بعض وزراء کے نام ای سی ایل میں رکھنے کی تجویز

پاکستان اس کا سب سے بڑا میدان جنگ بنا ہوا ہے اور اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے


Sajid Ali Sajid February 03, 2016
[email protected]

FAISALABAD: باخبر ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے بعض وزراء کے بار بار بیرون ملک کے دوروں پر جانے کا نوٹس لیا ہے، اس سلسلے میں غیر مصدقہ ذرایع سے یہ تک معلوم ہوا ہے کہ حکومت بعض وزراء کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر غور کر رہی ہے۔

وزیر اعظم نے اس بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک تو وہ خود بھی کم ہی ملک میں ہوتے ہیں مگر جب ہوتے ہیں اور کسی اہم معاملے پر ڈسکس کرنے کے لیے جب کبھی کسی متعلقہ وزیر کو بلاتے ہیں تو اکثر موصوف ملک سے باہر ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ مناسب ہو گا کہ صرف دوروں کے معاملے میں ان کی تقلید نہ کی جائے اور صورتحال کی نزاکت کا احساس کیا جائے۔ان کے خیال میں محترم وزراء کو احساس کرنا چاہیے کہ ہمارا ملک انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف دنیا کی تاریخ کی سب سے خوفناک پیچیدہ اور مشکل جنگ لڑی جا رہی ہے۔

پاکستان اس کا سب سے بڑا میدان جنگ بنا ہوا ہے اور اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے، اس جنگ کے کئی تقاضے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ملکی قیادت دنیا بھر کے اہم لیڈروں سے رابطے میں رہے، جس کے لیے خاص طور پر وزیر اعظم کو ورلڈ لیڈرز سے اہم صلاح مشورے کے لیے مختلف ملکوں کے دورے کرنے پڑتے ہیں۔ انھیں پاکستان کی حکومت اور عوام کی دی گئی قربانیوں کا احساس دلانا پڑتا ہے، پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہ کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کے کئی بین الاقوامی فورم استعمال کرنے پڑتے ہیں اور اس مقصد سے مختلف عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرنی پڑتی ہے۔

ان ذرایع نے یہ بات بھی زور دے کر کہی ہے کہ وزیر اعظم بادل نخواستہ یہ دورے کرتے ہیں خوش قسمتی سے میڈیا بھی اچھی طرح ان دوروں کی اہمیت سے آگاہ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت سے وابستہ دوسری شخصیات بھی وزیر اعظم کی اندھا دھند تقلید میں دورے کرنے لگیں ایسے دورے جن میں سے کئی بالکل غیر ضروری ہیں اور اتنے تواتر سے کیے جا رہے ہیں کہ لگتا ہے جیسے متعلقہ وزیر کسی غیر ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور کبھی کبھار پاکستان کے دورے پر آ جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں وزیروں کے دوروں میں باقاعدگی پیدا کرنے کے لیے ایک ایس او پی ترتیب دیا جا رہا ہے جسکے تحت وہ سال میں ضرورت پڑنے پر صرف ایک دورہ کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی دورے کرنیوالے وزیروں کو جو آپشن دیے جا رہے ہیں وہ یہ ہیں۔وہ دورے کے سارے اخراجات خود اپنی جیب خاص سے برداشت کرینگے اور اس کے بعد جتنے چاہیں دورے کر لیں۔ اس شرط کے ساتھ کہ دورے سے ایک روپے کا بھی بوجھ سرکاری خزانے پر نہیں پڑنے دیا جائے گا۔ ویزا فیس سے لے کر غیر ملکی ریٹرن ٹکٹ اور غیر ملک میں طعام و قیام کے اخراجات انھیں خود برداشت کرنے ہونگے۔

دوسرا آپشن یہ ہے کہ غیر ملکی دورے کرنیوالوں کو اس بات کا ٹھوس ثبوت دینا ہو گا کہ انھوں نے جتنے اخراجات کیے اتنے ہی پیسے ملک کو کما کر دیے ہیں لگ بھگ اتنی ہی رقم یا اس سے زیادہ کے برآمدی آرڈرز وہ لے کر آئے ہیں جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی تقریباً اتنی کہ ان کے غیر ملکی دورے کا خرچہ پورا ہو سکے۔تیسرے آپشن کے طور پر غیر ملکی دورے کرنیوالے یہ کر سکتے ہیں کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اسی زمانے میں غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے اپنے دورے کے اخراجات کے برابر یا اس سے زیادہ Remittance پاکستان بھجوا دیں جس کی رقم ان کی معمول کی ماہانہ ترسیلات زر کے علاوہ ہو گی۔

