آفس پہنچا تو ایس ایس پی حاجی حبیب الرحمن صاحب نے بڑی گرمجوشی سے خیرمقدم کیا۔ پاکپتن (جہاں وہ اے ایس پی رہ چکے تھے) کے متعّلق بریف کرنے کے بعد انھوں نے مجھے رخصت کیا، وہاں سے چالیس منٹ میں پاکپتن پہنچ گیا اور کینال ریسٹ ہاؤس میں عارضی طور پر ڈیرہ لگالیا۔ گھر کی تیس سالہ تربیّت، والدین، ماموں جان اور بڑے بھائی صاحب کی زندگیاں سامنے تھیں۔
حلال و حرام کے بارے میں تصّورات بڑے واضح اور پختہ تھے مظلوم کو انصاف دینے کی خواہش بدرجہء اتم موجودتھی جوان خون تھا اور جرائم کو ختم کردینے کا جذبہ سینے میں ٹھاٹھیں مار رہا تھالہٰذا پہلے دن سے ہی بڑے جوش وخروش سے کام شروع کردیا۔ پاکپتن کے چار پولیس اسٹیشن تھے سٹی، صدر، چک بیدی (جسکی حدود ضلع اوکاڑہ سے ملتی ہیں)اور ملکہ ہانس جہاں پنجابی زبان کے شیکسپئر وارث شاہ نے کئی سال قیام کیا اور ہیررانجھا کی لازوال داستان تخلیق کی۔
پہلے روز دفتر میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک کارڈموصول ہوا۔۔ نام کے نیچے لکھا تھا رپورٹر روزنامہ امروز۔ میں نے بلوالیا۔ رپورٹر نے جسکے ساتھ تین چاراور لوگ بھی تھے، اپنا تعارف کرانے کے بعددیگر افسروں سے اپنے تعلقات اور کچھ افسروں کو تبدیل کرانے کے سلسلے میں اپنی کامیابیوں کا ذکر کیا اور پھر کہنے لگا ''یہ میرے دوست ہیں ان کے ساتھ فلاں شخص نے زیادتی کی ہے ان کی درخواست آپ متعلقہ تھانے کومارک کردیں باقی میں خود کرلوںگا"۔ میں نے کہا ''کسی کو بھی یہاں سفارش کی ضرورت نہیں آپ باہر چلے جائیں میں خود ان سے براہِ راست بات پوچھوںگا، آپ کا اپنا مسئلہ ہوا تو پھر آجائیں''۔ رپورٹر نے اسے اپنی شان میںگستاخی جانااور اس کے بعد اس نے میرے خلاف جھوٹی خبریں چھپوانی شروع کردیں۔
مختلف ذرایع سے مجرموں اور ان کے سر پرستوں کے کوائف اکٹھے کیے تو ہر لسٹ میں ایک نام سرِ فہرست نکلا وہ ایک کونسلر تھا جو منشیات اور جوئے کا دھندہ کرتا تھا۔ اس کے خلاف کوئی شہادت اکٹھی کیے بغیر میں نے اس کے گھر پر خود ریڈ کرکے اسے اٹھالیا اور تھانے میں بند کردیا۔ فوری طور پر تو اس کے سپورٹرز خوفزدہ ہوگئے اور صفائی اور معافی پر آگئے مگر ناتجربہ کاری کی بناء پر میںنے ملزم کی باقاعدہ گرفتاری کا اندراج نہیں کیا تھا اس کے وکیلوں نے اس قانونی سقم کا فائدہ اٹھایا اور عدالتوں میں ہماری سبکی ہوئی مگر اس سے ہم نے سبق سیکھا اور آئیندہ قانونی تقاضوں کا ہمیشہ خیال رکھا۔
برّصغیر کے معروف صوفی بزرگ بابا فریدؒ گنج شکر کا مزار پاک پتن میں ہے اس لیے یہ جگہ مرجّع ًخلائقٔ ہے ، ان کے عرس کا پورے علاقے کی سماجی اور معاشی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ماہِ محرّم میں سالانہ عرس کے موقع پرملک بھر سے اور ہندوستان سے بھی چوٹی کے قوّال آکر محفل سماع میں حصّہ لیتے ہیں۔ لاکھوں زائرین ان کے مزار پر آتے ہیں، ایک رات میں قریباً ایک لاکھ افراد ان کی مرقد پر کھلنے والے دروازے (جسے اس علاقے میں بہشتی دروازہ کہا اور سمجھا جاتا ہے)سے گزرتے ہیں، ہر سال بہت سے لوگ ہجوم میں کچلے جاتے ہیں۔
