پولیس کی تاوان وصولی
پولیس خود کہتی تھی کہ مقدمہ درج کرانے سے کچھ نہیں ہو گا کچھ دے دلا کر اپنا مال واپس لے لیں۔
FAISALABAD:
تین عشروں قبل سندھ میں ڈاکوؤں نے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں شروع کی تھیں جب کہ اس سے قبل سندھ اور پنجاب میں جانور چوری کر کے رقم وصول کرنے کا کاروبار بھی عروج پر تھا اور اس رقم کو سندھ میں بھونگا کہا جاتا تھا جس کے بعد گاڑیاں چوری کر کے یا چھین کر واپسی کے لیے منہ مانگی رقم طلب کی جاتی تھی۔ بھونگا لے کر جانور واپس کرانے میں علاقے کے بااثر افراد بھی پولیس سے مل کر کردار ادا کیا کرتے تھے اور گاڑیوں کی واپسی میں علاقے کے سیاستدان، زمیندار اور ان کی اولاد یہ کام کرتی تھی۔
پولیس خود کہتی تھی کہ مقدمہ درج کرانے سے کچھ نہیں ہو گا کچھ دے دلا کر اپنا مال واپس لے لیں۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شکار پور کے دورے میں پی پی کے ایک بزرگ رہنما سے کہا تھا کہ اگر میری گاڑی چلی جائے تو وہ کتنی رقم میں اپنے بیٹے کے ذریعے واپس کرائیں گے، تو وہ رہنما جواب نہ دے سکے تھے۔
اغوا برائے تاوان کا کاروبار سندھ میں بڑے عروج پر تھا، کاروں والے ہی نہیں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے بھی غیر محفوظ ہو گئے تھے اور معاملہ ایک دو افراد سے بڑھ کر درجنوں افراد کے اغوا تک پہنچ گیا تھا اور اغوا برائے تاوان کے لیے بڑے لوگوں ہی کو نہیں بلکہ زمینداروں، امیروں، افسروں اور ججوں تک پہنچ گیا تھا اور شکارپور کے تین جج بھی اغوا ہوئے تھے اور تاوان کی ادائیگی سے چھوٹے تھے۔ اغوا کے واقعات میں ہندو تاجروں کو بھی نہیں بخشا گیا، جس پر کئی ہندو خاندان بھارت چلے گئے تھے۔
اغوا برائے تاوان کے منافع بخش کاروبار میں بااثر سیاستدان اور بڑے زمیندار بھی ملوث تھے، جو ڈاکوؤں کو مغوی رکھنے کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے تھے اور مغوی چھڑوانے میں پولیس کی ملی بھگت سے اپنا حصہ وصول کیا کرتے تھے۔ شاہراہوں سے بسیں اغوا کر کے انھیں کچے راستوں پر لے جایا جاتا تھا، جہاں مسافروں سے معلومات لے کر کبھی کبھی غریبوں کو اور عوام گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو چھوڑ دیا جاتا تھا کیونکہ ان دنوں موبائل فون نہیں آئے تھے، اس لیے باہمی رابطوں کے لیے چھوڑے گئے لوگوں سے کام لیا جاتا تھا اور موبائل فون آنے کے بعد تو اغوا کاروں کو بڑی سہولت ہو گئی۔
مغویوں کے لیے کچھ کے علاقے اور بڑے لوگوں کی کمیٹیاں بھی مشہور تھیں۔ اغوا برائے تاوان کا کاروبار پولیس کے تعاون کے بغیر ممکن ہو ہی نہیں سکتا تھا اور اس سلسلے میں سندھ جب دنیا میں بدنام ہوا تو نواز شریف نے وزیراعظم بن کر اس مذموم کاروبار کو ختم کرانے پر توجہ دی۔ سخت آپریشن ہوئے تو اس میں کمی آئی اور بعد میں یہ کاروبار کراچی میں بڑھتا گیا اور بعد میں شارٹ ٹائم اغوا کی وارداتیں بھی عام ہوئیں، جن میں آپریشن شروع ہونے کے بعد کمی آئی ہے، مگر یہ کاروبار مکمل ختم نہیں ہوا۔
اغوا برائے تاوان میں معاملات پولیس کے ذریعے طے ہوتے تھے اور بااثر مغویوں کی رہائی کے لیے پولیس خود بااثر سیاستدانوں اور زمینداروں سے رابطے کرتی تھی اور بعض مرتبہ پولیس نے چندے کر کے رقم جمع کی اور مغوی رہا کرائے اور ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ پولیس نے اغوا کاروں کا گھیرا تنگ کیا تو وہ مغویوں کو چھوڑ کر فرار ہو گئے اور پولیس بعض مغویوں کو بڑے فخر سے بازیاب کرا لینے کے دعوے کیا کرتی تھی۔ اکثر مغوی تاوان ادا کر کے رہائی حاصل کرتے تھے مگر اغوا کاروں اور پولیس کے خوف سے تاوان کی ادائیگی کا نہیں بتاتے تھے۔
