تھوڑا سا ٹھنڈا پانی پی لیجیے
آگرہ اس خطے کا ایک تاریخی شہر ہے جسے کبھی اکبر آباد بھی کہا جاتا تھا
آگرہ اس خطے کا ایک تاریخی شہر ہے جسے کبھی اکبر آباد بھی کہا جاتا تھا لیکن تاریخ نے ہم جیسے نفرت کرنیوالوں کو یہ محبت کی نشانی ''تاج محل'' کے نام سے ہی یاد کرائی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ ایک شہنشاہ نے دولت کی چمک سے اپنی محبت کی نمائش کی تھی یا پھر ساحرؔ کی زبان میں ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا مذاق اڑایا تھا۔ نہ تو میں تاج محل کی دیواروں پر نقش مزدوروں کا لہو دیکھنا چاہتا ہوں اور نہ ہی میں کسی جھوٹی محبت کو بڑے ستونوں میں دفن ہوتا ہوا دیکھنے کا خواہش مند ہو ں۔ بات تو میں آگرہ کی کر رہا تھا جو آج سے سیکڑوں سال پہلے بھی اس خطے میں اپنی ایک علیحدہ پہچان رکھتا تھا۔
ہمایوں کے زمانے میں یہ شہر لمبائی میں چار میل اور چوڑائی میں دو میل تک پھیلا ہوا تھا۔ اُس وقت یہ شہر حکمرانوں کو اچھی آب و ہوا، زرخیزی، دریا اور باغات کی وجہ سے اپنی طرف کھینچتا تھا۔ ہم تو اپنی تاریخ مغلوں سے ہی شروع کرتے ہیں لیکن کتابیں بتاتی ہیں کہ ساڑھے 3ہزار سال پہلے مہابھارت کے زمانے میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ ہماری کتابیں اُس وقت کھُلتی ہیں جب 1504ء میں سکندر لودھی حکمراں بنا اور جس کے جانے کے بعد اُس کے بیٹے ابراہیم لودھی نے یہاں پر اپنی حکومت قائم کی۔ مغلوں کا ظہور ہوتا ہے اور پھر وہ خونی جنگ شروع ہوتی ہے جسے لوگ پانی پت کی جنگ کے نام سے جانتے ہیں۔
ایک طرف ابراہیم لودھی کی فوجیں اور دوسری طرف بابر اپنے سورماؤں کے ساتھ ہوتا ہے۔ دونوں طرف سے اللہ اکبر کے نعرے لگتے ہیں، تاریخ کی بڑی بڑی کتابوں کے درمیان چھوٹا سا ایک عدد لکھا ہوتا ہے کہ 20 ہزار لوگ مر گئے اور اس کے بعد لودھی حکومت ختم ہو کر مغل سلطنت قائم ہو گئی۔ یہاں سے دریا جمنا کے پاس آباد آگرہ کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ بابر کے بعد ہمایوں یہاں اپنا وقت گزارتا ہے اور پھر اکبر اپنے بچپن کے دن یہاں انجوائے کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کہیں بھی چلا جائے اُس کے دل میں جو جگہ بچپن کی ہوتی ہے وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ اُس کے پاس دولت کے انبار ہوں لیکن وہ اُن گلیوں کو کبھی نہیں بھول سکتا جہاں اُس کے ننھے پیروں نے چلنا سیکھا ہوتا ہے۔
اکبر کے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ تھا اور شاید آج کل ہمارے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ ہے۔ جن لوگوں کو بچپن میں جو کلاس دی گئی تھی وہ اس عمر میں آ کر بھی اُسے بھولنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لودھی حکومت اور پھر ہمایوں کے زمانے میں آگرہ شہر مکمل طور پر آباد ہو چکا تھا۔ انسانی ضروریات کی تمام چیزیں اس شہر میں دستیاب تھیں۔ آگرہ میں اُس وقت ہر طرح کے ہنر مند اور دستکار موجود تھے ۔ بادشاہوں کا شہر ہونے کی وجہ سے یہاں صرف ہندوستان کا مال نہیں ملتا تھا بلکہ یورپ اور افریقہ کے تاجر بھی اپنا پڑاؤ یہاں ڈالتے تھے۔
