معدوم ہوتی تہذیب اور خواب ہوتے مناظر کا نقش گر رخصت ہوا
عمر کے ایک لمبے سفر کے گرد جسے آپ نے روشن سا بنا دیا تھا۔
انتظار حسین چل بسا۔ سن کر افسوس ہوا۔ اب یار لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ تم اسے جانتے تھے۔ اس کے بارے میں کچھ کہو۔ میں کیا کہوں۔
یہ لوگ اسے کہانی کار سمجھتے ہیں۔ میں دل ہی دل میں ہنستا ہوں کہ اللہ تیری قدرت وہ کیا تھا۔ لیکن لوگ اسے کیا سمجھتے ہیں۔ اگر ہاپوڑ سے نہ نکلتا تو پاپڑ بیچتا۔ڈبائی میں رہتا تو چلمیں بناتا۔ ہاپوڑ اور ڈبائی کے نام میںنے اس لئے لئے کہ وہ ان دو بستیوں سے ہی اپنا ناتا جوڑتا تھا۔ ڈبائی کو اپنی جنم بھومی بتاتا تھا۔ ہاپوڑ میں آ کر چھوٹے سے بڑا ہوا۔ مگر ان دو بستیوں سے اس نے سیکھا کیا۔ ڈبائی کے کمہار جتنی نفیس چلمیں بناتے ہیں اتنی ہی کڈھب اس نے کہانیاں لکھیں اور ہاپوڑ کے پاپڑ جتنے خستہ ہوتے ہیں اتنی ہی کرخت اس نے زبان لکھی۔ ڈبائی کے کمہاروں کا اس پہ پرچھانواں بھی پڑ جاتا تو اس کی کہانیوں کی کایا بدل جاتی ۔
اصلی اور سچی بات یہ ہے کہ وہ بھاگوان تھا۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اس نے ہوش سنبھالا تھا اور قلم بس ہاتھ میں پکڑنے لگا تھا کہ ہندوستان کا بٹوارا ہو گیا۔ ایک الگ ملک پاکستان بن گیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، سپیشل ٹرین میں بیٹھا اور لاہور جا اترا۔ ڈبائی کا روڑا لاہور جا کر ہیرا بن گیا۔ نقلی ہیرا ڈبائی کے گلی کوچوں کا حال لکھ لکھ کر سنانے لگا اور چھپوانے لگا۔ اس دعوے کے ساتھ کہ یہ کہانیاں ہیں۔
ان دنوں جو ہندوستان سے لٹ پٹ کر پاکستان پہنچتا تھا۔ اس کے ساتھ مروت برتی جاتی تھی۔ اسی مروت میں لاہوروالوں نے اسے کہانی کار مان لیا۔ مگر مہاجر اس کی اوقات کو سمجھتے تھے۔ وہاں کافی ہاؤس میں ایک دن اس کی مڈبھیڑ ایک ویٹر سے ہوگئی جو رامپور کا تھا۔ یہ سمجھا کہ ویٹر ہی تو ہے ۔ میں اپنی کہانیوں کا حوالہ دوں گا تو مرعوب ہوجائے گا وہ تھا رام پور کا چھنٹا ہوا۔ اس نے کہیں ان حضرت کی ایک دو کہانیاں پڑھ لی تھیں اور جان لیا تھا کہ یہ کتنے پانی میں ہے۔ کہنے لگا کہ ''انتظار صاحب آپ نے اپنی کہانیوں میں جو زبان لکھی ہے وہ ہمارے رامپور میں کنجڑیاں بولا کرتی ہیں۔ کبھی شریف زادیوں کی زبان اور اشراف کا محاورہ لکھ کر دکھایئے۔''
رامپوری ویٹر کی بات سن کر انتظار حسین اپنا سا منھ لے کر رہ گیا۔ پھر اس نے دلی اور لکھنؤ کا محاورہ لکھنے کے لئے بہت زور مارا مگر کہاں دلی اور لکھنؤ کے اشراف اور کہاں ڈبائی کا روڑا۔ اس نے جلد ہی اپنی حیثیت کو پہچانا اور پینترا بدل لیا۔ دلی والوں کو اپنی کوثر میں دھلی ہوئی اردو پر ناز تھا۔ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں تو گنگا میںدھلی ہوئی اردو لکھتا ہوں۔ کسی نے پوچھ لیا کہ '' یہ اردو تم نے سیکھی کس سے؟'' جواب دیا۔ ''سنت کبیر سے''
پوچھنے والا اس کا منھ تکنے لگا اور بولا۔ ''اردو کا کبیر سے کیا واسطہ؟''
انتظار حسین نے ڈھیٹ بن کر جواب دیا کہ ''کبیر اردو کا سب سے بڑا شاعر ہے۔''
بس ایسی ہی باتیں کر کے وہ اپنی جہالت کو چھپاتاتھا۔ جس زمانے میں اس نے کہانیاں لکھنا شروع کی تھیں اس زمانے میںاردو دنیا میں ٹالسٹائی' دوستوفسکی' گورکی' فلابیر' جوائس ' لارنس جیسے ناول نگاروں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ یہ کتنے بڑے ناول نگار تھے' انتظار حسین کی جانے بلا۔ اس نے الٹی گنگا بہانی شروع کر دی۔ کہنا شروع کر دیا کہ ہمارے بڑے ناول تو اصل میں الف لیلہ اور کتھا سرت ساگر ہیں۔ سو میری ایک بغل میںا لف لیلہ ہے اور دوسری بغل میں کتھا سرت ساگر۔
کسی نے پوچھا کہ ''تم نے کہانی کہنے کا فن کس سے سیکھا ؟''
جواب دیا۔ ''اپنی نانی اماں سے اور مہاتمابدھ سے''
غریب نے نہ او۔ ہنری کو پڑھا تھا نہ موپساں کو۔
پھر اپنی جہالت کو چھپانے کے لئے کوئی ا یسی ہی بات کہنی تھی۔
نئے زمانے کے کیا مسائل ہیں' کیا سمسیائیں ہیں' انتظار حسین کو اس کا ذرا جو پتہ ہو۔ اس لئے اگر ترقی پسندوں نے اسے رجعت پسند' قدامت پرست' ماضی کا مریض' نوسٹا لجیا کامارا ہوا جیسے خطابوں سے نوازا تو کیا برا کیا۔ وہ یہی کچھ تھا۔ ایک ترقی پسند ادیب نے دو ٹوک اس سے پوچھا''اپنی کہانیوں میں تم کس زمانے کی باتیں کرتے ہو؟''
''اپنے زمانے کی'' اس نے جواب دیا۔
''پھر مہاتما بدھ کے زمانے میں کیوں پہنچ جاتے ہو؟''
''اس لئے کہ میں نے اسی زمانے میں جنم لیا تھا۔ آدمی کی جون میں۔ اب پتہ نہیں میں کس جون میں ہوںاور میرے اردگرد جو لوگ ہیں وہ کس جون میں ہیں۔ تھوڑا پہچانتا ہوں تو پیڑوں اور پنچھیوں کو۔ میرے زمانے کے کچھ یہی لوگ باقی رہ گئے ہیں۔''
لاہور میں ایک ترقی پسند نے بڑے پتے کی بات کہی کی یوپی سے بہت سے لوگ اپنا گھر بار لٹا کر خالی ہاتھ پاکستان پہنچے اور یہاں آ کر انہوںنے الاٹمنٹس کرائیں اور دونوں ہاتھوں سے جائز و ناجائز کما کر گھر بھرے۔ مگر انتظار حسین یادوں اور محاوروں کی بھری بوریوں کے ساتھ پاکستان پہنچا۔ اس نے اپنی بوریوں کا منہ کھول دیا ہے اور ہمیں بوجھوں مار رہا ہے۔بالکل صحیح کہا۔ بھلا یادوں سے کہانی بنا کرتی ہے۔ پھر آدمی ایسی ہی کہانی لکھے گا جیسی ہماری نانی امائیں ہمارے بچپن میں ہمیں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ سو انتظار حسین نے بھی عمر بھر ایسی ہی کہانی لکھی۔ میں جب اس کی کہانی پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ کہانی نہیں پڑھ رہا بلکہ اس کی ڈبائی کی کسی ٹوٹی ہوئی سڑک پر چلتے ہوئے یکے میں بیٹھا ہوں۔
اصل میں ڈبائی میں چلم بنانے والے کمہاروں کو تو اس نے بدنام کیا۔ ان والی نفاست تو اس کی کہانی میں کبھی آئی ہی نہیں اور میں نے یہ غلط کہا کہ وہ ڈبائی میں رہتا تو چلمیں بناتا۔ ویسے اسے ڈبائی ہی میں رہنا چاہئے تھا۔ اس قصباتی فضا سے اس کا ذہن کبھی نکلا ہی نہیں۔ وہاں اگر رہتا تو وہاں یکہ چلا کر کچھ دال دلیا کر لیتا۔ جس زمانے میں وہ ڈبائی میں تھا اس زمانے میں اس قصبے کی سڑکوں کی حالت بہت خستہ تھی۔ ان پر یکے اس طرح چلتے تھے کہ سواریوں کے جوڑ جوڑ ہل جاتے تھے۔ وہاں رہتا تو ایسے ہی کسی یکے کا کوچوان ہوتا۔ لاہور آ کر اس نے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ کہانیاں کیا لکھتا تھا یکہ چلاتا تھا۔ ڈبائی کے یکوں کی طرح اس کی کہانیوں کے بھی سارے انجر پنجر ڈھیلے ہیں۔
