کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال
شہ رگ یا اٹوٹ انگ جیسی اصطلاحات کا تعلق چونکہ قطعہ ارض سے ہوتا ہے
کل پاکستانی عوام کشمیر ی عوام کے ساتھ یکجہتی منائیں گے۔ کشمیر1947میں تقسیم ہند کے وقت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کلیدی تنازع چلا آرہا ہے۔ 1948 میں کشمیر میں جنگ اور پھر تقسیم کے بعد سے اس جھگڑے نے نزاعی شکل اختیارکر لی ہے۔ اس مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان دو باضابطہ اور تین غیر رسمی جنگیں ہوچکی ہیں ، مگر یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اس کا ایک سبب دونوں ممالک کی حکومتوں کا بے لچک رویہ ہے لیکن بھارت کی حکومت جس انداز میں وادی میں حقوق انسانی کی بدترین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے، اس نے اس مسئلے کے حل کو مزید الجھا دیا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس پورے قضیے میں کشمیری عوام کی آرا کو اہمیت دینے کی کوئی صائب کوشش نہیں کی جا رہی۔
شہ رگ یا اٹوٹ انگ جیسی اصطلاحات کا تعلق چونکہ قطعہ ارض سے ہوتا ہے، اس لیے یہ غیر انسانی ہوتی ہیں، کیونکہ زمین نہیں لوگ اہم ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی خطے یا علاقے کے فیصلہ میں عوام کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ یا آپشن اختیار کرتے ہیں۔ لہٰذا کشمیری عوام کو بھی یہ آزادانہ حق ملنا چاہیے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ انھیں پاکستان کے ساتھ شامل ہونا ہے یا بھارت کے ساتھ یا پھر ایک آزاد مملکت کے طور پر اپنا سابقہ تشخص بحال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر گزشتہ67 برس سے بھارتی حکومتیں جس جابرانہ انداز میں کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنے کی کوشش کررہی ہیں، اس نے جبر، استبداد اور انسانیت سوزی کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔
دنیا کے کئی حصوں میں قوموں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کے کئی واقعات ماضی قریب کی تاریخ میں رقم ہیں۔پہلا واقعہ سابقہ سوویت یونین کا ہے۔ جہاں1917 میں پرولتاری انقلاب کے بعد جب آئین سازی کا مرحلہ آیا، تو اسمبلی(ڈوما) میں ریاستوں کی آئینی بااختیاریت پر خاصی بحث و تمحیص ہوئی۔ لینن اس زمانے میں صاحب فراش تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ یونین میں شامل تمام ریاستوں کو حق خود ارادیت دی جائے، تاکہ جب کوئی ریاست چاہیے اسے آئین کے تحت آزاد ہونے کا حق حاصل ہو۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے دوران جب سوویت یونین تحلیل ہوتی ہے، تو نہ ایک گولی چلتی ہے اور نہ کوئی پر تشدد واقعہ ہوتا ہے۔ یہ تاریخ عالم کا ایک منفرد واقعہ تھا جس نے جدید دنیا میں بے مثل نظیر قائم کی۔ دوسری مثال برطانیہ کی ریاست اسکاٹ لینڈ کی ہے، جہاں یونین میں رہنے یا الگ ریاستی تشخص حاصل کرنے کے لیے گزشتہ برس ریفرنڈم ہوا۔ جس میں برطانیہ کے ساتھ رہنے والوں نے اکثریت حاصل کی، یوں یہ قضیہ ختم ہوگیا۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے چارٹر میں لکھا ہے کہ جب چالیس لاکھ یا اس سے زائد افراد پر مشتمل کوئی کمیونٹی کسی ریاستی ڈھانچہ سے الگ ہوکر اپنا خود مختار تشخص بحال کرنے کے لیے اس سے رجوع کرے تو یہ اس کی ذمے داری ہے کہ بین الاقوامی فوج کی نگرانی میں استصواب رائے کراکے ان کی خواہش کی تکمیل کرے۔
سابق یوگوسلاویہ میں بوسنیا ہرزوگووینا کی مثال بھی ہے، جب بوسنیائی عوام نے سرب تسلط کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے الگ تشخص پر زور دیا اور شدید خونریزی کے بعد بالآخر عالمی ضمیر بیدار ہوا اور بوسنیا کی آزاد ریاست وجود میں آئی ، مگر کشمیر کے معاملے میں دنیا کے معیارات بالکل مختلف ہیں۔