سونا، چاندی، ہیرے جواہرات مارکیٹ میں موجود ہوتے تھے۔ نوابوں اور وزیروں کی ایک فوج تھی جس کی وجہ سے خریدار کی کمی بھی نہیں تھی پھر ہمایوں کی موت ہو گئی اور اکبر نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ اُس نے اپنا تخت دہلی کی بجائے آگرہ کو بنانا چاہا اور اُس کے لیے ایک عالیشان قلعہ اور محل تعمیر کرایا جو ایک نیا شہر تھا۔ قلعہ کے اندر ہی امراء کے محل تھے۔ جدید خطوط پر اسلحہ خانے بنائے گئے تھے جو دہلی کے قلعے سے زیادہ بڑے تھے۔ گھوڑوں کے لیے اُس وقت کے سب سے بڑے اصطبل قائم کیے گئے۔
فن تعمیر کا انوکھا نمونہ تھا، پتھروں کو اس طرح جوڑا گیا تھا کہ کہیں پر بھی ان کے درمیان کا نشان نظر نہیں آتا تھا۔ سرخ رنگ کے ان پتھروں میں ایک جادو سا تھا۔ اکبر نے اپنی عظمت ظاہر کرنے کے لیے دروازے کے بالکل سامنے ہاتھیوں پر بیٹھے دو راجاؤں کے مجسمے بنائے تھے۔ یہ وہ راجا تھے جنھیں اکبر نے اپنے ہاتھ سے مارا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر نے اُس وقت کا سب سے زیادہ عالیشان قلعہ اور محل بنایا تھا۔ ایک مورخ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ قلعہ اور محل یقیناً سب سے اعلیٰ تھا مگر یہ اب بھی بادشاہ کی خواہش کے مطابق نہیں تھا۔ وہ اسے اور اعلیٰ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر بادشاہ اس قلعہ نما محل میں رہنے لگا۔
اکبر جسے اس خطے میں سیکولر بادشاہ کہا جاتا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنا ایک نیا دین لانا چاہ رہا تھا۔ کتابیں اس تذکرے سے بھری ہوئی ہیں کہ اکبر نے بین المذاہب مباحثے کرائے۔ یہ بھی سُنا ہے کہ وہ کچے عقیدے کا نہیں تھا مگر جب سے وہ اپنے اس عالیشان محل میں آیا تھا تو کسی بھی چیز پر فوکس نہیں کر پا رہا تھا۔ اُسے یہ وہم ہو گیا کہ یہاں ہر جگہ بری روحیں گھومتی ہیں۔ اُسے ہر وقت محل کی مختلف چیزوں میں آسیب نظر آنے لگا۔ اکبر کے دور میں اُس کے دربار میں آنیوالے کئی لوگوں میں سے ایک فادر مونسیراٹ بھی تھے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ اکبر نے محل میں افراتفری مچا دی تھی۔ وہ ہر چیز کو توڑ دیتا تھا۔ محل میں موجود عورتیں ہر وقت خوف میں رہتی تھی۔ اگر اُس کے ہاتھ میں پتھر آ جاتا تو وہ لوگوں کے سر پر مارنے لگتا تھا۔ سب لوگ پریشان تھے کہ بادشاہ کو آخر ہو کیا گیا ہے مگر کچھ سالوں میں ایک اور چیز نے اُسے پریشان کر دیا۔ وہ یہ بات تو اپنے دماغ میں بٹھا چکا تھا کہ یہ محل اور قلعہ منحوس ہے مگر اُس کا یقین زیادہ پختہ تب ہوا جب اُس کے یہاں جو بچہ پیدا ہوتا وہ مر جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ یہ سوچنے لگا کہ اگر اُس کے یہاں اولاد نا ہوئی تو پھر تخت پر کون بیٹھے گا۔
بادشاہ نے سیکری کا رخ کیا جہاں اُسے درویش نے کہا کہ فورا اس محل اور قلعہ کو چھوڑ دو۔ اکبر نے فورا بات مان لی اور سیکری آ گیا۔ جس کے بعد اکبر نے کبھی بھی اس عالیشان محل کو باقاعدہ اپنی رہائیش گاہ نہیں بنایا۔ بڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں، جگہ جگہ نفسیات کے ماہرین اپنی دکان سجا کر بیٹھ گئے لیکن کیا کریں کہ اگر کسی کے دماغ کا کوئی حل ہی نا ہو۔ جب کسی فرد یا قوم کی سوچ ایک بار بن جائے تو اُس میں تبدیلی لانا آسان نہیں ہوتا۔ نسلیں گزر جاتی ہیں مگر وہ ہر شے کو ایک ہی چشمے سے دیکھتے ہیں۔