خیر وہ شخص اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ کیا کہا جائے اور اس نے کون سی نرالی بات کی۔ جو دوسرے مہاجروں نے کیا وہ اس نے بھی کیا۔ کتنے مہاجر ایسے تھے کہ جب یوپی میں تھے تو پھانک تھے۔ پاکستان گئے تو دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹی اور جائیدادیں بنائیں۔ انتظار حسین نے یہی کام دوسرے رنگ سے کیا۔ ڈبائی میں رہتا تو یکہ چلاتا۔ لاہور میں رہ کر کہانی کا ر کار روپ رچایا۔ دونوں ہاتھوں سے داد سمیٹی اور اپنے تئیں بڑا ادیب جاننے لگا۔
اب الاٹمنٹ کی بات بھی سن لو۔ جب مہاجر اپنے اپنے کلیم داخل کر رہے تھے تو ایک لاہوری دوست نے اس سے کہاکہ ''یار تم بھی اپنا کلیم داخل کر دو۔''
اب وہ یہ تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ ادھر وہ کوئی جائیداد چھوڑ کر نہیں آیا ہے۔ جھوٹی شان نے اسے یہ بات کہنے کی اجازت نہیںدی۔ کہایوں کہ ''میں تو تاج محل چھوڑ کر آیا ہوں۔ کہو تو اس کاکلیم داخل کر دوں۔''
اس نے مزاحاً کہا۔ ''اس کے سوا بھی تو کچھ چھوڑ کر آئے ہو گے؟''
کہا کہ ''ہاں تاج محل کے سوا نیم کا پیڑ چھوڑ کر آیا ہوں۔''
بس ایسے ہی بے تکی باتیں کر کے اپنی بے حیثیتی کو چھپاتا رہا۔ اب اللہ کو پیارا ہوا۔ ڈبائی کی پریشاں خاک لاہور میں آسودہ ہوئی۔ آج ڈبائی میں اسے کوئی نہیں جانتا۔ کل لاہور میں بھی اسے کوئی نہیں جانے لگا۔ خیر وقتی طور پر اس نے جھوٹ سچ لکھ کر کچھ نام پیدا کر لیا تھا۔ اس کا جھوٹ سچ اس کے ساتھ گیا۔ خاک میں مل کر خاک ہوا۔ اللہ اس کی مغفرت کرے۔
اگلے زمانے میں ایک سوداگر تھا جس کی سات بیویاں تھیں۔ ایک دفعہ کیا ہوا کہ اسے بیوپار کے سلسلے میں سفر پر جانا پڑ گیا۔ وہ باری باری چھیوں بیویوں کے پاس گیا اور بولا کہ ''بی بی ہم پردیس جاتے ہیں کہو تمہارے لئے کیا تحفہ لائیں؟'' سب بیویوں نے بڑی بڑی لمبی چوڑی فرمائشیں کیں۔ پھر آئی ساتویں بیوی کی باری... جس سے سوداگر کو ایسا انس تو نہیں تھا مگر اس نے سوچا کہ رسم تو پوری کر ہی لینی چاہئے، ساتویں بیوی نے نہ کسی قیمتی زیور کی فرمائش کی نہ کسی بھاری پوشاک کی۔ بس ایک سبز پنکھیا لے آنے کو کہہ دیا۔
سوداگر جب اپنا کاروبار کر کے پردیس سے واپس ہونے لگا تو اس نے بازار جا کر بیویوں کے لئے پرتکلف تحفے تحائف خریدے مگر سبز پنکھیا اس کے ذہن سے اتر گئی۔ جب وہ جہاز میں آ کر بیٹھا تو عجب ماجرا گزرا کہ جہاز اپنی جگہ سے حرکت ہی نہ کرے۔ جہازی سرگرداں اور مسافر پریشان کہ جہاز آخر کیوں نہیں چلتا۔ کسی پہنچے ہوئے بزرگ نے کہا کہ بھائی تم میں سے کوئی مسافر اپنا کام کرنا بھول گیا ہے۔ جب تک وہ کام پورا نہیں ہو گا، جہاز حرکت میں نہ آئے گا۔ ہر مسافر سے باری باری سوال کئے گئے۔ سب نے اپنے اپنے کام گنا دیئے۔ جب آئی سوداگر کی باری تو اسے اپنی بیویوں کے تحفے گناتے گناتے اچانک ساتویں بیوی کی سبز پنکھیا یاد آئی۔ جہاز والوں نے کہا کہ بھائی سبز پنکھیا تلاش کرو اور جلدی آؤ کہ جہاز کسی طرح روانہ ہو۔
میں بھی ایک سفر پر نکلا ہوا ہوں اور سبز پنکھیا ڈھونڈتا ہوں۔ پرانی کہانیوں اور داستانوں کے شہزادے اور سوداگر خوش نصیب ہوتے تھے کہ ناکامیوں اور پریشانیوں کے بعد بالآخر گوہر مراد کو پا لیتے تھے مگر جس سفر پہ میں نکلا ہوں اس میں گوہر مراد تو کم ہی لوگوں کو ملا ہے، شعبدے البتہ بہت ملتے ہیں۔ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں کوئی بڑا دعویٰ کر بیٹھا ہوں۔ ویسے میں کیوں لکھتا ہوں؟ کے سوال کے جواب کی کوشش خود کیا ایک دعویٰ نہیں؟ اور یہ دعویٰ اپنے یہاں کس کو نہیں ہے؟ مگر میں تو یوں سوچتا ہوں کہ فرض کیجئے کہ چیخوف کے ملک میں اس کی زندگی میں یا اس کے مرنے کے فوراً بعد میں لکھ رہا ہوتا تو کیا میں یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کرتا؟ اللہ کی قسم میرا تو قلم تھرانے لگتا ہے لیکن میں یہاں ڈروں کس سے؟
میں جس زبان میں لکھتا ہوں اس میں افسانہ نگار بے شک ہوئے ہیں لیکن نصف صدی سے کچھ کم ادھر۔ اس کے بعد جو لوگ آئے اور بالخصوص وہ فوج جو 36ء والی تحریک کے ساتھ آئی۔ یہ کون لوگ ہیں میں انہیں نہیں پہچانتا۔ انہیں دیکھ کر تو مجھے داستانوں کے شعبدہ بازوں کا خیال آتا ہے۔ آخر میں کس کی پیروی کروں اور کس کے خلاف بغاوت کروں، ان کی کوئی تحریر نہ تو میرا راستہ روکتی ہے اور نہ راستہ دکھاتی ہے۔ مجھے اس کام کے لئے دور کے دور پھلانگ کر اس دور میں پہنچنا پڑتا ہے جب ''آبِ حیات'' شائع ہوئی تھی۔ مولانا محمد حسین آزاد اور ان سے پہلے اور آس پاس کے دنوں کے چند اور افسانہ نگار بیشک صاحب تخلیق لوگ تھے، سیاح تھے۔ بس انہوں نے چھ بیویوں کے تحائف فراہم کئے ہیں۔ سبز پنکھیا میں نے کسی کے یہاں نہیں دیکھی۔
یہ سبز پنکھیا کیا ہے؟... یہ سوچتے ہوئے میرا تصور اس وقت کی داستانوں کی فضا سے بہک کر اپنے بچپن کے گھر کے اس بالائی کوٹھے پر جا پہنچا ہے جہاں عقب میں ایک بڑا سا جنگلا تھا اور اس سے پرے ایک بوسیدہ سا چھجہ جس پہ نہ جانے کب سے مٹی جم رہی تھی۔ برسات کے دنوں میں اس پہ عجیب سی گھاس اگ آئی تھی۔ نرم پتلی سی سیدھی شاخ پھننگ پہ سبز ورقہ سا لپٹا ہوا کچھ اس شکل کا جس شکل کا پتوں میں لپٹا ہوا بھٹا ہوتا ہے۔ شاخ لمبی ہوتی جاتی اور وہ ورقہ کھلتا جاتا، سفید سفید رواں اندر سے جھانکتا۔ پھر ایک ملائم سا لمبوترا خوشنما گالا ہوا میں لہلہانے لگتا۔ میری زبان میں شاید اس پودے کے لئے کوئی نام موجود نہیں ہے۔
میرے متقدمین نے تو سبزے کے پورے قافلہ ہی کو بیگانہ کہہ کر فطرت کی برادری سے خارج کر دیا تھا۔ ویسے ہم اس پودے کو بھٹے کہا کرتے تھے۔ نہ جانے کتنی مرتبہ میں نے اسے توڑنے کی کوشش کی ہو گی مگر جنگلے میں میرا ہاتھ پھنس جاتا اور وہ پودے میرے دسترس سے پرے بے نیازی سے لہلہاتے رہتے۔ کبھی کبھی ابر آتا تو ان پودوں میں پہلے ایک بہت ہلکی تھرتھری پیدا ہوتی اور پھر ایکایکی ہوا کے جھونکوں سے وہ جھونٹے سے لینے لگتے۔ یہ ہے وہ لمحہ جسے گرفت کرنے کے لئے میں نے افسانہ نگاری کا جال پھیلایا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس پودے کو، اس کی نیم محسوس لرزش کو بس میں نے دیکھا ہے۔ صحیفۂ فطرت کی یہ آیت مجھ پر، میرے وجدانی نفس پراتری ہے۔ مجھے اس پودے کا 'اسم' تخلیق کرنا ہے اور اس کی خفی لرزش کو ایک جلی شکل میں ڈھالنا ہے۔
باغ کا یہ ذرۂ زمین اب تک نگاہوں سے اوجھل تھا، بیکار تھا، باغ سے باہر تھا۔ اب میری تفسیر سے یہ باغ کا جز بنے گا۔ اس ذرے کی میں یوں تفسیر کروں کہ اس کا انفرادی حسن بھی نظر آئے اور وہ حسن آیتوں کے اس پورے نظام سے پیدا ہونے والے حسن کا بھی جز نظر آئے جسے فطرت کہتے ہیں... اگر میں نے یہ فرض ادا نہ کیا تو فطرت کا تصور اس زمانے میں جس حد تک مکمل ہونا چاہئے... مکمل نہیں ہو گا اور یہ ایک گناہ ہو گا جس کا مجھ پر عذاب پڑے گا اگر یہ فریضہ ادا ہو تو سفر کامیاب رہا اور سبز پنکھیا مل گئی مگر پھر سوچتا ہوں کہ جب اپنے سے جنگلے کی سلاخیں زیر نہ ہو سکیں تو اس لمبے سفر میں آنے والی بڑی مشکلات پر کیونکر غلبہ حاصل ہو سکے گا۔
اپنا یہ مکان ڈبائی میں تھا جسے گنگا کا پانی سیراب کرتا تھا مگر میں نے اور دریا بھی تو دیکھے ہیں اور ان سے سیراب ہونے والی مٹی پر اگتا ہوا دوسرے رنگوں کا سبزہ بھی دیکھا ہے۔ گنگاجل سے بھیگی ہوئی زمین میں جنم لیا، جمنا سے تر ہونے والی زمین پر ہوش سنبھالا۔ اب راوی کے کنارے چھاؤنی چھائی ہے۔ پھر ان سب سے آگے ایک دریا ہے۔ دریائے فرات جس کا ساحل مولد بھی ہے مسکن بھی ہے اور مرجع بھی۔ مجھ سے پہلے ایک شخص گزرا ہے انیس جو گومتی اور فرات کے بیچ میں کھڑا تھا۔ اس نے دونوں دریاؤں کو کاٹ کر اپنا تیسرا ایک دریا نکال لیا۔ میں چار دریاؤں کے جال میں گھرا ہوں۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس سے شاید مجھ سے پہلے کے کسی لکھنے والے کو پالا نہیں پڑا تھا۔ پھر حال اپنا یہ ہے کہ بازو میں نہ وہ انیسؔ والا زور اور نہ اس کے جیسا تیشہ مگر خواب یہ دیکھتا ہوں کہ انہیں کاٹ کر اپنا پانچواں دریا نکالوں گا۔ اس خودفریبی کی کوئی حد ہے۔
انیسؔ، نظیرؔ، مولانا محمد حسین آزادؔ... یہ چند ہستیاں میرا راستہ روکتی بھی ہیں اور مجھے رستہ دکھاتی بھی ہیں۔ نظیرؔ کو جب میں پڑھتا ہوں تو مجھے اس آیت کا رشتہ ہاتھ آتا ہے جو اس خستہ چھجے کے وسیلہ سے مجھ پر اتری تھی۔ اور 'آبِ حیات' مجھے واقعی کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ اردو میں پہلا ناول آزادؔ نے لکھا تھا اور دوسرا ناول میں لکھوں گا۔ لیکن یہی کتاب میرا رستہ بھی روکتی ہے۔ وہ ضمنی کردار تک جو بس تھوڑی تھوڑی سطروں میں بیان ہوئے ہیں۔ مجھے چیلنج کرتے ہیں کہ ہم جیسا کوئی جیتا جاگتا کردار تخلیق کیا ہو تو سامنے لاؤ۔ اس کے وہ فقرے جو ایک پورے سماج کے شعور میں اتر گئے ہیں، مجھے ٹوکتے ہیں کہ ایسی نثر لکھی ہو تو پیش کرو۔
لکھنے والوں کی یہ وہ نسل ہے جس کی میں نے پیروی کی ہے اور جس سے میں بغاوت پہ بھی تلا بیٹھا ہوں۔ میں نثر لکھنا چاہتا ہوں لیکن محمد حسین آزاد کی نثر نہیں، اپنی نثر۔ میرے افسانوں کی زبان پہ خاصی واہ واہ ہوئی ہے حالانکہ میرے افسانوں کا جو سب سے کمزور پہلو ہے وہ یہی زبان ہے۔ کمبخت یہ شے تو میرے قابو میں کم ازکم اب تک تو بالکل ہی نہیں آئی ہے۔ اظہار کے بنے بنائے سانچوں کو میں نے اگر ذرا سلیقہ سے استعمال کر بھی لیا تو کیا تیر مارا۔ میں نے اپنا سانچہ کہاں بنایا ہے۔ یہ خام آہن میرے ہاتھوں میں موم نہیں بنتا۔ اس خیبر کے دروازے میں جب تک میری انگلیاں یوں در نہ آئیں جیسے آٹے میں در آتی ہیں اس وقت تک میں کیسے سمجھ لوں کہ خیبر فتح ہو گیا۔ مجھ پر جو آیت اتری ہے وہ تو اپنی زبان بھی الگ لائی تھی۔ وہ تر وتازہ زبان میرے حافظہ سے اتر گئی ہے۔ ایک طرف تو میں اس زبان کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور دوسری طرف یہ سوچ رہا ہوں کہ میں نے جو چار دریاؤں کا پانی پیا ہے ان چاروں کی روانی بیک وقت میری زبان کی آہنگ میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔
مجھے یہاں اپنے ایک اور احساس کا ذکر کر دینا چاہئے۔ اس سفر میں میں اپنے آپ کو اکیلا بھی سمجھتا ہوں مگر اکثر رستوں پہ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو اپنے ساتھ چل رہے ہیں، شاید وہ بھی سبز پنکھیا کی جستجو میں ہیں۔ شاید یہ ہے نئی نسل کا احساس۔ ہم سفری کا بھی احساس اور مسابقت اور مقابلہ کا بھی احساس۔ اس نئی نسل اور اس پرانی نسل سے ہٹ کر جن کے خلاف میں نے اپنے احساسِ بغاوت کا ذکر کیا ہے باقی جو لمبا چوڑا گروہ ہے اور جس میں سے بہت سے اب بھی زندہ ہیں اور لکھتے ہیں۔ انہیں اظہار کی آسانی کے لئے پرانی نسل بھی کہا جاسکتا ہے۔
میں نے اس پہلو سے کبھی نہیں سوچا کہ اگر سبز پنکھیا نہ ملی تو کیا ہو گا۔ سبز پنکھیا کا احساس بنفسہٖ کیا کم بڑی دولت ہے۔ احساس جو اس نئے عہد کا احساس ہے۔ پچھلی نسلوں نے جس بنیادی بات کو غیراہم سمجھ کر بھلا دیا تھا اسے ہم نئے لوگوں نے پھر اہم سمجھا ہے اور اس کی معنویت کے انکشاف کی ٹھانی ہے۔ مجھے سبز پنکھیا نہ ملے گی تو اور کوئی ہم سفر ڈھونڈ نکالے گا۔ یوں بھی ہو سکتا ہے اور یہ بات زیادہ جچتی ہے کہ پوری نئی نسل مل کر سبز پنکھیا ڈھونڈے گی اور رکے ہوئے جہاز کے چلنے کا بندوبست کرے گی۔
ممتاز ادیب انتظارحسین سے ہم نے ایکسپریس سنڈے میگزین کے لیے مارچ2009ء میں انٹرویوکیا تھا، جس سے چیدہ چیدہ اقتباسات شائع کئے جارہے ہیں۔
جس طریقے سے پاکستان آیا، اس وقت تو ایسا لگتا تھا جیسے تاریخ ہمیں دھکا دے رہی ہے اور اس کی رو میں ہم بہتے چلے جا رہے ہیں۔ شعوری طور پر میں نے کچھ طے نہیں کیا تھا۔ نہ یہ سوچا تھا کہ یہ ملک جو بن رہا ہے، ہم سے کیا تقاضا کر رہا ہے اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں اس کے کیا معنی نکلتے ہیں۔ وہ ہماری عمر بھی نہیں تھی، اس انداز سے سوچنے کی۔ اس وقت جو صورت حال تھی اس کو میں دو ادوار میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک وہ دور تھا جب جدوجہد جاری تھی اور مسلمانوں میں بڑا جوش وخروش تھا۔ دوسرا وہ دور تھا جب تین جون کو تقسیم ہند کا اعلان ہوا۔ میرٹھ میں آل انڈیا ریڈیو سے قائداعظم کی تقریر بڑے جوش وخروش سے سنی گئی۔ یہ ماحول بڑا جذباتی تھا۔
اس اعلان کے بعد جو دوسرا دور شروع ہوا اس میں میں نے دیکھا کہ ایک ہفتے کے اندر مسلمان جیسے بجھ گئے ہوں۔ مسلمانوں میں بے اطمینانی پیدا ہوئی اور مستقبل کے اندیشوں نے انہیں گھیر لیا۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ہم یہاں رہ سکیں گے کہ نہیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد فسادات شروع ہو گئے۔ میرٹھ سے دہلی قریب تھا، جب وہاں اتنا بڑا فساد ہو گیا اور بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی تو شہر میں پریشانی اور بڑھ گئی۔ اسی دوران سپیشل ٹرین چلی۔ اب نقل مکانی شروع ہوئی تو میرٹھ سے بھی بہت سے لوگوں نے پاکستان جانے کی ٹھانی، اسی رو میں جب بہت سے لوگ آ رہے تھے، میں بھی ان کے ساتھ ادھر آ گیا۔ ہم جن لوگوں پر بھروسہ کر رہے تھے، ان کے قدم بھی اکھڑ گئے، جیسے عسکری صاحب جو پہلے ہی لاہور ہجرت کر چکے تھے۔
