صحافی کیا شاباشی دے گا
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ درست فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی شدت پسندی کے خلاف ہے
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ درست فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی شدت پسندی کے خلاف ہے اور اس کا عملی ثبوت بھی دیا ہے کہ ان کے نزدیک پولیس اچھا کام کر رہی ہے وہ الگ بات ہے کہ سندھ کے آئی جی و چیف سیکریٹری ضمانت پر ہیں۔ ان کا شکوہ یہ بھی درست ہے کہ بعض لوگوں کو ہمارے کام نظر نہیں آتے۔ اب سائیں کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سائیں حکومت کے جتنے کام اب نظر آ رہے ہیں اس سے قبل کبھی نظر نہیں آئے تھے۔
گھر سے نکلتے ہی کچروں کے ڈھیر نظر آتے ہیں، سڑک پر گزرتے سیوریج کی بوسیدہ لائنوں سے بدبودار پانی نظر آتا ہے، بس اسٹاپوں پر کھڑے اڑن کھٹولے نظر آتے ہیں۔ کے الیکٹرک کے مظالم نظر آتے ہیں، گیس معطلی کے ستم رسیدہ نظر آتے ہیں، کالجوں میں طلبا کی تعداد کم اور امتحانات میں بوٹی مافیا زیادہ نظر آتی ہے۔ سرکاری محکموں میں خوب رشوت نظر آتی ہے۔ سرکاری نوکریوں کے پیچھے بھاگتے جیالے منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں، پروٹوکول کے مارے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
من پسند بلدیاتی قوانین فوراََ منظور ہوتے نظر آتے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لیے فنڈز کی کمی نظر آتی ہے۔ عدالتوں میں لائے جانے والے ملزمان سے پولیس کی زیادتیاں نظر آتی ہیں، سائیں! ہمیں سب دکھائی دیتا ہے لیکن نہ جانے ان بعض لوگوں میں آپ بھی ہیں کہ نہیں کہ آپ کے وزرا ء کسی کو جواب دیتے نظر نہیں آتے، کراچی میں گند کچرا اور غلاظت کے ڈھیروں کی وجوہات میں ایک وزیر موصوف یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ مسائل ایک دن میں حل نہیں ہو سکتے۔
نہ جانے یہ کس لیڈر کا معروف جملہ بن گیا ہے کہ کہنے والا یہ بھی نہیں سوچتا کہ ہماری جماعت کتنے عرصے سے اقتدار میں ہے۔ انھیں یہ تو نظر آتا ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا لیکن میاں نواز شریف کو کریڈٹ دینے کے بجائے گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ انھوں نے ہمارا ساتھ تو بہت دیا لیکن حقیقی معنوں میں انھیں جو حصہ ڈالنا تھا وہ نہیں ڈالا، وزیر اعظم سے ان کا شکوہ ہے کہ سندھ کی ترقی کے لیے فنڈز کا وعدہ بھی کیا لیکن آج تک کوئی وعدہ وفا نہ ہو سکا اور ایک کوڑی بھی نہیں دی گئی۔
گزشتہ تیس برس میں حکومت سندھ نے ایسے کیا کارنامے انجام دیے ہیں کہ اسے قابل مثال سمجھا جائے، کم از کم مجھے تو سمجھ نہیں آتی۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ امن کے قیام میں بڑا حصہ ڈالا، لیکن جب رینجرز نے دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر، کرپشن کی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا تو شور وغوغا مچا دیا کہ یہ رینجرز کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ کرپشن کی رقم دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے انھیں دہشت گردی کی اس قسم پر رینجرز کیجانب سے ایکشن لینے پر اعتراض ہے۔