اگر وہ کسی کو اچھا سمجھتے ہیں تو وہ ہر حال میں اچھا اور جس سے نفرت کرتے ہیں وہ ہر حال میں برا۔ اس ملک کا بھی یہ ہی حال ہے۔ یہاں ہر سطح پر بچپن سے ایک الگ دماغ بنایا جاتا ہے۔ جو اپنی حد سے باہر سوچنے کو گناہ تصور کرتا ہے۔ تاریخ کا ایک رخ پڑھا کر دوسرے کو ہمیشہ ولن ہی ثابت کرنے پر لگا ہوتا ہے۔ انھیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے اس عمل سے وہ شخص، قوم، ادارہ یا پھر نظریہ تاریخ میں ہیرو کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بس ایک چیز ہے جو مستقل ہے اور وہ ہے تبدیلی۔
لوگوں کے رویوں، طریقوں اور ضرورتوں میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے مگر کیا کیجیے اس بے کار مغز کا جو اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ میں اپنے بچپن کا سبق کبھی نہیں بھولوں گا۔ مجھے جس شخص، جماعت یا سوچ کو ظالم بتایا گیا تھا وہ اب بھی ظالم ہے۔ جس کتاب میں کرپشن لکھا تھا اُس میں بس ایک ہی نام آتا ہے۔ اگر کوئی دہشتگرد ہو گا تو اُس کا تعلق ایک ہی جگہ سے ہو گا۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اب بہت پانی بہہ چکا ہے۔ یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ ذہن میں بنے ہوئے ایک پرانے خاکے اور وہم نے بڑے بڑے بادشاہوں کی زندگی کو عذاب کر دیا۔
اس ملک کو اور یہاں کے بسنے والے ہر شہری کو آگے کی طرف سفر کرنا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو سبق کے طور پر ضرور سیکھا جائے۔ لیکن ہر شخص اور جماعت کو اُس کے ماضی کی بنیاد پر نہ پرکھا جائے۔ سب میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ انھیں اس تبدیلیوں کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ جب کچھ لوگ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو انھیں ماضی میں رکھنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ اکبر نے اپنا عالیشان قلعہ ہمارے آبا و اجداد کے خون سے بنایا تھا۔ اُس نے پہلے اپنی عظمت ظاہر کرنے کے لیے دولت لٹُا دی اور پھر اُسے ویران کر دیا۔ ہمیں ذہنوں کی تبدیلی کی ضرورت ہے پاگل پن کی نہیں۔ تھوڑا سا ٹھنڈا پانی پی لیجیے۔ شاید میری بات سمجھ آ جائے۔
ہمایوں کے زمانے میں یہ شہر لمبائی میں چار میل اور چوڑائی میں دو میل تک پھیلا ہوا تھا۔ اُس وقت یہ شہر حکمرانوں کو اچھی آب و ہوا، زرخیزی، دریا اور باغات کی وجہ سے اپنی طرف کھینچتا تھا۔ ہم تو اپنی تاریخ مغلوں سے ہی شروع کرتے ہیں لیکن کتابیں بتاتی ہیں کہ ساڑھے 3ہزار سال پہلے مہابھارت کے زمانے میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ ہماری کتابیں اُس وقت کھُلتی ہیں جب 1504ء میں سکندر لودھی حکمراں بنا اور جس کے جانے کے بعد اُس کے بیٹے ابراہیم لودھی نے یہاں پر اپنی حکومت قائم کی۔ مغلوں کا ظہور ہوتا ہے اور پھر وہ خونی جنگ شروع ہوتی ہے جسے لوگ پانی پت کی جنگ کے نام سے جانتے ہیں۔
ایک طرف ابراہیم لودھی کی فوجیں اور دوسری طرف بابر اپنے سورماؤں کے ساتھ ہوتا ہے۔ دونوں طرف سے اللہ اکبر کے نعرے لگتے ہیں، تاریخ کی بڑی بڑی کتابوں کے درمیان چھوٹا سا ایک عدد لکھا ہوتا ہے کہ 20 ہزار لوگ مر گئے اور اس کے بعد لودھی حکومت ختم ہو کر مغل سلطنت قائم ہو گئی۔ یہاں سے دریا جمنا کے پاس آباد آگرہ کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ بابر کے بعد ہمایوں یہاں اپنا وقت گزارتا ہے اور پھر اکبر اپنے بچپن کے دن یہاں انجوائے کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کہیں بھی چلا جائے اُس کے دل میں جو جگہ بچپن کی ہوتی ہے وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ اُس کے پاس دولت کے انبار ہوں لیکن وہ اُن گلیوں کو کبھی نہیں بھول سکتا جہاں اُس کے ننھے پیروں نے چلنا سیکھا ہوتا ہے۔
