ترقی اور خوشحالی کے دشمن
ٹریفک کا نظام اتھل پتھل ہو چکا تھا۔ مگر وہ یہ کہتا رہا کہ یہ چند دنوں کی مشکلیں ہیں
جنرل مشرف کے مارشل لاء دور میں کراچی کے ایک سابق ناظمِ اعلیٰ مصطفیٰ کمال نے جب سارے شہر میں سڑکیں، فلائی اوور اور انڈر پاس بنانے شروع کیے تو سب نے واہ واہ کی۔ سب نے اس کے قصیدے پڑھے، اسے آج بھی اچھے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ کسی نے ایسی مخالفت نہیں کی جیسی اس جمہوری دور میں ہمارے یہاں آج کل پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کے ترقیاتی کاموں پر کی جا رہی ہے۔ حالانکہ جب یہ کام ہو رہا تھا تو اس وقت بھی جگہ جگہ کھدائی کے سبب لوگوں کو بڑی مشکلات کا سامنا تھا۔ ہر طرف دھول اور مٹی کے ڈھیر دکھائی دیتے تھے۔
ٹریفک کا نظام اتھل پتھل ہو چکا تھا۔ مگر وہ یہ کہتا رہا کہ یہ چند دنوں کی مشکلیں ہیں، بعد میں اِن کاموں کے سبب راحتیں ملیں گی اور ایسا ہی ہوا۔ وہ چلا گیا لیکن اس کے بنائے ہوئے پل، فلائی اوورز اور انڈرپاسز آج بھی اس کی دور اندیشی اور قابلیت کی گواہی دے رہے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا اور اپنے پیش رو میئرز کی طرح صرف باتیں بگھار کے چار پانچ سال پورے کر کے چلا جاتا تو کراچی کی آج کیا حالت ہوتی، ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ شاہراہ فیصل سمیت ان کئی سڑکوں کو سگنل فری بنایا گیا جن پر ٹریفک کا اژدھام ہوا کرتا تھا۔ جب وہ یہ سارے کام کر رہا تھا تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ اورنگی ٹاؤن، لیاری، نئی کراچی اور کورنگی جیسے کئی پسماندہ علاقوں میں لوگوں کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ پینے کا صاف پانی نہیں ہے۔ اچھے اسکول اور اسپتال نہیں ہیں۔ تم یہ کیا سڑکوں کی تعمیر میں قوم کا پیسہ ضایع کر رہے ہو۔
آج ایک جمہوری دور ہے۔ آزادیٔ اظہار کی مکمل اجازت ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ کہیں کوئی قتل ہو جائے، کہیں کوئی کسی کو تھپڑ مار دے یا کہیں کوئی کسی کے ساتھ زیادتی کر لے۔ شام کو سارا الیکٹرانک میڈیا اپنے ٹاک شوز کا موضوع بنا لیتا ہے۔ گرچہ ایسے کام اور واقعات سابقہ غیر جمہوری دور میں بھی ہوا کرتے تھے لیکن ان واقعات کا وہ پوسٹ مارٹم نہیں ہوا کرتا تھا جیسے اب ہوتا ہے۔ میٹرو بس کے بعد پنجاب کا وزیرِاعلیٰ لاہور کے لوگوں کو اورنج ٹرین کا تحفہ بھی دینا چاہتا ہے۔ یہ اورنج ٹرین یونہی تو نہیں بنائی جا سکتی تھی کہ کہیں سے بنی بنائی ریلوے ٹریک لا کر شہر کے بیچوں بیچ فکس کر دی جائے اور شہریوں کو کوئی تکلیف بھی نہ ہو۔
یہ اگر شہر سے باہر بنائی جاتی تو شاید یہ ممکن بھی تھا لیکن جب اسے لاہور کے لوگوں کی سہولت کے لیے بنانا ہے تو اسے شہر کے اندر سے گزارنا ہو گا، اور جس کے لیے کچھ پرانی عمارتوں کو مسمار بھی کرنا ہو گا۔ ترقی اور خوشحالی کے لیے کچھ قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں۔ معاملہ اگر متاثرین کے معاوضے کا ہے تو اسے باہم مذاکرات اور گفت و شنید سے نمٹایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اشتعال انگیزی اور جلاؤ گھیراؤ کر کے ہم اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جدید اور نئی تعمیرات کی گئی ہیں، پرانی عمارتوں کو مسمار بھی کیا گیا ہے۔ تاریخی عمارتوں کا تحفظ ایک علیحدہ ایشو ہے۔