وزیر بلدیات جام شورو صفائی مہم کا آغاز کرتے نظر آتے ہیں اور جیسے ہی فوٹو سیشن ختم ہوتا ہے علاقہ پھر گندگی کا ڈھیر نظر آتا ہے، یہ شکوہ کرتے ہیں کہ واٹر بورڈ میں ہزاروں غیر قانونی بھرتیاں ہوئیں جس کے سبب ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز نہیں ہے، لیکن ان سات سالوں میں ان کی حکومت کر کیا رہی تھی، یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اگر اداروں میں غیر قانونی بھرتیاں ہو رہی تھیں تو سندھ حکومت کیا کر رہی تھی۔ غربت کے خاتمے کے نام پر عوام کو بھکاری بنا دیا ہے کہ اے ٹی ایم کارڈ لیے دربدر پھرتے نظر آتے ہیں، اب تو ماروی میمن دوبارہ سروے کروا رہی ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر بے نظیر انکم سپورٹ کے کارڈ تقسیم ہوئے تھے۔ غربت مکاؤ پرگرام میں بے قائدگیوں کا بھی چرچا ہوا لیکن خاموشی اس لیے اختیار کی کہ کہیں عالمی ادارے فنڈز کو روک نہ دیں۔
تعلیم کے شعبے کا یہ حال ہے کہ کراچی میں بدایونی کالج کو لینڈ مافیا آگ لگا دیتی ہے اور حکومت کے تعلیم کے مشیروں، وزیروں کو توفیق ہی نہیں ہوتی کہ پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود ایک بار دورہ تو کر لیں بلکہ ترجمان حکومت سندھ مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو لاعلم ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ بھی ہوا ہے۔ مشیر وزیر اعلیٰ وقار مہدی لاعلم ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے، مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ بڑا افسوسناک واقعہ ہے ذمے داروں کو اس پر ایکشن لینا چاہیے تھا۔
مشیر وزیر اعلیٰ وقار مہدی کہتے ہیں کہ میں ذاتی طور پر اس واقعے کا نوٹس لوں گا۔ اسکول وڈیروں کی اوطاق بن گئیں ہیں ، محکمہ بے وزیر کا کوئی پرسان حال نہیں، اس پر یہ دعویٰ کہ جو کام انھوں نے کیے گزشتہ 30 برس میں نہیں ہوئے۔ اس شہر کی جو سڑکیں ہر صبح دھوئی جاتی تھیں وہاں گٹر کا پانی ہمہ وقت بہتا نظر آتا ہے اب تو انھیں ہر بات میں سازش نظر آنے لگی ہے۔
گٹر کی سازش، پانی کی کمی کی سازش، بجلی کے بحران کی سازش، امن و امان کی سازش، غرض یہ ہے کہ حکومت سندھ کی کارکردگی میں سازشوں کے جال بنے ہوئے ہیں جنھیں کون بُن رہا ہے یہ بھی نہیں بتاتے۔ اسپتالوں میں دوائیاں نہیں، بستر نہیں آپریشن تھیٹر میں مریضوں کے لیے قابل سرجن نہیں، یہاں تک کہ تھر میں رہنے والے انسان بھی نہیں کہ وہ زندہ ہیں تو کس طرح ہیں، انھیں تو اس بات سے بھی غرض نہیں کہ سیلاب کے دوران دور دراز دیہات سے ٹرکوں میں بھر کر سندھی خاندانوں کو کراچی میں لا کر بے یارومدد گار چھوڑ دیا گیا کہ آج بھی کئی خاندان ہائی وے پر بے آسرا پڑے نظر آتے ہیں۔