عسکری صاحب کا مجھے پیغام ملا کہ تم لاہور آ جاؤ۔ عسکری صاحب کے بھروسے پر میں یہاں آ گیا۔ اگر عسکری صاحب لاہور نہ ہوتے تو میں کبھی نہ آتا۔ اس زمانے میں ریڈیو پراپنے خاندان والوں اورعزیزوں کے نام پیغام نشرہوتے تھے اوراگرمتعلقہ بندہ پیغام نہ بھی سن سکتا تواس کا کوئی جاننے والا، اسے، اگراس نے پیغام سنا ہوتواطلاع کردیتا۔ اس وقت خیال نہیں تھا کہ مستقل طور پرپاکستان جارہا ہوں ۔ بس یہ تھا کہ عسکری صاحب نے بلایا ہے توچل کردیکھتے ہیں کہ اس شہرمیں کیا نقشہ ہے ۔ پھرجب ہم یہاں آگئے توذہنی طورپرمیں نے سمجھا کہ بس اب یہاں آگئے۔ اس وقت میں اکیلا ہی یہاں آیا۔ میرے خاندان نے اس وقت تک نقل مکانی کا ارادہ نہیں کیا تھا ۔ بعد میں وہ رفتہ رفتہ یہاں آتے گئے ۔
افسانہ نویسی کا آغاز بھی اس داروگیر میں ہوا۔ میرٹھ ہی میں میں نے دو کہانیاں ''قیوما کی دکان'' اور'' استاد'' لکھ رکھی تھیں۔ پاکستان آ کر میں نے ان کو سنوارا اور نوک پلک درست کی۔ یہ دونوں کہانیاں میری پہلی کتاب ''گلی کوچے'' میں شامل ہیں۔ میں نے پہلے طے نہیں کیا تھا کہ مجھے واقعی افسانہ ہی لکھنا ہے۔ اس زمانے میں مجھے شاعری میں بہت زیادہ دلچسپی تھی لیکن غزل کی بہ نسبت نئی شاعری زیادہ پسند تھی۔ ن م راشد کی ''ماورا'' نئی نئی شائع ہوئی تھی جس نے مجھے بے حد متاثر کیا لیکن باقاعدہ شاعر بننے کا میں نے نہیں سوچا تھا۔
تنقیدی مضامین میں نے لکھے تھے۔ عسکری صاحب کے ساتھ جب کچھ وقت گزارا تو مجھے احساس ہوا کہ نقاد تو میں نہیں بن سکتا۔ ان کے علم وفضل سے میں اتنا متاثر اور مرعوب ہوا اور یہ جانا کہ نقاد بننا تو اس شخص کو ہی زیبا ہے۔ اگر میں نقاد نہیں بن سکا تو اس کی ذمہ داری عسکری صاحب پر عائد ہوتی ہے۔ ان کو دیکھ کر ہی مجھے محسوس ہوا کہ اس قسم کی اہلیت مجھ میں کبھی پیدا نہیں ہو گی اس لئے نقاد بننے کا خیال مجھے دل سے نکال دینا چاہئے۔
دیومالا اور آج کا دور میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ میں نے یہ سوچا کہ میں برصغیر کی پیداوار ہوں۔ اس کی فکشن کی بڑی روایت ہے، جس نے عالمی سطح پر بھی بڑے اثرات چھوڑے ہیں تو میں ان سے کیوں محروم رہوں تو اس سرچشمہ تک پہنچنے کی میں نے کوشش کی ہے۔ ان کی کلاسیک کے جو بڑے بڑے نمونے تھے، ان کو میں نے پڑھا اور انہیں سمجھنے اور فیض حاصل کرنے کی سعی کی۔ میں بیسویں صدی کے ادب اور مہابھارت کے درمیان فرق نہیں کرتا۔
ایک سرچشمہ میرے لئے وہ ہے ایک سرچشمہ میرے لئے یہ ہے اور ایک سرچشمہ الف لیلہ ہے۔میں ان تخلیق کاروں میں سے ہوں جو لکھنے سے پہلے ہی طے نہیں کر لیتے کہ انہوں نے کیا بات کہنی ہے بس یہ تو کوئی تجربہ یا کوئی واردات ہوتی ہے جسے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں، میں ان ادیبوں میں سے بھی نہیں جو کہانی لکھنے کے بعد اس کی شرح کے قائل ہوں، میں ان افسانہ نگاروں میں سے ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نہ تو میں پڑھنے والوں کو پابند کروں نہ وہ مجھ پر کسی طرح کی پابندی عائد کریں۔ میری طرف سے قاری کو اجازت ہے کہ وہ جو چاہے میری کہانی سے مطلب اخذ کرے۔
ہماری برصغیر کی جو تاریخ ہے اس میں ایک لکھنے والے کی حیثیت سے جو شخصیت آئیڈیل ہو سکتی ہے، وہ امیر خسرو کی شخصیت ہے۔ اس کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ کسی ایک گلی میں بند ہو کر نہیں رہ گیا۔ ایک طرف موسیقی سے اس کا رشتہ ہے، دوسری طرف تصوف سے بھی اس کا تعلق ہے، شاعری میں بھی وہ دستگاہ رکھتا ہے، فارسی شاعری کرتے کرتے اس نے مقامی زبان کا خوب استعمال کیا اور ایسا راستہ دکھا گیا کہ اس کی شاعری ہمیں آج بھی متاثر کرتی ہے۔ دوسری شخصیت جو مجھے متاثر کرتی ہے وہ نظیر اکبرآبادی کی ہے۔
اس کی شخصیت بڑی کھلی ڈلی ہے۔ تہذیبی اور مذہبی اعتبار سے اس کے ہاں کسی قسم کا تعصب نہیں تھا۔ زندگی کا ہر قسم کا تجربہ اس کے لئے قابل قبول ہے۔ ہر طبقہ کا آدمی اس کے لئے قابل قبول ہے۔ ہر مذہبی روایت اس کے لئے قابل قبول ہے۔ اس کے ہاں اتنی وسعت ہے کہ مختلف مذہبی روایتیں اس کے ہاں سانس لیتی نظر آتی ہیں۔ عام خلقت اس کا موضوع ہے۔ انسانی زندگی اس کے لئے بہت بڑا تماشا تھا۔ اسلامی روایت اور تہذیب سے میری بڑی دلچسپی رہی ہے۔ اب جو ہمارے ہاں اسلام کی تعبیر ہو رہی ہے اور جو اینٹی ثقافت رویہ سامنے آ رہا ہے تو اس سے میں پناہ مانگتا ہوں۔ اب اسلام کی جو تعبیر ہو رہی ہے اس میں ثقافت، ادب اور فنون لطیفہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں تو میں اسے قبول نہیں کر سکتا۔ مولانا روم اور امیر خسرو نے اسلام کی جو تعبیر کی اس کا میں بہت قائل ہوں، تو پھر ملا کے اسلام کو کیسے قبول کروں۔
میں نے خاندانی زندگی گزاری، بھرا پرا خاندان تھا، بہنیں تھیں، بھانجے بھانجیاں تھیں۔ خاندان کے افراد کے درمیان وقت گزارنا مجھے بہت اچھا لگتا۔ ازدواجی زندگی کے نتیجے میں خاندان نہیں بنا ۔اولاد نہ ہونے کی مجھے توزیادہ کمی محسوس نہیں ہوئی، البتہ میری بیگم اس کمی کوشدت سے محسوس کرتی تھیں۔ خواتین کے ہاں فطری طورپربھی اولاد کی خواہش مرد کی بہ نسبت زیادہ ہی ہوتی ہے۔ میرے لیے میری کتابیں ہی سب کچھ ہیں۔
ڈیئر انتظار صاحب
یہ جو نظم ہے کیٹس کی، اوڈ ٹو آٹم۔۔۔کب سے سوچ رہی تھی کہ آپ پر مضمون لکھوں اور اسی سے شروع کروں ،،،،برسوں سے آپ کو دیکھ کر اسی کا خیال آتا تھا۔آپ اس نظم کی تصویر جیسے بن گئے تھے۔۔۔اب سنا کہ بہت بیمار ہیں ،،کشور بتا رہی تھیں خون بھی چڑھایا گیا ،بتا رہی تھیں ایرج مبارک رو رہے تھے فون پر۔۔۔۔تب سے آپ کا چہرہ آنکھوں میں گھوم رہا ہے۔۔۔آپ کی آواز یاد آرہی ہے۔۔۔پیارے مدھر لہجے میں کہی باتیں۔۔۔عمر رسیدگی نے کتنا حسین اور قا بل محبت آپ کو بنایا۔ ایسا مشکل ہی کسی اور کے ساتھ گزرتے وقت نے کیا ہو گا۔برسوں سے ایسا ہو چکا تھا، آپ کو دیکھ کر دل خوشی سے کھل اٹھتا تھا باتیں سن کر ذہن کو سکون محسوس ہوتا تھا۔جیسے ان میں ایک عمر کی دانش مندی تھی۔عمر کے ایک لمبے سفر کے گرد جسے آپ نے روشن سا بنا دیا تھا۔کوئی چراغ سا آپ میں جلتا ہے ہمیشہ۔
اب آپ ٹھیک ہو جایئے۔۔۔آپ نے کتنے دکھ دیکھے نا۔۔۔بہت سے خواب آپ کے ٹوٹ گئے۔۔۔شروع میں جانے کیا سوچاتھا۔۔۔پاکستان یوں اور ووں۔۔۔مخالفوں سے خوب جنگیں لڑی تھیں لیکن خواب ٹوٹ گئے۔۔۔اور آپ اپنی سچائی کے ساتھ باقی رہے۔۔۔خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔انسان باقی رہتا ہے۔۔۔۔اور ایسا انسان۔۔۔۔جس سے سب پیار کرنے لگیں۔آپ کی صحت کے لیے بہت سی آنکھیں اشکبار ہیں۔ ٹھیک ہو جایئے انتظار صاحب ۔۔۔