اس کا بہرحال خیال رکھنا ہو گا اور اس کے لیے اقوامِ متحدہ نے بھی پنجاب حکومت کو ہدایت جاری کی ہیں۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو دوسرے ملکوں کی ترقی کی مثالیں دے کر اپنے حکمرانوں کو لعن طعن کیا کرتے ہیں، مگر جب کوئی اپنے یہاں ترقی کی راہیں دکھانا شروع کرتا ہے تو اسے فضول خرچی اور قومی دولت کا زیاں کہہ کر مسترد کرتے رہتے ہیں۔ میٹرو بس کو جنگلا بس اور اورنج ٹرین کو پیسہ بنانے کا منصوبہ کہہ کر رات دن اسے اپنی بے جا تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں۔
جاپان میں ہونے والے اس ایک واقعے کو لے کر جس میں اسکول کی صرف ایک 16 سالہ لڑکی ''کاناہراڈہ'' کے لیے وہاں تین سال تک ٹرین کو بند نہ کیا گیا جسے اپنے گاؤں ''کامی شراتاکی'' سے اسکول جانے کے لیے کوئی اور سواری میسر نہ تھی، اور جب ہمارے یہاں لاکھوں لوگوں کے لیے یہ سہولت فراہم کیے جانے کا انتظام کیا جانے لگے تو ہر طرف سے تنقید کے تیر برسنے شروع ہو جاتے ہیں۔ میٹرو بس اور اورنج ٹرین میں مال بنانے کا الزام صرف اخباری بیانوں میں لگایا گیا، کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے ان الزامات کی صداقت کو جانچنے اور ثابت کرنے کے لیے اسے عدالت میں لے جائے۔ دراصل الزام لگانا ہمارا قومی وطیرہ اور مشغلہ بن چکا ہے۔ ہم سب روزانہ صبح و شام ایسے الزامات سنتے رہتے ہیں، مگر کسی کو اپنا الزام ثابت کرنے کے لیے جتن کرتے نہیں دیکھا۔
کراچی میں بنی بنائی سرکلر ریلوے تباہ و برباد کر کے رکھ دی گئی۔ ایوب دور کے اس عظیم منصوبے کو غارت کر کے رکھ دیا گیا اور کسی کو کوئی ندامت یا پچھتاوا بھی نہیں ہے۔ شہریوں کو بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کی جدید سہولت تو کیا فراہم کرتے، پہلے سے موجود اچھے خاصے نظام کو ہی معدوم کر کے رکھ دیا۔ اسے دوبارہ شروع کرنے کی کئی سال سے صرف باتیں ہوتی رہتی ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد کہیں نہیں دکھائی دیتا۔
اتنے بڑے شہر میں اب ٹیکسیاں بھی غائب ہوتی جا رہی ہیں، جو چل رہی ہیں وہ بھی چالیس پچاس سال پرانی ہیں اور ان کی حالت بھی ایسی خستہ اور مفلس ہے کہ اس میں بیٹھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ لوگ مجبوراً رکشہ اور چنگ چی کو نعم البدل سواری سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کی کوئی توجہ اس جانب نہیں ہے۔ وہ سات آٹھ سال سے خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ انھیں پنجاب اور کے پی کے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات بھی جگا نہیں سکتے۔ ان کے اندر ترقی و خوشحالی کا کوئی جذبہ یا عنصر ہی کارفرما نہیں ہے۔ وہ جمہوریت کے حسن کے اس سحر میں مگن ہیں جس کے تحت سندھ کے لوگ انھیں ہر بار ایسی ناقص کارکردگی پر بھی دوبارہ منتخب کرتے رہتے ہیں۔