سکھر کی ترقی کے لیے ڈھائی ارب روپے خرچ کر دیے۔ سندھ میں نوے ارب روپے خرچ کر دیے، لیکن بتا نہیں رہے کہ یہ خرچے ہوئے کہاں ہیں، کراچی کا اپنا فنڈکہاں ہے؟ حکومت کراچی کے لیے اگر فنڈ جاری کرتی ہے تو اسے کراچی ڈویلپمنٹ فنڈ کیوں قرار دیتی ہے کراچی کا اپنا حصہ کہاں ہے کہ کے ایم سی اٹھارہ رکے منصوبوں پر کام کرا سکے، ایک ارب روپے نہ ملنے کے سبب تمام ترقیاتی کام رکے ہوئے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ میں سندھ کو جو حصہ ملتا ہے240 ارب روپے اس کو کہاں خرچ کیا گیا اس کے بارے میں کیوں نہیں بتاتے۔
سائیں خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اربوں روپے فنڈز دینے کے باوجود ترقی کا نہ ہونا باعث تشویش ہے۔سندھ کی ترقی میں صحافی ہی تو سب سے آگے ہے کہ وہ تمام برائیوں کی نشان دہی کرتا ہے لیکن اس پر حکومت نوٹس ہی نہیں لیتی تو بیچارے صحافی کیا کریں گے۔ متحدہ کے نامزد مئیر وسیم اختر بر ملا کہتے ہیں کہ پی پی پی نے بھٹو اور بے نظیر کے نظریات و منشور چھوڑ دیے ہیں۔ پی پی پی نے اپنے ایم این اے و ایم پی ایز کو فنڈز کے نام پر ترقیاتی اسکیمیں دیکر رشوت کا دروازہ کھولا ہوا ہے اس لیے بلدیاتی اختیارات نہیں دیے جارہے۔
سائیں متحدہ اختیارات مانگ رہی ہے، آئین کی شق 140-a کے تحت بلدیاتی اختیارات کا نچلی سطح پر نفاذ بھی سپریم کورٹ کو کرانا چاہیے۔ سائیں بات کڑوی تو ہے لیکن سچ بھی ہے کہ جب قانون ساز ادارے کے اراکین قانون سازیاں کرنے کے بجائے سڑکیں، سی سی فلورنگ، گٹر، برساتی نالے بنانے لگ جائیں گے تو آئین میں قانون سازی کون کرے گا۔ ہر ادارے کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نوے ارب روپے لگے لیکن نظر نہیں آ رہے تو صحافی تو شاباشی نہیں دے گا وہ تو نشان دہی کرے گا جو اس کا کام ہے۔ اگر صحافی اپنا کام درست نہیں کرے گا تو اپنے فرض سے غداری کرے گا اور ایسے صحافیوں کو عوام بھی کبھی بھی شاباشی نہیں دیں گے۔
گھر سے نکلتے ہی کچروں کے ڈھیر نظر آتے ہیں، سڑک پر گزرتے سیوریج کی بوسیدہ لائنوں سے بدبودار پانی نظر آتا ہے، بس اسٹاپوں پر کھڑے اڑن کھٹولے نظر آتے ہیں۔ کے الیکٹرک کے مظالم نظر آتے ہیں، گیس معطلی کے ستم رسیدہ نظر آتے ہیں، کالجوں میں طلبا کی تعداد کم اور امتحانات میں بوٹی مافیا زیادہ نظر آتی ہے۔ سرکاری محکموں میں خوب رشوت نظر آتی ہے۔ سرکاری نوکریوں کے پیچھے بھاگتے جیالے منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں، پروٹوکول کے مارے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
من پسند بلدیاتی قوانین فوراََ منظور ہوتے نظر آتے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لیے فنڈز کی کمی نظر آتی ہے۔ عدالتوں میں لائے جانے والے ملزمان سے پولیس کی زیادتیاں نظر آتی ہیں، سائیں! ہمیں سب دکھائی دیتا ہے لیکن نہ جانے ان بعض لوگوں میں آپ بھی ہیں کہ نہیں کہ آپ کے وزرا ء کسی کو جواب دیتے نظر نہیں آتے، کراچی میں گند کچرا اور غلاظت کے ڈھیروں کی وجوہات میں ایک وزیر موصوف یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ مسائل ایک دن میں حل نہیں ہو سکتے۔