(انتظار حسین کی علالت کی خبر سن کر فیس بک پر ممتاز شاعرہ اور ادیب فہمیدہ ریاض کی پوسٹ)
یہ لوگ اسے کہانی کار سمجھتے ہیں۔ میں دل ہی دل میں ہنستا ہوں کہ اللہ تیری قدرت وہ کیا تھا۔ لیکن لوگ اسے کیا سمجھتے ہیں۔ اگر ہاپوڑ سے نہ نکلتا تو پاپڑ بیچتا۔ڈبائی میں رہتا تو چلمیں بناتا۔ ہاپوڑ اور ڈبائی کے نام میںنے اس لئے لئے کہ وہ ان دو بستیوں سے ہی اپنا ناتا جوڑتا تھا۔ ڈبائی کو اپنی جنم بھومی بتاتا تھا۔ ہاپوڑ میں آ کر چھوٹے سے بڑا ہوا۔ مگر ان دو بستیوں سے اس نے سیکھا کیا۔ ڈبائی کے کمہار جتنی نفیس چلمیں بناتے ہیں اتنی ہی کڈھب اس نے کہانیاں لکھیں اور ہاپوڑ کے پاپڑ جتنے خستہ ہوتے ہیں اتنی ہی کرخت اس نے زبان لکھی۔ ڈبائی کے کمہاروں کا اس پہ پرچھانواں بھی پڑ جاتا تو اس کی کہانیوں کی کایا بدل جاتی ۔
اصلی اور سچی بات یہ ہے کہ وہ بھاگوان تھا۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اس نے ہوش سنبھالا تھا اور قلم بس ہاتھ میں پکڑنے لگا تھا کہ ہندوستان کا بٹوارا ہو گیا۔ ایک الگ ملک پاکستان بن گیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، سپیشل ٹرین میں بیٹھا اور لاہور جا اترا۔ ڈبائی کا روڑا لاہور جا کر ہیرا بن گیا۔ نقلی ہیرا ڈبائی کے گلی کوچوں کا حال لکھ لکھ کر سنانے لگا اور چھپوانے لگا۔ اس دعوے کے ساتھ کہ یہ کہانیاں ہیں۔
ان دنوں جو ہندوستان سے لٹ پٹ کر پاکستان پہنچتا تھا۔ اس کے ساتھ مروت برتی جاتی تھی۔ اسی مروت میں لاہوروالوں نے اسے کہانی کار مان لیا۔ مگر مہاجر اس کی اوقات کو سمجھتے تھے۔ وہاں کافی ہاؤس میں ایک دن اس کی مڈبھیڑ ایک ویٹر سے ہوگئی جو رامپور کا تھا۔ یہ سمجھا کہ ویٹر ہی تو ہے ۔ میں اپنی کہانیوں کا حوالہ دوں گا تو مرعوب ہوجائے گا وہ تھا رام پور کا چھنٹا ہوا۔ اس نے کہیں ان حضرت کی ایک دو کہانیاں پڑھ لی تھیں اور جان لیا تھا کہ یہ کتنے پانی میں ہے۔ کہنے لگا کہ ''انتظار صاحب آپ نے اپنی کہانیوں میں جو زبان لکھی ہے وہ ہمارے رامپور میں کنجڑیاں بولا کرتی ہیں۔ کبھی شریف زادیوں کی زبان اور اشراف کا محاورہ لکھ کر دکھایئے۔''
رامپوری ویٹر کی بات سن کر انتظار حسین اپنا سا منھ لے کر رہ گیا۔ پھر اس نے دلی اور لکھنؤ کا محاورہ لکھنے کے لئے بہت زور مارا مگر کہاں دلی اور لکھنؤ کے اشراف اور کہاں ڈبائی کا روڑا۔ اس نے جلد ہی اپنی حیثیت کو پہچانا اور پینترا بدل لیا۔ دلی والوں کو اپنی کوثر میں دھلی ہوئی اردو پر ناز تھا۔ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں تو گنگا میںدھلی ہوئی اردو لکھتا ہوں۔ کسی نے پوچھ لیا کہ '' یہ اردو تم نے سیکھی کس سے؟'' جواب دیا۔ ''سنت کبیر سے''
پوچھنے والا اس کا منھ تکنے لگا اور بولا۔ ''اردو کا کبیر سے کیا واسطہ؟''
انتظار حسین نے ڈھیٹ بن کر جواب دیا کہ ''کبیر اردو کا سب سے بڑا شاعر ہے۔''
بس ایسی ہی باتیں کر کے وہ اپنی جہالت کو چھپاتاتھا۔ جس زمانے میں اس نے کہانیاں لکھنا شروع کی تھیں اس زمانے میںاردو دنیا میں ٹالسٹائی' دوستوفسکی' گورکی' فلابیر' جوائس ' لارنس جیسے ناول نگاروں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ یہ کتنے بڑے ناول نگار تھے' انتظار حسین کی جانے بلا۔ اس نے الٹی گنگا بہانی شروع کر دی۔ کہنا شروع کر دیا کہ ہمارے بڑے ناول تو اصل میں الف لیلہ اور کتھا سرت ساگر ہیں۔ سو میری ایک بغل میںا لف لیلہ ہے اور دوسری بغل میں کتھا سرت ساگر۔
کسی نے پوچھا کہ ''تم نے کہانی کہنے کا فن کس سے سیکھا ؟''
جواب دیا۔ ''اپنی نانی اماں سے اور مہاتمابدھ سے''
غریب نے نہ او۔ ہنری کو پڑھا تھا نہ موپساں کو۔
پھر اپنی جہالت کو چھپانے کے لئے کوئی ا یسی ہی بات کہنی تھی۔
نئے زمانے کے کیا مسائل ہیں' کیا سمسیائیں ہیں' انتظار حسین کو اس کا ذرا جو پتہ ہو۔ اس لئے اگر ترقی پسندوں نے اسے رجعت پسند' قدامت پرست' ماضی کا مریض' نوسٹا لجیا کامارا ہوا جیسے خطابوں سے نوازا تو کیا برا کیا۔ وہ یہی کچھ تھا۔ ایک ترقی پسند ادیب نے دو ٹوک اس سے پوچھا''اپنی کہانیوں میں تم کس زمانے کی باتیں کرتے ہو؟''
''اپنے زمانے کی'' اس نے جواب دیا۔
''پھر مہاتما بدھ کے زمانے میں کیوں پہنچ جاتے ہو؟''
''اس لئے کہ میں نے اسی زمانے میں جنم لیا تھا۔ آدمی کی جون میں۔ اب پتہ نہیں میں کس جون میں ہوںاور میرے اردگرد جو لوگ ہیں وہ کس جون میں ہیں۔ تھوڑا پہچانتا ہوں تو پیڑوں اور پنچھیوں کو۔ میرے زمانے کے کچھ یہی لوگ باقی رہ گئے ہیں۔''
لاہور میں ایک ترقی پسند نے بڑے پتے کی بات کہی کی یوپی سے بہت سے لوگ اپنا گھر بار لٹا کر خالی ہاتھ پاکستان پہنچے اور یہاں آ کر انہوںنے الاٹمنٹس کرائیں اور دونوں ہاتھوں سے جائز و ناجائز کما کر گھر بھرے۔ مگر انتظار حسین یادوں اور محاوروں کی بھری بوریوں کے ساتھ پاکستان پہنچا۔ اس نے اپنی بوریوں کا منہ کھول دیا ہے اور ہمیں بوجھوں مار رہا ہے۔بالکل صحیح کہا۔ بھلا یادوں سے کہانی بنا کرتی ہے۔ پھر آدمی ایسی ہی کہانی لکھے گا جیسی ہماری نانی امائیں ہمارے بچپن میں ہمیں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ سو انتظار حسین نے بھی عمر بھر ایسی ہی کہانی لکھی۔ میں جب اس کی کہانی پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ کہانی نہیں پڑھ رہا بلکہ اس کی ڈبائی کی کسی ٹوٹی ہوئی سڑک پر چلتے ہوئے یکے میں بیٹھا ہوں۔
اصل میں ڈبائی میں چلم بنانے والے کمہاروں کو تو اس نے بدنام کیا۔ ان والی نفاست تو اس کی کہانی میں کبھی آئی ہی نہیں اور میں نے یہ غلط کہا کہ وہ ڈبائی میں رہتا تو چلمیں بناتا۔ ویسے اسے ڈبائی ہی میں رہنا چاہئے تھا۔ اس قصباتی فضا سے اس کا ذہن کبھی نکلا ہی نہیں۔ وہاں اگر رہتا تو وہاں یکہ چلا کر کچھ دال دلیا کر لیتا۔ جس زمانے میں وہ ڈبائی میں تھا اس زمانے میں اس قصبے کی سڑکوں کی حالت بہت خستہ تھی۔ ان پر یکے اس طرح چلتے تھے کہ سواریوں کے جوڑ جوڑ ہل جاتے تھے۔ وہاں رہتا تو ایسے ہی کسی یکے کا کوچوان ہوتا۔ لاہور آ کر اس نے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ کہانیاں کیا لکھتا تھا یکہ چلاتا تھا۔ ڈبائی کے یکوں کی طرح اس کی کہانیوں کے بھی سارے انجر پنجر ڈھیلے ہیں۔
خیر وہ شخص اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ کیا کہا جائے اور اس نے کون سی نرالی بات کی۔ جو دوسرے مہاجروں نے کیا وہ اس نے بھی کیا۔ کتنے مہاجر ایسے تھے کہ جب یوپی میں تھے تو پھانک تھے۔ پاکستان گئے تو دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹی اور جائیدادیں بنائیں۔ انتظار حسین نے یہی کام دوسرے رنگ سے کیا۔ ڈبائی میں رہتا تو یکہ چلاتا۔ لاہور میں رہ کر کہانی کا ر کار روپ رچایا۔ دونوں ہاتھوں سے داد سمیٹی اور اپنے تئیں بڑا ادیب جاننے لگا۔