انھیں جب یہ معلوم ہے کہ وہ اگلا الیکشن بھی اسی طرح جیت جائینگے تو انھیں کوئی کارکردگی دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔ جمہوریت کی یہی ادا تو انھیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ بھولے بھالے عوام کو نعروں اور وعدوں پر بیوقوف اور اُلو بنا لیا کرو اور 5سال تک مزے اڑاتے رہو۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ یہ مفروضہ یقیناً درست معلوم ہوتا ہے، انتقام ان لوگوں سے جنھوں نے انھیں منتخب کیا ہے ورنہ ان لوگوں کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں پائے جنھوں نے انھیں اقتدار سے محروم کیا تھا۔ یہ انتقام تو صرف اپنے عوام ہی سے لیا جا رہا ہے جو جمہوریت کے قتل پر خوش ہو کر مٹھائیاں تقسیم کرتے رہے اور جو مارشل لاؤں کو ویلکم کرتے رہے۔
ہمارے اردگرد کے ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دونوں ممالک ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ بنگلہ دیش نے تو ترقی کر کے ہم سے علیحدگی کے نظریہ کو درست ثابت کر دکھایا ورنہ وہ بھی آج ہماری طرح مایوسیوں اور ناامیدیوں کی راہوں میں بھٹک رہا ہوتا۔ بدلتے حالات اور امریکا سے ایران کے نئے جوہری معاہدے کے بعد ایران بھی مقابلے کے اس میدان میں اتر آیا ہے۔ اقتصادی پابندیاں اٹھ جانے کے بعد وہ چین اور یورپی ممالک سے معاشی و اقتصادی ترقی کے نئے نئے معاہدے کر رہا ہے۔
اس نے حال ہی میں چین کے ساتھ 100 ارب ڈالر کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں اور ہم صرف 46 ارب ڈالر کے اکنامک کوریڈور پر بھی متحد و یکجا نہیں ہو پائے ہیں۔ آنیوالے دنوں میں اس کا شمار بھی ان ترقی یافتہ ممالک میں ہو جائے گا جو قدرت کے دیے ہوئے موقعوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ مستقبل قریب میں یہ خطہ ایک نئی شکل اور جہت کا حامل ہو گا۔ ہم نے اگر اس سنہری موقعے سے فائدہ نہ اٹھایا تو پھر زوال و انحطاط پذیری کے تاریک اندھیرے ہی ہمارا مقدر ہونگے۔ آس پاس کے تمام ممالک ہم سے آگے جا رہے ہیں، ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے تو پھر ہم خود اپنی ناکامیوں اور رسوائیوں کے ذمے دار ہوں گے۔
ٹریفک کا نظام اتھل پتھل ہو چکا تھا۔ مگر وہ یہ کہتا رہا کہ یہ چند دنوں کی مشکلیں ہیں، بعد میں اِن کاموں کے سبب راحتیں ملیں گی اور ایسا ہی ہوا۔ وہ چلا گیا لیکن اس کے بنائے ہوئے پل، فلائی اوورز اور انڈرپاسز آج بھی اس کی دور اندیشی اور قابلیت کی گواہی دے رہے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا اور اپنے پیش رو میئرز کی طرح صرف باتیں بگھار کے چار پانچ سال پورے کر کے چلا جاتا تو کراچی کی آج کیا حالت ہوتی، ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ شاہراہ فیصل سمیت ان کئی سڑکوں کو سگنل فری بنایا گیا جن پر ٹریفک کا اژدھام ہوا کرتا تھا۔ جب وہ یہ سارے کام کر رہا تھا تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ اورنگی ٹاؤن، لیاری، نئی کراچی اور کورنگی جیسے کئی پسماندہ علاقوں میں لوگوں کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ پینے کا صاف پانی نہیں ہے۔ اچھے اسکول اور اسپتال نہیں ہیں۔ تم یہ کیا سڑکوں کی تعمیر میں قوم کا پیسہ ضایع کر رہے ہو۔
