علامہ طاہرالقادری کی آمد آمد
لوگوں کا ووٹ منشور اور پروگرام کو نہیں پڑتا بلکہ برادری، دھڑے، فرقے یا علاقے کی بنیاد پر تقسیم ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر علامہ طاہرا لقادری ان دنوں کینیڈا میں مقیم ہیں۔
اگلے ماہ کے آخری ہفتے میں ان کی واپسی متوقع ہے، وہ کینیڈا کیوں گئے، اور اب واپس آ رہے ہیں تو کیا یہاں مستقل قیام کریں گے، اگر اس دوران وہ کینیڈا کی شہریت بھی لے چکے ہیں تو پاکستان کے انتخابی عمل میں حصہ لینا ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے، ن لیگ کی قیادت بھی جلا وطنی ترک کر کے سیاست اور اقتدار میں ہے، عدلیہ بے حد فعال ہے ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی نئے ہاتھوں میں ہے، محترمہ کے ساتھ تو ڈاکٹر صاحب اتحادی سیاست کر چکے ہیں، آصف علی زرداری سے ان کی کوئی انڈر اسٹینڈنگ ہے یا نہیں، اس کا مجھے تو علم نہیں، مذہبی جماعتیں تتر بتر ہیں، ایم ایم اے کی حد تک تو انھوں نے قابل ذکر کامیابی حاصل کر لی تھی، مگر اب اکیلی جے یو آئی (ف) کو اڑان بھرنی پڑے گی۔ اس کے علاقے میں پی ٹی آئی کو مقبولیت کا دعویٰ ہے اور یہ ایک حد تک درست نظر آتا ہے، مولانا فضل الرحمن پچھلے دنوں بہت سیخ پا ہوئے اور عمران پر خوب برسے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مشکل میں ہیں۔ پی پی پی نے چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر اپنی طاقت بنا لی ہے اور پاکستان تحریک انصاف ایک ساتھ دو تین وکٹیں گرانے کے موڈ میں ہے۔
پچھلے ایک ہفتے میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھیوں سے میری دو تین ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ اپنے قائد کے استقبال کی تیاریوں میں دن رات مصروف ہیں۔ ایک زمانے میں شیخ زاہد فیاض سے پیرس میں ملاقات ہوئی تھی، چوہدری قدرت اﷲ بھی ساتھ تھے، یورپ کے کئی ملکوں میں تحریک منہاج القرآن اپنا لوہا منوا چکی تھی، اب شیخ زاہد فیاض واپس آ کر اپنی تنظیمی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں، ایک دن رات میں دو تین اضلاع کا چکر کاٹتے ہیں، ان کے پاس یونین کونسل کی سطح کے نقشے ہیں اور اس اعتبار سے انھوں نے اپ ٹو ڈیٹ فہرست تیار کر رکھی ہے کہ کون سا کارکن کتنے لوگوں کو کتنی بسوں میں لاہور لائے گا، ان کا ٹارگٹ تو لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرنا ہے اور اگر ان کی تیاریوں کو پیش نظر رکھا جائے تو حساب کتاب میں ان کے اندازے غلط نہیں لگتے۔
ڈاکٹر صاحب کا استقبال ہو گا اور تاریخی نوعیت کا، لاہور شہر میں ایک استقبال محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا انیس سو چھیاسی میں ہوا تھا، مال روڈ پر سر ہی سر تھے، کہا گیا کہ دس پندرہ لاکھ کا ہجوم ہے، دو ہزار سات میں محترمہ کراچی اتریں تو اگلے پچھلے ریکارڈ مات کر دیئے، مگر دہشت گرد بھی ان کی تاک میں تھے اور وہ خون خرابہ ہوا کہ قیامت کا سماں تھا۔ لاہور ہی میں ایک سال قبل مینار پاکستان کی گرائونڈ میں عمران خان نے نئی کروٹ لی اور لوگ انگشت بدنداں رہ گئے، کیا جلسہ تھا اور کیا نظم و ضبط تھا۔ مجھے توقع ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والے بھی مینار پاکستان کے سائے میں نئی تاریخ رقم کریں گے مگر اصل بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا مشن کیا ہے، میں نے یہ راز ان کی جماعت کے دو قائدین، ڈاکٹر رحیق عباسی اور میاں زاہد سے معلوم کرنے کی کوشش کی، ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب موجودہ الیکشن سسٹم کی تبدیلی کی بات کریں گے۔