اب الاٹمنٹ کی بات بھی سن لو۔ جب مہاجر اپنے اپنے کلیم داخل کر رہے تھے تو ایک لاہوری دوست نے اس سے کہاکہ ''یار تم بھی اپنا کلیم داخل کر دو۔''
اب وہ یہ تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ ادھر وہ کوئی جائیداد چھوڑ کر نہیں آیا ہے۔ جھوٹی شان نے اسے یہ بات کہنے کی اجازت نہیںدی۔ کہایوں کہ ''میں تو تاج محل چھوڑ کر آیا ہوں۔ کہو تو اس کاکلیم داخل کر دوں۔''
اس نے مزاحاً کہا۔ ''اس کے سوا بھی تو کچھ چھوڑ کر آئے ہو گے؟''
کہا کہ ''ہاں تاج محل کے سوا نیم کا پیڑ چھوڑ کر آیا ہوں۔''
بس ایسے ہی بے تکی باتیں کر کے اپنی بے حیثیتی کو چھپاتا رہا۔ اب اللہ کو پیارا ہوا۔ ڈبائی کی پریشاں خاک لاہور میں آسودہ ہوئی۔ آج ڈبائی میں اسے کوئی نہیں جانتا۔ کل لاہور میں بھی اسے کوئی نہیں جانے لگا۔ خیر وقتی طور پر اس نے جھوٹ سچ لکھ کر کچھ نام پیدا کر لیا تھا۔ اس کا جھوٹ سچ اس کے ساتھ گیا۔ خاک میں مل کر خاک ہوا۔ اللہ اس کی مغفرت کرے۔
میں کیوں لکھتا ہوں (انتظار حسین)
اگلے زمانے میں ایک سوداگر تھا جس کی سات بیویاں تھیں۔ ایک دفعہ کیا ہوا کہ اسے بیوپار کے سلسلے میں سفر پر جانا پڑ گیا۔ وہ باری باری چھیوں بیویوں کے پاس گیا اور بولا کہ ''بی بی ہم پردیس جاتے ہیں کہو تمہارے لئے کیا تحفہ لائیں؟'' سب بیویوں نے بڑی بڑی لمبی چوڑی فرمائشیں کیں۔ پھر آئی ساتویں بیوی کی باری... جس سے سوداگر کو ایسا انس تو نہیں تھا مگر اس نے سوچا کہ رسم تو پوری کر ہی لینی چاہئے، ساتویں بیوی نے نہ کسی قیمتی زیور کی فرمائش کی نہ کسی بھاری پوشاک کی۔ بس ایک سبز پنکھیا لے آنے کو کہہ دیا۔
سوداگر جب اپنا کاروبار کر کے پردیس سے واپس ہونے لگا تو اس نے بازار جا کر بیویوں کے لئے پرتکلف تحفے تحائف خریدے مگر سبز پنکھیا اس کے ذہن سے اتر گئی۔ جب وہ جہاز میں آ کر بیٹھا تو عجب ماجرا گزرا کہ جہاز اپنی جگہ سے حرکت ہی نہ کرے۔ جہازی سرگرداں اور مسافر پریشان کہ جہاز آخر کیوں نہیں چلتا۔ کسی پہنچے ہوئے بزرگ نے کہا کہ بھائی تم میں سے کوئی مسافر اپنا کام کرنا بھول گیا ہے۔ جب تک وہ کام پورا نہیں ہو گا، جہاز حرکت میں نہ آئے گا۔ ہر مسافر سے باری باری سوال کئے گئے۔ سب نے اپنے اپنے کام گنا دیئے۔ جب آئی سوداگر کی باری تو اسے اپنی بیویوں کے تحفے گناتے گناتے اچانک ساتویں بیوی کی سبز پنکھیا یاد آئی۔ جہاز والوں نے کہا کہ بھائی سبز پنکھیا تلاش کرو اور جلدی آؤ کہ جہاز کسی طرح روانہ ہو۔
میں بھی ایک سفر پر نکلا ہوا ہوں اور سبز پنکھیا ڈھونڈتا ہوں۔ پرانی کہانیوں اور داستانوں کے شہزادے اور سوداگر خوش نصیب ہوتے تھے کہ ناکامیوں اور پریشانیوں کے بعد بالآخر گوہر مراد کو پا لیتے تھے مگر جس سفر پہ میں نکلا ہوں اس میں گوہر مراد تو کم ہی لوگوں کو ملا ہے، شعبدے البتہ بہت ملتے ہیں۔ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں کوئی بڑا دعویٰ کر بیٹھا ہوں۔ ویسے میں کیوں لکھتا ہوں؟ کے سوال کے جواب کی کوشش خود کیا ایک دعویٰ نہیں؟ اور یہ دعویٰ اپنے یہاں کس کو نہیں ہے؟ مگر میں تو یوں سوچتا ہوں کہ فرض کیجئے کہ چیخوف کے ملک میں اس کی زندگی میں یا اس کے مرنے کے فوراً بعد میں لکھ رہا ہوتا تو کیا میں یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کرتا؟ اللہ کی قسم میرا تو قلم تھرانے لگتا ہے لیکن میں یہاں ڈروں کس سے؟
میں جس زبان میں لکھتا ہوں اس میں افسانہ نگار بے شک ہوئے ہیں لیکن نصف صدی سے کچھ کم ادھر۔ اس کے بعد جو لوگ آئے اور بالخصوص وہ فوج جو 36ء والی تحریک کے ساتھ آئی۔ یہ کون لوگ ہیں میں انہیں نہیں پہچانتا۔ انہیں دیکھ کر تو مجھے داستانوں کے شعبدہ بازوں کا خیال آتا ہے۔ آخر میں کس کی پیروی کروں اور کس کے خلاف بغاوت کروں، ان کی کوئی تحریر نہ تو میرا راستہ روکتی ہے اور نہ راستہ دکھاتی ہے۔ مجھے اس کام کے لئے دور کے دور پھلانگ کر اس دور میں پہنچنا پڑتا ہے جب ''آبِ حیات'' شائع ہوئی تھی۔ مولانا محمد حسین آزاد اور ان سے پہلے اور آس پاس کے دنوں کے چند اور افسانہ نگار بیشک صاحب تخلیق لوگ تھے، سیاح تھے۔ بس انہوں نے چھ بیویوں کے تحائف فراہم کئے ہیں۔ سبز پنکھیا میں نے کسی کے یہاں نہیں دیکھی۔
یہ سبز پنکھیا کیا ہے؟... یہ سوچتے ہوئے میرا تصور اس وقت کی داستانوں کی فضا سے بہک کر اپنے بچپن کے گھر کے اس بالائی کوٹھے پر جا پہنچا ہے جہاں عقب میں ایک بڑا سا جنگلا تھا اور اس سے پرے ایک بوسیدہ سا چھجہ جس پہ نہ جانے کب سے مٹی جم رہی تھی۔ برسات کے دنوں میں اس پہ عجیب سی گھاس اگ آئی تھی۔ نرم پتلی سی سیدھی شاخ پھننگ پہ سبز ورقہ سا لپٹا ہوا کچھ اس شکل کا جس شکل کا پتوں میں لپٹا ہوا بھٹا ہوتا ہے۔ شاخ لمبی ہوتی جاتی اور وہ ورقہ کھلتا جاتا، سفید سفید رواں اندر سے جھانکتا۔ پھر ایک ملائم سا لمبوترا خوشنما گالا ہوا میں لہلہانے لگتا۔ میری زبان میں شاید اس پودے کے لئے کوئی نام موجود نہیں ہے۔
میرے متقدمین نے تو سبزے کے پورے قافلہ ہی کو بیگانہ کہہ کر فطرت کی برادری سے خارج کر دیا تھا۔ ویسے ہم اس پودے کو بھٹے کہا کرتے تھے۔ نہ جانے کتنی مرتبہ میں نے اسے توڑنے کی کوشش کی ہو گی مگر جنگلے میں میرا ہاتھ پھنس جاتا اور وہ پودے میرے دسترس سے پرے بے نیازی سے لہلہاتے رہتے۔ کبھی کبھی ابر آتا تو ان پودوں میں پہلے ایک بہت ہلکی تھرتھری پیدا ہوتی اور پھر ایکایکی ہوا کے جھونکوں سے وہ جھونٹے سے لینے لگتے۔ یہ ہے وہ لمحہ جسے گرفت کرنے کے لئے میں نے افسانہ نگاری کا جال پھیلایا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس پودے کو، اس کی نیم محسوس لرزش کو بس میں نے دیکھا ہے۔ صحیفۂ فطرت کی یہ آیت مجھ پر، میرے وجدانی نفس پراتری ہے۔ مجھے اس پودے کا 'اسم' تخلیق کرنا ہے اور اس کی خفی لرزش کو ایک جلی شکل میں ڈھالنا ہے۔
باغ کا یہ ذرۂ زمین اب تک نگاہوں سے اوجھل تھا، بیکار تھا، باغ سے باہر تھا۔ اب میری تفسیر سے یہ باغ کا جز بنے گا۔ اس ذرے کی میں یوں تفسیر کروں کہ اس کا انفرادی حسن بھی نظر آئے اور وہ حسن آیتوں کے اس پورے نظام سے پیدا ہونے والے حسن کا بھی جز نظر آئے جسے فطرت کہتے ہیں... اگر میں نے یہ فرض ادا نہ کیا تو فطرت کا تصور اس زمانے میں جس حد تک مکمل ہونا چاہئے... مکمل نہیں ہو گا اور یہ ایک گناہ ہو گا جس کا مجھ پر عذاب پڑے گا اگر یہ فریضہ ادا ہو تو سفر کامیاب رہا اور سبز پنکھیا مل گئی مگر پھر سوچتا ہوں کہ جب اپنے سے جنگلے کی سلاخیں زیر نہ ہو سکیں تو اس لمبے سفر میں آنے والی بڑی مشکلات پر کیونکر غلبہ حاصل ہو سکے گا۔