آج ایک جمہوری دور ہے۔ آزادیٔ اظہار کی مکمل اجازت ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ کہیں کوئی قتل ہو جائے، کہیں کوئی کسی کو تھپڑ مار دے یا کہیں کوئی کسی کے ساتھ زیادتی کر لے۔ شام کو سارا الیکٹرانک میڈیا اپنے ٹاک شوز کا موضوع بنا لیتا ہے۔ گرچہ ایسے کام اور واقعات سابقہ غیر جمہوری دور میں بھی ہوا کرتے تھے لیکن ان واقعات کا وہ پوسٹ مارٹم نہیں ہوا کرتا تھا جیسے اب ہوتا ہے۔ میٹرو بس کے بعد پنجاب کا وزیرِاعلیٰ لاہور کے لوگوں کو اورنج ٹرین کا تحفہ بھی دینا چاہتا ہے۔ یہ اورنج ٹرین یونہی تو نہیں بنائی جا سکتی تھی کہ کہیں سے بنی بنائی ریلوے ٹریک لا کر شہر کے بیچوں بیچ فکس کر دی جائے اور شہریوں کو کوئی تکلیف بھی نہ ہو۔
یہ اگر شہر سے باہر بنائی جاتی تو شاید یہ ممکن بھی تھا لیکن جب اسے لاہور کے لوگوں کی سہولت کے لیے بنانا ہے تو اسے شہر کے اندر سے گزارنا ہو گا، اور جس کے لیے کچھ پرانی عمارتوں کو مسمار بھی کرنا ہو گا۔ ترقی اور خوشحالی کے لیے کچھ قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں۔ معاملہ اگر متاثرین کے معاوضے کا ہے تو اسے باہم مذاکرات اور گفت و شنید سے نمٹایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اشتعال انگیزی اور جلاؤ گھیراؤ کر کے ہم اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جدید اور نئی تعمیرات کی گئی ہیں، پرانی عمارتوں کو مسمار بھی کیا گیا ہے۔ تاریخی عمارتوں کا تحفظ ایک علیحدہ ایشو ہے۔
اس کا بہرحال خیال رکھنا ہو گا اور اس کے لیے اقوامِ متحدہ نے بھی پنجاب حکومت کو ہدایت جاری کی ہیں۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو دوسرے ملکوں کی ترقی کی مثالیں دے کر اپنے حکمرانوں کو لعن طعن کیا کرتے ہیں، مگر جب کوئی اپنے یہاں ترقی کی راہیں دکھانا شروع کرتا ہے تو اسے فضول خرچی اور قومی دولت کا زیاں کہہ کر مسترد کرتے رہتے ہیں۔ میٹرو بس کو جنگلا بس اور اورنج ٹرین کو پیسہ بنانے کا منصوبہ کہہ کر رات دن اسے اپنی بے جا تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں۔
جاپان میں ہونے والے اس ایک واقعے کو لے کر جس میں اسکول کی صرف ایک 16 سالہ لڑکی ''کاناہراڈہ'' کے لیے وہاں تین سال تک ٹرین کو بند نہ کیا گیا جسے اپنے گاؤں ''کامی شراتاکی'' سے اسکول جانے کے لیے کوئی اور سواری میسر نہ تھی، اور جب ہمارے یہاں لاکھوں لوگوں کے لیے یہ سہولت فراہم کیے جانے کا انتظام کیا جانے لگے تو ہر طرف سے تنقید کے تیر برسنے شروع ہو جاتے ہیں۔ میٹرو بس اور اورنج ٹرین میں مال بنانے کا الزام صرف اخباری بیانوں میں لگایا گیا، کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے ان الزامات کی صداقت کو جانچنے اور ثابت کرنے کے لیے اسے عدالت میں لے جائے۔ دراصل الزام لگانا ہمارا قومی وطیرہ اور مشغلہ بن چکا ہے۔ ہم سب روزانہ صبح و شام ایسے الزامات سنتے رہتے ہیں، مگر کسی کو اپنا الزام ثابت کرنے کے لیے جتن کرتے نہیں دیکھا۔
کراچی میں بنی بنائی سرکلر ریلوے تباہ و برباد کر کے رکھ دی گئی۔ ایوب دور کے اس عظیم منصوبے کو غارت کر کے رکھ دیا گیا اور کسی کو کوئی ندامت یا پچھتاوا بھی نہیں ہے۔ شہریوں کو بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کی جدید سہولت تو کیا فراہم کرتے، پہلے سے موجود اچھے خاصے نظام کو ہی معدوم کر کے رکھ دیا۔ اسے دوبارہ شروع کرنے کی کئی سال سے صرف باتیں ہوتی رہتی ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد کہیں نہیں دکھائی دیتا۔