اس سسٹم میں تو امیدوار کے بجائے اس کا سرمایہ جیتتا ہے، پارٹی کے بجائے قابل فروخت گھوڑے مارکیٹ میں سجتے ہیں۔ لوگوں کا ووٹ منشور اور پروگرام کو نہیں پڑتا بلکہ برادری، دھڑے، فرقے، یا علاقے کی بنیاد پر تقسیم ہو جاتا ہے، سیاسی پارٹیاں جو اپنے آپ کو بہت مضبوط خیال کرتی ہیں، وہ کسی کو اس کی اہلیت، صلاحیت اور تجربے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی جیت کے امکانات کے پیش نظر ٹکٹ دیتی ہیں، عام طور پر منڈیٹ منقسم ہو جاتا ہے اور پھر وفاداریوں کے سودے ہوتے ہیں، بے وفائی کی شرمناک کہانیاں جنم لیتی ہیں، حکومتیں بنتی ہیں اور چشم زدن میں بگڑتی ہیں، کبھی پس پردہ قوتیں اپنا ہاتھ دکھاتی ہیں اور اکھاڑ پچھاڑ کا عمل جاری رہتا ہے، جمہوری منتخب حکومت کو ٹک کر کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ پاکستان میں حکومت بنانے کے لیے تین الف اہم ہیں: اللہ، آرمی اور امریکا۔ اللہ کی طرف شاید ہی کسی کا دھیان جاتا ہو، آرمی بھی اب اس کھیل سے ہاتھ اٹھا چکی ہے اور جنرل کیانی نے اپنا قول سچا کر دکھایا ہے۔
رہ گیا امریکا تو اس کا سکہ چلتا ہے ۔ میاں زاہد نے غربت اور افلاس کا بد ترین دور دیکھا ہے، پچھلے دنوں تنور پر روٹیاں لگانے والا ایک لڑکا پوزیشن ہولڈر بنا، میاں زاہد تو چائے کے کھوکھے پر۔۔ارے چھوٹے۔۔۔ تھے۔ مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور قسمت نے بھی یاوری کی، ان کے دن پھر گئے مگر زندگی میں وہی سادگی ہے، ان کے والد، محل نما مکان میں باہر بان کی چارپائی پر لیٹتے ہیں، کہتے ہیں کہ اندر تو سانس گھٹتا ہے۔ مگر سیاسی ماحول میں ہر ایک کا سانس گھٹ رہا ہے، میاں زاہد نے دکھی دل سے کہا کہ عام آدمی کی قسمت کا ستارہ کب روشن ہو گا ، کیسے ہو گا، انھیں ڈاکٹر طاہر القادری سے بے پناہ توقعات ہیں۔
ڈاکٹر صاحب بھلے خیر سے آئیں، جی آئیاں نوں! دل سے دعا نکلتی ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوں، خلفائے راشدین کے نظام کو زندہ کرنے میں کامیاب ہوں، میں ان کے لاہور والے گھر میں کالم نویسوں کی کہکشاں کے ساتھ کئی بار جا چکا ہوں، وہ ہماری خاطر داری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے مگر ان کے اپنے سامنے مٹی کا پیالہ رکھا ہوتا تھا۔ اس قدر سادہ آدمی، وہ ایک خواہش کرے تو ان کے عقیدت مند سونے کے چمچ حاضر کر دیں۔ پیرس، لندن، فرینکفرٹ میں وہ دین کی سر بلندی کے لیے عطیات کی اپیل کرتے تو لوگ قیمتی گھڑیاں ان کی نذر کر دیتے، مکان کی رجسٹریاں پیش کر دیتے، بیش قیمت گاڑیاں وقف کر دیتے۔ مگر ڈاکٹر صاحب ہمیشہ کی طرح سادہ منش رہے اور اپنے جیسے سادہ لوگوں کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہے، یہ الگ بات ہے کہ ملکی سیاست کا مزاج اور ہے، یہاں اس شخص کو پذیرائی ملتی ہے جو تھانے کچہری سے مجرموں کو چھڑوا سکے۔
قبضہ گروپوں کی سرپرستی کر سکے، چوروں اچکوں کے مفادات کی نگہبانی کر سکے، پاکستان کی سیاست ایک بد بو دار دلدل ہے، ایسے جوہڑ کی مانند ہے جس سے عفونت اٹھ رہی ہے، ڈاکٹر صاحب اس سسٹم کی اصلاح کا نعرہ لگائیں گے ، یہ نعرہ عمران خان نے بھی لگایا تھا، تبدیلی اب نہیں تو اور کب، میں نہیں تو کوئی نہیں، ڈاکٹر صاحب بھی اسی مشن کے ساتھ آ رہے ہیں، میاں زاہد ، ڈاکٹر رحیق عباسی اور شیخ زاہد فیاض دن کا چین اور راتوں کی نیند تج کر ڈاکٹر صاحب کی کامیابی کے لیے ایک فضا بنانے میں کوشاں ہیں، خدا کرے وہ دن جلد آئے جب راج کرے گی خلق خدا ، وہ میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔
اگلے ماہ کے آخری ہفتے میں ان کی واپسی متوقع ہے، وہ کینیڈا کیوں گئے، اور اب واپس آ رہے ہیں تو کیا یہاں مستقل قیام کریں گے، اگر اس دوران وہ کینیڈا کی شہریت بھی لے چکے ہیں تو پاکستان کے انتخابی عمل میں حصہ لینا ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے، ن لیگ کی قیادت بھی جلا وطنی ترک کر کے سیاست اور اقتدار میں ہے، عدلیہ بے حد فعال ہے ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی نئے ہاتھوں میں ہے، محترمہ کے ساتھ تو ڈاکٹر صاحب اتحادی سیاست کر چکے ہیں، آصف علی زرداری سے ان کی کوئی انڈر اسٹینڈنگ ہے یا نہیں، اس کا مجھے تو علم نہیں، مذہبی جماعتیں تتر بتر ہیں، ایم ایم اے کی حد تک تو انھوں نے قابل ذکر کامیابی حاصل کر لی تھی، مگر اب اکیلی جے یو آئی (ف) کو اڑان بھرنی پڑے گی۔ اس کے علاقے میں پی ٹی آئی کو مقبولیت کا دعویٰ ہے اور یہ ایک حد تک درست نظر آتا ہے، مولانا فضل الرحمن پچھلے دنوں بہت سیخ پا ہوئے اور عمران پر خوب برسے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مشکل میں ہیں۔ پی پی پی نے چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر اپنی طاقت بنا لی ہے اور پاکستان تحریک انصاف ایک ساتھ دو تین وکٹیں گرانے کے موڈ میں ہے۔
پچھلے ایک ہفتے میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھیوں سے میری دو تین ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ اپنے قائد کے استقبال کی تیاریوں میں دن رات مصروف ہیں۔ ایک زمانے میں شیخ زاہد فیاض سے پیرس میں ملاقات ہوئی تھی، چوہدری قدرت اﷲ بھی ساتھ تھے، یورپ کے کئی ملکوں میں تحریک منہاج القرآن اپنا لوہا منوا چکی تھی، اب شیخ زاہد فیاض واپس آ کر اپنی تنظیمی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں، ایک دن رات میں دو تین اضلاع کا چکر کاٹتے ہیں، ان کے پاس یونین کونسل کی سطح کے نقشے ہیں اور اس اعتبار سے انھوں نے اپ ٹو ڈیٹ فہرست تیار کر رکھی ہے کہ کون سا کارکن کتنے لوگوں کو کتنی بسوں میں لاہور لائے گا، ان کا ٹارگٹ تو لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرنا ہے اور اگر ان کی تیاریوں کو پیش نظر رکھا جائے تو حساب کتاب میں ان کے اندازے غلط نہیں لگتے۔
ڈاکٹر صاحب کا استقبال ہو گا اور تاریخی نوعیت کا، لاہور شہر میں ایک استقبال محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا انیس سو چھیاسی میں ہوا تھا، مال روڈ پر سر ہی سر تھے، کہا گیا کہ دس پندرہ لاکھ کا ہجوم ہے، دو ہزار سات میں محترمہ کراچی اتریں تو اگلے پچھلے ریکارڈ مات کر دیئے، مگر دہشت گرد بھی ان کی تاک میں تھے اور وہ خون خرابہ ہوا کہ قیامت کا سماں تھا۔ لاہور ہی میں ایک سال قبل مینار پاکستان کی گرائونڈ میں عمران خان نے نئی کروٹ لی اور لوگ انگشت بدنداں رہ گئے، کیا جلسہ تھا اور کیا نظم و ضبط تھا۔ مجھے توقع ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والے بھی مینار پاکستان کے سائے میں نئی تاریخ رقم کریں گے مگر اصل بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا مشن کیا ہے، میں نے یہ راز ان کی جماعت کے دو قائدین، ڈاکٹر رحیق عباسی اور میاں زاہد سے معلوم کرنے کی کوشش کی، ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب موجودہ الیکشن سسٹم کی تبدیلی کی بات کریں گے۔
اس سسٹم میں تو امیدوار کے بجائے اس کا سرمایہ جیتتا ہے، پارٹی کے بجائے قابل فروخت گھوڑے مارکیٹ میں سجتے ہیں۔ لوگوں کا ووٹ منشور اور پروگرام کو نہیں پڑتا بلکہ برادری، دھڑے، فرقے، یا علاقے کی بنیاد پر تقسیم ہو جاتا ہے، سیاسی پارٹیاں جو اپنے آپ کو بہت مضبوط خیال کرتی ہیں، وہ کسی کو اس کی اہلیت، صلاحیت اور تجربے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی جیت کے امکانات کے پیش نظر ٹکٹ دیتی ہیں، عام طور پر منڈیٹ منقسم ہو جاتا ہے اور پھر وفاداریوں کے سودے ہوتے ہیں، بے وفائی کی شرمناک کہانیاں جنم لیتی ہیں، حکومتیں بنتی ہیں اور چشم زدن میں بگڑتی ہیں، کبھی پس پردہ قوتیں اپنا ہاتھ دکھاتی ہیں اور اکھاڑ پچھاڑ کا عمل جاری رہتا ہے، جمہوری منتخب حکومت کو ٹک کر کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ پاکستان میں حکومت بنانے کے لیے تین الف اہم ہیں: اللہ، آرمی اور امریکا۔ اللہ کی طرف شاید ہی کسی کا دھیان جاتا ہو، آرمی بھی اب اس کھیل سے ہاتھ اٹھا چکی ہے اور جنرل کیانی نے اپنا قول سچا کر دکھایا ہے۔
رہ گیا امریکا تو اس کا سکہ چلتا ہے ۔ میاں زاہد نے غربت اور افلاس کا بد ترین دور دیکھا ہے، پچھلے دنوں تنور پر روٹیاں لگانے والا ایک لڑکا پوزیشن ہولڈر بنا، میاں زاہد تو چائے کے کھوکھے پر۔۔ارے چھوٹے۔۔۔ تھے۔ مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور قسمت نے بھی یاوری کی، ان کے دن پھر گئے مگر زندگی میں وہی سادگی ہے، ان کے والد، محل نما مکان میں باہر بان کی چارپائی پر لیٹتے ہیں، کہتے ہیں کہ اندر تو سانس گھٹتا ہے۔ مگر سیاسی ماحول میں ہر ایک کا سانس گھٹ رہا ہے، میاں زاہد نے دکھی دل سے کہا کہ عام آدمی کی قسمت کا ستارہ کب روشن ہو گا ، کیسے ہو گا، انھیں ڈاکٹر طاہر القادری سے بے پناہ توقعات ہیں۔
ڈاکٹر صاحب بھلے خیر سے آئیں، جی آئیاں نوں! دل سے دعا نکلتی ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوں، خلفائے راشدین کے نظام کو زندہ کرنے میں کامیاب ہوں، میں ان کے لاہور والے گھر میں کالم نویسوں کی کہکشاں کے ساتھ کئی بار جا چکا ہوں، وہ ہماری خاطر داری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے مگر ان کے اپنے سامنے مٹی کا پیالہ رکھا ہوتا تھا۔ اس قدر سادہ آدمی، وہ ایک خواہش کرے تو ان کے عقیدت مند سونے کے چمچ حاضر کر دیں۔ پیرس، لندن، فرینکفرٹ میں وہ دین کی سر بلندی کے لیے عطیات کی اپیل کرتے تو لوگ قیمتی گھڑیاں ان کی نذر کر دیتے، مکان کی رجسٹریاں پیش کر دیتے، بیش قیمت گاڑیاں وقف کر دیتے۔ مگر ڈاکٹر صاحب ہمیشہ کی طرح سادہ منش رہے اور اپنے جیسے سادہ لوگوں کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہے، یہ الگ بات ہے کہ ملکی سیاست کا مزاج اور ہے، یہاں اس شخص کو پذیرائی ملتی ہے جو تھانے کچہری سے مجرموں کو چھڑوا سکے۔
قبضہ گروپوں کی سرپرستی کر سکے، چوروں اچکوں کے مفادات کی نگہبانی کر سکے، پاکستان کی سیاست ایک بد بو دار دلدل ہے، ایسے جوہڑ کی مانند ہے جس سے عفونت اٹھ رہی ہے، ڈاکٹر صاحب اس سسٹم کی اصلاح کا نعرہ لگائیں گے ، یہ نعرہ عمران خان نے بھی لگایا تھا، تبدیلی اب نہیں تو اور کب، میں نہیں تو کوئی نہیں، ڈاکٹر صاحب بھی اسی مشن کے ساتھ آ رہے ہیں، میاں زاہد ، ڈاکٹر رحیق عباسی اور شیخ زاہد فیاض دن کا چین اور راتوں کی نیند تج کر ڈاکٹر صاحب کی کامیابی کے لیے ایک فضا بنانے میں کوشاں ہیں، خدا کرے وہ دن جلد آئے جب راج کرے گی خلق خدا ، وہ میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