کیونکہ بھارت کے حکمران نہ تو اقوام متحدہ کے چارٹر کو مدنظر رکھتے ہیں اور نہ ہی سوویت آئین کی قومی خود ارادیت کی شقوں پر توجہ دینے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کشمیر میں حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے والے عوام کو جبر و تشدد سے کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے نتیجے میں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیاں سرزد ہورہی ہیں۔
1948میں مجاہدین کی کارروائیوں کے نتیجے میں جب کشمیر تقسیم ہوا، توخود بھارت نے اقوام متحدہ میں استصواب رائے کے لیے درخواست دی تھی مگر اقوام متحدہ استصواب رائے کرانے میں مسلسل ناکام رہی۔ جس کا سبب بھارت کی جانب سے مختلف حیلے بہانوں سے اس عمل کا ٹالا جانا ہے۔ یوں67 برس سے یہ مسئلہ حقوق انسانی کے ایک بہت بڑے مسئلے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اسی طرح1948سے دونوں کشمیروں کے درمیان جو خط تقسیم ہے اسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے۔
یہ کوئی طے شدہ بین الاقوامی سرحد نہیں ہے بلکہ عارضی بندوبست ہے۔اس خط تقسیم کے نتیجے میں کئی علاقے اورگاؤں منقسم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے لوگ کئی دہائیوں سے ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے قاصر چلے آرہے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں جب دونوں کشمیروں کے درمیان بس سروس کا آغاز ہوا تو کئی جذباتی مناظر سامنے آئے۔
راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی لڑکی جس کی شادی وادی میں ہوتی تھی، اپنے بھائی سے اس وقت ملی جب وہ نانی دادی بن چکی تھی ۔اسی طرح ایک گاؤں اس طرح تقسیم ہوا کہ ایک شخص سرحد کے اس پار رہ گیا جب کہ اس کی منگیتر اس حصے میں تھی۔ 60 برس بعد جب ان کی ملاقات ہوئی تو دونوں پوتا پوتی اور نواسا نواسی والے ہوچکے تھے۔ یہ حقوق انسانی کی بدترین خلاف ورزی ہے مگر عالمی سطح پر اس اہم انسانی مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔
اس میں شک نہیں کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تسلسل کے ساتھ انتخابات ہورہے ہیں ، مگر اس کے باوجود وہاں فوج اور پیرا ملٹری گروپس بھی بڑی تعداد میں تعینات چلی آرہی ہیں جو حریت پسندوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ لیکن جولائی1990میں بھارتی فوج کو خصوصی اختیارات کے ساتھ وادی میں تعینات کیا گیا جس کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال مزید ابتر ہوئی ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی تحقیق کے مطابق اس وقت سے وادی میں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق وادی میں تعینات بھارتی فوج، پیرا ملٹری گروپس، سینٹرل ریزرو پولیس کے اہلکار بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری، سیاسی کارکنوں کے اغوا اور ایذا رسائی کے علاوہ خواتین کی عصمت دری جیسے سنگین جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ مگر عالمی سطح پر آوازیں اٹھنے کے باوجود ان کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہیں کی جارہی۔
اس کا سبب یہ ہے کہ وادی میں فوج کو آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ(AFSPA)کے تحت جو اختیارات دیے گئے ہیں، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق وہ فوجی اہلکاروں کے احتساب کا راستہ روکنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق بھارتی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ AFSPA میں ترمیم کرکے سنگین جرائم میں ملوث اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے کیونکہ یہ ایکٹ سول اور پولیٹکل حقوق کے عالمی کنویننٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے، مگر 25برس گذر جانے کے باوجود بھارتی حکومت اس جانب توجہ دینے پر کسی طور آمادہ نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر حصوں کے عوام کی طرح کشمیری عوام کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنے مقدر کا خود آزادانہ فیصلہ کریں۔ اقوام متحدہ اور دنیا کے طاقتور ممالک دہرے معیار سے باہر نکل کر کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حصول میں اپنا کردار ادا کریں۔ وہ تمام عالمی تنظیمیں جو اس دنیا کو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتی ہیں، کشمیری عوام کو ان کا حق دلانے کے لیے موثر آواز بلند کریں کیونکہ جنوبی ایشیا کا امن کشمیر کے مسئلے کے حل سے مشروط ہے اور جنوبی ایشیا میں امن عالمی امن کی ضمانت ہے۔ اس لیے اس مسئلے کا فوری اور دیرپا حل ہی عالمی امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔
شہ رگ یا اٹوٹ انگ جیسی اصطلاحات کا تعلق چونکہ قطعہ ارض سے ہوتا ہے، اس لیے یہ غیر انسانی ہوتی ہیں، کیونکہ زمین نہیں لوگ اہم ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی خطے یا علاقے کے فیصلہ میں عوام کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ یا آپشن اختیار کرتے ہیں۔ لہٰذا کشمیری عوام کو بھی یہ آزادانہ حق ملنا چاہیے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ انھیں پاکستان کے ساتھ شامل ہونا ہے یا بھارت کے ساتھ یا پھر ایک آزاد مملکت کے طور پر اپنا سابقہ تشخص بحال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر گزشتہ67 برس سے بھارتی حکومتیں جس جابرانہ انداز میں کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنے کی کوشش کررہی ہیں، اس نے جبر، استبداد اور انسانیت سوزی کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔
دنیا کے کئی حصوں میں قوموں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کے کئی واقعات ماضی قریب کی تاریخ میں رقم ہیں۔پہلا واقعہ سابقہ سوویت یونین کا ہے۔ جہاں1917 میں پرولتاری انقلاب کے بعد جب آئین سازی کا مرحلہ آیا، تو اسمبلی(ڈوما) میں ریاستوں کی آئینی بااختیاریت پر خاصی بحث و تمحیص ہوئی۔ لینن اس زمانے میں صاحب فراش تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ یونین میں شامل تمام ریاستوں کو حق خود ارادیت دی جائے، تاکہ جب کوئی ریاست چاہیے اسے آئین کے تحت آزاد ہونے کا حق حاصل ہو۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے دوران جب سوویت یونین تحلیل ہوتی ہے، تو نہ ایک گولی چلتی ہے اور نہ کوئی پر تشدد واقعہ ہوتا ہے۔ یہ تاریخ عالم کا ایک منفرد واقعہ تھا جس نے جدید دنیا میں بے مثل نظیر قائم کی۔ دوسری مثال برطانیہ کی ریاست اسکاٹ لینڈ کی ہے، جہاں یونین میں رہنے یا الگ ریاستی تشخص حاصل کرنے کے لیے گزشتہ برس ریفرنڈم ہوا۔ جس میں برطانیہ کے ساتھ رہنے والوں نے اکثریت حاصل کی، یوں یہ قضیہ ختم ہوگیا۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے چارٹر میں لکھا ہے کہ جب چالیس لاکھ یا اس سے زائد افراد پر مشتمل کوئی کمیونٹی کسی ریاستی ڈھانچہ سے الگ ہوکر اپنا خود مختار تشخص بحال کرنے کے لیے اس سے رجوع کرے تو یہ اس کی ذمے داری ہے کہ بین الاقوامی فوج کی نگرانی میں استصواب رائے کراکے ان کی خواہش کی تکمیل کرے۔
سابق یوگوسلاویہ میں بوسنیا ہرزوگووینا کی مثال بھی ہے، جب بوسنیائی عوام نے سرب تسلط کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے الگ تشخص پر زور دیا اور شدید خونریزی کے بعد بالآخر عالمی ضمیر بیدار ہوا اور بوسنیا کی آزاد ریاست وجود میں آئی ، مگر کشمیر کے معاملے میں دنیا کے معیارات بالکل مختلف ہیں۔
کیونکہ بھارت کے حکمران نہ تو اقوام متحدہ کے چارٹر کو مدنظر رکھتے ہیں اور نہ ہی سوویت آئین کی قومی خود ارادیت کی شقوں پر توجہ دینے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کشمیر میں حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے والے عوام کو جبر و تشدد سے کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے نتیجے میں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیاں سرزد ہورہی ہیں۔