اپنا یہ مکان ڈبائی میں تھا جسے گنگا کا پانی سیراب کرتا تھا مگر میں نے اور دریا بھی تو دیکھے ہیں اور ان سے سیراب ہونے والی مٹی پر اگتا ہوا دوسرے رنگوں کا سبزہ بھی دیکھا ہے۔ گنگاجل سے بھیگی ہوئی زمین میں جنم لیا، جمنا سے تر ہونے والی زمین پر ہوش سنبھالا۔ اب راوی کے کنارے چھاؤنی چھائی ہے۔ پھر ان سب سے آگے ایک دریا ہے۔ دریائے فرات جس کا ساحل مولد بھی ہے مسکن بھی ہے اور مرجع بھی۔ مجھ سے پہلے ایک شخص گزرا ہے انیس جو گومتی اور فرات کے بیچ میں کھڑا تھا۔ اس نے دونوں دریاؤں کو کاٹ کر اپنا تیسرا ایک دریا نکال لیا۔ میں چار دریاؤں کے جال میں گھرا ہوں۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس سے شاید مجھ سے پہلے کے کسی لکھنے والے کو پالا نہیں پڑا تھا۔ پھر حال اپنا یہ ہے کہ بازو میں نہ وہ انیسؔ والا زور اور نہ اس کے جیسا تیشہ مگر خواب یہ دیکھتا ہوں کہ انہیں کاٹ کر اپنا پانچواں دریا نکالوں گا۔ اس خودفریبی کی کوئی حد ہے۔
انیسؔ، نظیرؔ، مولانا محمد حسین آزادؔ... یہ چند ہستیاں میرا راستہ روکتی بھی ہیں اور مجھے رستہ دکھاتی بھی ہیں۔ نظیرؔ کو جب میں پڑھتا ہوں تو مجھے اس آیت کا رشتہ ہاتھ آتا ہے جو اس خستہ چھجے کے وسیلہ سے مجھ پر اتری تھی۔ اور 'آبِ حیات' مجھے واقعی کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ اردو میں پہلا ناول آزادؔ نے لکھا تھا اور دوسرا ناول میں لکھوں گا۔ لیکن یہی کتاب میرا رستہ بھی روکتی ہے۔ وہ ضمنی کردار تک جو بس تھوڑی تھوڑی سطروں میں بیان ہوئے ہیں۔ مجھے چیلنج کرتے ہیں کہ ہم جیسا کوئی جیتا جاگتا کردار تخلیق کیا ہو تو سامنے لاؤ۔ اس کے وہ فقرے جو ایک پورے سماج کے شعور میں اتر گئے ہیں، مجھے ٹوکتے ہیں کہ ایسی نثر لکھی ہو تو پیش کرو۔
لکھنے والوں کی یہ وہ نسل ہے جس کی میں نے پیروی کی ہے اور جس سے میں بغاوت پہ بھی تلا بیٹھا ہوں۔ میں نثر لکھنا چاہتا ہوں لیکن محمد حسین آزاد کی نثر نہیں، اپنی نثر۔ میرے افسانوں کی زبان پہ خاصی واہ واہ ہوئی ہے حالانکہ میرے افسانوں کا جو سب سے کمزور پہلو ہے وہ یہی زبان ہے۔ کمبخت یہ شے تو میرے قابو میں کم ازکم اب تک تو بالکل ہی نہیں آئی ہے۔ اظہار کے بنے بنائے سانچوں کو میں نے اگر ذرا سلیقہ سے استعمال کر بھی لیا تو کیا تیر مارا۔ میں نے اپنا سانچہ کہاں بنایا ہے۔ یہ خام آہن میرے ہاتھوں میں موم نہیں بنتا۔ اس خیبر کے دروازے میں جب تک میری انگلیاں یوں در نہ آئیں جیسے آٹے میں در آتی ہیں اس وقت تک میں کیسے سمجھ لوں کہ خیبر فتح ہو گیا۔ مجھ پر جو آیت اتری ہے وہ تو اپنی زبان بھی الگ لائی تھی۔ وہ تر وتازہ زبان میرے حافظہ سے اتر گئی ہے۔ ایک طرف تو میں اس زبان کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور دوسری طرف یہ سوچ رہا ہوں کہ میں نے جو چار دریاؤں کا پانی پیا ہے ان چاروں کی روانی بیک وقت میری زبان کی آہنگ میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔
مجھے یہاں اپنے ایک اور احساس کا ذکر کر دینا چاہئے۔ اس سفر میں میں اپنے آپ کو اکیلا بھی سمجھتا ہوں مگر اکثر رستوں پہ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو اپنے ساتھ چل رہے ہیں، شاید وہ بھی سبز پنکھیا کی جستجو میں ہیں۔ شاید یہ ہے نئی نسل کا احساس۔ ہم سفری کا بھی احساس اور مسابقت اور مقابلہ کا بھی احساس۔ اس نئی نسل اور اس پرانی نسل سے ہٹ کر جن کے خلاف میں نے اپنے احساسِ بغاوت کا ذکر کیا ہے باقی جو لمبا چوڑا گروہ ہے اور جس میں سے بہت سے اب بھی زندہ ہیں اور لکھتے ہیں۔ انہیں اظہار کی آسانی کے لئے پرانی نسل بھی کہا جاسکتا ہے۔
میں نے اس پہلو سے کبھی نہیں سوچا کہ اگر سبز پنکھیا نہ ملی تو کیا ہو گا۔ سبز پنکھیا کا احساس بنفسہٖ کیا کم بڑی دولت ہے۔ احساس جو اس نئے عہد کا احساس ہے۔ پچھلی نسلوں نے جس بنیادی بات کو غیراہم سمجھ کر بھلا دیا تھا اسے ہم نئے لوگوں نے پھر اہم سمجھا ہے اور اس کی معنویت کے انکشاف کی ٹھانی ہے۔ مجھے سبز پنکھیا نہ ملے گی تو اور کوئی ہم سفر ڈھونڈ نکالے گا۔ یوں بھی ہو سکتا ہے اور یہ بات زیادہ جچتی ہے کہ پوری نئی نسل مل کر سبز پنکھیا ڈھونڈے گی اور رکے ہوئے جہاز کے چلنے کا بندوبست کرے گی۔
ممتاز ادیب انتظارحسین سے ہم نے ایکسپریس سنڈے میگزین کے لیے مارچ2009ء میں انٹرویوکیا تھا، جس سے چیدہ چیدہ اقتباسات شائع کئے جارہے ہیں۔
پاکستان ہجرت کی کہانی
جس طریقے سے پاکستان آیا، اس وقت تو ایسا لگتا تھا جیسے تاریخ ہمیں دھکا دے رہی ہے اور اس کی رو میں ہم بہتے چلے جا رہے ہیں۔ شعوری طور پر میں نے کچھ طے نہیں کیا تھا۔ نہ یہ سوچا تھا کہ یہ ملک جو بن رہا ہے، ہم سے کیا تقاضا کر رہا ہے اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں اس کے کیا معنی نکلتے ہیں۔ وہ ہماری عمر بھی نہیں تھی، اس انداز سے سوچنے کی۔ اس وقت جو صورت حال تھی اس کو میں دو ادوار میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک وہ دور تھا جب جدوجہد جاری تھی اور مسلمانوں میں بڑا جوش وخروش تھا۔ دوسرا وہ دور تھا جب تین جون کو تقسیم ہند کا اعلان ہوا۔ میرٹھ میں آل انڈیا ریڈیو سے قائداعظم کی تقریر بڑے جوش وخروش سے سنی گئی۔ یہ ماحول بڑا جذباتی تھا۔
اس اعلان کے بعد جو دوسرا دور شروع ہوا اس میں میں نے دیکھا کہ ایک ہفتے کے اندر مسلمان جیسے بجھ گئے ہوں۔ مسلمانوں میں بے اطمینانی پیدا ہوئی اور مستقبل کے اندیشوں نے انہیں گھیر لیا۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ہم یہاں رہ سکیں گے کہ نہیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد فسادات شروع ہو گئے۔ میرٹھ سے دہلی قریب تھا، جب وہاں اتنا بڑا فساد ہو گیا اور بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی تو شہر میں پریشانی اور بڑھ گئی۔ اسی دوران سپیشل ٹرین چلی۔ اب نقل مکانی شروع ہوئی تو میرٹھ سے بھی بہت سے لوگوں نے پاکستان جانے کی ٹھانی، اسی رو میں جب بہت سے لوگ آ رہے تھے، میں بھی ان کے ساتھ ادھر آ گیا۔ ہم جن لوگوں پر بھروسہ کر رہے تھے، ان کے قدم بھی اکھڑ گئے، جیسے عسکری صاحب جو پہلے ہی لاہور ہجرت کر چکے تھے۔