دو عشروں قبل پولیس ہی نہیں بلکہ منشیات کی برآمدگی کے ذمے دار اداروں کے بعض افسروں نے اپنے خفیہ سیل بنا رکھے تھے، جہاں ملزموں کو گرفتار کر کے رکھا جاتا تھا اور جوڑ توڑ کے بعد انھیں رہا کر دیا جاتا تھا اور مطلوبہ رشوت نہ دے سکنے والوں کی جھوٹے مقدمات میں گرفتاری اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ظاہر کر دی جاتی تھی۔
کراچی میں اغوا کاروں کے خلاف آپریشن کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور سی پی ایل سی نے بھی مغویوں کی واپسی میں کردار ادا کیا اور پولیس کی کمائی بری طرح متاثر ہوئی تو پولیس کے بعض افسروں نے اپنے چہیتے اہلکاروں کے ساتھ مل کر سرکاری وردی، پولیس موبائلوں اور سرکاری اسلحے کے ساتھ خود اغوا برائے تاوان کا کاروبار شروع کر دیا کیونکہ اسی طرح انھیں سرکاری تحفظ مل گیا جس کا واضح ثبوت ضلع غربی کے پاکستان بازار تھانے کے اے ایس آئی اکرم اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری سے ملا جب کہ اکثر وارداتیں تو پولیس منظرعام پر بھی نہیں آنے دیتی۔
روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی تفصیلات کے مطابق ایس ایس پی ویسٹ کو اغوا برائے تاوان میں پولیس کے ملوث ہونے کا علم تھا اور مذکورہ تھانہ پر تعینات نہ ہونے کے باوجود معطل اے ایس آئی اکرم کو پولیس موبائل، اہلکار اور سرکاری اسلحہ خود ایس ایچ او نے دیا تھا اور شہریوں کے اغوا میں ملوث پولیس افسر پاکستان بازار تھانے پر تعینات بھی نہیں تھا۔ گرفتار پولیس افسر اکرم خان نے بتایا کہ وہ کافی عرصے سے معطل تھا اور پاکستان بازار تھانے کے ایس ایچ او ظہیر مہر نے بغیر کسی پولیس آرڈر کے اپنے تھانے میں تعینات کر رکھا تھا اور اس کے کالے دھندوں کے بارے میں علم ایس ایس پی غربی اور متعلقہ تھانہ انچارج کو تھا اور وہ انھیں تاوان اور دیگر جگہوں سے ملنے والی رقوم کا حصہ انھیں دیا کرتا تھا۔
اورنگی پولیس نے گرفتار پولیس افسر کے مظالم کا شکار چند گھرانوں کے افراد کے بیانات قلم بند کر لیے ہیں اور ملزم کے دیگر ساتھیوں کے خلاف کارروائی میں بعض بااثر پولیس افسر ملزم کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اعلیٰ پولیس افسران کو گرفتار پولیس افسر کے دیگر وارداتوں کی تفصیلات سے آگاہ کر دیا گیا ہے مگر ملزم اور اس کے ساتھیوں سے موثر تفتیش نہیں ہو رہی۔ ملزم پولیس افسر کو پاکستان رینجرز نے خفیہ اطلاع پر غریب آباد سے گرفتار کر کے سات مغویوں کو بازیاب کرایا تھا اور ملزم کے چار ساتھیوں کو بھی گرفتار کر کے چار سرکاری مشین گن اور اسلحہ برآمد کیا تھا۔ ماضی میں سندھ پولیس کے ایس پیز اور ڈی ایس پیز پر بھی اغوا برائے تاوان، قتل اور جرائم کرانے کے سنگین الزامات لگے جس پر بعض معطل ہوئے مگر سیاسی رسوخ سے بحال ہو گئے۔
سندھ پولیس اور حکومت اپنی من مانیوں میں سپریم کورٹ کی بھی پرواہ نہیں کر رہی اور سپریم کورٹ کو دھوکا دے رہی ہے اور دیگر محکموں سے پولیس میں آنے والے اب تک عہدوں پر براجمان ہیں جس کا ایک واضح ثبوت دو ڈی آئی جی پولیس ہیں جو 1989ء میں انکم ٹیکس اور فارن سروس سے اندرون سندھ اے ایس پی کے طور پر تبادلہ کروا کر آئے تھے اور 36 سال سے غیر قانونی طور پر سندھ پولیس کا حصہ ہیں۔ دوسرے محکموں سے پولیس میں آنے کا مقصد پولیس کی اندھی کمائی اور لوگوں کو مرعوب رکھنا ہوتا ہے اور سیاسی سرپرستی میں وہ کچھ کیا جاتا ہے جس کا مہذب معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