کرپشن میں کمی
پاکستان میں ہم سب کرپشن کی کہانیاں سن سن کر تنگ آ چکے ہیں
عام طور پر ہم پاکستانی بری خبریں سنتے رہتے ہیں۔ بم دھماکے، دہشت گردی، ہلاکتیں، بدعنوانی، لوٹ مار اور مختلف نوعیت کے بحرانوں سے متعلق ناخوشگوار اعلانات اخبارات، ٹی وی چینلز کی اسکرین پر تقریباً روزانہ دکھائی دیتی ہیں، ہم اچھی خبریں سننے کو ترس جاتے ہیں اور اگر بعض اچھی خبریں آئیں تو ہم انھیں متعصبانہ نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی پذیرائی نہیں کرتے۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ میں قارئین کی توجہ ایک اچھی خبر پر مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔
پاکستان میں ہم سب کرپشن کی کہانیاں سن سن کر تنگ آ چکے ہیں اور گزشتہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں کرپشن کا گراف نہایت بلندی کو چھو رہا تھا، لیکن سابق حکومت صرف دہشت گردی اور کرپشن سے زیادہ اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کی کی خواہش رکھتی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے حکومت نے کئی اچھے کام کرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمے کے لیے بھی موثر اقدامات کیے ہیں۔ کیونکہ کرپشن ملک کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔
صدر مملکت ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف نے ملک سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ نے کا عزم کر رکھا ہے اور حکومت کی ان کوششوں کے مثبت اثرات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ملکی سطح پر اپوزیشن، خواہ وہ پیپلز پارٹی ہو یا پاکستان تحریک انصاف، حکومت پر کتنی ہی نکتہ چینی کرے مگر غیر جانبدار اور بیرون ملک سے کرپشن کے خلاف کامیاب شہادت میسر آئے تو اسے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا اور شہادت ہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی۔
جس نے برلن میں اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2015ء جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں کمی آ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2014ء میں پاکستان دنیا کا 50 واں انتہائی کرپٹ ملک تھا اور 2015ء میں اب یہ 53 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے کرپشن کی روک تھام کے لیے اپنے پڑوسی ملکوں جن میں بھارت ، ایران، افغانستان ، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال شامل ہیں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی رینکنگ میں 2014ء کے مقابلے میں تین درجے بہتری آئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 2013ء مسلم لیگ کے بر سر اقتدار آنے کے وقت سرکاری محکموں کی کارکردگی اور ملکی معیشت کی مجموعی صورتحال کسی طور بھی ایسی نہیں تھی جسے قابل رشک کہا جا سکے۔ 2013ء میں بر سر اقتدار آنے کے بعد نواز حکومت نے جو فوری اقدامات کیے، ان کے نتیجے میں کرپشن میں پاکستان کا نمبر جو 2012ء میں 36 تھا 2013ء میں 49، 2014ء میں 50 اور اب 2015ء میں 53 ہو گیا ہے۔
اگرچہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے مگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹیں پاکستان کے مالیاتی اشاروں کے حوالے سے حوصلہ افزا تصویر پیش کر رہی ہیں۔ بلاشبہ یہ بات بھی قابل ستائش ہے کہ پانچ سارک ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے سی پی آئی اسکور بہتر کیا ہے، جب کہ باقی ملکوں کا اسکور پرانا ہی ہے یا پھر انھوں نے 2014ء کے مقابلے میں کم اسکور حاصل کیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ جس میں پاکستان میں شفافیت میں بہتری آنے کی نوید سنائی ہے، یقیناً ایک اچھی پیشرفت ہے۔ دراصل گڈ گورننس کی اولین شرط ہی یہ ہے کہ کرپشن نہ ہو۔
لہٰذا اس سلسلے میں حکومت درست سمت میں گامزن ہے۔ یوں تو پاکستان میں کرپشن ہر سطح پر پائی جاتی ہے لیکن پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں کرپشن پر قابو پانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا بلکہ پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے اور کئی وفاقی سطح کے رہنما کرپشن کے الزامات میں عدالتی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ گزشتہ اور موجودہ دور میں سندھ میں بے رحمی کے ساتھ کرپشن کی گئی۔ جس میں اعلیٰ شخصیات بھی ملوث پائی گئیں۔