میں نے پولیس افسروں کو ٹارگٹ دیا کہ زائرین کے داخلے کو اسطرح منظّم بنانا ہے کہ انسانی جان ضایع نہ ہو۔۔۔ مزار سے ایک کلومیٹر کے فاصلے سے گیٹ بن جاتے ہیں اور زائرین ایک قطار میں اندر جاتے ہیں۔ میں نے پانچ چھ چست اور چٹک جوانوں کا ایک اسپیشل اسکواڈ بنایا۔ جہاں بھی لائن ٹوٹتی میں اسکواڈ لے کر خود وہاں پہنچتاگیٹ بند کرکے بکھرے ہوئے ہجوم کوپہلے ہٹا یا جاتا پھر ایک ایک شخص کو کھڑا کرکے قطار بنانے کے بعد روانہ کیا جاتا۔ عرس کی تمام تقریبات بڑے پرامن انداز سے اختتام پذیر ہوئیں، سب نے بہت سراہا مگر ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا جس سے درگاہ کے سجّادہ نشین صاحب سے بدمزگی ہوگئی۔
ہوا یوں کہ سیکیوریٹی کے پیشِ نظرپولیس نے ایک کے سوا مزار کے چاروں طرف کے راستے بند کردیے تھے۔ سجادہ نشین صاحب کے قریبی عزیزوں نے مزار سے ملحقہ ان کی رہائش گاہ کی طرف سے آنے کی کوشش کی تو پولیس نے روکا اس پر سجادہ نشین صاحب غیض و غضب کا شکار ہوگئے۔ انھوں نے اپنے بندے بھیجے جو پولیس کے دو ملازموں کو اٹھا کر (اغوکرکے) لے گئے۔ مجھے اطلاع ملی تو میں اپنے گن مینوںکے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر پہنچا اور پولیس ملازمین کو بازیاب کرایا اور ان کے ملازموں کو بتادیا کہ سجادہ نشین کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔
پولیس کے ضلعی سربراہ حاجی حبیب الرحمن صاحب عقیدے کے لحاظ سے درگاہ اور اس کے سجّادہ نشین سے ایک مرید کیطرح عقیدت رکھتے تھے،جس سے تمام پولیس افسران آگاہ تھے اس لیے سجّادہ نشین کے خلاف کوئی تھانیدار کیس رجسٹر کرنے کی ہمّت نہیں کرتا تھا۔ لہٰذا تحریر لکھ کر میں خود پولیس اسٹیشن گیا اور زبردستی کیس درج کروایا اور پیغام بھی بھجوادیا کہ اب سجّادہ نشین صاحب کوپولیس ملازمین کو اغوا ء کرنے پر گرفتار کیا جائیگا۔ پرچہ درج ہونے پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ مقامی ایم پی اے نے جگہ جگہ کہنا شروع کردیا کہ''دیوان صاحب کی یہ توہین ناقابلِ برداشت ہے۔ جو کام پانچ سو سالوں میں نہ ہوا وہ اے ایس پی نے کردیا''۔
میں اپنے موّقف پر قائم رہاکہ'' جو بھی قانون شکنی کرے گا اس کے خلاف کار وائی ہوگی اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں''اس سے پولیس فورس کا مورال بلند ہوا۔ سجّادہ نشین نے ایس ایس پی صاحب کو شکایت کی، ان کے پوچھنے پر میں نے حقائق بتا دیے ۔ حاجی صاحب فوراً پاک پتن پہنچ گئے اور صلح کرانے کی کوشش کی۔ میں ماننے کے لیے تیار نہ تھامگر انھوں نے کہا ''میں تمہاراسینئر بعد میں ہوں پہلے بڑا بھائی ہوں'' واقعی وہ میرے ساتھ بڑی شفقت کرتے تھے۔ بہرحال معاملہ اس طریقے سے نمٹایا گیا کہ پولیس کی عزّت بحال ہوئی ۔