اکبر کے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ تھا اور شاید آج کل ہمارے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ ہے۔ جن لوگوں کو بچپن میں جو کلاس دی گئی تھی وہ اس عمر میں آ کر بھی اُسے بھولنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لودھی حکومت اور پھر ہمایوں کے زمانے میں آگرہ شہر مکمل طور پر آباد ہو چکا تھا۔ انسانی ضروریات کی تمام چیزیں اس شہر میں دستیاب تھیں۔ آگرہ میں اُس وقت ہر طرح کے ہنر مند اور دستکار موجود تھے ۔ بادشاہوں کا شہر ہونے کی وجہ سے یہاں صرف ہندوستان کا مال نہیں ملتا تھا بلکہ یورپ اور افریقہ کے تاجر بھی اپنا پڑاؤ یہاں ڈالتے تھے۔
سونا، چاندی، ہیرے جواہرات مارکیٹ میں موجود ہوتے تھے۔ نوابوں اور وزیروں کی ایک فوج تھی جس کی وجہ سے خریدار کی کمی بھی نہیں تھی پھر ہمایوں کی موت ہو گئی اور اکبر نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ اُس نے اپنا تخت دہلی کی بجائے آگرہ کو بنانا چاہا اور اُس کے لیے ایک عالیشان قلعہ اور محل تعمیر کرایا جو ایک نیا شہر تھا۔ قلعہ کے اندر ہی امراء کے محل تھے۔ جدید خطوط پر اسلحہ خانے بنائے گئے تھے جو دہلی کے قلعے سے زیادہ بڑے تھے۔ گھوڑوں کے لیے اُس وقت کے سب سے بڑے اصطبل قائم کیے گئے۔
فن تعمیر کا انوکھا نمونہ تھا، پتھروں کو اس طرح جوڑا گیا تھا کہ کہیں پر بھی ان کے درمیان کا نشان نظر نہیں آتا تھا۔ سرخ رنگ کے ان پتھروں میں ایک جادو سا تھا۔ اکبر نے اپنی عظمت ظاہر کرنے کے لیے دروازے کے بالکل سامنے ہاتھیوں پر بیٹھے دو راجاؤں کے مجسمے بنائے تھے۔ یہ وہ راجا تھے جنھیں اکبر نے اپنے ہاتھ سے مارا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر نے اُس وقت کا سب سے زیادہ عالیشان قلعہ اور محل بنایا تھا۔ ایک مورخ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ قلعہ اور محل یقیناً سب سے اعلیٰ تھا مگر یہ اب بھی بادشاہ کی خواہش کے مطابق نہیں تھا۔ وہ اسے اور اعلیٰ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر بادشاہ اس قلعہ نما محل میں رہنے لگا۔
اکبر جسے اس خطے میں سیکولر بادشاہ کہا جاتا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنا ایک نیا دین لانا چاہ رہا تھا۔ کتابیں اس تذکرے سے بھری ہوئی ہیں کہ اکبر نے بین المذاہب مباحثے کرائے۔ یہ بھی سُنا ہے کہ وہ کچے عقیدے کا نہیں تھا مگر جب سے وہ اپنے اس عالیشان محل میں آیا تھا تو کسی بھی چیز پر فوکس نہیں کر پا رہا تھا۔ اُسے یہ وہم ہو گیا کہ یہاں ہر جگہ بری روحیں گھومتی ہیں۔ اُسے ہر وقت محل کی مختلف چیزوں میں آسیب نظر آنے لگا۔ اکبر کے دور میں اُس کے دربار میں آنیوالے کئی لوگوں میں سے ایک فادر مونسیراٹ بھی تھے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ اکبر نے محل میں افراتفری مچا دی تھی۔ وہ ہر چیز کو توڑ دیتا تھا۔ محل میں موجود عورتیں ہر وقت خوف میں رہتی تھی۔ اگر اُس کے ہاتھ میں پتھر آ جاتا تو وہ لوگوں کے سر پر مارنے لگتا تھا۔ سب لوگ پریشان تھے کہ بادشاہ کو آخر ہو کیا گیا ہے مگر کچھ سالوں میں ایک اور چیز نے اُسے پریشان کر دیا۔ وہ یہ بات تو اپنے دماغ میں بٹھا چکا تھا کہ یہ محل اور قلعہ منحوس ہے مگر اُس کا یقین زیادہ پختہ تب ہوا جب اُس کے یہاں جو بچہ پیدا ہوتا وہ مر جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ یہ سوچنے لگا کہ اگر اُس کے یہاں اولاد نا ہوئی تو پھر تخت پر کون بیٹھے گا۔