1948میں مجاہدین کی کارروائیوں کے نتیجے میں جب کشمیر تقسیم ہوا، توخود بھارت نے اقوام متحدہ میں استصواب رائے کے لیے درخواست دی تھی مگر اقوام متحدہ استصواب رائے کرانے میں مسلسل ناکام رہی۔ جس کا سبب بھارت کی جانب سے مختلف حیلے بہانوں سے اس عمل کا ٹالا جانا ہے۔ یوں67 برس سے یہ مسئلہ حقوق انسانی کے ایک بہت بڑے مسئلے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اسی طرح1948سے دونوں کشمیروں کے درمیان جو خط تقسیم ہے اسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے۔
یہ کوئی طے شدہ بین الاقوامی سرحد نہیں ہے بلکہ عارضی بندوبست ہے۔اس خط تقسیم کے نتیجے میں کئی علاقے اورگاؤں منقسم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے لوگ کئی دہائیوں سے ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے قاصر چلے آرہے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں جب دونوں کشمیروں کے درمیان بس سروس کا آغاز ہوا تو کئی جذباتی مناظر سامنے آئے۔
راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی لڑکی جس کی شادی وادی میں ہوتی تھی، اپنے بھائی سے اس وقت ملی جب وہ نانی دادی بن چکی تھی ۔اسی طرح ایک گاؤں اس طرح تقسیم ہوا کہ ایک شخص سرحد کے اس پار رہ گیا جب کہ اس کی منگیتر اس حصے میں تھی۔ 60 برس بعد جب ان کی ملاقات ہوئی تو دونوں پوتا پوتی اور نواسا نواسی والے ہوچکے تھے۔ یہ حقوق انسانی کی بدترین خلاف ورزی ہے مگر عالمی سطح پر اس اہم انسانی مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔
اس میں شک نہیں کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تسلسل کے ساتھ انتخابات ہورہے ہیں ، مگر اس کے باوجود وہاں فوج اور پیرا ملٹری گروپس بھی بڑی تعداد میں تعینات چلی آرہی ہیں جو حریت پسندوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ لیکن جولائی1990میں بھارتی فوج کو خصوصی اختیارات کے ساتھ وادی میں تعینات کیا گیا جس کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال مزید ابتر ہوئی ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی تحقیق کے مطابق اس وقت سے وادی میں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق وادی میں تعینات بھارتی فوج، پیرا ملٹری گروپس، سینٹرل ریزرو پولیس کے اہلکار بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری، سیاسی کارکنوں کے اغوا اور ایذا رسائی کے علاوہ خواتین کی عصمت دری جیسے سنگین جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ مگر عالمی سطح پر آوازیں اٹھنے کے باوجود ان کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہیں کی جارہی۔
اس کا سبب یہ ہے کہ وادی میں فوج کو آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ(AFSPA)کے تحت جو اختیارات دیے گئے ہیں، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق وہ فوجی اہلکاروں کے احتساب کا راستہ روکنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق بھارتی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ AFSPA میں ترمیم کرکے سنگین جرائم میں ملوث اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے کیونکہ یہ ایکٹ سول اور پولیٹکل حقوق کے عالمی کنویننٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے، مگر 25برس گذر جانے کے باوجود بھارتی حکومت اس جانب توجہ دینے پر کسی طور آمادہ نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر حصوں کے عوام کی طرح کشمیری عوام کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنے مقدر کا خود آزادانہ فیصلہ کریں۔ اقوام متحدہ اور دنیا کے طاقتور ممالک دہرے معیار سے باہر نکل کر کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حصول میں اپنا کردار ادا کریں۔ وہ تمام عالمی تنظیمیں جو اس دنیا کو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتی ہیں، کشمیری عوام کو ان کا حق دلانے کے لیے موثر آواز بلند کریں کیونکہ جنوبی ایشیا کا امن کشمیر کے مسئلے کے حل سے مشروط ہے اور جنوبی ایشیا میں امن عالمی امن کی ضمانت ہے۔ اس لیے اس مسئلے کا فوری اور دیرپا حل ہی عالمی امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