ایک روز چیف منسٹر آفس سے فون آگیا۔ میں نے ریسیور اٹھایا دوسری طرف سے کوئی اسٹاف افسر بول رہا تھا۔ کہنے لگا کہ ''آپ کے خلاف بڑی سنگین شکایات ملی ہیں '' میں نے شکایت کنندہ کا نام اور شکایت کی تفصیل پوچھی تواس نے بتایا کہ ''پاک پتن کے مقامی ایم پی اے نے آپ کے خلاف تحریری طور پر یہ الزام لگایا ہے کہ حکومت کی مخالف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد آپ کے دفتر میں آتے ہیں اور آپ انھیں چائے بھی پلاتے ہیں'' میں نے اعترافِ جرم کرلیا مگر ساتھ ہی اسٹاف افسرسے کہا، ''دیکھیں میرا دفتر نہ تو میرا ذاتی ہے اور نہ ہی یہ حکومتی پارٹی کا دفتر ہے۔
سرکاری دفتروں میں تو سب لوگ آئیں گے اور علاقے کاامن و امان بحال رکھنے کے لیے ہمیں تمام شہریوں اور تمام پارٹیوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے''۔ نوجوان اسٹاف افسر بات سمجھ گیا اور کہنے لگا ''ٹھیک ہے میں یہاں صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرونگالیکن آپ بھی آئیندہ احتیاط کریں''۔ موصوف کی "احتیاط" کرنے والی ہدایت پر مجھ ناچیز جیسا بے عمل کبھی بھی عمل نہ کرسکا۔
شہر سے حکومتی پارٹی کے ایم پی اے صاحب حسبِ روایت اور حسبِ ضرورت اپنے مخالفین کو تنگ کرتے رہتے تھے اور چاہتے تھے کہ اس ''کارِ خیر'' میں پولیس بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لے اور ان کے سیاسی مخالفین کی زندگی اجیرن کر دینے میں موصوف کا دست و بازو بنے ، لیکن ایسا نہ ہونے پر قبلہ ناخوش و ناراض تھے۔ ایک روز کچھ غریب لوگ روتے پیٹتے میرے گھر آگئے اور بتانے لگے کہ ''جناب ووٹ نہ دینے پر ایم پی اے نے ہمارے خلاف جھوٹے پرچے کرادیے ہیں اور پولیس ہمارے معصوم بچوں کو پکڑ کر لے گئی ہے'' میں نے انھیں تسلّی دے کر بھیج دیا اور فوراً ایس ایچ اور کو بلا کر پوچھا اس نے تسلیم کیا کہ ایم پی اے کے دباؤ ڈالنے پر پرچے ہوئے ہیں، میں نے اسے سختی سے ہدایت کی کہ ''لڑکوں کوفوراً چھوڑ دے اور مقدّمے کی مثل لے کر علی الصبح میرے دفتر پہنچ جائے میں ان کیسوں کی خود تفتیش کرونگا''۔
تفتیش میں مقدّمے سراسر جھوٹے نکلے۔ لہٰذامیں نے فوری طور پر خارج کردیے اور جھوٹے مقدمے درج کرانے پر جعلی مدعی کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔اس پر ایم پی اے صاحب تلملاتے ہوئے میری رہائش گاہ پر پہنچ گئے اور آتے ہی فرمانے لگے ''لگتا ہے آپ مجھے بے وقار کرنے پر تلے ہوئے ہیںآپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں یہاں حکومت ِ پاکستان کا نمائیندہ ہوں اور میرا استحقاق بھی ہے''۔ میں نے عرض کیا ''حضور! میں بھی حکومتِ ھند کا نمایندہ نہیں ہوں۔ حکومتِ پاکستان ہی کا ملازم ہوں مگر پوری سب ڈویژن کی پولیس کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے میر ا یہ فرض ہے کہ سب کے حقوق کا خیال رکھوں اور سب کو انصاف دوں''۔
یہ ون ٹو ون میٹنگ نتیجہ خیز اس لیے ثابت نہ ہوسکی کہ فریقین اپنے اپنے موقّف پر قائم رہے۔ دوسرے روز ایم پی اے صاحب نے تیاّر ہوکر ایک خوشحال سائل سے کار میں پٹرول ڈلوایا اورسیدھا لاہور کا رخ کیا۔ وہاں جا کر میری شکایت کی کہ ''اے ایس پی حکومت مخالفوں سے ملا ہوا ہے'' لہٰذا اس جرم پرمیری ٹرانسفر ہوگئی، ایس ایس پی حاجی حبیب الرحمن صاحب کے بھی لاہور میں بڑے تعلقات تھے انھیں معلوم ہوا تو انھوں نے اسی روز اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے میراتبادلہ منسوخ کرادیا۔
میں شام کو گھر داخل ہوا تو میرے پیچھے پیچھے ایک اور گاڑی گھر میں داخل ہوئی،دیکھا تو محترم ایم پی اے صاحب تھے۔ بڑی زوردار جَپھّی ڈالکر کہنے لگے ''سیدھا لاہور سے آرہا ہوں وزیرِ اعلیٰ صاحب آپ سے ناراض ہیں انھوں نے آپکا تبادلہ کردیا تھا مگرمیں نے بڑی کوششوںسے یہ کہہ کر رکوایا ہے کہ نوجوان افسر ہے غلطیاں کر جاتا ہے مگر کرائم کنٹرول میں اچھا ہے آہستہ آہستہ سیکھ جائے گا " میں نے گھر آئے مہمان کو embarrass کرنا مناسب نہ سمجھا اور چائے پلا کر رخصت کیا۔
ایک روز اطلاع ملی کہ تھانہ صدر کے ایک گاؤں میں دو قتل ہوئے ہیں، جاکر حقائق معلوم کیے تو پتہ چلا کہ چند مسلّح افراد (جو مقامی ایم این اے کے آدمی تھے) چوک پر آئے اورایک دکان پر کھڑے ہوکر پیپسی وغیرہ پیتے رہے، دکاندار نے پیسے مانگے تو وہ اشتعال میں آکر اسے گالیاں دینے لگے قریب کھڑے ایک دوسرے شخص نے انھیں منع کیا تو انہوں نے فائرنگ کرکے دکاندار کو ہلاک اور دوسرے کو شدید زخمی کردیا جو اسپتال میں آئی سی یو میں پڑا ہے۔ آج کے جدید دور میں اتنا بڑا ظلم ہو۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے ایس ایچ او کو وارننگ دی کہ اگرملزم بارہ گھنٹے میں گرفتار نہ ہوئے تو تم گرفتار ہوگے۔ پوری سب ڈویژن کی پولیس نکل پڑی اور تین سے چار گھنٹے میں ہی ملزم پکڑلیے گئے۔۔۔ اور پھر پاکپتن کے ہزاروں شہریوں نے دیکھا کہ غریب دکانداروں کے ساتھ ظلم کرنے والے ان ظالموں کو کس طرح عبرت کا نشان بنایا گیا۔ اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔
حلال و حرام کے بارے میں تصّورات بڑے واضح اور پختہ تھے مظلوم کو انصاف دینے کی خواہش بدرجہء اتم موجودتھی جوان خون تھا اور جرائم کو ختم کردینے کا جذبہ سینے میں ٹھاٹھیں مار رہا تھالہٰذا پہلے دن سے ہی بڑے جوش وخروش سے کام شروع کردیا۔ پاکپتن کے چار پولیس اسٹیشن تھے سٹی، صدر، چک بیدی (جسکی حدود ضلع اوکاڑہ سے ملتی ہیں)اور ملکہ ہانس جہاں پنجابی زبان کے شیکسپئر وارث شاہ نے کئی سال قیام کیا اور ہیررانجھا کی لازوال داستان تخلیق کی۔
پہلے روز دفتر میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک کارڈموصول ہوا۔۔ نام کے نیچے لکھا تھا رپورٹر روزنامہ امروز۔ میں نے بلوالیا۔ رپورٹر نے جسکے ساتھ تین چاراور لوگ بھی تھے، اپنا تعارف کرانے کے بعددیگر افسروں سے اپنے تعلقات اور کچھ افسروں کو تبدیل کرانے کے سلسلے میں اپنی کامیابیوں کا ذکر کیا اور پھر کہنے لگا ''یہ میرے دوست ہیں ان کے ساتھ فلاں شخص نے زیادتی کی ہے ان کی درخواست آپ متعلقہ تھانے کومارک کردیں باقی میں خود کرلوںگا"۔ میں نے کہا ''کسی کو بھی یہاں سفارش کی ضرورت نہیں آپ باہر چلے جائیں میں خود ان سے براہِ راست بات پوچھوںگا، آپ کا اپنا مسئلہ ہوا تو پھر آجائیں''۔ رپورٹر نے اسے اپنی شان میںگستاخی جانااور اس کے بعد اس نے میرے خلاف جھوٹی خبریں چھپوانی شروع کردیں۔