ادھر حکومت اپنی بدنامی سے بچنے کے لیے یہ بھی کر سکتی ہے کہ غیر ملکی دوروں کے شوقین وزیروں کے وزیر بننے اور قلمدان وزارت سنبھالنے کو پبلک نہ کرے وہ صرف پیپر پر ہی وزیر ہوں اور کچھ ایسے قلمدان ان کے پاس ہوں کہ ان کی پاکستان میں ضرورت ہی نہ پڑتی ہو اور ان کے بغیر ہی کام چل جاتا ہو۔ ان کی وزارت اور محکمے کو بالکل خفیہ اور کانفیڈنشل رکھا جائے گا پھر بے شک وہ جتنے چاہیں دورے کرتے رہیں۔ ایسے وزیر چاہیں تو اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ ان سے پیشگی استعفے لے لیے جائیں گے اور دورے کا انکشاف ہونے کی صورت میں حکومت علی الاعلان کہے گی کہ دورہ کرنے والے وزیر پہلے ہی استعفے دے چکے ہیں۔

بعض وزیروں نے اس بات پر خاصی برہمی کا اظہار کیا ہے کہ ان کے غیر ملکی دوروں پر غیر ضروری تنقید کی جا رہی ہے اور بلاوجہ ان دوروں کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے اور اس قسم کی خبریں لگائی جا رہی ہیں کہ فلاں وزیر نے غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ بقول ان کے غیر ممالک جا کر وہ پاکستان کا امیج بہتر بنانے کا جو کارنامہ انجام دیتے ہیں، اسے روپے پیسے میں نہیں تولا جا سکتا۔ اس قومی خدمت کے آگے وہ رقم کچھ بھی نہیں ہے جو ان دوروں پر خرچ ہوتی ہے آخر اپوزیشن کے ارکان بھی تو آئے دن دورے کرتے رہتے ہیں انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا اکثر و بیشتر ان کے اخراجات بھی سرکار ہی برداشت کرتی ہے یہ دورے بھی درحقیقت ''مک مکا'' کا ہی ایک حصہ ہیں۔

ایک وزیر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الٹا یہ سوال کر دیا کہ غیر ملکی دورے کے سوا وزیر بننے کا کوئی اور فائدہ کیا ہے۔ بقول ان کے وزراء انتہائی مصروف زندگی گزارتے ہیں انھیں دن رات ٹینشن میں رہنا پڑتا ہے اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اپنی تھکن دور کرنے کے لیے کچھ عرصے بعد آرام اور تفریح کے لیے باہر چلے جایا کریں۔بعض وزراء اپنے دوروں پر ہونے والے اعتراضات کا ایک سبب لوگوں کے کمپلیکس کو بھی قرار دیتے ہیں جن کو خود یہ غیر ملکی دورے میسر نہیں ہیں ان کو یہ دورے بہت برے اور غیر ضروری لگتے ہیں جب کہ دنیا بھر میں غیر ملکی دوروں کو کوئی ایسی نعمت غیر مترقبہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہاں لوگ اسے اپنے لیے ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔

باخبر ذرایع کے مطابق وزیر اعظم نے خود یہ طے کیا ہے کہ کم از کم کچھ عرصے کے لیے وہ اپنے دورے کم کر دیں گے تا کہ اپنی کابینہ کے ارکان کے لیے ایک اچھی مثال قائم کر سکیں۔ادھر ایک تھنک ٹینک نے ملک کے ایسے بے حیثیت افراد کے لیے جن کے ملک سے باہر جانے کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں ہیں فیملی کے ساتھ غیر ملکی دوروں کی اسکیم شروع کرنے کی تجویز پیش کی ہے جس کے لیے ''خوش نصیبوں'' کا انتخاب قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جائے گا۔

تھنک ٹینک کا خیال ہے اگر عام لوگوں کو بھی کسی اسکیم کے تحت غیر ملکی دوروں کی سہولت فراہم کر دی جائے تو یہ موجودہ حکومت کا ایک اور کارنامہ ہو گا اور وہ عوام سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کر سکے گی۔ اس طرح وزیروں کے دوروں کے بارے میں عام لوگوں کی رائے اور تاثرات بھی نرم ہو جائیں گے۔

دریں اثنا حکومت کے ایک ترجمان نے غیر ملکی دوروں کا ایک اور فائدہ بھی بیان کیا ہے۔ بقول ان کے اس طرح ہمارے لوگوں کو غیر ممالک کی خوبیاں اور ترقی و خوشحالی کے اسباب قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے اور پھر وہ وہاں رائج پالیسیوں کو پاکستان میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں بہت سے اچھے کام غیر ممالک کے تجربات کو سامنے رکھ کر کیے گئے ہیں حکومت طبی اور دیگر ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنا کر اس بات کی تحقیقات کرانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے کہ آخر سرکاری وزارتوں اور محکموں میں کون سا ایسا وائرس سرائیت کر گیا ہے کہ اچھے بھلے لوگوں پر وزیر بنتے ہی دورے پڑنے لگتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