عسکری صاحب کا مجھے پیغام ملا کہ تم لاہور آ جاؤ۔ عسکری صاحب کے بھروسے پر میں یہاں آ گیا۔ اگر عسکری صاحب لاہور نہ ہوتے تو میں کبھی نہ آتا۔ اس زمانے میں ریڈیو پراپنے خاندان والوں اورعزیزوں کے نام پیغام نشرہوتے تھے اوراگرمتعلقہ بندہ پیغام نہ بھی سن سکتا تواس کا کوئی جاننے والا، اسے، اگراس نے پیغام سنا ہوتواطلاع کردیتا۔ اس وقت خیال نہیں تھا کہ مستقل طور پرپاکستان جارہا ہوں ۔ بس یہ تھا کہ عسکری صاحب نے بلایا ہے توچل کردیکھتے ہیں کہ اس شہرمیں کیا نقشہ ہے ۔ پھرجب ہم یہاں آگئے توذہنی طورپرمیں نے سمجھا کہ بس اب یہاں آگئے۔ اس وقت میں اکیلا ہی یہاں آیا۔ میرے خاندان نے اس وقت تک نقل مکانی کا ارادہ نہیں کیا تھا ۔ بعد میں وہ رفتہ رفتہ یہاں آتے گئے ۔
افسانہ نویسی کا آغاز
افسانہ نویسی کا آغاز بھی اس داروگیر میں ہوا۔ میرٹھ ہی میں میں نے دو کہانیاں ''قیوما کی دکان'' اور'' استاد'' لکھ رکھی تھیں۔ پاکستان آ کر میں نے ان کو سنوارا اور نوک پلک درست کی۔ یہ دونوں کہانیاں میری پہلی کتاب ''گلی کوچے'' میں شامل ہیں۔ میں نے پہلے طے نہیں کیا تھا کہ مجھے واقعی افسانہ ہی لکھنا ہے۔ اس زمانے میں مجھے شاعری میں بہت زیادہ دلچسپی تھی لیکن غزل کی بہ نسبت نئی شاعری زیادہ پسند تھی۔ ن م راشد کی ''ماورا'' نئی نئی شائع ہوئی تھی جس نے مجھے بے حد متاثر کیا لیکن باقاعدہ شاعر بننے کا میں نے نہیں سوچا تھا۔
تنقیدی مضامین میں نے لکھے تھے۔ عسکری صاحب کے ساتھ جب کچھ وقت گزارا تو مجھے احساس ہوا کہ نقاد تو میں نہیں بن سکتا۔ ان کے علم وفضل سے میں اتنا متاثر اور مرعوب ہوا اور یہ جانا کہ نقاد بننا تو اس شخص کو ہی زیبا ہے۔ اگر میں نقاد نہیں بن سکا تو اس کی ذمہ داری عسکری صاحب پر عائد ہوتی ہے۔ ان کو دیکھ کر ہی مجھے محسوس ہوا کہ اس قسم کی اہلیت مجھ میں کبھی پیدا نہیں ہو گی اس لئے نقاد بننے کا خیال مجھے دل سے نکال دینا چاہئے۔
تخلیق کے سرچشمے
دیومالا اور آج کا دور میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ میں نے یہ سوچا کہ میں برصغیر کی پیداوار ہوں۔ اس کی فکشن کی بڑی روایت ہے، جس نے عالمی سطح پر بھی بڑے اثرات چھوڑے ہیں تو میں ان سے کیوں محروم رہوں تو اس سرچشمہ تک پہنچنے کی میں نے کوشش کی ہے۔ ان کی کلاسیک کے جو بڑے بڑے نمونے تھے، ان کو میں نے پڑھا اور انہیں سمجھنے اور فیض حاصل کرنے کی سعی کی۔ میں بیسویں صدی کے ادب اور مہابھارت کے درمیان فرق نہیں کرتا۔
ایک سرچشمہ میرے لئے وہ ہے ایک سرچشمہ میرے لئے یہ ہے اور ایک سرچشمہ الف لیلہ ہے۔میں ان تخلیق کاروں میں سے ہوں جو لکھنے سے پہلے ہی طے نہیں کر لیتے کہ انہوں نے کیا بات کہنی ہے بس یہ تو کوئی تجربہ یا کوئی واردات ہوتی ہے جسے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں، میں ان ادیبوں میں سے بھی نہیں جو کہانی لکھنے کے بعد اس کی شرح کے قائل ہوں، میں ان افسانہ نگاروں میں سے ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نہ تو میں پڑھنے والوں کو پابند کروں نہ وہ مجھ پر کسی طرح کی پابندی عائد کریں۔ میری طرف سے قاری کو اجازت ہے کہ وہ جو چاہے میری کہانی سے مطلب اخذ کرے۔
آئیڈیل شخصیت
ہماری برصغیر کی جو تاریخ ہے اس میں ایک لکھنے والے کی حیثیت سے جو شخصیت آئیڈیل ہو سکتی ہے، وہ امیر خسرو کی شخصیت ہے۔ اس کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ کسی ایک گلی میں بند ہو کر نہیں رہ گیا۔ ایک طرف موسیقی سے اس کا رشتہ ہے، دوسری طرف تصوف سے بھی اس کا تعلق ہے، شاعری میں بھی وہ دستگاہ رکھتا ہے، فارسی شاعری کرتے کرتے اس نے مقامی زبان کا خوب استعمال کیا اور ایسا راستہ دکھا گیا کہ اس کی شاعری ہمیں آج بھی متاثر کرتی ہے۔ دوسری شخصیت جو مجھے متاثر کرتی ہے وہ نظیر اکبرآبادی کی ہے۔
اس کی شخصیت بڑی کھلی ڈلی ہے۔ تہذیبی اور مذہبی اعتبار سے اس کے ہاں کسی قسم کا تعصب نہیں تھا۔ زندگی کا ہر قسم کا تجربہ اس کے لئے قابل قبول ہے۔ ہر طبقہ کا آدمی اس کے لئے قابل قبول ہے۔ ہر مذہبی روایت اس کے لئے قابل قبول ہے۔ اس کے ہاں اتنی وسعت ہے کہ مختلف مذہبی روایتیں اس کے ہاں سانس لیتی نظر آتی ہیں۔ عام خلقت اس کا موضوع ہے۔ انسانی زندگی اس کے لئے بہت بڑا تماشا تھا۔ اسلامی روایت اور تہذیب سے میری بڑی دلچسپی رہی ہے۔ اب جو ہمارے ہاں اسلام کی تعبیر ہو رہی ہے اور جو اینٹی ثقافت رویہ سامنے آ رہا ہے تو اس سے میں پناہ مانگتا ہوں۔ اب اسلام کی جو تعبیر ہو رہی ہے اس میں ثقافت، ادب اور فنون لطیفہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں تو میں اسے قبول نہیں کر سکتا۔ مولانا روم اور امیر خسرو نے اسلام کی جو تعبیر کی اس کا میں بہت قائل ہوں، تو پھر ملا کے اسلام کو کیسے قبول کروں۔
کتابیں ہی سب کچھ ہیں
میں نے خاندانی زندگی گزاری، بھرا پرا خاندان تھا، بہنیں تھیں، بھانجے بھانجیاں تھیں۔ خاندان کے افراد کے درمیان وقت گزارنا مجھے بہت اچھا لگتا۔ ازدواجی زندگی کے نتیجے میں خاندان نہیں بنا ۔اولاد نہ ہونے کی مجھے توزیادہ کمی محسوس نہیں ہوئی، البتہ میری بیگم اس کمی کوشدت سے محسوس کرتی تھیں۔ خواتین کے ہاں فطری طورپربھی اولاد کی خواہش مرد کی بہ نسبت زیادہ ہی ہوتی ہے۔ میرے لیے میری کتابیں ہی سب کچھ ہیں۔
ڈیئر انتظار صاحب
یہ جو نظم ہے کیٹس کی، اوڈ ٹو آٹم۔۔۔کب سے سوچ رہی تھی کہ آپ پر مضمون لکھوں اور اسی سے شروع کروں ،،،،برسوں سے آپ کو دیکھ کر اسی کا خیال آتا تھا۔آپ اس نظم کی تصویر جیسے بن گئے تھے۔۔۔اب سنا کہ بہت بیمار ہیں ،،کشور بتا رہی تھیں خون بھی چڑھایا گیا ،بتا رہی تھیں ایرج مبارک رو رہے تھے فون پر۔۔۔۔تب سے آپ کا چہرہ آنکھوں میں گھوم رہا ہے۔۔۔آپ کی آواز یاد آرہی ہے۔۔۔پیارے مدھر لہجے میں کہی باتیں۔۔۔عمر رسیدگی نے کتنا حسین اور قا بل محبت آپ کو بنایا۔ ایسا مشکل ہی کسی اور کے ساتھ گزرتے وقت نے کیا ہو گا۔برسوں سے ایسا ہو چکا تھا، آپ کو دیکھ کر دل خوشی سے کھل اٹھتا تھا باتیں سن کر ذہن کو سکون محسوس ہوتا تھا۔جیسے ان میں ایک عمر کی دانش مندی تھی۔عمر کے ایک لمبے سفر کے گرد جسے آپ نے روشن سا بنا دیا تھا۔کوئی چراغ سا آپ میں جلتا ہے ہمیشہ۔
اب آپ ٹھیک ہو جایئے۔۔۔آپ نے کتنے دکھ دیکھے نا۔۔۔بہت سے خواب آپ کے ٹوٹ گئے۔۔۔شروع میں جانے کیا سوچاتھا۔۔۔پاکستان یوں اور ووں۔۔۔مخالفوں سے خوب جنگیں لڑی تھیں لیکن خواب ٹوٹ گئے۔۔۔اور آپ اپنی سچائی کے ساتھ باقی رہے۔۔۔خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔انسان باقی رہتا ہے۔۔۔۔اور ایسا انسان۔۔۔۔جس سے سب پیار کرنے لگیں۔آپ کی صحت کے لیے بہت سی آنکھیں اشکبار ہیں۔ ٹھیک ہو جایئے انتظار صاحب ۔۔۔
(انتظار حسین کی علالت کی خبر سن کر فیس بک پر ممتاز شاعرہ اور ادیب فہمیدہ ریاض کی پوسٹ)