پی آئی اے ملازمین کا قاتل کون

ایک شاندار ماضی کا حامل ادارہ جب اس حال کو پہنچ جائے تو اس کے ذمہ دارعوام نہیں سرکار کی کوتاہیاں ہوتی ہیں۔


خرم زکی February 03, 2016
غلطیوں کو سنورانا دانشمندی ہے نہ کہ اپنے سر سے بلا ٹالتے ہوئے عوام کو مصیبتوں کے دلدل میں دھکیل دیا جائے۔ فوٹو : فائل

پُر امن احتجاج کیسے پُر تشدد ہوا اور کیسے ذرا سی دیر میں مقتل گاہ بن گیا، یہ بات سمجھنے سے میں اب تک قاصر ہوں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس طرح بے گناہ انسانوں کے قتل پر دل افسردہ ہے۔ دن بھر ملک کے مختلف شہروں میں پریشان حال پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی اے آئی) کی خواتین، جوان اور ضعیف ملازمین نجکاری کے فیصلے کیخلاف اور مطالبات کے حق میں احتجاجی دھرنا اور مظاہرے کرتے رہے۔

کل بیشتر وقت ٹی وی چینلز انہی مظاہرین کی تصاویر اور اس سے متعلق خبریں نشر کرتے رہے، جس کی بدولت صورتحال کا اندازہ ہوتا رہا۔ نہایت افسوسناک مناظر آنکھوں سے گزرے، جن میں خواتین بھی نظر آئیں جو واٹر کینن کے استعمال اور اس ہنگامی آرائی کے دوران پتھراؤ سے زخمی ہوگئیں تھیں اور ماتھے سے خون رس رہا تھا۔ جمہوری ریاست کے طاقت کا سر چشمہ عوام کی یہ حالت اپنی ریاستی طاقت کا منہ زور ثبوت تھا۔



اس سے پہلے کے پی آئی اے کی حالتِ زار اور نجکاری کے فیصلے کا جائزہ لیں، پہلے ایک نظر ذرا احتجاج کے حق پر ڈال لیتے ہیں جو کسی بھی جمہوری ریاست کا بنیادی ستون ہوتے ہیں، یعنی اُس ریاست کی عوام، جنہیں آئینی اصطلاح میں ''طاقت کا سر چشمہ '' کہا جاتا ہے، اور ''فریڈم آف ایکسپریشن'' کے تحت عالمی طور پر مسلمہ قانون کے مطابق ریاست کے ہر شہری کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کے اظہار میں آزاد ہوتے ہیں اور اگر انہیں نمائندہ حکومت کے بھی کسی اقدام سے اختلاف ہو تو وہ اس بات کا پورا حق رکھتے ہیں کہ پُر امن طور پر اپنے اختلافِ رائے کو احتجاج کی صورت میں ظاہر کر سکیں۔

اسی حق کے استعمال کیلئے گزشتہ روز قومی ائیر لائن کے ملازمین سڑکوں پر نکلے اور نجکاری کے فیصلے کیخلاف احتجاجاً ہڑتال کی کال دی اور حکومت کے خلاف ریلی بھی نکالی لیکن کراچی میں صورتِ حال اس وقت سنگین ہوگئی جب اس احتجاجی ریلی نے اپنا رخ جناح ٹرمینل کی جانب کرنا چاہا، جس کے نتیجہ میں مظاہرین اور سیکیورٹی اداروں میں تصادم شروع ہوگیا اور بد قسمتی سے جو 2 معصوم افراد کی زندگیوں کے خاتمے پر متنج ہوا اور بات یہی نہیں رُکی بلکہ خواتین سمیت کئی افراد زخمی بھی ہوگئے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اگر مظاہرین پُر امن نہیں رہے تو بھی اس صورت میں نہتے بے گناہ افراد پر گولیاں برسانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اور اگر یہ گولیاں کسی تیسری جانب سے داغی گئیں تو مظاہرین کی حفاظت کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟



اب بات ہوجائے ذرا حکومتی موقف کی، جس کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کا یومیہ خسارہ 10 کروڑ روپے ہے اور سرکارِ پاکستان سالانہ 350 کروڑ کا نقصان برداشت کرنے کی متحمل نہیں، اس لئے نجکاری تو لازم ہے۔ لیکن جناب محترم وزیرِ اعظم اور ان کی کابینہ ذرا یہ بتلادے کہ اس پُر ہنگم مہنگائی کے دور میں جب دو وقت کا دال دلیہ چلانا غریب اور متوسط طبقے کی زندگی کا مقصد عظیم بنا ہوا ہے تو اس طرح ہزاروں ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو اس ممکنہ معاشی تباہی کے خدشات میں جھونکنا کیا انصاف ہوگا؟

جہاں پہلے ہی سرکار کی ناعاقبت اندیشیوں اور کرپشن کی داستانوں نے یہ دن دکھائے ہیں کہ غریب اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہے، نوکریوں کے حصول کیلئے پہلے ہی لاکھوں نوجوان جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں، کون چاہے گا کہ لگی بندھی روزی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے؟ ہاں لیکن اگر اب آپ عالمی مالیاتی ادارے کو بھاری قرضوں کےعوض اپنے اثاثہ جات کی نیلامی کا یقین دلا دیں تو پھر سب کچھ ممکن ہے۔ جس ملک کے وزیر اعظم کو آلو کی قیمت معلوم نہ ہو وہ غریب کی حالت سے کیوں کر واقف ہوسکتا ہے۔

ایک شاندار ماضی کا حامل ادارہ جب اس حال کو پہنچ جائے تو اس کے ذمہ دارعوام نہیں سرکار کی کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ ان غلطیوں کو سنورانا دانشمندی ہے نہ کہ اپنے سر سے بلا ٹالتے ہوئے عوام کو مصیبتوں کے دلدل میں دھکیل دیا جائے۔ ذرا اس معاملے پر سنجیدگی اختیار کیجئے اور آج کے واقعہ سے نصیحت پکڑی جائے تو بڑی مہربانی ہے، شاید آپ کو اندازہ نہیں کہ اس تمام تر صورتِ حال کا اندازہ کون سے عناصر اٹھا سکتے ہیں۔ آپ کو نجکاری کرنا ہی ٹھہری تو پہلے ملازمین کو اعتماد میں لے کر کسی اطمینان بخش تجویز کی گنجائش نکالئے۔ اس طرح نہتے عوام پر گولیاں برسانا چاہے وہ کسی بھی جانب سے ہو، جمہوریت کی توہین ہے۔ میں بطور سول سوسائٹی کا ممبر ہونے کے جاں بحق ملازمین کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہوں اور مجھ سمیت یہ کروڑوں پاکستانی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان مقتولین کے قتل کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ اس کے علاوہ ان کے اہل خانہ کی کفالت کی تمام تر ذمہ داری بھی آپ پر عائد ہوتی ہے، شہریوں کو حقوق کی فراہمی منتخب حکومت کا فرض ہے۔

[poll id="932"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں