گدھا ’انسان‘

جو لوگ ظلم کے سامنے خاموشی رہتے ہیں، ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوتے، ایسے لوگوں کیلئے گدھے کا لقب استعمال کیا جاتا ہے۔


شاہ خالد February 03, 2016
گدھا اپنی ساری خصوصیات کےعلاوہ انسانوں کیلئے نشانِ عبرت بھی ہے۔ ہم اس کی فطرت کو بدل تو نہیں سکتے، لیکن اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کچھ سبق ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔ فوٹو :فائل

یہاں گدھے سے مراد وہ نہیں جس کے گوشت میں آج کل دنیا جہاں کے مقبول ترین کھانے بنتے ہیں بلکہ ہائی اسکول کے اساتذہ کرام کا پسندیدہ ترین وہ لفظ ہے، جسے مسلسل 10 سال تک سن کر ہم نے میٹرک کی سند حاصل کی تھی- ہمیں نہ تو اس لفظ کے بے دریغ استعمال پر کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی اس سے منصوب جانور سے کوئی نفرت۔ کچھ شکایت اگر ہے تو اس کی معنی و مفہوم سے ہے۔

آدم سے لیکر تا دم تک اگر انسان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات بڑی واضح ہے کہ گدھے ہمیشہ انسان کے دست راست رہے ہیں۔ بار برداری سے لے کر دکانداری تک اور سواری سے لے کر ترکاری تک سب میں گدھوں کا نام استعمال ہوتا رہا ہے، اب تو سنا ہے گدھے کے چمڑے سے اعلٰی قسم کے کاسمیٹکس بھی بنائے جاتے ہیں۔ ذہانت کے لحاظ سے بھی اگر دیکھا جائے تو گدھے دوسرے جانوروں سے کم نہیں۔ گدھے کو نہ صرف اپنا کام اور وقت یاد رہتا ہے بلکہ راستہ معلوم کرنے میں تو اپنے مالک سے بھی اکثر زیادہ ذہین واقع ہوا ہے۔ ریاضی میں تو گدھے اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ ہر وقت حساب رکھتے ہیں کہ مالک کا ڈنڈا مارنے اور کمر کے اوپر پڑے ہوئے بوجھ کے ساتھ تیز چلنے میں کونسی تکلیف سوا ہے، اور اسی حساب سے اپنی رفتار طے کرتا ہے۔ ان سب کے باوجود گدھا صرف ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو معاشرے میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتے، کیا یہ نا انصافی نہیں؟

گدھے کےعلاوہ اور بھی جانور ہیں جن کے نام انسانوں کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ شیر کو لیجئے، بھوک لگتی ہے تو سارے جنگل میں قیامت آتی ہے، جو راستے میں آتا ہے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اک بھوک مٹانے کیلئےاکثر اوقات کئی زندگیاں خاموش ہوجاتی ہیں۔ چھوٹی سی ہرنی جو درندگی کا شکار بننے سے کچھ دیر پہلے تک اپنی معصوم شرارتوں سے جنگل کو دلکش بنا رہی ہوتی ہے۔ اچانک اپنی موت دیکھ کر سہم جاتی ہے۔ گائے کا بچہ اپنی کمزور ٹانگوں کے ساتھ جب زندگی بچانے کی آخری دوڑ میں ناکام ہوجاتا ہے تو اپنی ماں کی طرف مایوس کن نظروں سے دیکھتا ہے۔ مامتا دیکھتی رہ جاتی ہے، دل ٹوٹ جاتا ہے۔ درندگی کی انتہا ہوجاتی ہے، لیکن پھر بھی شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔

اس کی قدر کی جاتی ہے، کسی کی تعریف مقصود ہو تو اسے شیر کہا جاتا ہے۔ نام رکھنا ہو تو شیر خان، عابد شیرعلی وغیرہ۔ درندگی کو مثال بنا کر پیش کرنا اور وفاداری کا مذاق اڑانا، یہ انصاف ہے؟ کیا ہم جنگل کا قانون تسلیم کرچکے ہیں؟ بات دراصل یہ ہے کہ کسی بھی جانور کا نام انسان کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ کبھی نہیں دیکھا جاتا کہ اس کی افادیت کتنی ہے یا پھر اس کا انسان اور باقی ذی روحوں کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟ یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ جانور کا خود اپنی زندگی کے بارے نکتہِ نظر کیا ہے؟ وہ چیزوں کو کیسے دیکھتا ہے، اس کا ردِعمل کیسا رہتا ہے، اس کی ترجیحات کیا ہیں اور اسے صلہ کیا ملتا ہے؟

اب جو لوگ معاشرے کے سامنے سر تسلیم خم کیے رہتے ہیں، دوسروں پر انحصار کرتے ہیں، دل نہ چاہے تب بھی نا نہیں کہہ پاتے۔ ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کرتے ہیں، جو مل جائے اسے جوں کا توں قبول کرلیتے ہیں۔ ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوتے، زندگی سے مایوس ہوتے ہیں تو ایسے لوگوں کیلئے گدھا نام رکھا جاتا ہے۔ اس طرح جو لوگ خود کو با اختیار سمجھتے ہیں، معاشرے کے ڈھانچے میں ڈھلنے کے بجائے معاشرے سے لڑتے ہیں، دوسروں کے بجائے خود پر انحصار کرتے ہیں اور ترقی کے لئے نئی راہیں ڈھونڈتے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کو شیر کہا جاتا ہے۔

گدھا اپنی ساری خصوصیات کےعلاوہ انسانوں کیلئے نشانِ عبرت بھی ہے۔ ہم اس کی فطرت کو بدل تو نہیں سکتے، لیکن اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کچھ سبق ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔ اِس دنیا میں کوئی کسی کی سوچ نہیں پڑھ سکتا۔ ہم خود کو جس طرح پیش کریں گے دنیا ہمارے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرے گی۔ کسی گدهے کی صلاحیتیں اس کی قیمت تو بڑھا سکتی ہے، لیکن اسے گدهے سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں دلا سکتی۔ اسی طرح غلامانہ ذہنیت رکھنے والے افراد کی صلاحیتیں اور فنی مہارتیں ان کو ترقی یافتہ نہیں بناسکتیں جب تک کہ وہ اپنی سوچ کو بدل نہیں لیتے۔

[poll id="933"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں