اب انتظار ہی رہ گیا
اب خیال آتا ہےکہ کتاب پردستخط کرانے کا خیال پہلےکیوں نہ آیا؟ آخرافتتاحی دن بھی تو گیا تھا،مگر شاید اسی کا نام زندگی ہے
NEW DELHI:
''آئیے انتظار صاحب'' آرٹس کونسل میں شام کی چائے پینے کے بعد انتظار حسین صاحب اپنی نشست سے اُٹھے اور ذرا ڈھلوان والی زمین پر لاٹھی کے ذریعے خود کو متوازن رکھنے کی کوشش فرمائی تو چند لمحوں کے لئے اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینے کا اعزاز پالیا۔ عقیدت اور محبت میں اکثر یہ مقام ہوتا ہے کہ انسان کھو کر ہی رہ جاتا ہے، گوکہ اس سے پہلے بھی آرٹس کونسل کی اردو کانفرنس میں انہیں دیکھا، ہاتھ ملایا، 8 دسمبر 2015 کی وہ ڈھلتی شام گویا اردو کانفرنس کی افتتاحی نشست کے بعد کچھ لمحوں کے لئے ٹھہری تھی۔
دفتری بکھیڑوں سے نکل کر کچھ لمحے ہی اس نشست کے پا سکا۔ محفل برخاست ہونے پر جوں ہی حاضرین تتّر بتّر ہوئے، میں مرکزی ہال کے باجو میں بنے مہمان خانے جا پہنچا، ڈھاکا یونیورسٹی میں اردو کے استاد ڈاکٹر محمود الاسلام کی قدم بوسی مطلوب تھی اور خوش نصیبی یہ کہ انتظار حسین بھی وہیں قریبی نشست پر براجمان ۔۔۔۔۔ میں کتنی ہی دیر انتظار حسین کے سَحر میں گم رہا، وہ باری باری بہت سے نوجوان نامہ نگاروں سے گفتگو فرماتے رہے۔ کئی مداح ان سے کتابوں اور ان کی تصاویر پر دستخط لے کر گویا ایک تاریخ رقم کر رہے تھے۔
عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں موقع غنیمت جانا، مصافحہ اور رسمی گفتگو کے بعد اُن کے کان میں شاہ کار ناول '' آگے سمندر ہے'' سے بے پناہ پسندیدگی کا اظہار کیا۔ لفاظی برطرف، قاری ہونا بھی ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ راقم خود کو اس درجے سے بھی بہت پرے پاتا ہے، مگر یہ اعزاز بہت بڑا تھا کہ انتظار حسین کی قربت کے چند لمحے میسر ہوئے، مگر افسوس یہ کہ آخری بار۔ انتظار حسین جیسی ہستیوں سے تشنگی تو ہر ایک کو ہی رہے گی مگر اس تشنگی کا عالَم عجیب رہا۔ گھر آکر خیال آیا کہ کیوں ناں میں بھی ان کے ناول ''آگے سمندر ہے'' پر ان کے دستخط لے لوں۔ بہترین کام ہوجائے گا یہ، شاید چھٹی حس نے یہ احساس دلایا ہوگا کہ اب یہ موقع پھر کبھی نہیں آئے گا۔ اپنے کتابوں کے ڈھیر سے ناول نکالا بھی، مگر پھر کچھ تساہل اور کچھ مصروفیات یا بد قسمتی کہ نہ جا سکا۔
اب اس کام کے لئے نگاہیں فروری میں ہونے والے آکسفورڈ کے سالانہ ادبی میلے پر مرکوز تھیں۔ خدا خدا کرکے جنوری بیتنے کو آیا ۔۔۔۔۔ مگر ایک دم ان کی شدید علالت کی خبر آگئی اور پھر 2 فروری کو وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
بیتے دنوں کا گریہ کرنے والا ایک مہان ادیب خود ایک بیت جانے والا قصہ بن گیا۔ یوں تو انہوں نے متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں آنکھ کھولی، مگر دلی شہر سے ان کی اُنسیت کا ایک جدا مقام نظر آتا ہے، پھر ہندوستان کے بٹوارے نے ان کے قلم پر ایسا اثر ڈالا کہ شاید ہی اس میدان میں کوئی ان کا ثانی ہو۔ اپنی جنم بھومی اور گلی کوچوں سے بچھڑنا، فسادات، خوں ریزی، خاندانوں کی کرب ناک تقسیم اور ایک نئے ماحول اور نئی زمین پر زندگی شروع کرنے کا جو نوحہ انتظار حسین کے ہاں ملتا ہے، اس کا بیان الفاظ میں ممکن ہی نہیں۔
