بیٹھا ہوں میں گھرمیں در و دیوار پہن کر
آج ہم اگر سائیکل سوار ہوتے تو اس طرح گھر میں بند ہوکر نہ بیٹھتے۔
کبھی کبھی شاعر کا کوئی ایک شعر اسے لے اڑتا ہے۔ سلیم شاہد مرحوم جنہوں نے شاعر کی حیثیت سے ٹی ہائوس میں آنکھ کھولی تھی ویسے بھی خوب شاعر تھے۔ مگر ایک شعر ان پر اس طرح وارد ہوا کہ ان کی شاعری کو پر لگ گئے۔ وہ شعر یہ ہے
باہر جو میں نکلوں تو برہنہ نظر آئوں
بیٹھا ہوں میں گھر میں در و دیوار پہن کر
دوسرا مصرعہ عجب ہے۔ بلکہ عجب ثم العجب۔ در و دیوار نہ ہوئے کرتا پائجامہ ہو گئے۔ مگر اب سمجھ میں آیا کہ کبھی کبھی واقعی آدمی پر ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ گھر میں اس طرح مقید ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ در و دیوار کے بیچ لپٹے لپٹائے بیٹھے ہیں۔ جیسے اب ہمارا احوال ہے۔ اور اب اس شعر کے معنی ہم پر کُھل رہے ہیں۔ کل تک ہم اپنے آپ کو کتنا خوش قسمت سمجھ رہے تھے کہ اب ہم فیروز پور روڈ کے دائیں بائیں نہیں رہتے۔ اور ہمارے دوستوں نے ہمیں خبردار کر رکھا تھا کہ لاہور کے ہر کھونٹ جائیو، فیروز پور روڈ کے کھونٹ مت جائیو۔ ارے بھائی کیوں نہ جائیں۔ فیروز پور روڈ بہرحال فیروز پور روڈ ہی تو ہے۔ چوتھا کھونٹ تو نہیں ہے۔ پرانی کہانیوں میں چوتھا کھونٹ راہرو کو بہت خراب کرتا تھا۔ سو ہم جیل روڈ کے ایک گوشے میں چین سے بیٹھے تھے۔ تعمیر کا کھٹراگ یہاں سے چار قدم کے فاصلہ پر فیروز پور روڈ پر دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ ہمیں کیا پتہ کہ نئی تعمیر کتنا بڑا کھٹراگ اپنے ساتھ لاتی ہے۔ مگر پھر فیروز پور روڈ سرکتے سرکتے جیل روڈ پر آ گئی۔ اور سب سے پہلے اس کے تعمیری کھڑاک کی زد میں وہی گوشہ آیا جہاں ہم رہتے ہیں۔ سو اب ہم سچ مچ در و دیوار پہن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ قدم گھر سے کیسے نکالیں۔ رستے چاروں طرف سے بند ہیں۔ اور کس اہتمام سے بند کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی ماہر ڈرائیور اپنی مہارت سے باہر نکلنے کا راستہ نکال لیتا ہے تو جلد ہی تعمیر کے پہریدار چوکنے ہو جاتے ہیں۔ پھر فوراً ہی اس راستے کو بھی مسدود کر دیتے ہیں۔
ہم نے جب اردگرد کا جائزہ لیا تو ہم نے دیکھا کہ اصل میں سوار مشکل میں ہیں۔ پیادوں کی بن آئی ہے۔ وہ تو سمٹ سمٹا کر نکل جاتے ہیں۔ موٹر سوار کیسے نکلے۔ جس طرف جس راہ جاتا ہے آگے رستہ بند نظر آتا ہے۔ اب سمجھ میں آیا کہ استاد ذوق نے کتنی سادگی سے یہ نسخہ تجویز کیا تھا کہ؎
پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
ذوق نے شعر کہا۔ خادم اعلیٰ نے فیض کے اسباب بنانے شروع کر دیئے۔ مشکل میں ہم ایسے لوگ ہیں کہ بے صبرے ہو رہے ہیں۔ نہیں سمجھتے کہ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ نئی سواری کی گزر گاہ بچھائی جا رہی ہے۔