بادشاہ نے سیکری کا رخ کیا جہاں اُسے درویش نے کہا کہ فورا اس محل اور قلعہ کو چھوڑ دو۔ اکبر نے فورا بات مان لی اور سیکری آ گیا۔ جس کے بعد اکبر نے کبھی بھی اس عالیشان محل کو باقاعدہ اپنی رہائیش گاہ نہیں بنایا۔ بڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں، جگہ جگہ نفسیات کے ماہرین اپنی دکان سجا کر بیٹھ گئے لیکن کیا کریں کہ اگر کسی کے دماغ کا کوئی حل ہی نا ہو۔ جب کسی فرد یا قوم کی سوچ ایک بار بن جائے تو اُس میں تبدیلی لانا آسان نہیں ہوتا۔ نسلیں گزر جاتی ہیں مگر وہ ہر شے کو ایک ہی چشمے سے دیکھتے ہیں۔
اگر وہ کسی کو اچھا سمجھتے ہیں تو وہ ہر حال میں اچھا اور جس سے نفرت کرتے ہیں وہ ہر حال میں برا۔ اس ملک کا بھی یہ ہی حال ہے۔ یہاں ہر سطح پر بچپن سے ایک الگ دماغ بنایا جاتا ہے۔ جو اپنی حد سے باہر سوچنے کو گناہ تصور کرتا ہے۔ تاریخ کا ایک رخ پڑھا کر دوسرے کو ہمیشہ ولن ہی ثابت کرنے پر لگا ہوتا ہے۔ انھیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے اس عمل سے وہ شخص، قوم، ادارہ یا پھر نظریہ تاریخ میں ہیرو کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بس ایک چیز ہے جو مستقل ہے اور وہ ہے تبدیلی۔
لوگوں کے رویوں، طریقوں اور ضرورتوں میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے مگر کیا کیجیے اس بے کار مغز کا جو اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ میں اپنے بچپن کا سبق کبھی نہیں بھولوں گا۔ مجھے جس شخص، جماعت یا سوچ کو ظالم بتایا گیا تھا وہ اب بھی ظالم ہے۔ جس کتاب میں کرپشن لکھا تھا اُس میں بس ایک ہی نام آتا ہے۔ اگر کوئی دہشتگرد ہو گا تو اُس کا تعلق ایک ہی جگہ سے ہو گا۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اب بہت پانی بہہ چکا ہے۔ یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ ذہن میں بنے ہوئے ایک پرانے خاکے اور وہم نے بڑے بڑے بادشاہوں کی زندگی کو عذاب کر دیا۔
اس ملک کو اور یہاں کے بسنے والے ہر شہری کو آگے کی طرف سفر کرنا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو سبق کے طور پر ضرور سیکھا جائے۔ لیکن ہر شخص اور جماعت کو اُس کے ماضی کی بنیاد پر نہ پرکھا جائے۔ سب میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ انھیں اس تبدیلیوں کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ جب کچھ لوگ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو انھیں ماضی میں رکھنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ اکبر نے اپنا عالیشان قلعہ ہمارے آبا و اجداد کے خون سے بنایا تھا۔ اُس نے پہلے اپنی عظمت ظاہر کرنے کے لیے دولت لٹُا دی اور پھر اُسے ویران کر دیا۔ ہمیں ذہنوں کی تبدیلی کی ضرورت ہے پاگل پن کی نہیں۔ تھوڑا سا ٹھنڈا پانی پی لیجیے۔ شاید میری بات سمجھ آ جائے۔