نہ جانے یہ کس لیڈر کا معروف جملہ بن گیا ہے کہ کہنے والا یہ بھی نہیں سوچتا کہ ہماری جماعت کتنے عرصے سے اقتدار میں ہے۔ انھیں یہ تو نظر آتا ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا لیکن میاں نواز شریف کو کریڈٹ دینے کے بجائے گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ انھوں نے ہمارا ساتھ تو بہت دیا لیکن حقیقی معنوں میں انھیں جو حصہ ڈالنا تھا وہ نہیں ڈالا، وزیر اعظم سے ان کا شکوہ ہے کہ سندھ کی ترقی کے لیے فنڈز کا وعدہ بھی کیا لیکن آج تک کوئی وعدہ وفا نہ ہو سکا اور ایک کوڑی بھی نہیں دی گئی۔
گزشتہ تیس برس میں حکومت سندھ نے ایسے کیا کارنامے انجام دیے ہیں کہ اسے قابل مثال سمجھا جائے، کم از کم مجھے تو سمجھ نہیں آتی۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ امن کے قیام میں بڑا حصہ ڈالا، لیکن جب رینجرز نے دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر، کرپشن کی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا تو شور وغوغا مچا دیا کہ یہ رینجرز کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ کرپشن کی رقم دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے انھیں دہشت گردی کی اس قسم پر رینجرز کیجانب سے ایکشن لینے پر اعتراض ہے۔
وزیر بلدیات جام شورو صفائی مہم کا آغاز کرتے نظر آتے ہیں اور جیسے ہی فوٹو سیشن ختم ہوتا ہے علاقہ پھر گندگی کا ڈھیر نظر آتا ہے، یہ شکوہ کرتے ہیں کہ واٹر بورڈ میں ہزاروں غیر قانونی بھرتیاں ہوئیں جس کے سبب ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز نہیں ہے، لیکن ان سات سالوں میں ان کی حکومت کر کیا رہی تھی، یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اگر اداروں میں غیر قانونی بھرتیاں ہو رہی تھیں تو سندھ حکومت کیا کر رہی تھی۔ غربت کے خاتمے کے نام پر عوام کو بھکاری بنا دیا ہے کہ اے ٹی ایم کارڈ لیے دربدر پھرتے نظر آتے ہیں، اب تو ماروی میمن دوبارہ سروے کروا رہی ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر بے نظیر انکم سپورٹ کے کارڈ تقسیم ہوئے تھے۔ غربت مکاؤ پرگرام میں بے قائدگیوں کا بھی چرچا ہوا لیکن خاموشی اس لیے اختیار کی کہ کہیں عالمی ادارے فنڈز کو روک نہ دیں۔
تعلیم کے شعبے کا یہ حال ہے کہ کراچی میں بدایونی کالج کو لینڈ مافیا آگ لگا دیتی ہے اور حکومت کے تعلیم کے مشیروں، وزیروں کو توفیق ہی نہیں ہوتی کہ پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود ایک بار دورہ تو کر لیں بلکہ ترجمان حکومت سندھ مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو لاعلم ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ بھی ہوا ہے۔ مشیر وزیر اعلیٰ وقار مہدی لاعلم ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے، مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ بڑا افسوسناک واقعہ ہے ذمے داروں کو اس پر ایکشن لینا چاہیے تھا۔