اس بے بسی کے عالم میں جب ہم گھر میں ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں ہمیں اپنی پیادہ پائی کا زمانہ بے طرح یاد آ رہا ہے۔ کس آزادی سے سٹ پٹ کرتے قدم بڑھاتے گلی گلی کوچہ کوچہ گھومتے پھرتے تھے۔ پھر ایک سواری نمودار ہوئی جس کا نام سائیکل تھا۔ سائیکل سواروں کو ہم نے دیکھا کہ تعمیر کے بکھیڑے میں جو رکاوٹیں راہ میں کھڑی ہو گئی ہیں انھیں خاطر ہی میں نہیں لا رہے۔ آگے رستہ بند ہے ہوا کرے۔ سائیکل کو تھوڑا اٹھا کر فٹ پاتھ پہ چڑھایا اور پھاند کر دوسری سمت میں آ گئے۔ جب ہم سائیکل سوار تھے تو ہم بھی ایسی رکاوٹوں کو کب خاطر میں لاتے تھے۔
اس آن ہمیں اپنی مرحوم سائیکل بے طرح یاد آئی۔ آج ہم اگر سائیکل سوار ہوتے تو اس طرح گھر میں بند ہوکر نہ بیٹھتے۔ سائیکل کی سواری باد بہاری رواں چلتی ہے۔ راہ میں آنے والے روڑوں، کنکروں، اینٹ، پتھروں کو پرکاہ کی اہمیت نہیں دیتی اور اڑی چلی جاتی ہے۔ سائیکل کو یاد کرتے کرتے ہمیں ٹی ہائوس یاد آ گیا۔ وہ سائیکل کا عہد زریں تھا۔ ٹی ہائوس میں ادب کا جو شہسوار آتا وہ سائیکل پر سوار آتا اور ٹی ہائوس میں داخل ہونے کے بعد ادب پر سواری گانٹھتا۔
اب سنتے ہیں کہ ٹی ہائوس کھلنے والا ہے۔ مگر اس بیچ سائیکل کا سنہری زمانہ گزر چکا ہے۔ اب ادیب موٹر سوار ہیں اور دور دور آباد ہونے والی نئی بستیوں میں جا بسے ہیں۔ اب تو وہ موٹر میں سوار یہاں آئیں گے۔ مگر ٹی ہائوس کا فٹ پاتھ ابھی تک سائیکل کے زمانے میں سانس لے رہا ہے۔
بھول رہا ہے کہ اب یہاں قیوم نظر اور مبارک احمد نہیں آئیں گے۔ وہ اپنی سائیکلوں کے ساتھ اگلے جہان کو سدھار گئے۔ اب یہاں عطاء الحق قاسمی اور ان کے ہم صفیر اور ہم سفر اپنی اپنی شاندار موٹروں میں آئیں گے۔ کچھ ان کی موٹروں کو سنگوانے کا بھی بندوبست کیا ہے۔
آج کے موٹر سوار ادیبوں کو ان کی موٹریں مبارک ہوں۔ مگر ان کی موٹروں میں وہ بات کہاں جو مبارک احمد اور قیوم نظر کی سائیکلوں کی تھی۔ ان دو سائیکلوں کا جو ہم نے حوالہ دیا تو سمجھ لو کہ ہم نے پورے حلقۂ ارباب ذوق کو سمیٹ کر ایک کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس زمانے میں تو حلقہ کی شناخت ہی سائیکل تھی۔ جب یہ دو سائیکلیں نہ رہیں تو پھر حلقۂ ارباب ذوق بھی وہ حلقۂ ارباب ذوق نہ رہا۔ اور ٹی ہائوس تو بالکل ہی نہ رہا۔ سن رہے ہیں کہ وہ اب پھر عدم سے وجود میں آنے لگا ہے۔ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں کھل جائے گا۔ ساری کلیں سنور گئی ہیں۔ بس آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں۔ ان کے نکلنے کی دیر ہے۔ اس کے بعد ٹی ہائوس کے صبح و شام پھر منور ہو جائیں گے۔