اسی لیے ان دنوں سندھ میں کرپشن کیسز کی بھرمار ہے۔ سابق صدر زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم حسین کے کرپشن کے مقدمے میں گرفتاری کے بعد دیگر لوگوں کو بچانے کے لیے قوانین میں رد و بدل کر دیا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے صوبائی اسمبلی سے نیا قانون کثرت رائے کی بنیاد پر منظور کرا لیا ہے۔ جس میں کسی بھی ملزم کے خلاف دائر کیس واپس لیا جا سکے گا۔ سندھ میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا بازار گرم ہے۔
صوبائی وزراء اور بیوروکریٹس کی بڑی تعداد پر کرپشن کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ایسے 100 سے زائد افراد اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کرا چکے ہیں، اس سلسلے میں بعض ماہرین کی یہ رائے بھی توجہ طلب ہے کہ کرپشن کو روکنے والے اداروں کے قوانین میں بھی سقم ہے۔ جس کی وجہ سے یہ ادارے کرپشن کو صحیح طور پر کنٹرول نہیں کر پاتے۔ ایسی شقیں بھی شامل ہیں جن کے تحت کسی بھی مجرم کو معاف کیا جا سکتا ہے۔
ان شقوں کی وجہ سے سیاست دان، سرکاری افسران اور بزنس مین کرپشن کے ماہر ہو گئے ہیں۔ اربوں روپے کی کرپشن کر کے لاکھوں روپے پلی بارگینگ کے تحت ادا کر کے ملزم چھوٹ جاتے ہیں۔ اسی طرح سندھ اسمبلی کے منظور ہونے والا قانون بھی کرپشن کو تحفظ دینے کی ایک کوشش ہے۔ مختلف شخصیات کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں۔
اس قانون سے مبینہ طور پر انھیں بچانے کی کوشش کی جائے گی۔ بلاشبہ حکومت اس امر کا برملا اظہار کرتی رہی ہے کہ ابھی کرپشن کے خلاف بہت کچھ کرنا ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد بھی حکومت کرپشن کے خلاف مزید موثر اقدامات کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ اس موقعے پر میں اس جانب بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں خاص طور پر حکومت کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے حسبِ ذیل اداروں پر خصوصی توجہ دے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں سالانہ0 2500 ارب روپے کی وصولیاں ہوتی ہیں، لیکن سرکاری خزانے میں صرف 2500 ارب روپے جمع کرائے جاتے ہیں۔ عوام سے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) وصول کر لیا جاتا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اسے سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرایا جاتا۔ اسی طرح موبائل فون کمپنیوں کے کارڈ پر 19.5 فیصد جی ایس ٹی اور 15 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ہر ہزار میں سے 4 سو روپے سرکاری خزانے میں جانے چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ یوں موبائل فون کمپنیاں بھی زبردست کرپشن میں ملوث ہیں۔
اس طرح مینوفیکچرنگ یا پروڈکٹشن دینے والی کمپنیاں اپنی مصنوعات پر عائد جی ایس ٹی وصول تو کر لیتی ہیں لیکن پھر جعلی دستاویزات اور رسیدوں کے ذریعے اس مال کو برآمد شدہ مال ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں عوام سے وصول کیا جانے والا ٹیکس خود کھا جاتی ہیں۔ یہ کرپشن کا ہی اثر ہے کہ پی آئی اے اور اسٹیل مل جیسے ادارے ڈوب رہے ہیں۔ اساتذہ رشوت دیے بغیر ملازمت حاصل نہیں کر سکتے۔ بڑے بڑے ٹھیکوں میں نوکرشاہی ہی نہیں، ٹھیکیدار اور دیگر عناصر بھی کرپشن میں ملوث ہیں۔ بلاشبہ کرپشن ایک عالمی بیماری ہے۔ دنیا کا شائد ہی کوئی ملک ہو جہاں کسی نہ کسی درجے میں یہ مرض لاحق نہ ہو۔
چین تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک ہے لیکن حال ہی میں وہاں حکومت کو سخت مہم چلانی پڑی اورکرپشن میں ملوث افراد کو عبرتناک سزائیں دی گئیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اس کے باوجود چین میں اس سال کرپشن میں اضافہ ہوا۔ میرا خیال ہے پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ادارے موجود ہیں اور قوانین بھی ہیں۔ اسی لیے قوانین کی کمزوریاں دور کر کے ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے تو شائد ہمیں مزید بہتر نتائج حاصل ہو سکیں گے۔