مشیر وزیر اعلیٰ وقار مہدی کہتے ہیں کہ میں ذاتی طور پر اس واقعے کا نوٹس لوں گا۔ اسکول وڈیروں کی اوطاق بن گئیں ہیں ، محکمہ بے وزیر کا کوئی پرسان حال نہیں، اس پر یہ دعویٰ کہ جو کام انھوں نے کیے گزشتہ 30 برس میں نہیں ہوئے۔ اس شہر کی جو سڑکیں ہر صبح دھوئی جاتی تھیں وہاں گٹر کا پانی ہمہ وقت بہتا نظر آتا ہے اب تو انھیں ہر بات میں سازش نظر آنے لگی ہے۔
گٹر کی سازش، پانی کی کمی کی سازش، بجلی کے بحران کی سازش، امن و امان کی سازش، غرض یہ ہے کہ حکومت سندھ کی کارکردگی میں سازشوں کے جال بنے ہوئے ہیں جنھیں کون بُن رہا ہے یہ بھی نہیں بتاتے۔ اسپتالوں میں دوائیاں نہیں، بستر نہیں آپریشن تھیٹر میں مریضوں کے لیے قابل سرجن نہیں، یہاں تک کہ تھر میں رہنے والے انسان بھی نہیں کہ وہ زندہ ہیں تو کس طرح ہیں، انھیں تو اس بات سے بھی غرض نہیں کہ سیلاب کے دوران دور دراز دیہات سے ٹرکوں میں بھر کر سندھی خاندانوں کو کراچی میں لا کر بے یارومدد گار چھوڑ دیا گیا کہ آج بھی کئی خاندان ہائی وے پر بے آسرا پڑے نظر آتے ہیں۔
سکھر کی ترقی کے لیے ڈھائی ارب روپے خرچ کر دیے۔ سندھ میں نوے ارب روپے خرچ کر دیے، لیکن بتا نہیں رہے کہ یہ خرچے ہوئے کہاں ہیں، کراچی کا اپنا فنڈکہاں ہے؟ حکومت کراچی کے لیے اگر فنڈ جاری کرتی ہے تو اسے کراچی ڈویلپمنٹ فنڈ کیوں قرار دیتی ہے کراچی کا اپنا حصہ کہاں ہے کہ کے ایم سی اٹھارہ رکے منصوبوں پر کام کرا سکے، ایک ارب روپے نہ ملنے کے سبب تمام ترقیاتی کام رکے ہوئے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ میں سندھ کو جو حصہ ملتا ہے240 ارب روپے اس کو کہاں خرچ کیا گیا اس کے بارے میں کیوں نہیں بتاتے۔
سائیں خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اربوں روپے فنڈز دینے کے باوجود ترقی کا نہ ہونا باعث تشویش ہے۔سندھ کی ترقی میں صحافی ہی تو سب سے آگے ہے کہ وہ تمام برائیوں کی نشان دہی کرتا ہے لیکن اس پر حکومت نوٹس ہی نہیں لیتی تو بیچارے صحافی کیا کریں گے۔ متحدہ کے نامزد مئیر وسیم اختر بر ملا کہتے ہیں کہ پی پی پی نے بھٹو اور بے نظیر کے نظریات و منشور چھوڑ دیے ہیں۔ پی پی پی نے اپنے ایم این اے و ایم پی ایز کو فنڈز کے نام پر ترقیاتی اسکیمیں دیکر رشوت کا دروازہ کھولا ہوا ہے اس لیے بلدیاتی اختیارات نہیں دیے جارہے۔
سائیں متحدہ اختیارات مانگ رہی ہے، آئین کی شق 140-a کے تحت بلدیاتی اختیارات کا نچلی سطح پر نفاذ بھی سپریم کورٹ کو کرانا چاہیے۔ سائیں بات کڑوی تو ہے لیکن سچ بھی ہے کہ جب قانون ساز ادارے کے اراکین قانون سازیاں کرنے کے بجائے سڑکیں، سی سی فلورنگ، گٹر، برساتی نالے بنانے لگ جائیں گے تو آئین میں قانون سازی کون کرے گا۔ ہر ادارے کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نوے ارب روپے لگے لیکن نظر نہیں آ رہے تو صحافی تو شاباشی نہیں دے گا وہ تو نشان دہی کرے گا جو اس کا کام ہے۔ اگر صحافی اپنا کام درست نہیں کرے گا تو اپنے فرض سے غداری کرے گا اور ایسے صحافیوں کو عوام بھی کبھی بھی شاباشی نہیں دیں گے۔