اتنے بڑے شہر میں اب ٹیکسیاں بھی غائب ہوتی جا رہی ہیں، جو چل رہی ہیں وہ بھی چالیس پچاس سال پرانی ہیں اور ان کی حالت بھی ایسی خستہ اور مفلس ہے کہ اس میں بیٹھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ لوگ مجبوراً رکشہ اور چنگ چی کو نعم البدل سواری سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کی کوئی توجہ اس جانب نہیں ہے۔ وہ سات آٹھ سال سے خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ انھیں پنجاب اور کے پی کے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات بھی جگا نہیں سکتے۔ ان کے اندر ترقی و خوشحالی کا کوئی جذبہ یا عنصر ہی کارفرما نہیں ہے۔ وہ جمہوریت کے حسن کے اس سحر میں مگن ہیں جس کے تحت سندھ کے لوگ انھیں ہر بار ایسی ناقص کارکردگی پر بھی دوبارہ منتخب کرتے رہتے ہیں۔
انھیں جب یہ معلوم ہے کہ وہ اگلا الیکشن بھی اسی طرح جیت جائینگے تو انھیں کوئی کارکردگی دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔ جمہوریت کی یہی ادا تو انھیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ بھولے بھالے عوام کو نعروں اور وعدوں پر بیوقوف اور اُلو بنا لیا کرو اور 5سال تک مزے اڑاتے رہو۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ یہ مفروضہ یقیناً درست معلوم ہوتا ہے، انتقام ان لوگوں سے جنھوں نے انھیں منتخب کیا ہے ورنہ ان لوگوں کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں پائے جنھوں نے انھیں اقتدار سے محروم کیا تھا۔ یہ انتقام تو صرف اپنے عوام ہی سے لیا جا رہا ہے جو جمہوریت کے قتل پر خوش ہو کر مٹھائیاں تقسیم کرتے رہے اور جو مارشل لاؤں کو ویلکم کرتے رہے۔
ہمارے اردگرد کے ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دونوں ممالک ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ بنگلہ دیش نے تو ترقی کر کے ہم سے علیحدگی کے نظریہ کو درست ثابت کر دکھایا ورنہ وہ بھی آج ہماری طرح مایوسیوں اور ناامیدیوں کی راہوں میں بھٹک رہا ہوتا۔ بدلتے حالات اور امریکا سے ایران کے نئے جوہری معاہدے کے بعد ایران بھی مقابلے کے اس میدان میں اتر آیا ہے۔ اقتصادی پابندیاں اٹھ جانے کے بعد وہ چین اور یورپی ممالک سے معاشی و اقتصادی ترقی کے نئے نئے معاہدے کر رہا ہے۔
اس نے حال ہی میں چین کے ساتھ 100 ارب ڈالر کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں اور ہم صرف 46 ارب ڈالر کے اکنامک کوریڈور پر بھی متحد و یکجا نہیں ہو پائے ہیں۔ آنیوالے دنوں میں اس کا شمار بھی ان ترقی یافتہ ممالک میں ہو جائے گا جو قدرت کے دیے ہوئے موقعوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ مستقبل قریب میں یہ خطہ ایک نئی شکل اور جہت کا حامل ہو گا۔ ہم نے اگر اس سنہری موقعے سے فائدہ نہ اٹھایا تو پھر زوال و انحطاط پذیری کے تاریک اندھیرے ہی ہمارا مقدر ہونگے۔ آس پاس کے تمام ممالک ہم سے آگے جا رہے ہیں، ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے تو پھر ہم خود اپنی ناکامیوں اور رسوائیوں کے ذمے دار ہوں گے۔