ٹی ہائوس کا جو دور گزر گیا سو گزر گیا۔ اب نئے دور کے طلوع کے ساتھ نئے چہرے نمودار ہوں گے۔ دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا گل کھلاتے ہیں۔
باہر جو میں نکلوں تو برہنہ نظر آئوں
بیٹھا ہوں میں گھر میں در و دیوار پہن کر
دوسرا مصرعہ عجب ہے۔ بلکہ عجب ثم العجب۔ در و دیوار نہ ہوئے کرتا پائجامہ ہو گئے۔ مگر اب سمجھ میں آیا کہ کبھی کبھی واقعی آدمی پر ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ گھر میں اس طرح مقید ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ در و دیوار کے بیچ لپٹے لپٹائے بیٹھے ہیں۔ جیسے اب ہمارا احوال ہے۔ اور اب اس شعر کے معنی ہم پر کُھل رہے ہیں۔ کل تک ہم اپنے آپ کو کتنا خوش قسمت سمجھ رہے تھے کہ اب ہم فیروز پور روڈ کے دائیں بائیں نہیں رہتے۔ اور ہمارے دوستوں نے ہمیں خبردار کر رکھا تھا کہ لاہور کے ہر کھونٹ جائیو، فیروز پور روڈ کے کھونٹ مت جائیو۔ ارے بھائی کیوں نہ جائیں۔ فیروز پور روڈ بہرحال فیروز پور روڈ ہی تو ہے۔ چوتھا کھونٹ تو نہیں ہے۔ پرانی کہانیوں میں چوتھا کھونٹ راہرو کو بہت خراب کرتا تھا۔ سو ہم جیل روڈ کے ایک گوشے میں چین سے بیٹھے تھے۔ تعمیر کا کھٹراگ یہاں سے چار قدم کے فاصلہ پر فیروز پور روڈ پر دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ ہمیں کیا پتہ کہ نئی تعمیر کتنا بڑا کھٹراگ اپنے ساتھ لاتی ہے۔ مگر پھر فیروز پور روڈ سرکتے سرکتے جیل روڈ پر آ گئی۔ اور سب سے پہلے اس کے تعمیری کھڑاک کی زد میں وہی گوشہ آیا جہاں ہم رہتے ہیں۔ سو اب ہم سچ مچ در و دیوار پہن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ قدم گھر سے کیسے نکالیں۔ رستے چاروں طرف سے بند ہیں۔ اور کس اہتمام سے بند کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی ماہر ڈرائیور اپنی مہارت سے باہر نکلنے کا راستہ نکال لیتا ہے تو جلد ہی تعمیر کے پہریدار چوکنے ہو جاتے ہیں۔ پھر فوراً ہی اس راستے کو بھی مسدود کر دیتے ہیں۔
ہم نے جب اردگرد کا جائزہ لیا تو ہم نے دیکھا کہ اصل میں سوار مشکل میں ہیں۔ پیادوں کی بن آئی ہے۔ وہ تو سمٹ سمٹا کر نکل جاتے ہیں۔ موٹر سوار کیسے نکلے۔ جس طرف جس راہ جاتا ہے آگے رستہ بند نظر آتا ہے۔ اب سمجھ میں آیا کہ استاد ذوق نے کتنی سادگی سے یہ نسخہ تجویز کیا تھا کہ؎
پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
ذوق نے شعر کہا۔ خادم اعلیٰ نے فیض کے اسباب بنانے شروع کر دیئے۔ مشکل میں ہم ایسے لوگ ہیں کہ بے صبرے ہو رہے ہیں۔ نہیں سمجھتے کہ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ نئی سواری کی گزر گاہ بچھائی جا رہی ہے۔