مختلف ذرایع سے مجرموں اور ان کے سر پرستوں کے کوائف اکٹھے کیے تو ہر لسٹ میں ایک نام سرِ فہرست نکلا وہ ایک کونسلر تھا جو منشیات اور جوئے کا دھندہ کرتا تھا۔ اس کے خلاف کوئی شہادت اکٹھی کیے بغیر میں نے اس کے گھر پر خود ریڈ کرکے اسے اٹھالیا اور تھانے میں بند کردیا۔ فوری طور پر تو اس کے سپورٹرز خوفزدہ ہوگئے اور صفائی اور معافی پر آگئے مگر ناتجربہ کاری کی بناء پر میںنے ملزم کی باقاعدہ گرفتاری کا اندراج نہیں کیا تھا اس کے وکیلوں نے اس قانونی سقم کا فائدہ اٹھایا اور عدالتوں میں ہماری سبکی ہوئی مگر اس سے ہم نے سبق سیکھا اور آئیندہ قانونی تقاضوں کا ہمیشہ خیال رکھا۔
برّصغیر کے معروف صوفی بزرگ بابا فریدؒ گنج شکر کا مزار پاک پتن میں ہے اس لیے یہ جگہ مرجّع ًخلائقٔ ہے ، ان کے عرس کا پورے علاقے کی سماجی اور معاشی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ماہِ محرّم میں سالانہ عرس کے موقع پرملک بھر سے اور ہندوستان سے بھی چوٹی کے قوّال آکر محفل سماع میں حصّہ لیتے ہیں۔ لاکھوں زائرین ان کے مزار پر آتے ہیں، ایک رات میں قریباً ایک لاکھ افراد ان کی مرقد پر کھلنے والے دروازے (جسے اس علاقے میں بہشتی دروازہ کہا اور سمجھا جاتا ہے)سے گزرتے ہیں، ہر سال بہت سے لوگ ہجوم میں کچلے جاتے ہیں۔
میں نے پولیس افسروں کو ٹارگٹ دیا کہ زائرین کے داخلے کو اسطرح منظّم بنانا ہے کہ انسانی جان ضایع نہ ہو۔۔۔ مزار سے ایک کلومیٹر کے فاصلے سے گیٹ بن جاتے ہیں اور زائرین ایک قطار میں اندر جاتے ہیں۔ میں نے پانچ چھ چست اور چٹک جوانوں کا ایک اسپیشل اسکواڈ بنایا۔ جہاں بھی لائن ٹوٹتی میں اسکواڈ لے کر خود وہاں پہنچتاگیٹ بند کرکے بکھرے ہوئے ہجوم کوپہلے ہٹا یا جاتا پھر ایک ایک شخص کو کھڑا کرکے قطار بنانے کے بعد روانہ کیا جاتا۔ عرس کی تمام تقریبات بڑے پرامن انداز سے اختتام پذیر ہوئیں، سب نے بہت سراہا مگر ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا جس سے درگاہ کے سجّادہ نشین صاحب سے بدمزگی ہوگئی۔
ہوا یوں کہ سیکیوریٹی کے پیشِ نظرپولیس نے ایک کے سوا مزار کے چاروں طرف کے راستے بند کردیے تھے۔ سجادہ نشین صاحب کے قریبی عزیزوں نے مزار سے ملحقہ ان کی رہائش گاہ کی طرف سے آنے کی کوشش کی تو پولیس نے روکا اس پر سجادہ نشین صاحب غیض و غضب کا شکار ہوگئے۔ انھوں نے اپنے بندے بھیجے جو پولیس کے دو ملازموں کو اٹھا کر (اغوکرکے) لے گئے۔ مجھے اطلاع ملی تو میں اپنے گن مینوںکے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر پہنچا اور پولیس ملازمین کو بازیاب کرایا اور ان کے ملازموں کو بتادیا کہ سجادہ نشین کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔
پولیس کے ضلعی سربراہ حاجی حبیب الرحمن صاحب عقیدے کے لحاظ سے درگاہ اور اس کے سجّادہ نشین سے ایک مرید کیطرح عقیدت رکھتے تھے،جس سے تمام پولیس افسران آگاہ تھے اس لیے سجّادہ نشین کے خلاف کوئی تھانیدار کیس رجسٹر کرنے کی ہمّت نہیں کرتا تھا۔ لہٰذا تحریر لکھ کر میں خود پولیس اسٹیشن گیا اور زبردستی کیس درج کروایا اور پیغام بھی بھجوادیا کہ اب سجّادہ نشین صاحب کوپولیس ملازمین کو اغوا ء کرنے پر گرفتار کیا جائیگا۔ پرچہ درج ہونے پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ مقامی ایم پی اے نے جگہ جگہ کہنا شروع کردیا کہ''دیوان صاحب کی یہ توہین ناقابلِ برداشت ہے۔ جو کام پانچ سو سالوں میں نہ ہوا وہ اے ایس پی نے کردیا''۔
میں اپنے موّقف پر قائم رہاکہ'' جو بھی قانون شکنی کرے گا اس کے خلاف کار وائی ہوگی اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں''اس سے پولیس فورس کا مورال بلند ہوا۔ سجّادہ نشین نے ایس ایس پی صاحب کو شکایت کی، ان کے پوچھنے پر میں نے حقائق بتا دیے ۔ حاجی صاحب فوراً پاک پتن پہنچ گئے اور صلح کرانے کی کوشش کی۔ میں ماننے کے لیے تیار نہ تھامگر انھوں نے کہا ''میں تمہاراسینئر بعد میں ہوں پہلے بڑا بھائی ہوں'' واقعی وہ میرے ساتھ بڑی شفقت کرتے تھے۔ بہرحال معاملہ اس طریقے سے نمٹایا گیا کہ پولیس کی عزّت بحال ہوئی ۔
ایک روز چیف منسٹر آفس سے فون آگیا۔ میں نے ریسیور اٹھایا دوسری طرف سے کوئی اسٹاف افسر بول رہا تھا۔ کہنے لگا کہ ''آپ کے خلاف بڑی سنگین شکایات ملی ہیں '' میں نے شکایت کنندہ کا نام اور شکایت کی تفصیل پوچھی تواس نے بتایا کہ ''پاک پتن کے مقامی ایم پی اے نے آپ کے خلاف تحریری طور پر یہ الزام لگایا ہے کہ حکومت کی مخالف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد آپ کے دفتر میں آتے ہیں اور آپ انھیں چائے بھی پلاتے ہیں'' میں نے اعترافِ جرم کرلیا مگر ساتھ ہی اسٹاف افسرسے کہا، ''دیکھیں میرا دفتر نہ تو میرا ذاتی ہے اور نہ ہی یہ حکومتی پارٹی کا دفتر ہے۔
سرکاری دفتروں میں تو سب لوگ آئیں گے اور علاقے کاامن و امان بحال رکھنے کے لیے ہمیں تمام شہریوں اور تمام پارٹیوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے''۔ نوجوان اسٹاف افسر بات سمجھ گیا اور کہنے لگا ''ٹھیک ہے میں یہاں صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرونگالیکن آپ بھی آئیندہ احتیاط کریں''۔ موصوف کی "احتیاط" کرنے والی ہدایت پر مجھ ناچیز جیسا بے عمل کبھی بھی عمل نہ کرسکا۔
شہر سے حکومتی پارٹی کے ایم پی اے صاحب حسبِ روایت اور حسبِ ضرورت اپنے مخالفین کو تنگ کرتے رہتے تھے اور چاہتے تھے کہ اس ''کارِ خیر'' میں پولیس بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لے اور ان کے سیاسی مخالفین کی زندگی اجیرن کر دینے میں موصوف کا دست و بازو بنے ، لیکن ایسا نہ ہونے پر قبلہ ناخوش و ناراض تھے۔ ایک روز کچھ غریب لوگ روتے پیٹتے میرے گھر آگئے اور بتانے لگے کہ ''جناب ووٹ نہ دینے پر ایم پی اے نے ہمارے خلاف جھوٹے پرچے کرادیے ہیں اور پولیس ہمارے معصوم بچوں کو پکڑ کر لے گئی ہے'' میں نے انھیں تسلّی دے کر بھیج دیا اور فوراً ایس ایچ اور کو بلا کر پوچھا اس نے تسلیم کیا کہ ایم پی اے کے دباؤ ڈالنے پر پرچے ہوئے ہیں، میں نے اسے سختی سے ہدایت کی کہ ''لڑکوں کوفوراً چھوڑ دے اور مقدّمے کی مثل لے کر علی الصبح میرے دفتر پہنچ جائے میں ان کیسوں کی خود تفتیش کرونگا''۔