افسانے ہوں یا ناول، منظر کشی میں جزئیات کا بیان کمال کا ہے۔ آہ و زاری کرتے الفاظ تحریر سے نکل کر پیکر عمل بن جاتے ہیں اور حساس طبع آدمی پر وہ کیفیت طاری ہوتی ہے کہ اسے دوران مطالعہ کئی بار کتاب اوندھا کر کچھ دیر ڈبڈباتی پلکوں کا بوجھ ہلکا کرنا پڑتا ہے، کئی بار پڑھت جاری رکھنے کی کوشش میں پتا ہی نہیں چلتا اور ٹپ ٹپ کرکے دو آنسو کتاب کی آغوش میں کھو جاتے ہیں۔ شاید یہ ان کی تحریر کا خراج ہے۔
پُرکھوں کی زمین اجڑنے کا بیان، دہشت اور خوف میں ہجرت کا عمل، وہاں رہ جانے والوں کی بے بسی، آنے والوں کا گریہ، روایتی اور مذہبی تہواروں اور میلوں ٹھیلوں کی ویرانی، پھر اردو کے وہ شیریں الفاظ جو شاید ہماری نانی، دادی کی زبانی کان میں پڑے ہوتے ہیں، انتظار صاحب کے قلم سے اس کا خوب صورت برتاؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ادبی نقاد اسے رجعت پسندی یا ماضی پرستی قرار دیتے ہیں، مگر در حقیقت یہ تو ہمارا تہذیبی ورثہ ہے۔ اب اپنی جڑوں سے کترا کر ہم کیوں کر مستقبل کو راہ دکھا سکتے ہیں۔
25 جنوری کو ان کا آخری کالم ایکسپریس کے صفحات کی زینت بنا، کسے پتا تھا کہ اب وہ کبھی اپنے قارئین سے مخاطب نہ ہوسکیں گے۔ یوں تو کسی کی زندگی اور موت کی خبر نہیں ہے، مگر جوں جوں جیون کی نقدی بڑھتی ہے، توں توں سانسوں کی گنتی گھٹتی چلی جاتی ہے۔ اب خیال آتا ہے کہ کتاب پر دستخط کرانے کا خیال پہلے کیوں نہ آگیا؟ آخر افتتاحی دن بھی تو گیا ہی تھا، مگر شاید اسی کا نام زندگی ہے۔
جب بھی کبھی انتظار حسین کو دیکھنے، ان سے ملنے اور ان کے عہد میں جینے پر نازاں ہوں گا تو ساتھ ہی مجھے ان کی کتاب کا اندرونی کورا سرورق غفلت اور سستی کے طعنے دیتا رہے گا۔
[poll id="934"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
''آئیے انتظار صاحب'' آرٹس کونسل میں شام کی چائے پینے کے بعد انتظار حسین صاحب اپنی نشست سے اُٹھے اور ذرا ڈھلوان والی زمین پر لاٹھی کے ذریعے خود کو متوازن رکھنے کی کوشش فرمائی تو چند لمحوں کے لئے اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینے کا اعزاز پالیا۔ عقیدت اور محبت میں اکثر یہ مقام ہوتا ہے کہ انسان کھو کر ہی رہ جاتا ہے، گوکہ اس سے پہلے بھی آرٹس کونسل کی اردو کانفرنس میں انہیں دیکھا، ہاتھ ملایا، 8 دسمبر 2015 کی وہ ڈھلتی شام گویا اردو کانفرنس کی افتتاحی نشست کے بعد کچھ لمحوں کے لئے ٹھہری تھی۔
دفتری بکھیڑوں سے نکل کر کچھ لمحے ہی اس نشست کے پا سکا۔ محفل برخاست ہونے پر جوں ہی حاضرین تتّر بتّر ہوئے، میں مرکزی ہال کے باجو میں بنے مہمان خانے جا پہنچا، ڈھاکا یونیورسٹی میں اردو کے استاد ڈاکٹر محمود الاسلام کی قدم بوسی مطلوب تھی اور خوش نصیبی یہ کہ انتظار حسین بھی وہیں قریبی نشست پر براجمان ۔۔۔۔۔ میں کتنی ہی دیر انتظار حسین کے سَحر میں گم رہا، وہ باری باری بہت سے نوجوان نامہ نگاروں سے گفتگو فرماتے رہے۔ کئی مداح ان سے کتابوں اور ان کی تصاویر پر دستخط لے کر گویا ایک تاریخ رقم کر رہے تھے۔
عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں موقع غنیمت جانا، مصافحہ اور رسمی گفتگو کے بعد اُن کے کان میں شاہ کار ناول '' آگے سمندر ہے'' سے بے پناہ پسندیدگی کا اظہار کیا۔ لفاظی برطرف، قاری ہونا بھی ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ راقم خود کو اس درجے سے بھی بہت پرے پاتا ہے، مگر یہ اعزاز بہت بڑا تھا کہ انتظار حسین کی قربت کے چند لمحے میسر ہوئے، مگر افسوس یہ کہ آخری بار۔ انتظار حسین جیسی ہستیوں سے تشنگی تو ہر ایک کو ہی رہے گی مگر اس تشنگی کا عالَم عجیب رہا۔ گھر آکر خیال آیا کہ کیوں ناں میں بھی ان کے ناول ''آگے سمندر ہے'' پر ان کے دستخط لے لوں۔ بہترین کام ہوجائے گا یہ، شاید چھٹی حس نے یہ احساس دلایا ہوگا کہ اب یہ موقع پھر کبھی نہیں آئے گا۔ اپنے کتابوں کے ڈھیر سے ناول نکالا بھی، مگر پھر کچھ تساہل اور کچھ مصروفیات یا بد قسمتی کہ نہ جا سکا۔
اب اس کام کے لئے نگاہیں فروری میں ہونے والے آکسفورڈ کے سالانہ ادبی میلے پر مرکوز تھیں۔ خدا خدا کرکے جنوری بیتنے کو آیا ۔۔۔۔۔ مگر ایک دم ان کی شدید علالت کی خبر آگئی اور پھر 2 فروری کو وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
بیتے دنوں کا گریہ کرنے والا ایک مہان ادیب خود ایک بیت جانے والا قصہ بن گیا۔ یوں تو انہوں نے متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں آنکھ کھولی، مگر دلی شہر سے ان کی اُنسیت کا ایک جدا مقام نظر آتا ہے، پھر ہندوستان کے بٹوارے نے ان کے قلم پر ایسا اثر ڈالا کہ شاید ہی اس میدان میں کوئی ان کا ثانی ہو۔ اپنی جنم بھومی اور گلی کوچوں سے بچھڑنا، فسادات، خوں ریزی، خاندانوں کی کرب ناک تقسیم اور ایک نئے ماحول اور نئی زمین پر زندگی شروع کرنے کا جو نوحہ انتظار حسین کے ہاں ملتا ہے، اس کا بیان الفاظ میں ممکن ہی نہیں۔
افسانے ہوں یا ناول، منظر کشی میں جزئیات کا بیان کمال کا ہے۔ آہ و زاری کرتے الفاظ تحریر سے نکل کر پیکر عمل بن جاتے ہیں اور حساس طبع آدمی پر وہ کیفیت طاری ہوتی ہے کہ اسے دوران مطالعہ کئی بار کتاب اوندھا کر کچھ دیر ڈبڈباتی پلکوں کا بوجھ ہلکا کرنا پڑتا ہے، کئی بار پڑھت جاری رکھنے کی کوشش میں پتا ہی نہیں چلتا اور ٹپ ٹپ کرکے دو آنسو کتاب کی آغوش میں کھو جاتے ہیں۔ شاید یہ ان کی تحریر کا خراج ہے۔
پُرکھوں کی زمین اجڑنے کا بیان، دہشت اور خوف میں ہجرت کا عمل، وہاں رہ جانے والوں کی بے بسی، آنے والوں کا گریہ، روایتی اور مذہبی تہواروں اور میلوں ٹھیلوں کی ویرانی، پھر اردو کے وہ شیریں الفاظ جو شاید ہماری نانی، دادی کی زبانی کان میں پڑے ہوتے ہیں، انتظار صاحب کے قلم سے اس کا خوب صورت برتاؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ادبی نقاد اسے رجعت پسندی یا ماضی پرستی قرار دیتے ہیں، مگر در حقیقت یہ تو ہمارا تہذیبی ورثہ ہے۔ اب اپنی جڑوں سے کترا کر ہم کیوں کر مستقبل کو راہ دکھا سکتے ہیں۔
25 جنوری کو ان کا آخری کالم ایکسپریس کے صفحات کی زینت بنا، کسے پتا تھا کہ اب وہ کبھی اپنے قارئین سے مخاطب نہ ہوسکیں گے۔ یوں تو کسی کی زندگی اور موت کی خبر نہیں ہے، مگر جوں جوں جیون کی نقدی بڑھتی ہے، توں توں سانسوں کی گنتی گھٹتی چلی جاتی ہے۔ اب خیال آتا ہے کہ کتاب پر دستخط کرانے کا خیال پہلے کیوں نہ آگیا؟ آخر افتتاحی دن بھی تو گیا ہی تھا، مگر شاید اسی کا نام زندگی ہے۔
جب بھی کبھی انتظار حسین کو دیکھنے، ان سے ملنے اور ان کے عہد میں جینے پر نازاں ہوں گا تو ساتھ ہی مجھے ان کی کتاب کا اندرونی کورا سرورق غفلت اور سستی کے طعنے دیتا رہے گا۔
''انتظار حسین کے اس عقیدت مند کے لیے اب فقط انتظار ہی رہ گیا''۔
[poll id="934"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