اس بے بسی کے عالم میں جب ہم گھر میں ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں ہمیں اپنی پیادہ پائی کا زمانہ بے طرح یاد آ رہا ہے۔ کس آزادی سے سٹ پٹ کرتے قدم بڑھاتے گلی گلی کوچہ کوچہ گھومتے پھرتے تھے۔ پھر ایک سواری نمودار ہوئی جس کا نام سائیکل تھا۔ سائیکل سواروں کو ہم نے دیکھا کہ تعمیر کے بکھیڑے میں جو رکاوٹیں راہ میں کھڑی ہو گئی ہیں انھیں خاطر ہی میں نہیں لا رہے۔ آگے رستہ بند ہے ہوا کرے۔ سائیکل کو تھوڑا اٹھا کر فٹ پاتھ پہ چڑھایا اور پھاند کر دوسری سمت میں آ گئے۔ جب ہم سائیکل سوار تھے تو ہم بھی ایسی رکاوٹوں کو کب خاطر میں لاتے تھے۔
اس آن ہمیں اپنی مرحوم سائیکل بے طرح یاد آئی۔ آج ہم اگر سائیکل سوار ہوتے تو اس طرح گھر میں بند ہوکر نہ بیٹھتے۔ سائیکل کی سواری باد بہاری رواں چلتی ہے۔ راہ میں آنے والے روڑوں، کنکروں، اینٹ، پتھروں کو پرکاہ کی اہمیت نہیں دیتی اور اڑی چلی جاتی ہے۔ سائیکل کو یاد کرتے کرتے ہمیں ٹی ہائوس یاد آ گیا۔ وہ سائیکل کا عہد زریں تھا۔ ٹی ہائوس میں ادب کا جو شہسوار آتا وہ سائیکل پر سوار آتا اور ٹی ہائوس میں داخل ہونے کے بعد ادب پر سواری گانٹھتا۔
اب سنتے ہیں کہ ٹی ہائوس کھلنے والا ہے۔ مگر اس بیچ سائیکل کا سنہری زمانہ گزر چکا ہے۔ اب ادیب موٹر سوار ہیں اور دور دور آباد ہونے والی نئی بستیوں میں جا بسے ہیں۔ اب تو وہ موٹر میں سوار یہاں آئیں گے۔ مگر ٹی ہائوس کا فٹ پاتھ ابھی تک سائیکل کے زمانے میں سانس لے رہا ہے۔
بھول رہا ہے کہ اب یہاں قیوم نظر اور مبارک احمد نہیں آئیں گے۔ وہ اپنی سائیکلوں کے ساتھ اگلے جہان کو سدھار گئے۔ اب یہاں عطاء الحق قاسمی اور ان کے ہم صفیر اور ہم سفر اپنی اپنی شاندار موٹروں میں آئیں گے۔ کچھ ان کی موٹروں کو سنگوانے کا بھی بندوبست کیا ہے۔
آج کے موٹر سوار ادیبوں کو ان کی موٹریں مبارک ہوں۔ مگر ان کی موٹروں میں وہ بات کہاں جو مبارک احمد اور قیوم نظر کی سائیکلوں کی تھی۔ ان دو سائیکلوں کا جو ہم نے حوالہ دیا تو سمجھ لو کہ ہم نے پورے حلقۂ ارباب ذوق کو سمیٹ کر ایک کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس زمانے میں تو حلقہ کی شناخت ہی سائیکل تھی۔ جب یہ دو سائیکلیں نہ رہیں تو پھر حلقۂ ارباب ذوق بھی وہ حلقۂ ارباب ذوق نہ رہا۔ اور ٹی ہائوس تو بالکل ہی نہ رہا۔ سن رہے ہیں کہ وہ اب پھر عدم سے وجود میں آنے لگا ہے۔ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں کھل جائے گا۔ ساری کلیں سنور گئی ہیں۔ بس آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں۔ ان کے نکلنے کی دیر ہے۔ اس کے بعد ٹی ہائوس کے صبح و شام پھر منور ہو جائیں گے۔
ٹی ہائوس کا جو دور گزر گیا سو گزر گیا۔ اب نئے دور کے طلوع کے ساتھ نئے چہرے نمودار ہوں گے۔ دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا گل کھلاتے ہیں۔