تفتیش میں مقدّمے سراسر جھوٹے نکلے۔ لہٰذامیں نے فوری طور پر خارج کردیے اور جھوٹے مقدمے درج کرانے پر جعلی مدعی کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔اس پر ایم پی اے صاحب تلملاتے ہوئے میری رہائش گاہ پر پہنچ گئے اور آتے ہی فرمانے لگے ''لگتا ہے آپ مجھے بے وقار کرنے پر تلے ہوئے ہیںآپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں یہاں حکومت ِ پاکستان کا نمائیندہ ہوں اور میرا استحقاق بھی ہے''۔ میں نے عرض کیا ''حضور! میں بھی حکومتِ ھند کا نمایندہ نہیں ہوں۔ حکومتِ پاکستان ہی کا ملازم ہوں مگر پوری سب ڈویژن کی پولیس کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے میر ا یہ فرض ہے کہ سب کے حقوق کا خیال رکھوں اور سب کو انصاف دوں''۔
یہ ون ٹو ون میٹنگ نتیجہ خیز اس لیے ثابت نہ ہوسکی کہ فریقین اپنے اپنے موقّف پر قائم رہے۔ دوسرے روز ایم پی اے صاحب نے تیاّر ہوکر ایک خوشحال سائل سے کار میں پٹرول ڈلوایا اورسیدھا لاہور کا رخ کیا۔ وہاں جا کر میری شکایت کی کہ ''اے ایس پی حکومت مخالفوں سے ملا ہوا ہے'' لہٰذا اس جرم پرمیری ٹرانسفر ہوگئی، ایس ایس پی حاجی حبیب الرحمن صاحب کے بھی لاہور میں بڑے تعلقات تھے انھیں معلوم ہوا تو انھوں نے اسی روز اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے میراتبادلہ منسوخ کرادیا۔
میں شام کو گھر داخل ہوا تو میرے پیچھے پیچھے ایک اور گاڑی گھر میں داخل ہوئی،دیکھا تو محترم ایم پی اے صاحب تھے۔ بڑی زوردار جَپھّی ڈالکر کہنے لگے ''سیدھا لاہور سے آرہا ہوں وزیرِ اعلیٰ صاحب آپ سے ناراض ہیں انھوں نے آپکا تبادلہ کردیا تھا مگرمیں نے بڑی کوششوںسے یہ کہہ کر رکوایا ہے کہ نوجوان افسر ہے غلطیاں کر جاتا ہے مگر کرائم کنٹرول میں اچھا ہے آہستہ آہستہ سیکھ جائے گا " میں نے گھر آئے مہمان کو embarrass کرنا مناسب نہ سمجھا اور چائے پلا کر رخصت کیا۔
ایک روز اطلاع ملی کہ تھانہ صدر کے ایک گاؤں میں دو قتل ہوئے ہیں، جاکر حقائق معلوم کیے تو پتہ چلا کہ چند مسلّح افراد (جو مقامی ایم این اے کے آدمی تھے) چوک پر آئے اورایک دکان پر کھڑے ہوکر پیپسی وغیرہ پیتے رہے، دکاندار نے پیسے مانگے تو وہ اشتعال میں آکر اسے گالیاں دینے لگے قریب کھڑے ایک دوسرے شخص نے انھیں منع کیا تو انہوں نے فائرنگ کرکے دکاندار کو ہلاک اور دوسرے کو شدید زخمی کردیا جو اسپتال میں آئی سی یو میں پڑا ہے۔ آج کے جدید دور میں اتنا بڑا ظلم ہو۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے ایس ایچ او کو وارننگ دی کہ اگرملزم بارہ گھنٹے میں گرفتار نہ ہوئے تو تم گرفتار ہوگے۔ پوری سب ڈویژن کی پولیس نکل پڑی اور تین سے چار گھنٹے میں ہی ملزم پکڑلیے گئے۔۔۔ اور پھر پاکپتن کے ہزاروں شہریوں نے دیکھا کہ غریب دکانداروں کے ساتھ ظلم کرنے والے ان ظالموں کو کس طرح عبرت کا نشان بنایا گیا۔ اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